| بلاگز | اگلا بلاگ >>

دیپ اور جاسوسی ایجنسیاں

سیدہ دیپ لاہور میں وہ خاتون ہے جو پاکستانی ایلیٹ کے اس حلقے میں سے نہیں جو جب بھٹہ مزدوروں کے حق میں مظاہرہ کرنے نکلتے ہیں تو پراری واٹر کی بوتلیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

090813140103_pak_india_flag226.jpgسیدہ دیپ اصل میں لاہور کے ان لوگوں میں سے ہیں جو جب بھی پاکستان کو انکی ضرورت پڑی ہے وہ بیچ سڑک کے پِٹے ہیں۔ بالکل جالب کی طرح 'بڑے بنے تھے جالب صاحب پٹے سڑک کے بیچ۔'

یہ وہ لوگ ہیں جن کے جگر میں تمہارا میرا سارے جہاں کا درد ہوتا ہے۔اہل درد اور اہل دل لوگ۔ خطہء لاہور کے واقعی حقیقی جانثار جو محاذ سے بھاگتے نہیں بلکہ ان میں کئیوں نے شاہی قعلے کے عقوبت خانوں کو بھی آباد کیا تھا۔ آخر شب کے ہمسفر ٹائپ لوگ۔

'آخر شب کے چراغ ہیں ہم لوگ'

ملک میں جہموریت کی بحالی کی تحریک ہو، پریس یا عدلیہ کی آزادی ہو، خواتین کے حقوق ہوں یا سب سے زیادہ دکھ بھری اور جوکھم بھری راہ ہندوستان پاکستان کے درمیاں دوستی اور امن کی کوششیں، اپنے کاندھوں پر اجرک اور ہاتھ میں سگریٹ سلگائے ہوئے دیپ اندھیرے راستوں پر آگے آگے ہوتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ دنیا میں بمشکل دو ہزار ایسے لوگ بچے ہونگے۔ پچھلی دفعہ دیپ چیف جسٹس اور عدلیہ کی بحالی کیلیے جیل گئی تھیں۔

دیپ نے دو ہزار پانچ میں دِلّی سے شاہ لطیف بھٹائي کے مزار تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیاں امن کیلے پیادہ مارچ کیا تھا۔ دونوں ممالک کے دیپ جیسے لوگ 'جن کےہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہونگے' بن کر آئے تھے۔

لیکن ہندوستان اور پاکستان کے درمیاں دوستی اور محبت کی پلیں بنانے کیلیے سوچنا بھی بارودی سرنگ پر پاؤں رکھنے کے مترادف ہے۔ دیپ پھر آنے والے دنوں میں دِلی اور کراچی کے درمیاں امن مارچ منظم کرنا چاہتی ہے۔ اب کے بار برصغیر ہندوستان پاکستان کو نیوکلیائي اسلحے سے پاک خطہ دیکھنا چاہتی ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ آدھی صدی سے زائد عرصے تک جنگ کی آگ لگانے والوں امن کی جعلی آشا رکھنے والوں کے گھر کا دروازہ تو نہیں کھٹکائيں گے؟ دیپ اور انکے دوستوں کو ہی ہراساں کریں گے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 2:24 2010-05-25 ,Nadeem Ahmed :

    حسن بھائي- مہلک ہتھياروں کی موجودگی ميں بھی دوستی ہو سکتی ہے، بلکہ ايسی دوستی زيادہ پائيدار اور برابری کی سطح پر ہوگي- جب سے دونوں ممالک نے ايٹم بموں کی کھيپ تيار کی ہے، جنگ سے بچے ہوئے ہيں- بس انھيں اللہ عقل دے اور دوستی اور بھائی چارے کا مرحلہ بھی طے کر ليں، تاکہ کشمير اور ايٹمی صلاحيت جيسے مسائل حل کرنے ميں آسانی ہو- ميرے خيال ميں جو لوگ پہلے مسائل کے حل اور دوستی بعد ميں کي دليل ديتے ہيں، وہ ان مسائل کا ہی نہيں چاہتے- کيونکہ دونوں ممالک ايٹمي صلاحيت کي موجودگي ميں لڑ کر مسائل حل نہيں کر سکتے، اور دشمن کو کوئی اپنی چيز ديتا نہيں-

