حقیقی اور متوازی انتخابی عمل
برطانیہ میں انتخابات تو چھ مئی کو ہونے ہیں جن میں لوگ آئندہ پانچ سال کے لیےحکومت کرنے کے لیے اپنے نمائندے چنیں گے۔
لیکن اس حقیقی سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ میں ایک متوازی عمل بھی جاری ہے جس میں لوگوں کو ان کی حقیقی رائے سامنے آنے سے پہلے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ رائے کیا ہو سکتی ہے۔
برطانیہ میں ان انتخابات کی قابل ذکر بات پہلی بار منعقد ہونے والے ٹی وی مباحثوں کا سلسلہ مکمل ہو چکا ہے۔ بی بی سی بھی تینوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے انٹرویو کر چکی۔
برطانوی اخبارات بھی اپنے اپنے کیمپ چن چکے ہیں۔گارڈین اور ٹائمز نے لیبر پارٹی کی حمایت کی بجائے باالترتیب لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
لوگ تو چھ مئی کو ووٹ ڈالیں گے لیکن مختلف انتخابی جائزے بھی انہی دو پارٹیوں کی کامیابی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے یکم مئی کو مختلف جائزے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے ہیں۔
کام ریس کے جائزے کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کو چھتیس، لیبر کو انتیس اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو چھبیس فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔
یو گوو کے مطابق کنزرویٹو کو چونتیس، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو اکتیس اور لیبر کو ستائیس فیصد لوگوں کی حمایت
حاصل ہے۔
آئی سی ایم کے جائزے کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کو تینتیس، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو تیس اور لیبر کو اٹھائیس فیصد لوگوں کی حمایت مل سکتی ہے۔
اینگس ریڈ کے مطابق لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو تینتیس، کنزرویٹو پارٹی کو بتیس اور لیبر کو تئیس فیصد لوگ ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
پاپولس کے جائزے کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کو چھتیس، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو اٹھائیس اور لیبر پارٹی کو ستائیس فیصد لوگ ووٹ دینا چاہتے ہیں۔
اپسوس ماری کا جائزہ بتاتا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کویکم مئی تک چھتیس، لیبر پارٹی کو تیس اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو تئیس فیصد لوگ ووٹ ڈالیں گے۔
اخبار نے ان جائزوں کا اوسط نکالا ہے کہ اب تک کنزرویٹو پارٹی کو چونتیس، لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو انتیس اور لیبر پارٹی کو اٹھائیس فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔
اس کے لیے تحقیق ضروری ہے کہ مختلف انتخابی جائزے صحیح صورتحال بتاتے ہیں یا اس کے ساتھ ساتہ عوامی رائے کو بنانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور یہ بحث طلب ہے کہ ایسا کرنا جمہوریت کی روح کے خلاف ہے یا نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب اسد صاحب الیکشن میں الیکٹرونک میڈیا کا ایک اہم رول ہے۔ اس میں سب سے بڑی خوبی جس کو فراموش نہی کیا جا سکتا وہ ہر عوام تک رسائی ھے اور اب تو یہ حال ہے جیسا کہ آپ نے اپنے بلاک میں لکھا کہ میڈیا نے ہر پارٹی کو بتا دیا کہ عوام میں اُن کی نمائندگی کتنی کتنی ھے۔ یہ ایک بہت بڑی صداقت ھے کہ پاکستان میں عوام کو میڈیا نے ھی یہ آگاہی دی کہ اُن کے لیڈر کہتے کیا اور کرتے کیا ہیں اور اس طرح بہت سارے سیاست دانوں کی قلعی گھل گئی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میڈیا اور عوام کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ کا بلا ک پڑھ کر ایک خاص لطف آتا ہے اور یہ آگہی بھی ہوتی ھے کہ برطانیہ کی عوام اور میڈیا کس جوبصورتی سے الیکشن میں رول ادا کر رھے ہیں اور میں دُعا گو کہ اسی طرح پاکستان میں بھی میڈیا اور عوام کی ہم آہنگی ایسی ہو کہ سیاست دان یہ سوچنے پر مجبور ہو جا ئے کہ وہ عوام کو دھوکہ نہیں دے سکتے اور جو وہ کہہ رہے ہیں وہ اسے وہ حقیقت میں کریں گے
