'سب اچھا نہیں ہوا ہے'
مختلف مواقع اور مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی دن منانے کی افادیت سے میں اب تک شاکی تھا لیکن آزادی پریس کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزماں کائرہ کو حکومتی کارکردگی کا دفاع کرنے میں مشکل کو دیکھ کر واضح ہوا کہ میڈیا اور صحافی حکومت کی ترجیحات میں نہ ماضی میں تھے نہ اب ہیں۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے لیے صحافیوں اور سول سوسائیٹی کی کوششوں سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکا ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ 'سب اچھا' ہوگیا ہے۔ آج بھی اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو یہی لگتا ہے کہ کافی کچھ حاصل کرنا باقی ہے۔
ابھی تو صحافی کو ویج بورڈ ایواڈ کے مطابق تنخواہ لینی ہے لیکن اس سے زیادہ اہم شدت پسندی کے تناظر میں انہیں تحفظ دینا ہے۔ انہیں سچ کے دشمنوں سے بچانا ہے۔ دھونس دھمکی کا تدارک کرنا ہے۔ وہ زندہ رہے گا تو اپنے لیے بہتر حالات کے لیے تگ و دو کرسکے گا، کچھ بول سکے گا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوگا؟
جنوبی وزیرستان میں دو صحافیوں اللہ نور اور امیر نواب خان کے قتل سے لے کر حیات اللہ، سوات کے موسیٰ خانخیل سے باجوڑ کے ابراہیم خان اور کوئٹہ کے ڈاکٹر چشتی سے رائل ٹی وی کے عبدالرزاق جوہر تک کے خون ناحق کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟ آج تک ان کے مقدمات دھول اکٹھی کر رہے ہیں اور کسی صحافی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹھرے تک نہیں لایا جاسکا ہے۔
صحافی اگر تحفظ کا تقاضہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہر صحافی کے تحفظ کے لیے ایک سپاہی تعینات کرنا مانگ رہے ہیں۔ جب وزیر اور مشیر محفوظ نہیں تو حکومت صحافی کو کیا تحفظ دے گی۔ لیکن تحفظ کے مطالبے کا مقصد صحافیوں کو قتل کرنے، انہیں دھمکی دینے والوں اور ہراساں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو تاکہ مستقبل میں کوئی انہیں کچھ کہنے سے قبل دو مرتبہ نتائج کے بارے میں سوچے۔
بین القومی دباؤ میں ڈینیل پرل کے قاتل تو ڈھونڈے جاسکتے ہیں لیکن ان درجنوں صحافیوں کے نہیں جو پاکستان کے لیے فرائض سرانجام دیتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سوال کا وزیر اطلاعات کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ صحافیوں کا تحفظ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔
(چونکہ آج کل ہمارے بلاگز برطانوی الیکشن کے بارے میں ہوتے ہیں اس صفحے کے اوپر بینر بھی الیکشن کے متعلق ہے۔)
تبصرےتبصرہ کریں
