سیاسی دنگل
عطا آباد جھیل سے نکاسی کا عمل شروع ہونے کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا ہے ویسے ویسے اس جھیل کے متاثرین سیاسی دنگل کا شکار ہو رہے ہیں۔
اب آپ اکیس مئی کی بات لے لیجیے۔ ایک 'خدمت' کرنے والی فاؤنڈیشن کے اہلکار جن کی قیادت کراچی کے سابق ناظم کر رہے تھے ہنزہ کے علاقے کریم آباد پہنچے اور اصرار ان کا یہ تھا کہ وہ عطا آباد جھیل پر جائیں گے اور جائزہ لیں گے۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ ان متاثرین کا درد دل میں لیے آئے ہیں اور سامان لائیں ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ سامان لاہور سے چل پڑا ہے۔ پانچ ماہ سے زائد گزرنے کے بعد بھی سامان صرف 'چل پڑا' ہے!
ایک اور جماعت کے اراکین امداد دینے پہنچے تو ان سے کریم آباد پر لگے 'نائن زیرو' کے بورڈ کے سامنے ملاقات ہوئی۔ اچھا ہے کہ امداد دینے آئے۔ آخر کار اس مشکل وقت میں ووٹ حاصل کرنے والے ہی کام نہیں آئیں گے تو کون آئے گا۔ لیکن امدادی کارواں میں امداد سے زیادہ تو ان لوگوں کی گاڑیاں تھیں جو امداد دینے آئے تھے۔
اور اس سیاسی دنگل میں آخر میں جو میدان میں اترے وہ دو بھائی تھے۔ انہوں نے لاکھوں کی مالی امداد کا اعلان کیا۔ سیاسی دنگل میں کم از کم وہ وزیر اعظم سے تو اچھے ہی رہے جو بغیر کچھ کہے ہی ہنزہ کا دورہ ختم کر کے چلے گئے۔ ان دو بھائیوں کے ساتھ میڈیا ٹیم کو سختی سے احکامات دیے گئے تھے کہ جھیل کی فٹیج بناؤ۔ انتظامیہ نے لاکھ زور لگا دیا کہ خطرہ ہے اجازت نہیں لیکن پھر شیر کے سامنے کس کا زور چل سکتا ہے۔ آخر میں ہوا کیا کہ میڈیا ٹیم کی گاڑی مٹی کے دلدل میں پھنس گئی اور شام ہونے کے بعد ایس ایچ او کو اپنی گاڑی لے جا کر ان کو 'محفوظ مقام' پر منتقل کرنا پڑا۔
لیکن متاثرین اس سیاسی دنگل میں صرف جھیل کی جانب دیکھ رہے ہیں اور اس سوچ میں ہیں کہ کب وہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔
تبصرےتبصرہ کریں
’وابستہ ہے مفاد یہاں
ہر اِک دوستی کے ساتھ‘
جھوٹے وعدے، جھوٹی تسلیاں ، جھوٹے دلاسے عوام کو نہ اب تک عقل آئی اور نہ مستقبل قریب میں اس کی آمد کا کوئی چانس ہے۔ وہ کیا کہا ہے آج وزیر ’ناپانی نا بجلی‘ نے کہاس جھیل سے پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
جناب رضا ہمدانی صاحب! ايسی آفات کی مينيجمنٹ ويسے بڑا صبر آزما اور جان جوکھوں کا کام ہوتا ھے۔ مگر طاقتور حکومتيں ايسے وقتوں ميں جوانمردی اور دليری سے مقابلہ کرتی ہيں۔ کشمير کے زلزلے ميں مشرف حکومت کی کارکردگی موجودہ حکومت کے ليے مثالی ہے۔ سياستدان تو ہر کام ميں پہلے اپنی سياست کو ديکھتے ہيں۔ مگر عوام کا دکھ درد محسوس کرنے والے اللہ لوگ حکمران کبھی کبھی ملتے ہيں۔
ہمدانی صاحب! آپکی بڑی مہربانی کہ ہميں لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے مطلع کر رہے ہيں۔آپ نے سب کا تذکرہ بھی بڑے ہی درست و مناسب انداز سے کيا ہے جو درد مند دل ليکر وہاں بظاہر امداد بہم پہنچانےجبکہ در حقيقت اپنی اپنی سياسی دکان چمکانے پہنچے ہيں۔ يہ لوگ ميڈيا کا استعمال اور لوگوں کے جذبات سے کھيلنا اچھی طرح بلکہ مہارت سے جانتے ہيں۔ بينر لگا کر ٹرکوں کے ہمراہ تصويريں بنوانے والے اصل ميں کرتے کيا ہيں اس کا تو بعد ميں پتا چلتا ہے۔ اب حکومت کو ہی لے ليں انکی ميڈيا ٹيم نے بھی کيا کيا جتن کيے اور کوريج کے ليے کيا کيا پاپڑ بيلے مگر عوام کا رد عمل کيا سامنے آيا۔خير ايسی صورتحال کے پيش نظر شاعر نے کيا خوب کہا ہے کہ ’ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے!‘
