'شناخت کا ناچ'
میرے پاس اسلام آباد کے بیالیس سال پرانے رہائشی کریم یوسف آئے ہیں۔ ان کا مسئلہ کافی توجہ طلب ہے۔ انہیں ہر پانچ سال بعد اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔
اس کی وجہ نیا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہے جس کی اب ہر پانچ برس بعد ہر پاکستانی کو تجدید کروانی ہوتی ہے۔ ہر مرتبہ اندراج کا ادارہ نادرا بقول ان کے ان سے 'بھونڈے سوالات' پوچھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نادرا کی زبان میں وہ ایس آئی ہیں یعنی 'سسٹم انڈیپینڈینٹ'۔ انہیں اکثر نادرا کے چکروں کے دوران یہ الفاظ سننے کو ملے لیکن اب معلوم ہوا کہ اس کا آخر مطلب کیا ہے۔
ایس آئی کا مطلب ہے کہ اس شخص کا کسی دوسرے پاکستانی شہری کے ساتھ تعلق نہیں بن رہا ہے۔ ان کے پاس ان کے والد کا ہاتھ سے لکھا جانے والا پرانا شناختی کارڈ تو ہے لیکن ان کی قیام نادرا کے کافی پہلے رحلت ہوگئی تھی۔ وہ کمپیوٹر کارڈ سے مستفید نہیں ہوسکے۔ والدہ غیر ملکی ہیں لہذا انہیں کبھی اس پاکستانی دستاویز کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ایک بھائی ہیں جو کمپیوٹر کارڈ کے آنے سے قبل ہی آسٹریلیا جا بسے۔
تو وہ اب اپنا تعلق کسی سے کیسے ثابت کرسکیں گے؟ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اب تک سات پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے حصول میں انہیں کبھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوا۔ پرانا دیکھایا، نیا لے لیا۔ لیکن شناختی کارڈ ان کے لیے غیرضروری درد سر بن گیا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ انہیں ایک اور مشکل اپنے پرانے بینک اکاونٹ بند کروانے میں پیش آ رہی ہے۔ بینک والوں کا کہنا ہے کہ نادرا کے پاس جاکر پہلے اپنے کوائف درست کروائیں تو تب ہی بند ہوگا۔ وہ گزشتہ ایک ماہ سے نادرا اور بینک کے درمیان کسی فلمی نادرا کی طرح ناچ رہے ہیں۔ ایسے کا کیا ہو؟
تبصرےتبصرہ کریں
‘بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘
پاکستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔۔۔آخر پاکستانی ہونے کی کچھ نہ کچھ سزا تو ملے گی نہ۔
گڑ بڑ ھے
ہمارے ساتھ بھی یہ ہے۔ ہمیں بھی ایس آئی نظام نے دو ماہ سے رلایا ہے اور اس کے بعد بھی نہ بنا۔ اب میں پاکستانی ہوں یا نہ وہ تو اب میں بھی بھول گیا ہوں۔ دوسرے ممالک میں عمر بھر کے لیے شہریت ملتی ہے مگر یہاں پر پانچ سال کے لیے۔ واہ رے حکومت نئے نئے طریقے ڈھونڈ رہی ہے رلانے کے۔