  • 2. 2:33 2010-05-25 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    سیدہ دیپ ۔۔۔۔۔۔
    ‘نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘

  • 3. 3:00 2010-05-25 , نجبیب رحمان لاہور :

    آداب عرض! بھارت اور پاکستان میں سیدہ دیپ جیسے امن پسند افراد کی تعداد سینکڑوں سے زیادہ ہونا بہت مشکل ہے جسکی چیدہ وجہ اِدھر ‘نظریہ پاکستان‘ اور اُدھر ‘بندے ماترم‘ کو ‘مقصدِ زندگی‘ ٹھہرا کر عوام کو بذریعہ تعلیمی نصاب اور میڈیا ‘ذہنی و عقلی جمود‘ کا شکار کیا جا رہا ہے۔ ‘نظریہ پاکستان‘ اور ‘بندے ماترم‘ دراصل متحدہ ہندوستان میں انگریز کی پالیسی ‘لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی ہی جدید شکل ہے جس کے بل بوتے پر ہندوستان اور پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی پر مشتمل اسٹیبلیشمنٹ تریسٹھ سال سے حکومت کر رہی ہیں۔ سیدہ دیپ جیسے امن پسند، بھائی چارہ اور جیو اور جینے دو فلسفہ حیات کو اوڑھنا بچھونا اور فروغ دینے والے افراد ہر دور میں پیدا ہوتے رہے ہیں اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک سے زیادہ نہیں بڑھ پائی۔ اس بابت بھارت میں ابو الکلام آزاد، جسونت سنگھ، منٹو، ساحر لدھیانوی اور جگر مرادآبادی جبکہ پاکستان میں سیدہ دیپ، فخر زمان اور ‘وارث شاہ ایوارڈ‘ حاصل کرنے والے ناول ‘واہگا‘ کے مصنف نذیر کہوٹ کے نام نمایاں ہیں۔ پاکستان میں خودساختہ نظریہ پاکستان کی اختراع اور پہلی جماعت سے لے کر پی ایچ ڈی تک اس کی وسیع پیمانے پر تبلیغ و اشاعت کی موجودگی میں سیدہ دیپ جیسے افراد کا نمودار ہو جانا کسی بھی طور پر کسی ‘معجزہ‘ سے کم نہیں ہے۔ اگرچہ ایسے افراد کی تعداد اس قدر قلیل ہے کہ مستقبل دور تک کسی ‘انقلاب‘ کو خواب دیکھنا حقیقت سے آنکھیں چرانا کے مترادف ہو گا۔ ہاں، البتہ ان قلیل افراد کی موجودگی سے یہ ضرور ممکن ہے کہ بقول ابنِ انشاء:
    ‘مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
    کچھ خار کم تو کر گئے گذرے جدھر سے ہم‘

  • 4. 4:56 2010-05-25 ,اے رضا :

    گزارش ہے سيدہ ديپ اور مادھوری گپتا جيسے لوگ اپني زندگياں برباد کر رہے ہيں۔ اگر عوام الناس نے آزمودہ چوروں کو کندھوں پر اٹھا کر جيوے جيوے کے نعرے لگاتے ہوئے اقتدار کے ايوانوں ميں واپس لا بٹھانا ہے۔ اگر ووٹ کي اہميت کا احساس دلايا سکے تو کہيں بہتر ہو گا - قيادت مخلص ہو تو لوگ گھاس پر گزارہ کرنے کو بھي تيار ہيں - صرف ايک مخلص اور مضبوط قيادت ہی جراتمندانہ فيصلے کرکے ان پر عمل درآمد بھي کروا سکتی ہے -

