| بلاگز | اگلا بلاگ >>

پانی کی کہانی

اصناف:

آصف فاروقی | 2010-06-07 ،10:40

ابھی ابھی آ کسفیم سے جویریا افضل کا فون آیا تھا۔ وہ سندھ کے ساحلی شہر بدین جا رہی ہیں جہاں ان کی تنظیم گلوبل وارمنگ کے باعث سطح سمندر بلند ہونے سے متاثر ہونے والی زرعی زمینوں کے کاشتکاروں کو نئی زندگیاں شروع کرنے میں مدد دینے کا ایک منصوبہ مکمل کر چکی ہے۔ جویریا نے بتایا کہ وہ یہ دیکھنے جا رہی ہیں کہ سطح زمین کی جانب بڑھتے سمندر کے ہاتھوں بے زمین ہونے والے کاشتکاروں کے نئے کاروبار کیسے چل رہے ہیں۔


افسوس کے میں اس وقت ان کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ مجھے لیہ پہنچنا ہے۔ جہاں دریائے سندھ کی بپھری لہریں وہاں کے کاشتکاروں کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہیں جو سمندر نے بدین میں زرعی زمینوں کے ساتھ کیا۔ ہر سال مزید زرعی زمین دریا برد ہو رہی ہے۔ ہر سال مزید کسان بے زمین ہو رہے ہیں۔

اس کے بعد مظفر گڑھ کے غریب عوام ہیں جن کا سب کچھ موسمی سیلاب بہا کے لے جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ اس علاقے میں لوگ اب خوف سے گرمیوں میں فصل نہیں بوتے کہ سیلاب آجائے گا۔ زمین کا بنجر ہونا، کٹاؤ اور پھر بیماری اور بڑھتی گرمی۔ بارش مہینوں نہیں ہوتی، لیکن جب ہوتی ہے تو سیلاب کا باعث بنتی ہے۔

ایک طرف سمندر پھیل رہا، دوسری جانب دریا کا مزاج بپھرا ہے اور صحرا الگ ہرے بھرے کھیتوں کو نگل رہا ہے۔

یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اور کیسے رکے گا۔

یہی جاننے کے لیے میں کوہ ہمالیہ کے گلیشئرز سے لے کر سندھ کے ساحل تک ک سفر پر نکل رہا ہوں۔ بیچ میں پاکستان کی زرعی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے دریائے سندھ کا حال معلوم کریں گے اور ان لوگوں کا جو اس کے قریب رہتے ہیں اور آج کل اس کے مزاج سے ڈرے ڈرے نظر آتے ہیں۔

میرے ساتھ اس سفر میں شامل رہنے کے لیے ان صفحات کو دیکھتے رہیں۔

اگر اپنی رائے دینا چاہیں، کچھ پوچھنا ہو یا بتانے کی خواہش ہو تو اس صفحے پر دیے گئے لنک سے رابطہ کریں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 11:49 2010-06-07 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    اسلام علیکم! محترم آصف فارقی صاحب کو بی بی سی اردو ڈاٹ کام کا پہلا بلاگ لکھنے اور بلاگر بننے پر مبارکباد۔ جس طرح بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر آپ کی لوڈشیڈنگ بارے تحقیقی و معلوماتی تحریریں پڑھنے کو ملیں، امید ہے اسی طرح معلوماتی و تحقیقی بلاگز بھی قارئین کو پڑھنے و سوچنے و غوطے لگانے کو مہیا کرتے رہیں گے۔ شکریہ۔

  • 2. 14:35 2010-06-07 ,مصد ق خان نيا زی ميانوالی :

    صاب جی سلام، توانائی کے بحران پر خصوصی سيريز کی کامياب کوريج کی بعد ہم اس سفر کے لیے بھی آپ کے لیے دعا گو ہيں۔ جناب والا اس سفر ميں وجوہات، ان مسائل کا حل اور حکومتی دلچسپی کے بارے ميں بھی ضرور بتایے گا۔

  • 3. 17:16 2010-06-07 ,اشفاق احمد ٽالپر :