بد قسمتی سے پاکستان ايک ايسا ملک ہے جہاں سياستدان اپنی سياست کرنے کے ليے بس کسی موقع کی تلاش ميں رہتے ہيں اور جيسے ہی کوئی موقع ان کے ہاتھ لگتا ہے چل پڑتے ہيں۔ وہاں ايک دھواں دھار تقرير کرتے ہیں اور وہاں ان کے کرائے کے مداح پہلے سے مصيبت زدہ لوگوں کو واہ واہ کہنے پر مجبور کرتے ہيں۔ اور آخر ميں سياستدان اپنے روائتی نہ پورے ہونے والے بلند بانگ وعدے کر کے لوٹ جاتے ہيں۔ کاش سياستدان صرف کام کرتے اور ان کو تقرير کی زحمت ہی نہ اٹھانا پڑتی۔ امريکہ ميں اباما پر تنقيد ہو رہی ہے کہ وہ ميکسيکن گلف ميں بہہ جانے والے تيل کو صاف کرنے جائیں اوراگر اپنے ہاتھ سے بھی کام کرنا پڑے تو کریں۔ مجھے اپنے پيارے ملک پاکستان کے سياستدان ياد آگۓ جو اپنے ہاتھ سے پانی گلاس ميں ڈالنے کو اپنی توہين سمجھتے ہيں۔ سياستدان تو سياستدان ہیں يہاں تو ايک معمولی کلرک يا آفيسر نے کئی کئی چپڑاسی رکھے ہوتے ہيں جو دير گئے دفتر ميں صاحب کی خدمت ميں لگے رہتے ہيں۔
صاب جی مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے دوکانداری چمکانا ہماری قومی روايت بن چکی ہے اور يہی ان متاثرين کے ساتھ ھو رہا ھے۔ ھر مسئلے ميں عام آدمی ھی پستا ھے۔ سب سے پہلے ھم پہنچے کی صدا ميڈيا سے ليکر رفاہی اداروں تک لگاتے ہیں۔
ہمارے ملک کا یہ المیہ رہا ھے کہ نیکی کا اجر اللہ سے لینے کی بجائے میڈیا سے لینے کی کوشش کی جاتی ھے اور یہ دکھانے کی کوشش کی جاتی کہ حاتم طائی کے بعد اُن کو جگہ ملنی چاھیے اگر نہیں ملتی تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ تو وہ لوگ ھیں جو بھوکے کوروٹی دیتے ہوے فوٹو اخبار کے پہلے صفہ پر لگوانے کے عادی ھیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ سمجھتے ہیں ان کی نیکیاں ضائع ہو گیں۔ اگر اس معاملے میں حکومت یا کو ئی شخص بھی مخلص ہوتا تو آج وہ اس نو بت تک نہ پہنچتے۔ میں یہ سمجھتا ھوں کہ وہاں کے لوگ بھی اپنے ساتھ مخلص نہیں ھیں۔ اگر وہا ں ہر شخض پہاڑ کا ایک پتھر بھی اُٹھا کر دوسری جگہ رکھتا تو آج ایسی نوبت نہ آتی اور یہ اپنی جگہ پر سکون سے ہوتے اور اس پر فخر کرتے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ساری ذمہ داری حکومت کی ہے اور اسے اس میں ایک انتہا تک مخلص ھونا چاھیے۔
نام نہاد خدمت خلق کی تنظيميں يا مصيبت زدہ لوگوں کو خدا کے عذاب سے ڈرا کر اپنا فلسفہ جھاڑنے والی مذہبی جماعتيں امداد دينے نہيں آتيں بلکہ اپنی تصویريں مصيبت زدہ افراد کے ساتھ اتروا کر ملک کے دوسرے حصوں سے لوگوں کی معصومی کا فائدہ اٹھا کر اپنے ليے چندے کے نام پر دولت سميٹتی ہيں۔يہ ہی تصويريں ويب سائٹس پر لگا کر دنيا کے کونے کونے سے ہمدرد افراد ڈھونڈتی ہيں اور اس الميے کی بنيادی وجہ حکومت کی بے بسی ہے۔
ہمارے ملک میں سیاست دان آفت کو بھی ’اپورچونیٹی‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں. یہ سب ٹی آر پی بڑھانے کے طریقے ہیں۔ بھلا ان سیاست دانوں کو متاثرین سے کیا غرض؟ انہیں تو ملک سے ہی کوئی غرض نہیں۔ سب لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ بھلا کسی کو کیا دینگے!
آپ بھی تو دنگل ميں منگل کرنے گۓ ہيں اس سے اچھا امداد لے جاتے۔