نفرت کو ووٹ مت دیں
برطانیہ میں چھ مئی کو ووٹنگ کے روز میرا تعارف سیاسی عمل کے ایک ایسے فریق سے ہوا جو انتخابات میں دن رات محنت کرتے ہیں اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں، لیکن ووٹ مانگنے یا حکومت میں آنے کے لیے نہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ 'ہم غلط لوگوں کو منتخب ہونے سے روکتے ہیں۔' ان لوگوں کو قانونی اصطلاح میں 'تھرڈ پارٹی'(تیسری جماعت) کہتے ہیں۔
مشرقی لندن کے علاقے بارکنگ میں جمعرات کو ووٹنگ کے دن ایک شخص نے میرے ہاتھ میں ایک کاغذ تھما دیا جس پر انتخابات میں نسل پرست امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کا پیغام درج تھا۔اسی تنظیم کے پیغامات ان حلقوں میں لکھے ہوئے نظر آئے جہاں 'نسل پرست' لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
اس سفید فام نوجوان کا تعلق نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم(یونائٹ اگینسٹ ریسزم) سے تھا۔ ان کے کارکن مارکیٹ میں مختلف مقامات پر کھڑے ووٹروں کو پولنگ بوتھ میں جا کر'نفرت کو مسترد' کرنے کا پیغام دے رہے تھے۔
ان لوگوں سے معلوم ہوا کہ کچھ ہی فاصلہ پر ایک ریستورانت میں ان کا مرکز ہے جہاں سے یہ لوگ اس پورے حلقے میں ووٹنگ کے عمل پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایسی جماعت ہے جو نسل پرستی کرتی ہے اور نسلی اقلیتوں کو ہراساں کر کے ووٹنگ سے دور رکھتی ہے۔
تنظیم کی ایک رکن ڈونا نے بتایا کہ اس حلقے سے ایک نسل پرست تنظیم نے پارلیمانی انتخابات کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں بھی کئی امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تنظیم کے مقامی کونسل میں تیرہ ارکان پہلے سے ہیں اور ان کی تعداد چھبیس ہو گئی تو کونسل کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔
ڈونا نے کہا کہ لوگوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ اس بات کی اجازت دیں گے کہ ان کے علاقے میں سکولوں کا کنٹرول ایک ایسی جماعت کے ہاتھ میں چلا جائے جو نسل پرست ہو۔
ڈونا نے بتایا کہ اس علاقے میں تقریباً دو سو کارکنوں ہیں جو اپنے کام میں سے وقت نکال کر رضاکارانہ طور پر سیاست کو نسل پرستی سے پاک رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ڈونا سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی جماعت سیاسی عمل میں منتخب ہو کر آتی ہے چاہے اس کے نظریات کچھ بھی ہوں تو اس جماعت پر کس بنیاد پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ لوگوں کی اکثریت نسل پرست نہیں۔ 'یہ لوگ صرف وہاں کامیاب ہوتے ہیں جہاں ووٹنگ کی شرح کم ہو۔'
انہوں نے بتایا کہ 'تھرڈ پارٹیوں' کا الیکشن کمیشن کے پاس باقاعدہ اندراج ہوتا ہے، انہیں اپنی کارروائیوں کا پورا حساب دینا ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ ڈونا نے بتایا کہ ان کے اخراجات کی بھی حد مقرر ہے۔