اليکشن کی صورتحال کا جائزہ لينا يا اس حوالے سے اندازہ لگانا تو بری بات نہيں ہے باقی کسی پارٹی کی پارٹی بن جانا تو اچھی بات نہيں۔ ليکن يہ بات باعث اطمينان ہے کہ وہ سب کی سب پارٹياں اور سب کے سب اخبارات جمہور کی آواز کے لئے سرگرم عمل ہيں۔ ہمارے ہاں تو کئی ميڈيا کے گروپ ہيں جو جمہوريت کے ہوتے ہوئے آمروں کو لانے کی کوشش ميں لگے ہوئے ہيں اور شعوری طور پر ان کی تمام تر کوششيں نظام جمہور کو نہ فقط ناکام کرنے کی ہيں ليکن وہ اس کوشش ميں ہيں کہ کسی نہ کسی طرح لولی لنگڑی جمہوریت بھی نہ چل سکے ـ يہاں تو ميڈيا کے کئی گروپ مافيا بن کر سامنے آ چکے ہيں ـ
ارے ! کیا واقعی وہاں بھی اخبار افواہیں پھیلاتے ہیں ؟ بھئی اتنی بھی بے یقینی کی خبریں نہ دیں ۔
اس طرح کے جائزوں سے يقينا„ لوگوں کی رائے پر اثر پڑ سکتا ہے ليکن برطانيہ ميں ايسے افراد کی تعداد قدرے کم ہوگی جو ديکھا ديکھی ووٹ ڈالتے ہيں۔ بلکہ لوگوں کو اپنا مفاد عزيز ہوتا ہے مثلا” مزدور طبقہ ليبر کو ہی ووٹ ڈالے گا چاہے تجزيہ نگار کچھ کہتے پھريں اور کاروباری لوگ اپنے مفاد والی پارٹی کو ہی ووٹ ديں گے چاہے اس کے چانسز کم ہی ہوں۔ مغربی ممالک ميں پارٹی منشور کی حیثيت ليڈروں سے قدرے زيادہ ہوتی ہے جبکہ پاکستان يا انڈيا جيسے ملکوں ميں شخصيت کو ووٹ ملتا ہے۔رہی بات يہ کہ يہ جمہوريت کی روح کے خلاف ہے يا نہيں تو بندہ کے خيال ميں برطانيہ جيسے ملکوں ميں تو يہ ٹھيک ہے کيونکہ تجزيہ نگاروں نے رزلٹ آنے کے بعد بھی لوگوں کو منہ دکھانا ہوتا ہے اور اگر غلط تجزيہ دکھائيں گے تو دوبارہ ان پہ کوئی اعتبار نہيں کرے گا اور ان کی دوکان بند ہوجائے گي۔ويسے بھی آپ کے بيان کردہ اعداد و شمار قريب قريب ہيں اکثريت تو کسی کی بھی نظر نہيں آتي۔
جناب والا کيا کہنے۔ برطانوی انتخابات کے سارے اندازے صرف ميڈيا والوں پر ہی چھوڑ دیں گے يا پھر عوام کے لیے بھی کچھ بچا رکھا گيا ہے۔ ويسے يہ جو کچھ قياس آرائياں کی جا رہی ہيں يقيناً جمہوريت کی روح کے مغاءير ہی کہلائیں گی۔ بے شک برطانيہ، انڈيا يا پاکستان نہيں ہے مگر وہاں بھی تو انسان ہی بستے ہيں اور فطرت انسانی کہاں کسی سے الگ ہوتی ہے چاہے کلچر کتنا ہی الگ کيوں نہ ہوجائے- بہر حال ديکھنا يہ ہےکہ برطانوی عوام کيا فی الواقعی امن عالم کے حق ميں ہے يا پھر ؟؟؟؟
خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
بحثیتِ مجموعی، ترقی پذیر ممالک میں خصوصآ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں عمومآ ذرائع ابلاغ، میڈیا اور سروے کمپنیوں کے ‘انتخابی جائزے‘ اپنے اندر تعمیری سرگرمی سے زیادہ ‘کمرشل ازم‘ اور ‘روزگار‘ کا عنصر رکھتے ہیں اور یہ زیادہ تر ذرائع ابلاغ میں ‘مقابلہ بازی‘ کی فضا کو عیاں کرتے ہیں۔ البتہ بی بی سی کے ملک برطانیہ بارے ایسی رائے رکھنا اچھا خاصا مشکل ہے۔ چونکہ برطانوی ذرائع ابلاغ میں زیادہ تر برطانوی لوگ ہی مامور ہیں لہذا انتخابی جائزوں میں حقیقت کا رنگ دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں ڈنڈی مارے جانے کا چانس بہت کم ہے۔ وجہ یہ کہ برطانوی لوگ طبیعت و رحجان کے اعتبار سے جمہوریت پسند ہیں اور اپنے یا کسی دوسرے کے معاملات میں بے جا مداخلت سے پرہیز کرتے ہیں اور ‘میرٹ‘ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ‘انتخابی جائزوں‘ کا جمہوریت کے خلاف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ جائزے کارکنوں، ووٹرروں اور امیدواروں میں ایک نیا ولولہ، نئی ‘تحریک‘ پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں جس کے نتیجہ میں ‘جمہوری عمل‘ مزید رفتار پکڑتا ہے۔ برطانیہ کے برعکس پاکستان میں انتخابی جائزے اگر تکا لگ جائے تو درست نکلتے ہیں ورنہ اکثر و بیشتر یہاں پر انتخابی جائزوں کو اُلٹی طرف سے پڑھا جائے تو ہی حقیقت کے قریب نکلتے ہیں اور جسکی مثال پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے الیکشنز ہیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد ق لیگ کو فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن جب نتیجہ نکلا تو ق لیگ کا نشان نہیں مل رہا تھا۔
اسد صاحب! آپکو ان جائزوں کی افاديت اور ٹھيک ہونے سے متعلق سوال ہم سے پوچھنے کی بجائے اپنے تجربہ کی بنياد پر ہميں حقيقت سے آگاہ کرنا چاہيے تھا۔مغرب ميں اس طرح کے جائزے کم وبيش درست ہی نکلا کرتے ہيں کيونکہ انکو انتہائی عرق ريزی کے ساتھ غير جانبدار نہ رہتے ہوئے سائنسی بنيادوں پر مرتب کيا جاتا ہے۔ہمارے ہاں تو اس ضمن ميں بھی الٹی گنگا بہتی ہے۔انتخابات کےدوران جو جائزے سامنے آتے ہيں وہ درست نہيں نکلتے کيونکہ يہاں کے غير مرئی غازی و پراسرار بندے آخر ميں کام دکھا جاتے ہيں اور رات گئے نتائج کی ہيبت ترکيبی ہی بدل جاتی ہے
محترم نجيب الرحمن صاحب نے اپنی رائے ميں لکھا ہے کہ جائزے ميں تعميری سرگرميوں کی بجائے کمرشل ازم اور روزگار کا عنصر پايا جاتا ہے۔بندہ يہ جاننا چاہتا ہے کيا کمرشل ازم ياروز گار کی تلاش تعميری سرگرمی نہيں ہے؟اگر نہيں تو تعميری سرگرمياں کيا ہيں؟ کيا کمرشل ازم ميں ايک ہی آدمی کی روزی لگی ہوئی ہے؟دنيا ميں لوگ کسی نہ کسی بہانے کام کريں گے تو معاشی حالت بہتر رہے گي۔برائے مہربانی موڈريٹر کو الزام دينے کی بجائے اپنی رائے لکھ کر اس پر نظر ثانی ضرور کريں۔معذرت کے ساتھ بندہ آپ کی کچھ سوچوں کا ہم خيال بھی ہے۔
‘قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے جزو میں کُل
کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا‘
محترم علی گل صاحب نے خاکسار کی قیمتی، گراں قدر اور سونے میں تولنے ولی مودبانہ پیش کی گئی رائے کو لفظی ترجمہ کے ساتھ لیا ہے اور یہ بات بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے باقاعدہ قاری کے شایانِ شان نہیں ٹھہر سکتی۔ راقم السطور نے ذرائع ابلاغ میں ‘مقابلہ بازی‘ کا بھی ذکر کیا ہے اور اسی لفظ کے پس منظر میں ‘کمرشل ازم‘ اور ‘روزگار‘ کے مفہوم کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کیا یہ تعمیری سرگرمی ہے یا نہیں؟ بحثیت مجموعی کمرشل ازم میں ‘دھوکہ دہی‘ کا عنصر پایا جاتا ہے اور کسی بھی بات، بیان یا پراڈکٹ کی ناقابل توجہ خوبیوں یا خامیوں کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ کسٹمر یا ووٹر ‘ہپناٹائز‘ ہو جاتا ہے۔ دیگر الفاظ میں کمرشل ازم اور اس کے ذریعے روزگار کو تعمیری سرگرمی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کے ذریعے سادہ لوح پبلک کو بیوقوف اور ان کی سوچوں، فلسفہ اور خیالات پر پہرے بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ باقی یہ کہ روزگار کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں کا کاٹ دیا جائے۔ اگر آپ کی تشفی نہیں ہوئی تو ازرائے مہربانی کارل مارکس کی ‘داس کیپٹل‘، لینن کی ‘امپریل ازم‘ اور جان پرکنز کی کتاب بعنوان ‘Confessions of an Economic Hit Man’ کا مطالعہ فرمائیں۔ رہی بات موڈریٹر کی تو مودبانہ عرض ہے خاکسار حقیقت پسند ہے نہ کہ آپ کی طرح خوشامد پسند۔ لہذا آگے کا تو پتہ نہیں البتہ ابھی تک تو خاکسار کے لیے یہ نام نہاد دو نمبر اور سفارشی موڈریٹر ہی ہے۔ پتہ نہیں کیوں جب موڈریٹر ذہن میں آتا ہے اسی وقت وسعت اللہ کا ایک پرانا بلاگ بعنوان ‘دو چار ٹکا ہی دیں‘ بھی بہت یاد آتا ہے!!