جناب ہارون رشید صاحب مجھے نادرا کے قیام سے قبل اور بعد شناختی کارڈ بنوانے کا موقع ملا۔ نادرا سے قبل شناختی کارڈ بنوانا جوے شیر لانے کے مترادف تھا اور جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ ہاتھ سے لکھا ہوا شناختی کارڈ اپنی ذات میں ہی جعلی جعلی سا لگا کرتا تھا۔ شناختی کارڈ دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے تھے تو کارڈ ملتا تھا۔ دس میں سے ایک شناختی کارڈ پر کوی غلطی رہ جاتی تھی یا غلط اندراج ہوجاتا تھا اور بس پھر ایک اور نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہو جاتا تھا۔ اس کے برعکس نادرا کے قیام کے بعد اس کے دفتر کی دنیا ہی کوئی اور تھی اور ہم جیسے سادہ لو دیہاتی کو یہ یقین کرنے میں کچھ وقت لگا کہ ہم پاکستان میں ہی ہیں۔ چاک و چوبند عملہ ہسنتے مسکراتے چہرے کام میں چستی اور جدید ترین کمپیوٹرز کا استعمال۔ وہیں پر آپ کا فوٹو بنا، وہیں پر تمام کوائف درج ہوے اور وہیں پر ایک شیٹ آپ کو تھما دی گئی کہ چیک کریں کوئ غلطی تو نہیں ہے۔ آپ کی کوائف سے تسلی کے بعد آپ کو اپنا کارڈ ملنے کی تاریخ ۔۔۔ یہ سب کچھ ناقابل یقین حد تک حسین اور خوبصورت تھا۔ اس تمہید کا مقصد صرف نادار کے عملے کی کارکردگی کی تعریف کرنا تھی جس کا مجھے بڑ ے سالوں بعد آج موقع ملا وہ بھی اگر جناب نے یہ تبصرہ شائع کر دیا۔۔
کریم یوسف کا معاملہ بالکل الگ اور دلچسپ ہے۔ میرے خیال میں ایسے کیس پوری دنیا میں اسی طرح سے ٹریٹ ہوتے ہوں گے۔ نادرا اس معاملے میں معصوم ہے۔
یہ پاکستان میں نیا نہیں ہے۔ جہاں بھی آپ جائیں مسائل ہوں گے۔ میرے خیال میں یہ انتظامی، سیاسی یا نوکرشاہی یا پھر خود لوگوں کی جانب سے پیدا کئے جارہے ہیں۔ اس ملک کے پاس بہت سے وسائل ہیں لیکن یہ ترقی نہیں کر رہا کیوں؟ جواب کا انتظار ہے۔
ہارون صاحب ! آپ نے بہت اچھا بلکہ نيکی کا کام کرکے کہ نادرا سے متعلق يہ روداد لکھ دي۔ نادرہ کے متعلقہ اعلی اہلکار شايد اس جانب متوجہ ہوں اور لوگوں کی پريشانياں و مشکلات کچھ کم ہوسکيں۔ اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا۔
اگر آپ کسی اچھے بيرون ملک ميں رہ رہے ہوں اور آپ کو پاکستانی دفاتر کی ياد ستائے تو کسی کام کے بہانے پاکستانی ايمبيسی چلے جائيں آپ کو وہی پروٹوکول ملے گا يعنی نظراندازی، مسکراہٹ کی بجائے حاکمانہ انداز کے سوال، کيا، کيوں اور کيسے وغيرہ اور اکثر جمعہ کے دن صبح دس بجے کے بعد افسر غائب يا کل آنا بلکہ بعض دفعہ تو فرمائش بھی کر ديتے ہيں کہ فلاں جگہ سے آپ آئے ہيں وہاں کی مشہور ڈش ہی لے آتے وغيرہ۔ پاکستانی محکمے لوگوں کے مسائل حل کرنے نہيں بلکہ گمبھير بنانے بيٹھے ہيں۔
آپ نے يہ تو بتايا نہيں کہ ہر دفعہ پاسپورٹ بنوانے پہ ہر کس و ناقص کو اپنی مسلمانی (يا کفر) کی تجديد بھی کرانی پڑھتی ہے-
