قصوروار کس کو ٹھہرائیں؟
ہنزہ سے مصنوعی جھیل کے بارے میں رپورٹنگ مختلف چینلوں کی مختلف انداز میں ہو رہی ہے۔ اگر ایک چینل جھیل کی گہرائی کو تین سو تینتیس فٹ کہتا ہے تو دوسرا کوئی اور گہرائی بتاتا ہے۔ اسی طرح جھیل اور سپل ویز میں کتنے فٹ کا فرق رہ گیا ہے اس بارے میں بھی ہر چینل کے مختلف اعداد و شمار ہیں۔
لیکن کیا یہ میڈیا کا ہی غیر پیشہ ورانہ رویہ ہے؟
اب بدھ کے روز کی ہی بات لے لیجیے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جھیل کے بند سے ایک سو چالیس یا بیالیس کیوسک فٹ فی سیکنڈ پانی رس رہا ہے جب کہ جھیل میں پانی کی آمد تئیس سے چوبیس سو کیوسک فی سیکنڈ ہے۔
لیکن اس بات کے ایک گھنٹے بعد وفاقی وزیر برائے امور کشمیر میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ اس وقت ایک سو باون کیوسک فی سیکنڈ پانی رس رہا ہے جبکہ پانی کی آمد کی مقدار اکیس سو کیوسک فی سیکنڈ ہے۔
اعدادو شمار کے اس گورکھ دھندے میں اگر ذرائع ابلاغ کے نمائندے ایک دوسرے سے مختلف رپورٹیں پیش کریں تو آپ قصوروار کس کو ٹھہرائیں گے؟
تبصرےتبصرہ کریں
جناب اصل بات تو یہ ہے کہ حکومتی مشینریاں اول روز سے ہی جھوٹ بولتی آ رہی ہیں۔ حقائق کو چھپانا تو ان کا خاندانی پیشہ لگتا ہے۔ رہی بات میڈیا کی۔ آخر ہم ہیں پاکستانی ہم تو بولیں گے، ہاں بولیں گے۔ بولنا کیا ہے، وہی جھوٹ۔
‘قصور وار نہ طوفان تھا اور نہ پانی ہے
کہ اُن کا شہر ہی دریا کی رہ گزر پر تھا‘
ہمدانی صاحب! شروع سے ہی ہمارا الميہ رہا ہے کہ ہم اعدادوشمار اور تحقيق کے ميدان ميں دلچسپی نہيں ليتے۔ نا ہی ہم ان باتوں کو سنجيدگی سے ليتے ہيں۔ ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد اپنے ذريعہ پر انحصار کرتے ہيں۔ ان کو تو بری الذمہ قرار ديا جاسکتا ہے ليکن سرکاری عہدوں پر براجمان افراد کے بارے ميں کيا کہيے؟ صحافی تو بہرحال کسی نہ کسی طور پر اعداد وشمار بتا کر ہميں باخبر رکھتے جس پر ان کو سراہا جانا چاہيے اور متضاد اطلاعات و اعداد و شمار کا ذمہ دار حکومت اور اس کے ادارووں کو ٹہرايا جانا چاہيے۔
محترم! آپ سیدھے سیدھے ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اگر میڈیا ہی کچھ نہ کرے تو میڈیا ہی کیوں کہلائے ۔
ہم صرف خود کو ہی قصوروار ٹھرايئں گے !!
يقيناً رپورٹنگ ميں تضاد ہوتا ہے اس کی وجہ پاکستانی معاشرے ميں تھوڑا بہت اوپر نيچے کرنا يا ميٹنگ میں ليٹ آنا ايک فيشن بن گيا ہے۔اب آپ ہی ذرا غور فرمائيں ميں کسی کو نيچا نہيں دکھانا چاہتا اور نہ ميری کسی سے دشمنی ہے مگر محترم نجيب الرحمن صاحب نے جو شعر لکھا ہے اچھا ہے مگر بلاگ سے اس کا کوئی تعلق نہيں کيونکہ بات اعداد و شمار ميں کمی بيشی کی ہو رہی ہے۔ يعنی آپ بھی ميڈيا کا حصہ ہيں اور وہی کيا جو دوسرے کرتے ہيں۔
پاکستان ميں کسی بھی مسئلے کو تکنیکی لحاظ سے سمجھنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور صحافت ايک آرٹ کا مضمون ہے اور بہت کم صحافی سائنسی اعدا و شمار کے فرق کی احساسيت سے واقف ہيں بلکہ وہ تو آگے بڑھنے کی کوشش ميں اعداد و شمار ميں اضافہ کر کے اپنی خبروں کو چار چاند لگاتے ہيں کيونکہ عوام ميں بھی ايک طبقہ موجود ہے جو بات کو بلا وجہ طول دينے اور افواہيں پھيلانے کو فن سمجھتا ہے۔ ليکن کرکٹ کے سکور يا وکٹيں گرنے کی تعداد کوئی غلط نہيں بتاتا۔
اس ميں ميڈيا کا تو قصور نہيں کيونکہ ميڈيا تو وہی اعداد و شمار بيان کر رہا ہے جو متعلقہ حکام بتا رہے ہيں بلکہ اس سے تو متعلقہ لوگوں کی غلط بيانی يا مختلف اعداد بيانی ہی سامنے آتی ہے۔
کینیڈا میں جب کوئی جواب نہ بن پائے یا جان چھڑانی ہو، یا غیرمتعلقہ بات ہو تو کہتے ہیں Who Cares۔ آپ کا تبصرہ پڑھا اور ہمارا تبصرہ یہ ہے کہWho Cares۔