زرد ستارہ پہنائے لوگ
گذشتہ جمعہ لاہور میں احمدیوں کی عبادتگاہوں پر دہشتگردانہ چڑھائيوں میں امریکہ میں اس ماہر امراض قلب ڈاکٹر کے بھی والد قتل ہوگۓ جنہوں نے لاہور جاکر کبھی طالبان میں اپنا اثر رکھنے والی جعمیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل رحمان کا علاج کیا تھا۔ لاہور میں کمانڈو طرز حملہ اتنا وسیع اور اندھا دھند تھا کہ امریکہ میں بسنے والی احمدی کمیونٹی کے کئی افراد کے دوست و اقارب لقمہء اجل بنے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی کمیونٹی کے ماننے والوں کو اتنی بیدردی اور سفاکی سے اسطرح شاید ہی مارا گیا ہو جسطرح احمدیوں کو مارا گیا ہے۔ احمدی پاکستان میں پاکستانی ریاست کی طرف سے 'ییلو سٹار' یا زرد ستارہ پہنائے ہوئے لوگ ہیں۔ بلکل ایسے جیسے جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کو پہنائے تھے۔
پہلے اس کمیونٹی کو لفظوں سے مارا گیا اور پھر ہھتیاروں کے منہ کھول دیے گئے۔ ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، منبر، مساجد، مدرسے، ملاں، جنرل، پیر، فقیر، وزیر، سفیر، کبیر، سب اسی میں لگے ہوئے ہیں۔
میں نے بچپن میں پہلی بار جب 'سوشل بائیکاٹ' یا 'سماجی بائیکاٹ' کے الفاظ سنے وہ انیس سو چوہتر میں احمدیوں کے لیے چھپے بانٹے ہوئے اسٹکروں پر دیکھے جو میرے سندھ کے چھوٹے سے شہر میں لگائے گئے تھے جہاں صرف زیادہ تر فقط ایک احمدی خاندان اور اسکے تین بالغ مرد رہتے تھے۔ ریڈیو ساز اور گھڑی ساز چھوٹے زمیندار کنبے کا بڑا مربی احمدی اور ان کی ایک عبادت گاہ۔ جو میرے اسکول کی ہی مسجد تھی جس میں احمدی غیر احمدی ایک صف کھڑے نمازی اور ہر شام سکول میں ہونے والے کھیلوں میں لازمی حصہ لینا اور پھر اندھیرا ہونے سے ذرا پہلے مغرب کی نماز پڑھنا لازمی ہوا کرتے تھے۔
مسجد کا موذن پیش امام و خطیب شہر کے اسی اکلوتے کنبے کا بڑا احمدی مربی تھا۔ تمام شہر میں ایک معزز۔
لیکن سیم اور تھور میں گھرے دیوبندی مدرسے میں جو احمد پور شرقیے کا وہ ایف اے پاس مولوی اسد اللہ تھا وہ میرے محلے کے چھوٹے بچوں کو دو آنے، کٹ آؤٹ سٹیکر، اور بوٹ پالش کا برش دیکر اور کالے رنگ کا ڈبہ دے کر کہتا کہ شہر کی دیواروں پر لکھ کر آؤ 'مرزائي کافر ہیں۔'
اب جو اس دن میں نے پاکستانی چینلوں پر کمسن عمر کے بندوق باز کو دیکھا تو مجھے احمد پور شرقیے کا مولوی اور وہ بچے یاد آ گئے۔ میں نے سوچا کہ پنجابی طالبان انیس سو چوہتر سے ہی بننا شروع ہوگۓ تھے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘اج آکھاں وراث شاہ نوں
کِتوں قبراں وچوں بول
تے فیر کتابِ عشق دا
کوئی اگلا ورقا پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی
تو لِکھ لِکھ مارے وين
اج لکھاں دھياں روندياں
تينوں وارث شاہ نوں کین
اٹھ دردمنداں دیا درديا
اٹھ تک اپنا پنجاب
اج بيلے لاشاں وچھياں
تے لہو دی بھری چناب
اج سبھے کيدو بن گئے
ايتھے حُسن عشق دے چور
اج کتھوں لياواں لبھ کے
ميں وارث شاہ جيا ہور‘
(امرتا پريتم)