  • 5. 6:24 2010-05-25 ,اشفاق لغاری :

    حسن بھائی یہ امن کے پرندے بہت کم ہیں اور اب تو نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ آپ ک وان کا خیال رہے یا پارت ہو۔
    نفرستان میں آپ محبت کے ترانے گا رہے ہو

  • 6. 6:36 2010-05-25 ,احمد عباس لاہور :

    آج آپ نے اُس سمندر میں ارتعاش پیداکیا جس کا پا نی منجمد حد تک سا کن تھا اس ارتعا ش کا سہرا اس عظیم نام کے سر ہے جس کا ذکر آپ نے اپنے کا لم کے ابتدا سے کیا حبیب جا لب ّمیں بھی منصو رہوں کہ دو اغیا ر سے ّ یہ لوگ آج بھی لوگوں کے دلو ں میں زندہ ھیں ّسب کہا ں کچھ لا لہ گل میں نمایا ں ھو گئے خاک میں کیا صورتیں ھوں گی کہ پنہا ں ھو گئیّ سیدہ دیپ نےانھی لوگو ں کے مشن کو زندہ کیا اور اُس بیڑے میں سوار ھو گئی جنہو ں آب حیا ت پر زہر کے پیا لے کو ترجیح دے رکھی ہےہم لوگ اس ترقی کا سوچ بھی نھیں سکتے جب تک دو نوں ممالک کے در میان امن نہیں ہو گا اور امن اس وقت ھو گا ایک دوسرے کی بات سنی جائے گی سمجھی جائے گی

  • 7. 6:39 2010-05-25 , ڈفر :

    دیپ کے تو چراغ چلنے ہی چاہئیں
    ملک و قوم سے اتنی بڑی غداری؟
    یہ امن چاہتی ہے
    ہمارے سیاستدانوں کی پینسٹھ سالہ محنت پہ پانی پھیرنا چاہتی ہے
    اس کی تو ایسی کی تیسی

  • 8. 8:12 2010-05-25 ,بلوچ :

    جالب ہو یا دیپ یقینن انقلابی سوچ کی پہچان ہیں لیکن جہان ریاست کی بنیاد ہی جنگ پہ ہو وہاں امن کے دائی جالب صاحب بھی کہنے لگتے ہیں ’’دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے‘‘

    برسغیر کے سینے کو چاک کرکے وہ انگریز آج بھی اصل حکمران ہے۔ اور اگر کچھ لوگ اس بات کو مانیں تو میرا سوال صرف اتنا ہے کہ۔ تو یہ گاندھی اور جناح کہاں سے آئے؟ کس نے گاندی سے کہا کہ وہ افریقہ چھوڑ کر ہندوستان آئے اور جناح کو انگلستان چھوڑنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟

  • 9. 9:04 2010-05-25 ,علی گل،سڈنی :

    سيدہ ديپ کی جدوجہد قابل ستائش ہے مگر بندہ کے خيال ميں دونوں ممالک میں انتہاپسند دونوں اپنی اپنی سوچ ميں اتنے کٹر ہيں کہ کسی بھی مخالف نظريہ کو جگہ نہيں دے سکتے اس ليۓ امن جو صديوں سے برسرپيکار ہے لوگوں ميں انسانی محبت اور بھائی چارے کے ليۓ(دنيا میں راج کرنے اور ترقی يافتہ ہونے کا کا واحد ذريعہ)اب تک قدم رکھنے سے محروم ہے۔لوگوں کو عقل کسی کے سمجھانے سے کم ہی آتی ہے صرف کسی انقلاب يا آفت کے بعد جب آبادی کم ہو جاتی ہے تو کسی عقل مند کے ليۓ بچے کھچے لوگوں کو سمجھانا آسان ہوتا ہے۔موجودہ حالات ميں تو يہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ
    پيوستہ رہ شجر سے اميد بہار رکھ
    خزاں کے دن بھی نکل جائيں گے

  • 10. 9:24 2010-05-25 ,جج بادشاہ :