علی گل اور نجيب صاحب توجہ فرمائيں
کمرشل ازم کا مطلب يہ ليا جاتا ہے آجکل کہ جس چيز کی مارکيٹنگ کر نی ہے پہلے ان علاقوں کا سروے کيا جاتا ہے اور ميعار اور قيمت کے مطابق اپنی پروڈکٹ ان گاہکوں تک پنہچائی جائے جہاں اس کی ضرورت ہو تو بات صاف ہے کہ جيسا گاہک چاہے ويسے ہی اس کو چيز ملے۔ اس ميں برائی کيا ہے
اور جہاں روزگار کی بات ہے تو اس بارے ميں اقبال نے سمجھا ديا ہے کہ
اے طاہرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز ميں کوہ تاہی
‘ہزاروں کام ہیں دنیا میں ذوق کرنے کے
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں‘
صد احترام محمد ابرار صاحب! ازرائے مہربانی تصحیح فرما لیں کہ ‘کمرشل ازم‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی جہاں پر مارکیٹنگ کرنی ہے، پہلے ان علاقوں کا سروے جس میں لوگوں کی تعلیمی، ذہنی، مذہبی، روایتی، تقلیدی، ثقافتی، جسمانی، سماجی، سیاسی اور معاشی حالت کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا یہ لوگ آسانی سے ‘راہ راست‘ پرجائیں گے یا بحث مباحثہ کے ذریعے ‘سازش‘ کو سمجھ لیں گے۔ گویا ‘کمرشل ازم‘ ایک ایسا ‘طریق کار‘ ہے جس کو ‘جال‘ سے تشبیہ دی جائے گی اور یہ اپنی خوبصورتی، جدیدیت، مہذبانہ اور دلکش لفاظی، اور باتوں کے جال کے ذریعے وہی کام کرتا ہے جو شکاری ایک پرندوں کو پکڑنے کے لیے دانہ دنُکہ ڈالتا ہے اور جوں ہی پرندنے دانہ چُگنے آتے ہے، شکاری جال کی رسی کھینچ لیتا ہے اور کبوتر، بٹیرے، چڑیاں، مُرغے وغیرہ اس جال میں آ جاتے ہیں۔ انتہائی مختصر الفاظ میں ‘کمرشل ازم‘ کا معنی لوگوں کو ورغلا کر، درست یا غلط طریقہ سے متاثر کر کے، جعلی طلب پیدا کرنا ہوتا ہے۔ گاہک کی مالی حالت اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ چیزیں خریدنے کی سکت رکھ سکے۔ لیکن ‘کمرشل ازم‘ نے گاہک کی سادگی دیکھ کر اس کو اپنے جال میں پھنسا لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج جگہ جگہ ‘انسٹالمنٹ سٹورز‘ کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لڑکیوں کی شادیوں میں ‘جہیز‘ کی لعنت کی جڑ پکڑنے کا ذمہ دار یہی ‘کمرشل ازم‘ ہے اور غریب لڑکیوں کی بر وقت شادی نہ ہونے کی ذمہ داری بھی اسی ‘کمرشل ازم‘ پر آتی ہے۔ شکریہ۔