‘قومی شناختی کارڈ‘ کا سیاسی و بنیادی مقصد ‘قومی یکجہتی‘، ‘قوم‘ جبکہ خصوصآ ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ یعنی ‘نظریہ پاکستان‘ کا وجود دکھانا ہوتا ہے۔ حالانکہ خیبر پختون خواہ، ہزارہ، سرائیکستان، جناح پور، گلگت و بلتستان جیسے سلوگنز و ایشوز کی موجودگی میں میڈیا، سیاستدانوں اور لسانیت پسندوں کا ‘پاکستانی قوم‘، ‘قومی یکجہتی‘ کے نعرے مارنا اور بیان بازیاں کر کے ‘سارے جہاں کا درد ہے ہمارے جگر میں‘ ظاہر کرنے کی کوشش کرنا عوام کو گمراہ کرنے اور ان کی آنکھوں میں دن دھاڑے دھول جھونکنا ہے۔ جب قوم کا وجود ہی نہیں تو پھر ‘قومی شناختی کارڈ‘ روشناس کروانے کا کیا مطلب؟ قومی شناختی کارڈ‘ تو تاجک، ازبک، افغانی، اور دیگر مہاجروں خصوصآ ‘بھائی لوگ‘ کے پاس جب دیکھنے کو ملیں تو پھر اس شناخت نامے کی بنیادی روح ہی فوت ہو جاتی ہے۔ نیز پانچ سال بعد شناخت کی تجدید کروانے کا کیا مقصد؟ پانچ سال بعد دوبارہ شناخت کی تجدید کی عام وجہ یہی سمجھی جاتی ہے کہ مال پانی بنانے کے لیے نادرا نے ایسا کیا ہے بالکل جیسے موٹر رجسٹریشن اتھارٹی نے نمبر پلیٹیں بھی خود ہی فروخت کرنے کا کام سنبھال لیا ہے اور نمبر پلیٹ کے الگ چارجز لیے جاتے ہیں۔ ‘قومی شناختی کارڈ‘ کی بجائے ‘صوبائی شناختی کارڈ‘ کا اجراء کرنا زیادہ بہتر رہے گا کہ صوبوں کی اپنی ‘قومیت‘ کو وجود ہے اور اس قومیت کے اجزا یعنی زبان، رہن سہن، بود و باش، لباس، لب و لہجہ، معاشرت، کھیل، لوک ادب وغیرہ بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اصولی طور پر بھی دیکھا جائے تو ‘صوبائی شناختی کارڈ‘ بننے کے بعد ہی ‘قومی شناختی کارڈ‘ بننا چاہیے کیونکہ اس سے ‘مرکز‘ چاروں صوبوں کے ‘صوبائی شناختی کارڈ‘ کو قبول کر کے جب ‘قومی شناختی کارڈ‘ جاری کرتا ہے تو درحقیقت وہ چاروں صوبوں کی قومیتوں کے وجود اور ان کی علاقائی شناخت کو قبول کرتا ہے جو کہ ملک کی ‘قوم‘ کی تشکیل کے لیے لازمی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان ميں دفتری نظام ميں خواہ نادرا ہو يا کوئی بھی ادارہ ہے سائل کی مدد کا کوئی تصور نہيں ہے اور سارا زور کام ميں روڑے اٹکانے پر لگايا جاتا ہے تاکہ مجبور لوگوں سے رشوت لی جائے جب تک ملک ميں رشوت کا خاتمہ نہيں ہوتا لوگ بيچارے جائزکاموں کے لئے بھی خوار ہوتے رہيں گے
حکومت جب تک عوام کو بنيادی مسائل میں پھنساۓ گی تب تک اسے عوام تنگ کرتی رھے گي۔ ملتان کے سيدزادے وزيراعظم کو عوام کے مسائل کے لیے بھی ٹائم نکالنا چاھیے کہ عوام مسائل کی کس چتا ميں جل رھے ھيں۔
بات پانچ سال کی ہوتی تو تھیک ہوتا یہاں تو ایک ہی گھر میں کسی کا سناختی کارڈ پانچ سال تو کسی کا دس سال بعد ختم ہوتا ہے۔ ویسے نادرا کو قابو کرنا کسی ایک کے بس کی بات نہیں۔
