بات یہاں تک پہنچی
امریکہ کو اسامہ بن لادن کی تلاش سن انیس سو اٹھانوے سے ہے۔ اس خاطر اس نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ کبھی افغانستان پر چڑھائی تو کبھی پاکستان کو آنکھیں دکھانا۔
اسامہ کی تلاش میں افغانستان میں امریکہ کے اب تک ایک ہزار سے زائد فوجی جانیں کھو بیٹھے ہیں اور ان کی وجہ سے کتنے عام افغان ہلاک ہوئے اس کا تو شاید ہی کسی کے پاس کوئی حساب ہو۔
پاکستانی سکیورٹی فورسز بھی بظاہر اس کی تلاش میں ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسامہ کی گرفتاری کبھی ان کی ترجیح نہیں رہی۔ خود سابق صدر پرویز مشرف کافی پہلے کہہ چکے ہیں کہ اس کی تلاش کا کام 'ٹھنڈا' ہوچکا ہے۔
اس ٹھنڈ سے بظاہر لگتا ہے کہ اب مغربی عوام میں ناامیدی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی مثالیں ایک کے بعد دوسری ملنے لگی ہیں۔ کہیں کوئی باون سالہ امریکی 'ننجا' قانون کو ہاتھ میں لے کر چترال کا رخ کر رہا ہے تو کہیں وزیرستان سے برقعہ پوش جرمن واپس لوٹتے ہوئے پکڑا جا رہا ہے۔
سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو امکان ہے کہ جلد مکی ماؤس، ٹام اینڈ جیری اور جان ریمبو بھی پاکستان سے ملنا شروع ہو جائیں گے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘
ہارون صاحب آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اور کتنے سال لگیں گے اسامہ کو ڈھونڈنے میں؟
جب فرضی کہانيوں کو ميڈيا حقيقت کا روپ دے گا تو ايسا تو ہوگا- سب سياسی ڈرامہ بازی ہے جسے ہر کوئی اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہا ہے- اگر حقيقت ہے تو وہ وہ لوگ ہيں جو قتل کيۓ جا رہے ہيں اور ان کو يہ تک پتا نہيں کہ کيوں! کوئی اسلام کے نام پر خودکشی کرکے اپنے ساتھ کئی بےگناہوں کو قتل کر رہا ہے اور خوش ہے کہ اس کے بدلے حوريں ہاتھوں ميں پھول ليے بےتاب کھڑی استقبال کريں گي- يہ بھی تو ممکن ہے کہ فرشتے آڑے ہاتھوں اس کو جہنم ميں ڈال ديں کہ تم نے اسلام کی شکل تک بگاڑ دی اور کئی بےگناہوں کو قتل کيا- دوسری طرف تو خير کہانی ہی دوسری ہے جو کہ کاميابی کے ساتھ چل رہی ہے-
قبلہ مکی ماوس اور جان ریمبو کا ملنا بعید تو نہیں ہے البتہ فی الحال شاید کچھ وقت ہے۔ تو تب تک آپ ذرا ان اشیا پر تبصرہ کریں جو بہ کثرت ابھی سے دستیاب ہیں۔ مثلا جہادی، مولوی، فوجی، اسلحہ، جاہل اور بیوقوف۔
یہ مضحکہ خیز ہے۔
صاحب جی سلام! جب قانون جيب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن جاۓ تو ايسا ہی ہوتا ہے۔ جہاں آمروں کو گارڈ آف آنر اور پرائی جنگ کو اپنے سر ليا جاۓ اور سينکڑوں سپاہی مروا کے بھی شک کی نظر سے اپنے اس صف اول کے غلام کو ديکھا جاۓ وہاں ايسی باتيں کوئی معنی نہيں رکھتيں۔
بڑی افسوس کی بات ہے کہ عامر شہزاد کو جواز بنا کر پاکستان کو بدنام کرنے والے دانشور گیری فالکز کی انتہاپسندی کے لئے استدلال کررہے ہیں۔ صاحب ہم تو سمجھتے ہیں کہ جس طرح جنوبی پنجاب میں آپریشن کی بات کی جارہی ہے اسی طرح امریکی ریاست کیلی فورنیا میں بھی آپریشن کا مطالبہ ہونا چاہئے۔
جو لوگ مغربی ممالک ميں دہشت گردی کی کارروائياں کرتے ہيں وہ اسلام کی کوئی خدمت نہيں کرتے بلکہ وہ وہاں رہائيش پزير دیگر مسلمانوں کے مصائب ميں مزيد اضافہ ہی کرتے ہيں- ان کی کارروائيوں کے بعد جو مصائب مسلمانوں کو جھيلنے پڑتے ہيں اس کی ان کو کوئی پرواہ نہيں۔ مسلمان خواتين کو اپنے آپ کو بچانے کيليۓ اپنے اسلامی لباس کو چھوڑ کر مغربی لباس پہننا ان کی مجبوری بن جاتا ہے- مسلمانوں کو اپنے نام تک بدلنے پڑ جاتے ہيں- ان کو مشکوک سمجھا جاتا ہے۔ بے گناہ مسلمانوں کو اپنے پرائے سب مار رہے ہيں۔ مگر کسے ہے پرواہ۔ ہر کوئ اپنی سياست ميں مصروف ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