حسن بھائي!درست لکھا ہے آپ نے جب ہم نوخيز اور ناپختہ ذہنوں ميں جو اس طرح کا زہر بھرا جائے تو کچھ ايسا ہی ہوتا ہے۔کسی دوسرے انسان کو محض اس لئيے زندگی سے محروم کرديا جائے کہ ان سے نظرياتي،مذہبي، لسانی يا فقہی طور پر عدم اتفاق ہو تو يہ کہاں کا انصاف و انسانيت ہے؟ احمديوں کو اس حال ميں پہنچانے والے سابق حکمرانوں بھٹو اور مرد مومن ضياءالحق نے اپنے اپنے اقدار کو طول دينے کے لئيے کڑوے بيجوں کی وہ فصل بوئی ہے کہ اس کے کڑوے ثمرات ہم کاٹ رہے
ہیں۔
پاکستان میں احمدیوں کی صورتحال کو بہت ہی زبرسدت پیرایے میں بیان کیا گیا ہے۔
کمال ہے صاحب لگ تو ایسا رہا ہے جیسے کوئیی نرالہ واقعہ ہوگیا ہو،اور یہ ظلم خاص احمدی اقلیت کیساتھ ہی ہوا ہے۔صاحب ییہ ظلم تو یہاں اکثیرییت کیساتھ بھی ہورہا ہے،مزید یہ کہ آج جو اسرائیل نے ظلم و بربریت کی داستان رقم کی ہے
اس پر تو کچھ لکھھے کی توفیق آپ میں سے کسی کو نہیں ہے ، اور احمدیوں کا غم آپ کو کھائے جارہا ہے۔
حسن صاحب ہم امريکہ کے خلاف واويلا کرتے ہيں کہ وہ اپنی طاقت کا غير منصفانہ استعمال کرتا ہے ليکن ہم بھی تو وہ ہی کچھ کررہے ہيں۔اقليتوں کے حقوق کی پامالی يا ان کو اپنے سے کم تر سمجھنا اور ان کے خلاف ناقص پروپيگنڈا کی بنيادی وجہ ہی يہ ہے کہ اپنے ملک کے اندر وہ ہم سے کمزور ہيں۔جب کسی قوم کی اخلاقی قدريں گر جاتی ہيں تو وہ چھپ کر وار کرکے اپنا دل بہلاتے ہيں ۔
پاکستان کے آئين میں دوسری؛ ترمیم یا سیکنڈ امینڈمینٹ کے خاتمے ہی سے احمدیوں کو ملک کے باقی شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔
جناب کی یادداشت کیلیے عرض ہے کہ طالبان تو پاکستان آرمی کے بچے ہیں لیکن جو نوگ پاک فوج نے مارے ہیں یعنی سندھی، بلوچ اور پٹھاں وہ کس کھاتے میں جائيں گے؟ صاحب پاکستان کی تاریخ خونی تاریخ ہے سب کے سب پٹے ہوئے ہیں
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سبھی اس زلف کے اسین ہوئے ہ
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔ جمعہ کی دوپہر کو بیک وقت لاہور کے علاقوں ماڈل ٹاون اور گڑھی شاہو کے حملوں میں سو کے قریب احمدی ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زاید زخمی ہوۓ. خبر تمام اخبارات کی شہ سرخی بنی تو حکمرانوں نے بھی مذمتی بیانات داغ کر اپنا فرض نبھایا. ایک قیامت خیز نظارہ تھا جب قانونی طور پر ثابت شدہ کافر احمدی نماز جمعہ ادا کر رہے تھے اور ثابت شدہ قانونی مسلمان ہینڈ گرنیڈ بموں اور ہتھیاروں سے مسلح دھماکوں کے ساتھ " قادیانیت مردہ باد" کے نعرے لگاتے ہوۓ ان پرگولیاں برسا رہے تھے ، میں حیران تھی کہ . ....."دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں " نہتے احمدی خود کو بچانے کے لئے مسلح حملہ اوروں سے مسلسل دست و پا تھے . میڈیا کے لئے یہ سنسنی خیز خبرموضوع سخن بنی جس پر سیاسی و سماجی مباحثے بھی کئے گئے .اور بلا آخر اس سر عام قتل غارت گری کو دہشت گردی کی ایک واردات جس کا ذمہ دار طالبان کی کالعدم تنظیم کو قرار دے دیا گیا .