    مجھے امید ہے کہ اس دورے کے دوران آپ سندھ کی بدین شہر ضرور آئین گے جہاں دریا کا میٹھا پانی نھ آنے کی وجہ سے لوگ میٹھے پانی کے لیئے دس دس میل سفر کرتے ہیں اور چوپائے اور کھیتی باڑی بلکل تباھ ہو چکی ہے صرف دیائے سندھ کا میٹھا پانی نہ آنے کی وجہ سے

  • 4. 17:32 2010-06-07 ,Dr Alfred Charles :

    آصف صاحب!اس حساس مسلے پر توجہ مذکور کرنے اور رائے عامہ ہموار کرنے کا بيڑااٹھانے کا شکريہ۔آج کل کے اس نفسا نفسی کے دور ميں کوئی اس طرف سوچنے اور وقت دينے کا قائل ہی نہيں۔لوگ گلوبل وارمنگ اور اس کے نتيجہ ميں مرتب ہونے والے اثرات کو تسليم کرنے پر تيار ہی نہيں۔اب جب طوفان وبادباں اپنے اثرات دکھارہے ہيں تو يہ موسمی تغيرات عقل مندوں کے لئيے اشارہ نہيں تو اور کيا ہے؟اس عالمی حدت کے مسلے سے نبرد آزما ہونے کے لئيے سنجيدہ لوگ کہہ رہے ہيں کہ کچھ کرو ابھي،ابھی اور ابھی کل نہيں کيونکہ ہم يہ تاخير برداشت نہيں کرسکتے۔دوسری جانب کئی لوگ غافل ہوکر خوابخرگوش کے مزے لوٹ رہے ہيں اور دينا و مافيا سے بے خبراس مسلے سے چشم پوشی کررہے ہيں

  • 5. 19:16 2010-06-07 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    آداب عرض! گذشتہ تریسٹھ سال پر نظر دوڑائی جائے تو نظر آتا ہے کہ سیلاب، طوفان، زلزلے، قحط، خشک سالی اور لینڈ سلائیڈنگ ایسی قدرتی آفات ہیں جو پاکستان میں وقتآ فوقتآ رونما ہوتی رہی ہیں۔ پاکستانی تاریخ میں ان قدرتی آفات کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی، اس کا خیال ہی جسم میں جھرجھری پیدا کرنے کو کافی ہے۔ ماضی قریب میں ملک میں آنے والے سیلاب، بارشوں اور طوفانوں کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے گوشواروں کو دیکھ کر آسانی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آج بھی سیلاب، طوفان اور بارشوں کی وجہ سے بہت تباہی ہوتی ہے۔ ریاستی مشینری ان قدرتی آفتوں سےنبٹنے میں ناکافی ہے اور اس بات کا اندازہ گذشتہ روز ‘پٹ‘ طوفان کے کارن گوادر، کیٹی بندر اور کراچی میں ہونے والی بارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی اور اموات سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ساحلی علاقوں پر سمندر کے چڑھ آنے اور دریائی کٹاؤ سے کاشتکاروں اور ماہی گیروں کو روزگار اور رہائش جیسے مسائل کر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
    ‘مسافروں کو سائباں میں مل گئی اماں، مگر
    وہ عافیت نہ مل سکی جو سایہء شجر میں تھی‘

  • 6. 21:30 2010-06-07 ,علی گل،سڈنی :

    پاکستان ميں گلوبل وارمنگ(دنيا ميں درجہ حرارت کا بڑھنا)کو اتنی اہميت نہيں دی جاتی جتنی اس کی ضرورت ہے اور لوگوں ميں اگر اس کے اثرات سے پيدا ہونے والی نقصان دہ تبديليوں سے آگاہی ہوجائے تو تو وہ تمام نقصانات کم ہوسکتے ہيں جن کا آپ نے ذکر کيا ہے۔اس کے ليۓ حکومتی اور عوامی سطح پر پلينگ کی ضرورت ہے مثلا” پلاسٹک بيگ کا استعمال ترک کرکے کپڑے کے تھيلے استعمال کيۓ جائيں۔حليم يا چھولے لانے کے ليۓ برتن کا استعمال وغيرہ۔رہی بات باقی دنيا کی تو يقينا” پاکستان کی نسبت دوسرے ملکوں ميں انڈسٹريز زيادہ ہيں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ يہ مغربی ممالک اور جاپان انڈيا اور چين وغيرہ ہی ہيں ليکن اس مہم کو دنيا بھر ميں چلانے کے ليۓ ابتدا اپنے ملک سے ہی کرنی چاہيۓ۔