    امن قائم کرنے کا ايک موقع ملا تھا جو کہ پنيلٹی سٹروک کی طرح ضائع کرديا گيا جب روس نے افغانستان پہ حملہ کيا تھا تو امريکہ کا ساتھ نہ ديا جاتا اور سوشلزم اور کيمو نزم کو پھلنے پھولنے ديا جاتا تو آج نہ مجاہد ہوتے اور نہ بم دھماکے ہوتے اور لوگوں کی سوچ بھی انگڑائی ليتی اور جب انسانوں ميں اونچ نيچ ختم ہو جائے تو امن خودبخود قائم ہوجاتا ہے۔سوشلزم ہميشہ کے ليۓ تو شايد بہتر نہ ہوگا مگر بگڑی ہوئی نسل کے ليۓ ٹيکے يعنی انجنکشن کا کام کرتا ہے اور جب آفاقہ ہو جائے تو بےشک روس کی طرح ہر رياست اپنی مرضی کرکے عليحدہ ہوجائے۔

  • 11. 10:03 2010-05-25 ,عبدالعفور مصر :

    خطے میں قیام امن کیلیے بھارت اور پاکستان میں اسی تبدیلی اشد ضروری ہے جسطرح کی تبدیلی یورپی ممالک ایک دوسرے کے قریب آنے کیلیے لے آئے تھے۔وگرنہ ہم عالمی طاقتوں کیلیے محض اسلحہ یچینے کی منڈی بنے رہیں گے اور وہ کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیآں مستقل امن قائم کرنا نہہیں دیں گے۔

  • 12. 11:54 2010-05-25 ,سید فدا حسین شاہ :

    ان لوگوں کو محبت سے سلام جو دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیاں امن قائم کرنے کی کوششيں کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کو سوچنا چاہنیے کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو امن ہونے نہیں دیتیں۔ یہ دونوں ممالک کی افواج ہیں جو دفاع کے نام پر اپنے اخراجات بڑھاتے ہیں جبکہ بھارت اور پاکستان کے عوام امن چاہتے ہیں۔ اور یہ دونوں اطراف کی افوجی قیادت کو قیام امن کی حکمت عملیاں مرتب کرنی چاہئيں۔

  • 13. 12:04 2010-05-25 ,ابراہیم کنبھر اسلامـ آباد :

    مزدورں کے بٹھوں تک پانی کی مہنگی بوتلوں کے ساتھ جاکر اس سفر کو کيش کرانے والوں کی کمی نہيں ہے اور آج کل پاکستان کی نام نہاد سول سوسائٹی بھی وہی کہلاتی ہے جس کو ميڈيا بھی پسند کرتا ہے جو کسی بھی اينگل سے غيرجانبدار نہيں ہے ـ ميری ذاتی راء تو يہ ہے کہ جو آج کل کی سول سوسائٹی ہے اس بلی جيسی ہے جس نے سئو چوہے نگل لئے اب ڈکار دينے کے لئے حج پر جانے کی تياری ميں ہے ـ آج کی سول سوسائٹي ميں تو وہ لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنی سانسيں بھی بدترين آمر کے لئے قربان کر چھوڑي تھیں ميں ان لوگوں کو سول سوسائٹی کے گھس بيٹھیے کہوں يا ان کو اس نظام کو مثبت تبديلی کے حقيقی خواھشمند کہوں اگر ان کی کوئی خدمت ديکھ لوں تو مان بھی لوں آنکھ بند کرکے ميں کسی قبضہ گير کے حامی کو کس طرح جمہوريت کا چئمپين مان لوں کيونکہ ميں نے تو سنا اور پڑہا ہے کے جمہور قربانی مانگتا ہے ـ سلام ہے ایسے تمام لوگوں کو جو آج بھی سيمائوں کے پار دونوں ديشوں کی جنتا کے بيچ پريم کے پل باندھنے کی آُشا رکھتے ہیں ميں ان لوگوں کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے بغير لالچ کے دورياں اور فاصلے مٹانے کے لئے حقيقی کوششيں کی ہيں اور ان اداروں کی طرح نہيں ہيں جو کمرشل بنيادوں پر امن کے نعرے مار رہے ہیں۔