مگر میں یہ کیسے مان لوں کہ یہ فقط ایک دہشت گردی کی واردات تھی کہ جب میری آنکھوں نے چک سکندر اور ننکانہ صاحب میں سینکڑوں احمدی خاندانوں کو زندہ جلتے دیکھا ہو . میں یہ کیسے مان جاؤں کہ اس کی ذمدار فقط کالعدم تنظیم ہے کہ جب مرے کانوں نے سات اکتوبر دوہزار پانچ کو ماہ صیام کی ایک شام مندی بہاؤ الدین میں احمدی نمازیوں کی چیخ و پکار اوران پر ہوتی گولیوں کی بوچھاڑ سنی ہو . میں یہ کیسے قبول کر لوں کہ اس کا مقصد فقط خوف ہراس پھیلانا تھا جب میں نے مظفر آباد اور ایبٹ آباد میں جانوں سے گئے ااحمدی خاندانوں کے عزیز اقارب کے آنسو پونچھے ہوں ، اور جب میں نے قوم کے مسیحاؤں کے روپ میں احمدی ڈاکٹرز کی بیہیمانہ قتل و غارت گری پراپنی قوم کی بد بختی پر خوں کے آنسو بہائے ہوں .اگر آج احمدیوں پر یہ حملہ دہشت گردی ہے تو پھر ١٩٨٩ میں چک سکندر اور ننکانہ صاحب میں سینکڑوں احمدی خاندانوں کی جائے املاک لوٹ کر ان کو زندہ جلا دینا کیا تھا ؟ اگر آج اس حملے کی ذمدار کالعدم تنظیم ہی ہے تو پھر مندی بہاؤ الدین میں برپا قیامت کا ذمہ دار کون تھا ؟ اگر آج ان حملہ اوروں کا مقصد فقط دہشت پھیلانا ہے تو پھر ١٩٧٤ سے اب تک احمدیوں پر کئے جانے والے مظالم اور بد سلوکیوں کے مقاصد کیا تھے ؟
پاکستان میں جماعت احمدیہ ١٩٧٤ میں پارلیمان کے غیر مسلم قرار دینے کے بعد سے جس وحشیانہ سلوک سے دو چار ہے ہاں وہ دہشت گردی ضرور ہے مگر طالبانی دہشت گردی ہرگز نہیں بلکہ حکمرانی اور قانونی دہشتگردی ہے . ہاں یہ دھہشتگردانہ واردات ضرورہے مگر اس کی ذمہ دار کالعدم تنظیم نہیں بلکہ اس کی ذمہ دار بھٹو اور اس کے بعد آنے والی ہر حکومت ہے . ہاں یہ سر ا سر ظلم ضرور ہے مگر یہاں پر ظالم طالبان نہیں ہمارا معاشرہ اور ہمارا قانون ہے ، ہاں یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ضرور ہے مگر اس کی ذمہ دار عوام کی محافظ پولیس ہے ، ہاں یہ فقط تعصب ہی تو ہے مگر اس کی قصور وار ہماری زرد صحافت بھی ہے .اور سب سے بڑھ کر ہماری قوم جو اس قوت سماعت سے محروم ہے جو مظلوم کی داستان سن سکے ، جو اس قوت بصارت سے محروم ہے جو مجبور ہم وطنوں کی بے بسی دیکھ سکے ، اس دل سے محروم ہے جو کسی کا درد محسوس کر سکے.