اسی طرح کی ایک تنظیم نے چند روز قبل برطانوی پارلیمان کی عمارت پر روشنیوں سے ہٹلر کی جماعت کا نشان بنا کر لوگوں کو نسل پرستوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی۔
دنیا کی سب سے پرانی پارلیمانی جمہوریت میں جمعرات کو شہریوں نے پولنگ سٹیشنوں میں جا کر ایک سفید رنگ کے کاغذ پر کانٹا لگا کر فیصلہ سنا دیا کہ اگلے پانچ سال کے لیے وہ کس پارٹی کی حکومت چاہتے ہیں۔ انتخابی عمل کے سٹیج پر پردہ گرنے سے پہلے ووٹر کا ووٹ ڈالنا آخری اور سب سے اہم ایکٹ تھا اور اسی کی بنیاد پر اب اگلے سِین کا تعین ہوگا۔
تبصرےتبصرہ کریں
نسل پرستی کے خلاف تشہير ايک اچھی مہم ہے ليکن کسی کے چہرے پہ نہيں لکھا ہوتا کہ وہ نسل پرست ہے کہ نہيں صرف آپ اميدوار کی باڈی لينگويج سے ہی اندازا کرسکتے ہيں ليکن گورے تو ايک دوسرے کے ذہن کو آسانی سے پڑھ ليتے ہيں جبکہ مہاجرين يا غير مقامی لوگ تو صرف پارٹی کی حد تک باخبر ہوتے ہيں جبکہ اميدواروں کے نام سے بھی بے خبر ہوتے ہيں۔ جہاں بات نسل پرستی ہوتی ہے وہاں بندہ يہ کہنے پہ مجبور ہے کہ گوروں کی نسل پرستی کی شرح ہمارے معاشرے اور مسلمانوں سے قدرے کم ہےـ گورے کم از کم سب کو برابر کے شہری حقوق ديتے ہيں اور کسی غير عيسائی سے جزيہ بھی نہيں ليتے جو کہ اسلام ميں غير مسلموں سے لينا جائز سمجھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے ہم لوگ اپنا ديس چھوڑ کر وہاں رہنے کو ترجيح ديتے ہيں جبکہ پاکستان ہو يا انڈيا ہم غريبوں اور اپنے نوکروں يا اقليتوں کو کس نگاہ سے ديکھتے ہيں؟اپنے نام کے ساتھ ذات برادری کا لفظ لگانا مثلا” چوہدري،مياں،رانا يا زرداري، شيخ، جٹ وغيرہ سب نسل پرستی کو عياں کرتے ہيں۔ پرديس ميں رہ کر گوروں کے کھان کو بری نگاہ سے ديکھ کر ان کو تبذبب ميں ڈالنا يا ان کے ساتھ بيٹھ کر کھانا کھانے سے اجتناب بے شک مذہبی فرق کی وجہ ہی ہے ليکن گورے اس کو بے عزتی اور نسل پرستی کے معنوں ميں ہی ليتے ہيں ۔
'تھرڈ پارٹي' کے نام سے پولنگ اسٹيشنوں کے قريب تنبيہ کا يہ آخري اور مؤثرترين انداذ بہت پسند آيا - خدا جانے ہمارا معاشرہ کبھي ان درجات پر پہنچ بھي سکے گا - فی زمانہ تو ايسي کسي کوشش کا انجام ہاتھ پير تڑوا کر اسپتال پہنچنے کے مترادف ہو گا -
واہ کيا کہنا کتنے ہی دريا سماء گئے اس سمندر ميں ايک طرف نسل پرستوں کے خلاف رائے عامہ کو بيدار کرنے کيلئے تھرڈ پارٹيوں کو مکمل قانونی تحفظ دينا دوسری طرف ہمارے نسل پرستوں کو مکمل پروٹوکول اور نسل پرستی کے فروغ کيلئے سہولت فراہم کرنا۔ اپنے لئے جس کو برا سمجھتے ہيں وہ نظريہ دوسروں کيلئے کيسے اچھا ہو سکتا ہے ۔ کيا کوئی ايسا فورم ہے برطانيہ ميں جو رائے عامہ کے ذريعے حکومت پر پريشر ڈالے کہ نسل پرستی دنيا ميں کہيں بھی ہو انسانيت کے لئے زہر ہے ايسے لوگ جو اس زہر کے پھيلانے ميں ذمے دار ہيں ان کے لئے برطانيہ ميں کوئی جگہ نہيں ۔