  • 14. 12:07 2010-05-25 ,رمضان مندازی آموری چاغی بلوچستان :

    جبتک دونوں ملکوں میں سیاست اور سیاستدان رہتے ہيں دیپ صاحبہ کبھی بھی مان اور شانتی نہیں لا سکتیں۔

  • 15. 13:56 2010-05-25 ,احمد عباس لاہور :

    جنا ب ڈفر صا حب معاف کرنا ہمارے ملک پر زیادہ حکمرانی تو جرنیلوں نے کی ہے اور آج انہی کا بیج بویا ہوا کاٹا جا رھا ھے کیا آپ کی مراد جرنیل سیاست دانوں سے ھے یا غریب عوا م سے محبت کرنے والے سیاست دان جنہوں نے اس ملک کے لیے قربانیاں دیں

  • 16. 15:04 2010-05-25 ,حسنین حیدر :

    حسن مجتبیٰ صاحب بی بی سی ہمیشہ سے ایسے لوگوں کو ہمارا رہنما بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے جن کا کوئی نام تک نہیں جانتا جن خاتون کا آپ نےذکر کیا ہے ان کا نام میں نے پہلی دفعہ اسی بلاگ میں پڑھا ہے اور میرا خیال ہے کہ پاکستان میں گنتی کے چند لوگ ہیں انہیں جانتے ہیں جبکہ دوستی کا فیصلہ تو اکثریت کو کرنا ہے۔ البتہ آپ کے بیان کی حد تک اگر ان کی جدوجہد کی بات درست ہے تو ایک پاکستانی کی حیثیت سے ان کی جدوجہد لائق تحسین ہے اور امن پسند لوگ ایسی جدوجہد کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یقینا دونوں ملکوں میں دوستی کی بنیاد رکھنا یقینا مشکل کام ہے مگر اس دشمنی کا الزام صرف پاکستانی ایجنسیوں کے سر تھوپ دینا انصاف نہیں ہے اس کے ذمہ دار بھارت میں بھی موجود ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کے قراردادوں سے انحراف نے ہی اس نا ختم ہونے والی دشمنی کو جنم دیا ہے تو جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا تب تک بھلا دشمنی کا خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب مدمقابل کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو اور وہ آپ کے مطالبات کو اہمیت دینے پر تیار نہ ہو تو پھر سانحہ ممبئی جیسے واقعات ہوتے ہی رہیں گے اور فوجیں سرحدوں پر آمنے سامنے آتی ہی رہیں گے اگر بھارت حقیقی دوستی کا خواہشمند ہے تو وہ بھی پاکستان کے حق میں اپنے موقف میں لچک پیدا کرے اور کشمیر کو ’’اٹوٹ انگ‘‘ کہنے کی گردان چھوڑ دے۔ یاد رکھیں جو دوستی محض نعروں اور ثقافتی وفود کے تبادلوں کے ذریعے قائم ہو وہ دوستی دیرپا ثابت نہیں ہوتی کیونکہ کسی نے کسی فریق کے دل میں نا انصافی کا خیال اندر ہی اندر لاوے کی طرح پکتا رہتا ہے اور ایک دن نفرت کا آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی اور بھارتی دونوں عوام اس بات کو سمجھنے پر تیار نہیں ہیں کہ مسائل کا قطعی حل نکالے بغیر دوستی مممکن نہیں اور صرف تجارت بڑھانے اور بس سروس شروع کرنے سے برسوں کی نفرت ختم نہیں ہو سکتی اس کیلئے بے حد محنت، صبر و تحمل اور مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے نا کہ محض نعروں اور امن مارچ کے ذریعے دوستی کرنے کی کوشش

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