ایک ریاست کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ کسی شہری کے ایمان کا فیصلہ آج میں حکمران وقت ، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے یہ سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر اس بے حسی، اور غیر ذمہ داری کی کوئی انتہا بھی ہے ؟ پتھر پہ لکیر ہے یہ تقدیر مٹا دیکھو گر ہمت ہے --- یا ظلم مٹے گا دھرتی سے یا دھرتی خود مٹ جائے گی
عفاف اظہر
میں اس بلاگ کے خیال سے ہی متفق نہیں ہوں۔ اگرچہ میں اس عمل کی مذمت کرتا ہوں
لیکن لوگ پاکستان میں ااسی سے بھی زیادہ کٹھور اندازمیں قتل ہوئے ہیں ۔ تم جلتی آگ پر تیل ڈال رہے ہو اسکے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔آپ جیسے لوگ لفظوں سے کھیل کر عام لوگوں کو کنفیوز کرتے ہیں۔
حسن بھائی یہ 'پنجابی طالبان' انیس سو بانوے میں میرے باپ کو موت کی وادی میں دھکیل گۓ تھے جب میں چودہ سال کا تھا اور اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، صرف اس لیے کہ ہم احمدی تھے۔ یہ جلد ہی پاکستان کو بھی نگل جائيں گے
اس ميں کوئی شک نہيں کہ مرزئی اقليت پر حملہ قابل مذمت ھے۔ ليکن پاکستان پر تنقيد بھی اسی طرح قابل مذمت ھے۔ پاکستان پر تنقيد کرنے سے پھلے آپ کو اپنے سفيد فام آقاؤں کی مذمت بھی کرنی ھو گی جنہوں نے اس نفاق کی بنياد ڈالی ”لڑاؤ اور حکومت کرو”۔
جناب يہ زرد ستارے والا معاملہ بھی آپکے ان دونوں سفيد فام چچاؤں کا گھڑا ھوا ھے۔ کيا آپ ان کو دھشتگرد قرار دے سکتے ھيں جنہوں نے پوری دنيا ميں امريکہ اور برطانيہ کی شھہ پر دھشتگردی مچائی ھوئی ھے؟ ايک تازہ مثال اس دھشتگردی کی آج بھی برپا ھوئی ھے۔ ليکن غالبا” نھيں کيونکہ ايک تو يہ مسلمانوں کے خون ارزاں سے کھيلی گئی اور آپ کو پيسے ملتے ھيں صرف مسلمانوں کے خلاف لکھنے کے !
گزشتہ 40 برسوں ميں جسطرح سے دنيا ميں مسلمانوں کا سفاک طريقے قتل عام ھوا ھے اس سے بڑھ کر تو ميں نے کچھ نھيں ديکھا۔ آپ بنے ھيں قصہ گو ھالوکاسٹ کے !
خدا را پاکستان کا پيچھہ چھوڑئيے اور کسی دوسرے موضوع کو بھی ليجيۓ ”
بڑا مشکل سا ہے اس تحریر پر تبصرہ کرنا
که ہمارے گاؤں تلونڈی موسے خان میں اس فرقے کو اقلیت قرار دیے جانے کے بعد احمدی لوگوں نے ایک جلسه کیا تھا جو پاکستان کی تاریخ میں ان کا پہلا اور اخری جلسه ثابت ہوا ہے
ہوسکتا ہے که اپ ان کو صرف مظلوم ثابت کرنا چاہیں لیکن هم کچھ اور باتوں کے بھی گواہ ہیں
اور میں کوئی گمنام شخص بھی نهیں ہوں
حسن مجتبٰی صاحب ، يہ قوم بے حس ہو چکی ہے - نہيں ديکھتی دنيا ميں کيا اميج بنتا چلا جا رہا ہے -
کھوکھر صاحب کن باتوں کے گواہ ھيں بيان کر ديتے تو اچھا ھوتا
پاکستانی میڈیا کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن بی بی سی کو کیا مسئلہ ہے۔ عبادت گاہ کو مسجد نہیں لکھ سکتے۔عبادت کو نماز نہیں لکھ سکتے۔ آخری رسومات کو جنازہ نہیں لکھ سکتے۔ پاکستان کے کالے قوانین کا اتنا احترام ناقابل فہم ہے۔میرا اشارہ آپ کے بلاگ سے زیادہ رپورٹنگ کی جانب ہے۔
تبصروں سے معلوم ہوتا ہے مولوی کا پالش کا ڈبہ کام دکھا گيا ہے- جتنی مذہبی منافرت پاکستانی معاشرہ ميں ہے شائيد ہی کسی اور جگہ ہو-
پاکستانی آءين کی روح سے اس اقليت کو قاديانی لکھا اور پڑھا جاۓ