اب پولنگ بھی ختم نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اميد ہے کہ نتائج سے بھی آگاہ کريں گے کہ کون کس حلقے سے کامياب ہوا اور حلقہ ميں ووٹر کس طرح کے تھے ۔ ويسے تو ہمارا کوئی تعلق نہيں ان انتخابات سے مگر نتائج سے دلچسپی ہميں ضرور ہے بلکہ عادت سی ہوگئی ہے يہ عادت صرف ميری ہی نہيں بلکہ اکثر پاکستانيوں کی ہے کہ ووٹ دينے کيلئے دو تين گھنٹے نہيں دے سکتے ليکن نتائج جانے کے لئے ساری ساری رات ٹی وی کے سامنے سے اٹھتے نہيں ہيں ۔
اب اگر بی بی سی نے برائے راست نتائج ديے تو رات بھر ہم بی بی سی اردو کی ويب سائٹ کھولے بيٹھے رہيں گے چا ہے ہميں اميدواروں اور حلقوں کے بارے ميں الف ب بھی معلوم نہ ہو۔
پہلی بات یہ کہ کسی بھی مسئلے یا ایشو پر بات تب ہی کی جاتی ہے اور وزن رکھتی ہے جب مسئلے یا ایشو کا وجود ہو۔ ‘تھرڈ پارٹی‘ اگر نسل پرستی کے خلاف تن، من، دھن سے ‘جہاد‘ کر رہی ہے تو پھر برطانیہ میں ‘نسل پرستی‘ کو گہرا وجود بھی لازمی موجود ہو گا۔ لہذا ایسے معزز قارئین جو محض اپنے تبصرے شائع کروانے کے لیے بی بی سی کے ملک برطانیہ کی اندھی تعریف و خوشامد کر ہے ہیں، سے پرارتھنا ہے کہ حقیقت پسندی کا دامن تھامیں اور بغیر کسی ‘افہام و تفہیم‘ کے درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت پیدا کریں۔ دوسری بات یہ کہ اگر ‘تھرڈ پارٹی‘ حقیقتآ ‘اللہ لوک‘ پارٹی ہے اور اس کے پاس وافر سرمایہ بھی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اپنے امیدوار کیوں کھڑے نہیں کرتی؟ یہ خود ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں پہنچنے کے لیے پَر کیوں نہیں تولتی؟ ان سوالات کو مدِ نظر رکھا جائے تو ‘تھرڈ پارٹی‘ کے ‘فسلفہ سیاست‘ میں دال میں کالا کالا نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے برطانوی سیاست میں ‘تھرڈ پارٹی‘ بھی وہی ‘کردار‘ ادا کر رہی ہے جو کہ پاکستان میں ‘ایم کیو ایم‘ اور ‘جماعتِ اسلامی‘ عرصہ دراز سے کرتی آ رہی ہیں۔ پاکستان کی یہ دو نیم سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو ‘اخلاقیات‘ اور ‘واعظ و تبلیغ‘ کے ذریعہ نمبر بڑھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتیں۔ لیکن ‘انسان دوستی‘ کے متواتر ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود یہ دونوں پارٹیاں آج بھی وہیں کھڑی ہیں جہاں پر دو عشرے پہلے تھیں اور چند سیٹوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ چونکہ خاکسار ڈنڈی مارنے کا قائل نہیں ہے لہذا تصویر کا ایک اور رخ یہ ہے کہ بہت ممکن ہے کہ برطانیہ کی ‘تھرڈ پارٹی‘ حقیقتآ ‘انسان دوست‘ فلسفہ کو پروان چڑھانے کے لیے ‘نسل پرستی‘ کے آگے بندھ باندھنے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کے صرف دو سو رضاکاروں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات حقیقت کے انتہائی قریب بھی لگتی ہے اور ‘تھرڈ پارٹی‘ کی نیت میں بد نیتی کے عنصر کا قیاس کرنا مشکل ہے۔ اسی طرح کی پاکستان میں بھی ‘تھرڈ پارٹیاں‘ کام کرتی نظر آتی ہیں جن میں ایک ‘تحریک اصلاح معاشرہ‘ نامی تنظیم کے لٹریچر، پمفلٹ، وال چاکنگ کا خاکسار نے خود مشاہدہ کیا ہے اور اس کی تعلیمات سیاست، معیشت، نسل پرستی، مذہب پرستی، لسانیت وغیرہ سے قطع تعلق صرف یہ بتاتی ہیں کہ بقول لیجنڈ سپر سٹار سِنگر محمد رفیع:
‘انسان بنو، کر لو بھلائی کا کوئی کام
دنیا سے چلے جاؤ گے رہ جائے کا بس نام۔۔۔۔۔۔‘
بس بھی کریں جی ۔ گورے اور وہ بھی میرپوری ٹائپ کے این جی اوز ۔ بڑا ہی اٹھ کے مشاہدہ ہے جی آپ کا ۔
اسد صاحب! يہ تھرڈ پارٹی کا نظريہ اور طرز کام سب پسند آيا ۔يہ جان کر انتہائی خوشی ہوئی کہ کام بھی شائستگی کے ہمراہ قانوں کے دائرے ميں رہ کر کررہے ہيں۔ انکا مقصد بھی يعنی مخصوص تناظر ميں رائے عامہ ہموار کرنا احسن و نيکی کا کام ہے۔يہ کس حد تک اپنے مقاصد کے حصول ميں کامياب ہوئے آئندہ بلاگ ميں ضرور تحرير کيجئے گا
ليجيے صاحب فيصلہ ہوگيا مگر نتائج سے لگتا ہے کہ لمحۂ آخر تک ووٹر الجھن مخمصے اورغير يقينی کا شکار تھا - اور صاحب يہ تھرڈ پارٹياں عين موقع پر اگر کسی کی مخالفت ميں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے اليکشن کے دن مہم چلاتی ہيں تو کيا يہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہيں ہوئی۔ انڈيا ميں تو دو دن پہلے ہی کسی بھی طرح کی انتخابی مہم اور تحريکوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے- اور رہی بات اس طرح کی مہم کی تو جہاں تک ميرا خيال ہے يہ ايک مستقل تحريک ہونی چاہيے اور کوشش عام بيداری ہو ورنہ پھر نسل پرستی تعصب اقربا پروری کرپشن يہ تو ايسی وباءيں ہيں جو ازل سے چلی آرہی ہيں اور شايد اب تک بھی ان کا خاتمہ ممکن نہ ہو۔ -
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا‘
‘عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
نسل پرستی اس وقت پيدا ہوتی ہے جب مختلف گروہوں کے لوگ ايک دوسرے کو شک کی نگاہ سے ديکھنا شروع کرديں کہ شايد ان کی موجودگی سے ان کے وسائل کم ہوجائيں اور يا لائف سٹائل ميں فرق پڑ جائے۔يہ تو دنيا کے ہر ملک ميں ہوتی ہے ليکن ہمارے معاشرے کے تو انداز ہی نرالے ہيں کہ نسل پرستی کے ساتھ ساتھ انا پرستی جنون کی حد تک موجود ہے جس کی وجہ سے مختلف ذاتيں اور فرقے اور مختلف تنظميں موجود ہيں۔ اور آپ اس معاشرے سے کيا توقع کريں گے جس کا ايک تبصرہ نگار جو اپنے تئيں عظيم دانشور بھی ہے۔ اشاروں کناروں سے بغير نام ليۓ ايسے تبصرے لکھتا ہے جس ميں انا کی بو آتی ہے۔ نيز برطانيہ کی نسل پرستی کے خلاف تنظيم کا موازنہ جماعت اسلامی اور ايم کيو ايم سے کرديا اور بعد ميں يہ بھی کہ ديا کہ ہاں يہ تنظيم ٹھيک ہی ہوگی۔ نيز يہ تو کسی نے نہيں کہا کہ بی بی سی کے ملک برطانيہ ميں نسل پرستی نہيں ہوتی بلکہ يہ کہا گيا ہے کہ ہمارے معاشرے سے قدرے کم ہے ۔معذرت کے ساتھ۔