پیپلز پارٹئ جب برسرے اقتدار نہیں ہوتی تو وہ بہت زور شور سے آزادی صحا فت کا پرچار کر رھی ہوتی ہے لیکن جب اقتدار میں آتی ہے تو اسے وہ سب بھول جاتا ہے جو اس نے پہلے کہا ھوتا ہے۔ میں جانتا ہوں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی صحافت حکومت کی فیور میں جاتا ہے کیونکہ حکومت جو کام کرے گی اُس پر میڈیا اور صحافی کی نظر ھوگی اور جو کام اچھے ہوں گے اُس کو عوام تک میڈیا اور صحافی بڑی خوش اسلوبی سے پہنچانے کا بہت بڑا زریعہ ھوگا اور جو کام غلط ھوں گے اُن کا بھی اظہار ھوگا۔ اس طرح حکومت اپنی کمزوریو ں سے بروقت آگاہ ہوگی اور اس کی بر وقت تلا فی کرسکے گی۔ آپ اسی کو لے لیں جو حکومت نے بی بی سی کے پانچ منٹ کا بلیٹن بند کیا۔ اس سے حکومت کیا ثابت کر نا چاہتی ہے میری سمجھ سے باہر ہے۔ اس سے حکومت کو کیاحاصل ہوا میری خیال میں ماسواءے بدنا می اور کچھ نہیں۔
صاحب جی کافی دنو ں کے بعد آپ کا بلاگ اچھا لگا۔گزارش ہے کہ بے باک صحافت آج مشکل ہے۔ حکومتوں نے ھميشہ بے باک صحافيوں سے بے رخی برتي۔ حکومت کو اپنا رويہ بدلنا چاہیے۔
اوپر اليکشن کا نشان اور نيچے شروع ميں کائرہ کا ذکر پڑھ کر ميں نے سوچا کہيں مير پور والے کائرہ کو تو نہيں لے آئے ميدان ميں۔ ويسے انگلینڈ ميں پاکستانيوں کی ووٹ ديتے وقت جينيٹک حرکتوں کا بی بی سی پر اتنے تواتر سے پڑھ کر لگتا ہے وہ دن دور نہيں جب ادھر بھی ہمارے اوپر حکومت کرنے والوں کي طرح کی حکومت ہوگی۔ دوسرے لفظوں ميں پاکستانی ادھر بھی ووٹ کے ليے وہی سوچ استعمال کر رہے ہيں
کہ
ہم تو ڈوبے ہيں صنم تم کو بھی لے ڈوبيں گے ايک دن
حکومت کا کسی بھی چينل پر پابندی لگانا يا صحافيوں کی حفاظت کو ترجيح نہ دينا حقيقت ہے، ليکن صرف يہ حکومت نہيں پاکستان ميں کسی بھی حکومت کی ترجيحات ميں ”اپنے لوگ اور اپنی عوام” نہيں رہي- آپ چار پانچ صحافيوں کی بات کرتے ہيں، وہاں تو لاکھوں ہيں جو انصاف کے لی دھکے کھاتے پھر رہے ہيں- ايک بات اور کہوں گی کہ پاکستانی چينل خاص طور پر مقامی چينل آزادئ صحافت کے نام پرلوگوں کی ذاتی زندگی ميں مداخلت کرتے ہيں- ميرے خيال ميں دونوں اطراف سے توازن کی ضرورت ہے-
آپ شائد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافت اور سیاست کافی سے بھی ذیادہ مختلف چیزیں ہیں۔ صحافت کے ساتھ سیاسی کی بجائے صحافتی رویہ اپنایا جائے ۔
ہی بی بی سی اردو سروس کے نیوز بلیٹن روکنے پر بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے قیمتی صفحے خواہ مخواہ ہی کالے کیے جا رہے ہیں اور اب بلاگ صفحہ پر بھی آپ لوگوں نے رونا دھونا شروع کر دیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں صحافیوں کو ‘اوتار‘ کا درجہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صحافی بھی ان لاکھوں ملازمین کی طرح ہوتے ہیں جو پرایئویٹ سیکٹر میں کام کر رہے ہیں، جب لاکھوں ملازمین کی ‘جاب گارنٹی‘، ان کے سخت اوقات اور کم تنخواہ کے لیے چند صفحے کالے نہیں کر سکتے تو یہ صحافی اپنے مفادات کا ڈھنڈورا پیٹ کر دراصل خود کو ‘مفادی گروہ‘ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ صحافیوں کا حکومت سے کیا لینا دینا؟ پرائیویٹ سیکڑ ملازمین کا حکومت سے ‘پروٹوکول‘ کی خواہش رکھنا انصاف پر مبنی ہو ہی نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے تو صحافیوں کو نہیں کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں جاؤ اور اپنی زندگی کا رسک لو بلکہ صحافی خود وہاں جاتے ہیں یا یوں کہنا صحیح ہوگا کہ صحافیوں کو ان کے بھرتی کرنے والے بھیجتے ہیں کہ یہ ‘مقابلہ بازی‘ کا زمانہ ہے اور کوئی ایسی خبر پکڑیں جو دوسرے میڈیا والے نہ پکڑ سکیں۔ صحافیوں کو اس بات کا شعور بھی ہے کہ حکومت تو ایک عام آدمی کی حفاظت نہیں کر سکتی تو پھر ان کا حکومت سے اپنی حفاظت کی امید کرنا ان کے ‘سائکو‘ ہونے کو صرف عیاں نہیں بلکہ ثابت کر دیتا ہے۔ صحافی کوئی آسمان سے نہیں اترے کہ ان کے بغیر ملک چل نہیں سکتا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صحافیوں کی ‘پلاٹون‘ جتنی کم ہو گی اتنی ہی حکومت بہتر انداز سے لوگوں کے مسائل پر توجہ دے سکے گی۔ ہوتا یہ ہے کہ صحافی ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کی ساری توجہ ان کیڑوں کو ‘پھول‘ ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے اور اصل مسائل سے توجہ ھٹ جاتی ہے۔ وکیل، پولیس، سیاست دان، بیوروکریٹ، بوٹوں والے، ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسا شعبہ چھوڑا ہی نہیں جس میں صحافیوں نے پنگا نہ لیا ہو اور ہاتھا پائی پر نہ اترے ہوں۔ جب کوئی شعبہ ایسا بچا ہی نہیں جس میں صحافیوں نے پنگا نہ لیا ہو تو ایسے میں قبائلی علاقوں میں صحافیوں سے غیرشائستہ اور غیرمہذبانہ واقعات کا پیش آ جانا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہوتی۔
آپ صحافی بہت سے مسائل کی جڑ ہیں۔ آپ ہمیشہ کسی بھی بات کا منفی پہلو دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر صحافی غیرملکی ایجنٹوں کا کردار ادا کرکے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
بھائی سب اچھا کيا؟ ميں تو اس رائے کا ہوں کہ کافی کچھ اچھا نہيں۔ حکومتی اہلکاروں کو فقط اپنی کرسی کی فکر ہے ـ کيا اچھا ہے کيا نہيں اگر اس بحث ميں پڑا جائے تو ہميں اس جمہوری حکومت کی اچھاياں کم اور براياں زيادہ نظر آئيں گی۔ ہم اس حکومت کے لئے يہ نہيں کہتے کہ آمرانہ دور حکومت سے بھی بدتر ہے ليکن آزادی صحافت کے لئے عملی طور پر اس حکومت نے کيا کچھ نہيں يہ بات ہم بھی مانتے ہيں۔ ايک دو گروپوں کی تنقيد کو صبر سے حکومت نے برداشت کيا ہے باقی کچھ نظر نہيں آتاـ ہميں حکومت کے کچھ اہم لوگوں کے وہ واعدے بھی ياد ہيں جو انہوں نے اس دور ميں کئے تھے جب وہ حکومت ميں نہيں تھے۔ ان کا تب يہ دعوی ہوتا تھا کہ ہميں حکومت ميں آنے دو ہم صحافيوں کے لئے ملک گل و گلزار کر ديں گے۔ آج جب وہ لوگ ملتے ہيں تو وہ يہ تاثر ديتے ہيں کہ آپ کے اوپر ڈنڈے نہيں برس رہے يہ ہی کافی ہے۔
ڈينيئل پرل کا مقابلہ عام پاکستانی صحافيوں سے نہيں کيا جاسکتا ہے۔ وہ غيرجانبداری کے ساتھ ايک خاص مشن کے تحت اپنی ذمہ داری نبھانے آئے تھے۔ نيز مہمان کا پروٹوکول اور اس کی حفاظت ہمارے معاشرے سميت پوری دنيا ميں اہم سمجھی جاتی ہے۔ اصل ميں کچھ غير پيشہ ور صحافی اور ميڈيا والے عوام کے مختلف فکری گروہوں ميں واويلہ مچا کر حکومت کے موشن يا اقدامات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ صرف اور صرف اپنا کاروبار چلانے کے ليے اور انہيں حکومت کی کاميابی يا لوگوں کی بہتری کی کوئی پرواہ نہيں ہوتي۔ اگر اس طرح سب صحافيوں کو حکومت پروٹوکول دينا شروع کردے يا ان کی سکيورٹی ميں اضافہ کر دے تو سارا پاکستان صحافی بننے کی کوشش شروع کردے گا۔ ان کی حفاظت کے ليۓ شايد الا دين کا چراغ ڈھونڈھنا پڑے گا۔