جناح نے کئی مواقع پر واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں ہو گی اور یہاں پر مسلمان، ہندو، پارسی، احمدی، بھائی ۔۔۔۔ سب بطور پاکستانی پہچانے جائیں گے۔ گویا جناح، پاکستان میں ‘سیکولرازم‘ کے متمنی تھے اور یقیناً اسی ‘سیکولرازم‘ کی وجہ سے ہی انہوں نے متحدہ ہندوستان سے الگ ایک ملک کے لیے جدوجہد کی اور اس کی حمائت کی۔ بدقسمتی سے جناح جلد ہی انتقال کر گئے اور خاکسار سمجھتا ہے کہ پاکستان میں ‘سیکولرازم‘ کی خواہش ہی جناح کی ‘موت‘ کا سبب بنی۔ یہی وجہ تھی کہ جناح کی وفات کے فوری بعد ہی ‘نظریہ پاکستان‘ ایجاد کر لیا گیا اور انیس سو ترپن میں احمدیوں کے خلاف ملک بھر میں تحریکیں چلنا شروع ہو گئیں اور انہیں ہراساں کیا جانے لگا۔
ہاں شائد اچھا نہیں ہوا لیکن اس طرح تو سارے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اور آپ لوگ احمدیوں کے حق میں رپورٹنگ کر کے کیا ان جھوٹوں کا سچا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
لیکن جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔
دنیا میں اور جگہ بھی ظلم ہو رہا ہے لیکن احمدیوں سے بی بی سی کا خاص لگاؤ ان لوگوں کے میڈیا میں اثر و رسوخ کا پتہ دیتا ہے۔
پنجابی طالبان تو اس سے پہلے پيدا ہونا شروع ہوگئے تھے پر پاکستان کی انٹليجنس ايجنسيوں اور فوج کو انہيں استعمال ميں لانے کی ضرورت نہيں پڑی اور شايد اس لیے نہيں پڑی کہ انہوں نے يہ ہی سوچا ہوگا کہ يہ ساڈے بندے نے کدی نا کدی کم آ جائيں گے اور جن طالبان کو استعمال ميں لانا تھا وہ لايا گيا اور تب تک جب تک پانی سر سے نہ گذر چکا۔ لاہور ميں اتنا بڑا واقعہ ہوگيا اپنے گڈ گورننس کی قصے بيان کرنے سے نہ تھکنے والوں کو بيڈ گورننس فقط وفاق ميں نظر آتی ہے اور پنجاب ميں عالم تو يہ ہے کہ صوبے کے قانون کے وزير سے کوئی پوچھنے والا نہيں کہ يہ جو کالعدم تنظيموں سے ميل ملاپ رکھنے کا سلسلہ کب بند ہو گا۔ اب تو پنجاب ميں زکوۃ کميٹيوں کا بڑا کوٹا بھی اس وزير موصوف کے کہنے پر ان کالعدم تنظيموں کے ليڈران کو مل جاتی ہيں جو باہر سے روپوش کہے جاتے ہيں ليکن جھنگ سے لے کر گوجرانولہ تک پوليس کے فل پروٹوکول ميں گھومتے دکھائی ديتے ہيں۔ يہ سب کچھ ميں کہوں تو قصور وار ليکن يہ باتيں تو پاکستان کی قومی اسمبلی سے اٹھتی ہيں کہ خدارا پنجاب کے لا منسٹر کو کہا جائے کہ ان تنظيموں سے رابطہ منقطع کر دے جن کو کالعدم قرار ديا گيا ہے يا جن کو واچ لسٹ پر رکھا گيا ہے۔ اب جب حکمران اس طرح سے بلی کو دودھ کا رکھوالا بنائيں گے تو پہر دودھ کی فکر کرنے کا فائدہ کيا؟ لاہور کيا پاکستان ميں رہنے والے احمدی تو اس دن ہی مر گئے تھے جب ملاؤں کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو جيسا سياسی ليڈر بليک ميل ہوا تھا۔ ہم تو اب بھی اس ملک کے باسی ہيں جہاں اتنا پڑا سانحہ ہونے کے باوجود اب بھی يہ آوازيں سننے ميں آتي ہيں کہ اچھا ہوا ان کو ختم کرنا چاہئے۔
جو ہوا برا ھوا۔ آپ نے جتنے واقعات بیان کیے ہیں کیا کوئی ریفریفنس دے سکتے ہیں؟ رہی بات کافر قرار دینے کی تو احمدی کتب پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے کہ ان کے خیال میں وہ تمام لوگ جو لوگ مرزا جی کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہوے کافر ہیں؟ ریفرینس دوں۔