اليکشن اليکشن کھيلتے کھيلتے بات پہنچ گئی نسل پرستی پر بڑے عجيب اور دلچسپ تبصرے پڑھنے کو ملے ۔ علی گل صاحب نے نسل پرستی کی وجہ شک اور وسائل بتائے تو نجيب احمد صاحب نے تھرڈ پارٹی کے کردار کو پاکستان کی دو پارٹيوں کے کردار کی طرح کا بتايا اور يہ بھی شکوہ کيا کہ جب اتنا فنڈ ہے تو وہ خود کيوں نہيں اپنے اميدوار کھڑے کرتی اس بات ميں انھيں کالا کالا نظر آيا۔
علی گل صاحب نسل پرستی اور فرقہ پرستی دراصل ايک نفسياتی بيماری کی شکليں ہيں جو طب ميں خبطِ عظمت کے نام سے معروف ہے يہ بيماری انفرادی طور پر ايک فرد ميں بھی ہوتی ہے اور اجتماعی طور پر قوميں بھی اس کا شکار ہوتی ہيں اور جب يہ وبائی شکل اختيار کر ليتی ہے تو اس سے بہت کم لوگ اپنے آپ کو بچا پاتے ہيں اس مرض کی علامات کچھ اس طرح مريض ميں ظاہر ہوتی ہيں کہ مريض اپنے آپ کو افضل اور دوسروں کو حقير اور کم تر سمجھ نے لگتا ہے اپنی پسند کا سچ سنتا ہے اپنے آپ کو عالم اور دوسروں کو جاہل مانتا ہے لاکھ اس کو دليل دو مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے وہ اپنی خاميوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھراتا ہے جو اس نے کہہ ديا بس وہ ہی سچ اپنی ناہلی کم عقلی کوتائيوں کا ذمے دار دوسروں کو ٹھرانا اور جب يہ مرض کسی قوم ميں سراہيت کر جاتا ہے تو يہ نسل پرستی بن جاتی ہے۔
نجيب احمد صاحب آپ کو تھرڈ پارٹی کا کردار پاکستانی پارٹيوں ميں نظر آنے کا مطلب يہ بنتا ہے کہ آپ ان دو پارٹيوں کو خراجِ تحسين پيش کر رہے ہيں يا تھر پارٹيوں پر توہمت ۔ دوسری بات کہ اگر تھرڈ پارٹی بھی اليکشن ميں حصہ ليتی تو پھر اسے تھرڈ پارٹی کون کہتا اور ووٹر بھی يہ سوچتا کہ يہ اپنے ليئے ووٹ مانگ رہا ہے نسل پرستی کے خلاف اس کی باتيں کنونسنگ کا ايک حصہ ہيں اسلئے تھرڈ پارٹی نے اپنے اميدوار نہيں کھڑے کيئے تاکہ ووٹروں کو يہ باور کرائيں کہ ہم جو بات کرہے ہيں اس ميں ہمارا مفاد بلکل نہيں بلکہ ملک،عوام اور خود ووٹر کی بہتری ہے
‘نغمہ جو ہے تو روح میں ہے، نَے میں کچھ نہیں
گر تُجھ میں کچھ نہیں، تو کسی شے میں کچھ نہیں
تیرے لہو کی آنچ سے گرمی ہے جسم کی
مَے کے ہزار وصف سہی، مَے میں کچھ نہیں
جس میں خلوصِ فکر نہ ہو، وہ سُخن فضول
جس میں نہ دل شریک ہو، اُس لَے میں کچھ نہیں‘