  • 7. 9:08 2010-06-08 ,Ahmad Abbas Lahore :

    ھمارے ملک کی عوام کے ساتھ بہت بڑی ستم ضعیفی رہی رھی ھے کہ وہ اپنے ہی ملک پاکستان میں بے گا نو ں کی طرح زندگی گزا ر رھے ھیں ملک میں وصائل کی کمی نہیں ھے مگر اُس کا استعما ل کرنے میں بہت زیادہ بے انصافیاں ہیں اور یہی وجہ ھے کہ عوام میں احساس محرومی بدرجھ اُتم پائی جاتی ھے اگر حکمران آج سچی نیت سے سوچ لیں اور یہ فیصلہ لیں کہ یہ عوام ہماری عوام ھے اور ہمیں ان کی بھر پور خدمت کرنا ہے تو ملک اور ہم نے یہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کر لے گا اور عوام کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے اور عوام بھی خوش حال ہو جائے گی لیکن حکمرانوں کو اس سے کیا

  • 8. 10:15 2010-06-08 ,رضا :

    فاروقی صاحب ، کيسے روک پائيں گے زرعی زمينوں کا يہ ضياع - بجلي کے بغير جي رہے ہيں ليکن ڈيم نہ بناۓ کہ دريا کا پانی کم ہو جانے پر سمندر آن گھسے گا . . . جو پھر بھی ہو کر رہا - خدا رحم کرے اس ملک پر - اس کے ساکنان تو اس کي گت بنا ہي رہے تھے اب قدرت بھی ناراض نظر آتی ہے -

  • 9. 14:59 2010-06-08 ,Tanveer Arif :

    يہ بہت ذبردست کام ہے؛ ميں خود يہ کئ مرتبہ کرچکا ہوں- گلوبل وارمنگ تو اپنی جگہ مگر ہمارے لوگ اور حکومت جس طرح پانی کو ضاُع اور آلودہ کر رہے ہيں اس سے ہم لوگ اپنا بہت نقصان کريں گے-Society for Conservation and
    Protection of Environment (SCOPE

  • 10. 17:03 2010-06-08 ,رياضت برڙو :

    آپ کا يه سفر ڪتني دن ڪا هو گا؟ اس ڪا انتظار رهے گا

  • 11. 20:39 2010-06-08 ,Nadeem Ahmed :

    آپ بہت بڑا کام کرنے جا رہے ہيں، اللہ آپ کو سلامت رکھے- آپ کی ريسرچ کا شدت سے انتظار رہے گا-

  • 12. 7:28 2010-06-09 ,ڈاکٹر اعجاز اختر :

    جناب آصف فاروقی صاحب کو ہم سب کيطرف سے بہت بہت مبارکباد-ہم اميد رکھتے ہيں کہ ريسرچ سے بھرہور بلاگ پڑھنے کو مليں گے - اپ کے اس موجودہ پراجيکٹ کے حوالے سے ايک کمينّٹ --- کہ امريکی تھنک ٹينک نے موجودہ صدی کو پانی کی صدی قرار ديا ہے اور تمام دنيا ميں آنے والے پچاس برسوں ميں پانی کی شديد کمی کا خدشہ ظاہر کيا ہے- جس رفتار سے ہم اپنے پينے کے پانی کے صاف زرائع ضائع کر رہے ہيں مجپے يوںلگتا ہے کہ پاکستان ميں صاف پانی کی قلت اگلے بيس سال ميں ہی پيدا ہو جائے گی -

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