محترم نجيب صاحب۔ اگر جناح صاحب کے اقوال کے مطابق آئين و قانون کی تشکيل ہوتی تو اور بات تھي۔ پاکستان، جناح صاحب کی تقريروں سے نہيں، آئين و قانون سے چلايا جا رہا ہے، اور اسکے مطابق قادياني غير مسلم اور اقليت ہيں، اور انکے ساتھ ہر وہ سلوک جائز ہے، جو کافروں کے ساتھ کيا جاسکتا ہے۔ جب انہيں کافر قرار دے ديا گيا، تو پھر شدت پسندوں کے ليے انہيں فاسق، مرتد اور واجب القتل قرار دے کر مارنا کوئي بڑي بات نہيں۔ نفرت کا ماحول آئين بنانے والوں نے شروع کيا، اس ليے سب سے بڑے مجرم وہ ہيں۔ جبتک آئين و قانون ميں ايسي شقيں موجود ہيں، اقليتوں پر ظلم ہوتا رہے گا۔
تو مطلب يہ ھوا کہ احمدی ’اپارتھائڈ اسلامی جمہوريا پاکستان‘ کے نيچ ہيں۔
1971ء ميں گورنمنٹ کالج لاہور ميں سال اول کا طالبعلم تھا۔ ہماري انگريزی کی درسی کتاب کا پہلا سبق قائداعظم کی 11 اگست 48ء کی وہ تقرير تھی جو ضيا دور ميں خارج از نصاب کر دي گئي۔ وجہ تکليف تقرير کا يہ حصہ تھا کہ ’آپ اپني مساجد اور مندروں ميں جانے کو آزاد ہيں۔ اس مملکت پاکستان ميں ہندو ، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے نہيں بلکہ شہری حقوق کے لحاظ سے۔ رياست کي نگاہ ميں سب برابر کے پاکستانی ہوں گے۔ کسی سے کوئی امتياز نہيں رکھا جاۓ گا۔‘
سعودی عرب اور ايران کے برعکس پاکستان جيسے کثيرالعقائد معاشرے کو متحد رکھنے کا يہی طريقہ تھا۔ ليکن مقام افسوس ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو جيسا ليڈر اقتدار بچانے کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کر گيا۔ شروعات قراردار مقاصد سے ہو چکی تھی۔ باقی کسر ضياالحق نے پوری کر دی اور آج يہ عالم ہے کہ عدم رواداري اور مذہبي انتہاپسندي ميں يہ ملک دنيا بھر ميں بدنام ہو چکا ہے۔ احمديہ ٹی وی چينل پر ان کا نکتہ نظر سننے کا بھی اتفاق ہوتا ہے۔ ميری حيرت کی انتہا نہ رہی جب ان کے ناظم اعلٰی لاہور غلام احمد صاحب پريس کانفرنس ميں بتا رہے تھے کہ مال روڈ لاہور سميت لاہور ہائی کورٹ ميں ججوں کے کمروں کے باہر ان کے نام کی تختيوں کے نيچے بھی احمدي مخالف بينر آويزاں ہيں اور کوئی پوچھنے والا نہيں ہے۔ يہ کس قسم کا معاشرہ تعمير کر رہے ہيں ہم۔ خدارا سوچیئے اس معاشرے کی پيداوار اگلی نسل کيسی ہو گی۔ وہ آج کي سمٹتي دنيا ميں کس طرح چل پائے گي۔ اسے کوئي منہ نہيں لگائے گا۔
جناب، تبصرے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہمیں کسی احمد پور کے ملا کی ضرورت ہی نہیں بی بی سی کے قارئین ہی کافی ہیں۔
افسوس کی بات ہے مجتبیٰ صاحب کہ آپ اپنے مغربی آقاؤں کی غلامی میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ یہ بھی بھول گئے کہ پاکستان کے اندر شعیہ برادری کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے اور اب تک ان کے ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ کیا آپ مومن پورہ کا واقعہ اور امام بارگاہوں پر ہونے والے ایسے ہی دیگر حملے بھول گئے ہیں؟ اور جہاں تک قادیانیوں کی بات ہے تو ان پر ہونے والے حملے یقیناً قابل مذمت ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کو پاکستان کے خلاف تنقید کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ آج سب کو پاکستان کےا میج کی بہت فکر ہو رہی ہے مگر دوسری جانب اسرائیل جو کچھ کررہا ہے وہ بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اس پر تو آپ کے قلم کو جوش نہیں آیا اور دیکھ لیں اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ عالمی امیج صرف ایک ڈھکوسلہ ہے اور آج بھی دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے۔ اگر آج پاکستان طاقتور ہوتا تو تمام تر دہشتگردی کے باوجود بھی اس کا امیج کبھی خراب نہ ہوتا اور دنیا اس کے کہے پر چلتی۔ اس لیے ہمارے لوگ عالمی امیج کی فکر کرنا چھوڑ دیں کیونکہ یہاں طاقتور کو سب معاف کرتے ہیں اور کمزور کی معمولی سی غلطی بھی پکڑی جاتی ہے۔ یہاں بھارت، اسرائیل اور امریکہ جیسےملک دن رات انسانوں کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں مگر انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ مجتبیٰ صاحب آپ نے تو قادیانیوں کو آج مرتے دیکھا ہے مگر مسلمان تو پوری دنیا میں پچھلے ساٹھ سالوں سے قتل ہو رہے ہیں۔ ہر روز سینکڑوں لاشیں گرتی ہیں۔ افغانستان، عراق، بوسنیا، چچنیا، کوسوو، مقدونیہ، البانیہ،کشمیر، فلسطین ان سب علاقوں کی سرزمین مسلمانوں کے خون کا کتنا خراج وصول کر چکی ہے؟ صرف عراق میں بیس لاکھ سے زائد مسلمان دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی نذر ہو چکے ہیں۔ افسوس مجتبیٰ صاحب آپ جیسے لبرل انتہا پسند ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اور صرف تنقید برائے تنقید کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔
جناب خیل، بلاشبہ آپ آزادی تقریر کا فایدہ اٹھارہے ہیں جسے دنیا کی بہترین جمہوریت (امریکہ) نے آپ کو عطا کیا ہے اور جہاں لوگ اپنی راے کا اظہار کرنا پسند کرتے ہیں-
درحقیقت دنیا میں بیشتر ممالک نے میڈیا بر سنسرشپ عاید کی ہوی ہے یا پھر فرد واحد کی حق تقریر سلب کردی ہے۔ لیکن مجھے آّپ کے بیان میں لفاظی (الزامات) وہ بھی بغیر تاریخی شواہد کے کچھ اور دکھای نہیں دیتا جسے عوام الناس کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
میں امریکہ کی واضح تصویر پیش کرتے ہوے اس پروپیگنڈہ کو رد کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک کبھی استعماریت کا حصہ رہا ہے۔ امریکہ کولمبس کی دریافت، ایک آزاد دو صدیوں ذیادہ پرانا ملک ہے اور میرا اندازہ ہے کہ آپ اسکی تاریخ سے واقف ہونگے۔۔۔ درست!
جہاں تک دھشتگردی کا تعلق ہے ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ انتہا پسندانہ نظریات کو مغرب میں دو اہم کرداروں نے متعارف کروایا ہے ان کے نام ہیں: القاعدہ اور طالبان- دراصل امریکہ اور امریکی تو لفظ " دہشتگردی یا دہشتگرد حملے " 11/9 سے قبل ناواقف تھے، بظاہر ان دو کرداروں نے دنیا کو بتادیا کہ وہ امریکہ کی سرزمین پر حملوں کے ذمہ دار ہیں، ذرا سوچیۓ!
مجھے یہ بھی بتایے کہ کون ہے وہ ۔۔ جو گرینیڈ، لانچر، بم حتی کہ دھماکہ خیز مواد انڈرویر میں چھپاکرجہاز میں سوار ہوتا ہے اور خودکش حملے کرتا ہے؟ اگرآپ کے پاس جواب نہیں تو میں یہ بتاسکتا ہوں کہ صرف پاکستان میں 87 دھشتگرد حملے ہوے ایک ہزار سے ذیادہ افراد ہلاک ہوے اور اسکی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی یہ ذرایع پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹدیز اسلام آباد کے مطابق ہیں،
اب دوبارہ یہ دیکھیں کہ اپنے ہی گھر (ملک) میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی ذمہ داری کون قبول کرتا ہے؟