‘نسل پرستی‘ کی لفاظی ممانعت کرکے خود کو ‘مبلغ و داعی‘ گردان کر ‘سارے جہاں کا درد ہے ہمارے جگر میں‘ شو کروانے سے مودبانہ پرارتھنا ہے کہ پہلے وہ اوکھے سوکھے ہو کر غوطہ لگانے کی سعی کریں اور ‘نسل پرستی‘ کے مفہوم و معنی کا بغور جائزہ لیں تا کہ اول فول سے بچا جا سکے۔ مثال کے طور پر محترم علی گل صاحب نے اپنے تبصرہ میں نسل پرستی کے پیدا ہونے کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ دراصل ‘تعصب‘ کے پیدا ہونے کی وجوہات ہیں۔ عام طور پر لفظ ‘نسل‘ اور لفظ ‘قوم‘ کو مترادف سمجھا جاتا ہے۔ بغور دیکھا جائے تو ‘قوم‘ لفظ ‘نسل‘ کا ہی جدید لفظ ہے۔ نسل کا تعلق ‘خون‘ سے ہوتا ہے اور خون کے رشتوں کو مٹانا ممکن نہیں ہوتا البتہ بذریعہ تعلیم و تربیت اس کے ‘جوش‘ کو عارضی طور پر شعور سے ‘تحت الشعور‘ میں پھینکا جا سکتا ہے لیکن جو کہ کسی بھی موقع پر کسی بھی وقت دوبارہ باہر آ کر ‘مہا بھارت‘ برپا کر سکتا ہے۔ لکھنے کا مطلب یہ کہ ‘نسل پرستی‘ انسانی فطرت ہے اور فطرت سے ہاتھا پائی کرنے کی کوشش کرنا دراصل وقت کا ضیاع ہوتا ہے کہ یہ کبھی نہیں بدلتی۔ ‘نسل پرستی‘ کا خاتمہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب کسی نسل کا ‘خون‘ بدلا جائے اور یہ ممکن نہیں۔ صرف تعلیم، زبان، اور ماحول بدل لینے سے نسل پرستی ختم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر خاکسار خیر سے جاٹ نسل سے تعلق رکھتا ہے اور اگر بندہ بی بی سی کے ملک چلا جائے اور انگریزی زبان کو اوڑھنا بچھونا بنا لے تو خاکسار، جاٹ نسل سے انگریز نسل کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اس کا الٹا اثر ہو گا کہ انگریز تو کیا جاٹ ہوں گے، خاکسار میں ہی جو جاٹ کا عنصر باقی رہ گیا ہے، وہ بھی تِتر بِتر ہو جائے گا اور نسل میں ‘دوغلا پن‘ عود کر آئے گا۔ اس نکتہ کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو ‘نسل پرستی‘ دراصل ‘نسلی پاکیزگی‘ کو قائم دائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ‘نسلی پاکیزگی‘ میں کوئی خرابی پیدا ہو جانے سے خاندانی اہمیت و عظمت ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جاتی ہے اور جس خاندان سے یہ پاکیزگی غائب ہو جائے وہ آہستہ آہستہ تباہی و بربادی کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔ اب یہ پڑھنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ جس پہلو کو مناسب سمجھیں، پلے باندھ لیں۔ لہذا خاکسار کے ڈونگھے تبصروں کو ‘انا‘ کی بُو کہنا دراصل ‘حسد‘ کا نتیجہ ہے، حقیقتآ منفی اور مثبت تمام پہلوؤں کا ذکر کرنا ‘حقیقت پسندی‘ کے کھاتے میں آتا ہے۔ شکریہ۔
‘منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ہے راہی
اتنا عظیم ہو جا، منزل تجھے پکارے‘
(نام نہاد دو نمبر موڈریٹر، آداب! لہو پسینہ اک کر کے اے تبصرہ میں لکھیا اے۔ ایس لئی ازرائے مہربانی اس تبصرہ نوں ناں کھانا۔ تےجے کھان دا جی کرے تے تبصرے نوں اک واری دوبارہ ضرور پڑھنا تاں جے کھان دا فیصلہ چھڈ دِتا جائے۔ جے دوجی واری پڑھ کے وی کھانا چاہو، تے فِر اینوں کسے سینئر موڈریٹر میرٹ تے بھرتی ہویا ہووے، دے حوالے کرنا تے جے او وی آکھے کہ اے کھان والا تبصرہ اے تے فِر میرے ولوں تہانوں پوری چُھٹی اے تبصرہ کھان دی بھانویں ڈکار وی نہ مارنا۔ شکریہ)