یہ سب پیسے کے لیے ہے۔ اگر ہر پانچ سال بعد یہ آپ کو نہیں طلب کرتے تو ان کا خرچہ کیسے چلے گا۔ بیرن ملک پاکستانیوں کے لیے پہلے پندرہ سال میں کارڈ پندرہ ڈالر میں ملتا تھا اب سات سال میں بیالیس میں ملتا ہے۔
جناب بلکل ایسا ہی واقعہ میرے ساتھ بھی ہوا 31 مئی کو جب میں پاسپورٹ بنوانے گیا تو اعلی نسل کے افسر نے درخواست پہ اعتراض لگا دیا حالانکہ مجھے اپنے مشین ریڈیبل پاسپورٹ کی تجدید کرانی تھی۔ اس سے پہلے بھی دو پاسپورٹ بنا چکا ہوں لیکن پتہ نہیںکیوں اعلی افسر کو میرے پاکستانی ہونے پہ شک ہوگیا ۔۔۔ والدین کے کارآمد پاسپورٹ بھی کام نہ آسکے لیکن اللہ کے کرم اور ڈائریکٹر کی مہربانی سے درخواست جمع ہو ہی گئی۔
ليکن کمپيوٹر سسٹم کو کسی کے مرنے کا کيسے پتہ چلے گا۔ ہم لوگ بھی تو اپنی ذمہ دارياں پوری نہين کرتے۔
نادرا ميں يہ خودکار نظام ہے جو طے کرتا ہے کسی شخص کا سٹيٹس يا کوائف ميں تبديلی کب تک متوقع ہے۔ وہ تاريخ آنے کے بعد نئی تصوير اور کوائف کے ساتھ نئے کارڈ کا حصول ضروری قرار ديتا ہے۔ نادرا ميں بےحساب انتظامی ِخرابياں ہيں مگر اس نظام کی افاديت سے قطعا انکار نہيں۔ سياسی نقطہ نظر سے کئےگئے تبصروں سے قطع نظر يہ جديد پاکستان کی جانب ايک اہم قدم ہے
یہ ہماری عادت ہے ہم ہر چیز پر تبصرہ کریں اور اچھے کام کی تعریف نہ کریں۔ نادرہ نظام ہمارے ممالک کے لیے اچھا ہے۔
ہر غریب آدمی کو مشکل ہے۔ معلوم نہیں یع حکومت کر کیا رہی ہے؟
پانچ سال اس لئے کے ہمارے ملک میں اکثر لوگ امریکی، یہودی، بھارتی اور روسی ایجنٹ بن جاتے ہیں۔ ہر پانچ سال بعد تجدید کروانا اسی لیے ضروری ہے۔ ویسے ایک مسلمان ہونے کا بھی کارڈ ہونا چا ہنے جس کی تجدید ہر سال ہوا کرے۔
براے مہربانی نادرہ کی ویب سائٹ پر جا کر اپنی شکایت درج کروائیں، اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
پاکستان زندہ باد
ہم ایسے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں نادرا نے اچھا کام بھی کیا ہے۔ میرا نادرہ سے تعلق نہیں لیکن میرے خیال میں بہتری کی گنجائش پھر بھی ہے۔
اگر آپ شادی شدہ ہیں تو محض اپنی بیوی کا کمپوٹر کارڈ منسلک کر دیں۔
ہر کسی کو اپنی دستاویزات مکمل کرنی چاہیے۔
پاکستانی کو میسر نہیں انسان ہونا۔۔۔حد ہے سسٹم انڈیپینڈینٹ ہونے کی سب سے بڑی مثال تو بلیک واٹر اور دیگر امریکی شہری ہیں۔
ايم ايم عالم حو پاک فضائيہ ميں 65 ميں طيارے مار گرانے کا ریکارڈ رکھتے تھے رٹائرمنٹ پر جب ان سے ان کی شہرئت طلب کرسکتے ہيں تو آپ کا احتجاج چہ مانی دارد۔