اگر صحافی خبریں نہ دے اور جیسا کہ ان علاقوں میں صورتحال چل رہی ہے اس بارے میں آپ لوگوں کو آگاہی نہ دے تو آپ کبھی اس قابل نہیں ہوسکتے کہ اس ویب سائیٹ پر آکر کچھ رائے دے سکیں۔
ہارون رشيد صاحب جہاں تک ميرا تجربہ ہے صحافی بھی کچھ کم نہيں ہوتے۔ پاکستان ميں کيا ہوتا ہے يہ تو معلوم نہيں مگر انڈيا ميں حکومتوں کے ساتھ ڈيلنگ، ٹھيکے، سرکاری کام، ٹرانسفر آرڈرز، لائيسنس نکالنا اور اس سے بھی کہيں زيادہ مشکل کاموں کے لیے صحافيوں ہی کی مدد لی جاتی ہے کيونکہ ان کی پہنچ ايوانوں ميں بيٹھے وزيروں تک بہت آسانی سے ہوجاتی ہے۔ اور تو اور اليکشن کے دنوں ميں پارٹيوں کے حق ميں يا خلاف پروپیگنڈا وار کی ذمہ داری بھی ايک بھاری رقم کے عوض انہيں صحافيوں نے لی ہوتی ہے- اس کے علاوہ بدعنوان افسروں کی بليک ميلنگ بھی يہی بے چارے صحافی بڑے دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہيں۔ بليک ميلنگ بھی ايسی کہ سالا وردی والوں کو الٹا وردی اتروانے کی دھمکی کے ساتھ ہفتہ وصو لی کا باقاعدہ نظام چلتا ديکھا ہے۔ ٹريفک پوليس کسی مائی کے لال کو نہيں بخشتی مگر جس گاڑی پر پريس لکھا ہوتا ہے اس سے ايسے نظريں چرا جاتی ہے گويا کچھ ديکھا ہی نہ ہو- ميں يہ تو نہيں کہتا کہ پورے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مگر اکثريت تو صاحب يہی ہے-
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے لیکن صحافیوں نے بھی اب کے "انی مچائی ہوئی ہے" بلیک میل کرتے نظر آتے ہیں سچائی کو ذمہ داری کے ساتھ پیش کرنا تو آتا ہی نہیں ہے کچھ صحافی تو ملک کے مفاد کا سوچتے ہی نہیں ہے بس جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں ٹھیک ہے صحافت کریں لیکن بلیک بزنس تو نا کریں
پاکستان ميں کون سا پيشہ ايسا ہے جسے تحفظ حاصل ہے؟ کيا پوليس افسروں کو سرے عام قتل نہيں کرديا جاتا کيا ان کے قاتل پکڑے جاتے ہيں ججوں کو نہيں مار ديا جاتا ہے کيا ان کے قاتل گرفتار ہوجاتے ہيں علماءِکرام کو فائرنگ سے چھنی کر ديا جاتا ہے کيا ان کے خونی پکڑے جاتے ہيں اگر يہ سارے مجرم پکڑے جاتے اور صحافيوں کے قاتل نہ پکڑے جاتے تو پھر آپ کہہ سکتے ہيں کہ حکومت صحافيوں سے انصاف نہيں کر رہی۔ ويسے صحافی چاہے مغرب کا ہو يا مشرق کا کام ايک جيسا ہی کرتے ہيں يہاں تک کہ ان پر کوئی پابندی نہيں کہ کسی کی نجی زندگی ميں دخل اندازی کرکے ان کو خوف زدہ کرنے کی ۔ بعض اوقات تو اتنا آگے بڑجاتے ہيں کہ ان سے ڈرنے کی وجہ سے لوگ اپنی جان گنوا بيٹھتے ہيں جيسا کہ پياری اور ہر دلعزيز ليڈی ڈائنا کے ساتھ ہوا ۔ ابھی حال ہی ميں شعيب اور ثانيہ کی شادی ميں کيا ہوا صحافی کہاں تک پہنچ گئے اخلاقيات کا جو حال کيا وہ ابھی لوگوں کے دماغ ميں تازہ ہے