جناب نجيب الرحمن صاحب آپ نے تو چھوٹی سی بات کا خوامخواہ بتنگڑ بنا ديا ہے صرف يہ ثابت کرنے کے ليۓ کہ جو آپ کے ذہن ميں ہے وہ درست اور باقی ساری دنيا پاگل ہے۔لگتا ہے آپ بھی بی بی سی کے قائرين کو ہيپنا ٹائز کرنا چاہتے ہيں اور ساتھ ساتھ اپنے ان بزرگوں يعنی لينن اور مارکس کی کتابيں پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہيں جن کے نظريات حرف غلط کی طرح کٹ چکے ہيں۔ ميں نے کچھ دنوں سے بی بی سی کے بلاگ پڑھنا شروع کيۓ ہيں جو کہ بہت نالج والے ہيں ليکن بہت سے تبصرہ لکھنے وال يہ ديکھے بغير کہ ان کے پاس متعلقہ بلاگ کے بارے ميں انفرميشن نہيں بھی ہوتی تو خامخواہ تبصرہ کرنے کی زحمت کرتے ہيں مثلا آپ کو برطانيہ کے انتخابات سے کيا لگے۔تجھے پرائی کيا پڑی اپنی نبيڑ تو۔
محترم نجيب الرحمن صاحب آپ کی گراں قدر وضاحت سے بندہ کافی متاثر ہوا ہے۔کمرشلزم کو آپ نے جيسا تکہ مصالحہ لگايا سب کو پڑھ کر مزا آگيا ہوگا۔اصل ميں مغربی ممالک ميں مصالحوں کا استعمال بہت کم ہوتا ہے اور لوگ زيادہ تر سٹريٹ فارورڈ ہوتے ہيں اور اشاروں کنائوں کی بجائے کسی بھی لفظ کا لغوی مطلب ہی ليا جاتا ہے۔ليکن يہاں کے نوجوان ہوں يا بڑے اور چاہے بچے ہی کيوں نہ ہوں ان کو کمرشلزم کے ذريعے ہپنا ٹائز کرنا بہت مشکل ہے کيونکہ ہر کوئی منفی اور مثبت کا فرق سمجھتا ہے نيز گورنمنٹ کے ادارے اتنے مضبوط ہيں کے اگر کسی کا منفی کمرشلزم کی وجہ سے نقصان ہو جائے تو وہ ہرجانہ بھی وصول کرسکتا ہے۔رہی بات مارکس يا لينن کے نظريات کی ان کی ضرورت اس وقت پيش آتی ہے جب ايک مخصوص گروپ آف پيپل نے ايک مخصوص جگہ باقی دنيا سے کٹ کے رہنا ہو اور ان کا مقصد صرف ضرورت کے مطابق کھانا اور کام کرنا ہو۔لوگوں ميں آگے بڑھنے کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہے جيسا کہ شمالی کوريا کے لوگوں کے ساتھ وہاں کا حکمران کررہا ہے۔پہلے ميں بھی آپ کی طرح سوشلزم کا قائل تھا ليکن يہاں آکر پتہ چلا کہ ماحول کا انسان پہ اثر پڑتا ہے۔ليکن بحثيت پاکستانی يہ ضرور احساس ہوتا ہے کہ ہم باقی دنيا سے بہت پيچھے ہيں اور اس کھيل ميں کوئی کسی کا پيٹ نہيں کاٹتا بلکہ ہم لوگ خود اپنا پيٹ کٹوا رہے ہيں صرف اور صرف باقی دنيا کی مخالفت اور خودساختہ نظريات بے تحاشا آبادی سے۔
‘حقائق کو نظرانداز کر کے
بڑے رنگین سپنے بُن رہا ہوں‘
جج بادشاہ صاحب کے لایعنی تبصرے پر تبصرہ کرنا بذات خود وقت کا ضیاع ہے کہ موصوف نے نے اپنی ہی رائے کی یہ کہہ کر خود ہی نفی کر دی ہے کہ تبصرہ نگاران کے پاس متعلقہ بلاگ بارے انفرمیشن نہیں بھی ہوتی تو خواہ مخواہ تبصرہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔ حالانکہ موصوف کے اپنے تبصرہ کا بلاگ موضوع سے رتی بھر بھی تعلق نہیں نکلتا اور چراغ لے کر ڈھونڈھنے سے بھی ایک لفظ تک بھی بلاگ ہذا کے موضوع کا احاطہ کرتا نظر نہیں آتا۔
‘دیکھا ہے عشق ہی میں یہ عالم بھی بار بار
جس کا معاملہ ہو، اُسی کو خبر نہ ہو‘