میں بی بی سی اردو کا باقاعدہ قاری ہوں اور مجھے بی بی سی بہت پسند ہے۔ آج میں تھوڑا سے ہارون صاحب کو بتانا پسند کروں کا کہ میرے ہم وطنوں کو اگر اتنی ہی نفرت ہے تو وہ یہ ملک چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ ہارون صاحب تو اعلی درجے کے صحافی ہیں سمجھ نہیں آتی یہ لوگ آئینے کا صرف ایک رخ کیوں دیکھتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو حکومت یہ مسئلے ہیں۔پتہ نہیں یہ لوگ کن سے اور کب خوش ہوں گے۔
ہارون صاحب نے مسئلے کو بیان کیا لیکن کچھ الگ طریقے سے۔ سسٹم انڈیپنڈینث ایک روکاوٹ ہے لیکن اتنی نہیں جتنا ہارون صاحب نے بیان کی۔ سسٹم انڈیپنڈینث میں کمپیوٹر فیملی لنکج دیکھتا ہے۔ اگر فیملی میں کوئی اور درج نہیں ہے تو کمپیوٹر اس کو سسٹم انڈیپنڈینث میں بلاک کر دیتے ہے۔ اس روکاوٹ کی بھی کئی وجوہات ہیں۔ ہماری ملک میں بنگالی، انڈین اور افغانی وافر مقدار میں پائے جاتے۔ ایک غیر ملکی اپنا تو کارڈ بنوا سکتا ہے لیکن اپنے کسی اور خاندان والے کا نہیں تو اس وجہ سے یہ بلاکج متراف کرائی گئ۔
کریم یوسف صاحب کے مسئلے کا حل بہت آسان ہے۔ اگر ان کے کوئی بہن بھائی کا کارڈ نہیں ہے تو ان کی زوجہ کا تو ہوگا جس سے یہ روکاوٹ دور ہوسکتی ہے۔ باقی مجھے اس بات پر ہنسی آ رہی ہے کہ ہر پانچ سال بعد تجدید کیسے ہو سکتی ہے۔ میرے مطابق نادرا کارڈ دس سال کے لئے جاری کرتا ہے۔ یہ پانچ سال کا چکر کہاں سے آ گیا۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے ہارون صاحب آپ قلم کا استعما ل بہت غلط کرتےہیں اور آپ جسے صحافی ہی صحافت کو بدنام کر رہے ہیں۔ تو باقی جن لوگوں کو حکومت اور وطن عزیز سے مسئلہ ہے وہ فورا یہاں سے دفا ہو سکتے ہیں۔
جواب: بھائی مجھے خود اپنے کارڈ کی پانچ سال بعد تجدید کروانی پڑی ہے۔ بات صرف اس ایک مسلے کی نشاندہی اور اس کے حل کی صورتیں جانا ہے۔
يار- اس ميں رونے کی کيا بات ہے؟ ہم جيسے اگر ہر پانچ سال بعد اپنا قومی شناختی کارڈ تجديد کرواتے ہيں تو موصوف کو کيا مسئلہ ہے؟ رھی بات سوالوں کي تو وہ ان لوگوں کی ذمہ داري کا حصہ ہے- مفت ميں تلملانے کی ضرورت نہيں- اگر بينک کا مسئلہ ہے تو محترم پيسےجمع مت کرواو- منی لانڈرنگ کا کيس نہيں ہوگا-
یہ ہماری قوم کا لمیہ ہے کہ ہم غریب عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ نادرہ افغانوں کے پاس جعلی قومی شناختی کارڈز کے بارے کچھ کیوں نہیں کرتی؟
بہت برا ہو رہا ہے۔ نادرا کو ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے اور ان کےمسلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ ان کو ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ کسی کو اس قسم کا مسلہ مستقبل میں نہ ہو۔