اگر زرا غور سے ڈھونڈیں تو انکل اسامہ واشنگٹن میں ہی مل جائئں گے۔ وہ ان کا محفوظ گھر ہے اور وہ امریکی مہمان کا درجہ رکھتے ہیں۔ باقی سب ڈرامہ ہے۔
سب ڈرامہ ہے اور میڈیا اس کا زیادہ ذمہ دار ہے۔ اصل میں جب آپ ایک چیز کو جوکہ اصل میں کچھ بھی نہ ہو، ہر جگہ ہر وقت اچھالیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
میں بالکل عامر بھائی کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں اسامہ بن لادن امریکی ایجنٹ ہے اور وہ ہو گا بھی انہی کے پاس۔ یہ امریکہ بہادر کی ایک چال ہے کہیں اسامہ کا بہانہ تو کہیں جوہری و جراثیمی ہتھیاروں کا شور۔ مقصد ایک تیر سے دو شکار ہیں۔ بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اور نمبر دو معدنی و قدرتی وسائل پر قبضہ۔ آخر یہ سب کب تک چلے گا؟
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ تقدیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آپ کا تبصرہ حقیقت کے کافی قریب لگتا ہے۔لیکن یہ سب کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی ریاستی دہشت گردی اور اسرائیلی جارحیت کی پشت پناہی کون کررہا ہے? وہی تو ہے۔۔۔۔ جس کا اب پوری امت مسلمہ کو پتہ چل چکا ہے۔ کبھی تو مسلمان رہنماؤں کو شاید عقل آجائے۔ اور وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے سے باز آ جائیں۔ آخر میں اپنے وطن کے لئے ایک شعر عرض کرتا چلوں:-
توڑ اُس دست جفا کیش کو اے میرے رب
جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا
پہلی بات نہ صرف افغانستان اصل کھيل وسط ايشيائی رياستوں پر دسترس اور افغانستان سے براستہ بلوچستان سمندر تک مکمل رسائی يہ سارا گيم پلاٹ کر کے اس پر بڑی مستعدی سے کام جاری ہے۔ دوسری بات بنياد پسندوں کا خاتمہ جو انڈيا اور اسرائيل کے لۓ مشکلات پيدا کر سکتے ہوں- پہلے عراق کا کنٹرول اور تنصيبات پر دسترس پھر صدام کا خاتمہ-
اس کے آئل ريزرو اور تنصيبات مکمل محفوظ ہی رہيں صدام نے بالکل صحيح حالت ميں انہيں پيش کيا- اب پلان کا دوسرا حصہ اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہے- افغانستان پر گرفت ہونے تک وسط ايشيائی رياستوں ميں بھی مذہب پسند رياستوں کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔ پہلا شکار کرغستان ہوا جہاں امريکی اڈے کو ہٹانے کی آوازيں اٹھی تھيں پھر مشکل سے معياد بڑھي- اصل تو معدنی وسائل پر دسترس کا کھيل اور مسلم قوتوں کو ديوار سے لگانا ہے- طالبان القائدہ جنداللہ يہ سب امريکہ اور اس کے اتحاديوں کا بڑا منظم کھيل ہے-
اس بار اس کھيل ميں انڈيا بھی گيارھواں کھلاڑی کی حيثيت سے شامل ہے ابھی تو ميچ افغانستان سے پاکستان کے شمال مغرب کی طرف شروع ہے پھر يہ جنوب مغرب کا رخ کرے گا۔ کيونکہ لادن پھربلوچستان کے پہاڑوں ميں چھپا ہوگا- اس تمام کاروائی کی تکميل تک تو اس نے نہيں ملنا اگر اس سے پہلے مل گيا تو منصوبہ فيل ہو جاۓ گا- اور خطہ ميں مداخلت کا جواز ختم ہو جاۓ گا جو ممکن نہيں ہے۔
عرض ہے کہ جب اسامہ بن لادن کی تلاش میں ایک ہزار سے زائد امریکی فوجی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور اُن کی وجہ سے بے حساب عام افغانی ہلاک ہو چکے ہیں، جب ڈرون حملوں میں اکا دکا دہشت گرد جبکہ سینکڑوں بےگناہ پاکستانی مارے جا چکے ہیں، جب لاکھوں ڈالروں سے زائد مالیت کا اتحادی فوج کے لیے رسد کا سامان رستے ہی میں مٹی میں ملایا جا چکا ہے، جب اسامہ کی تلاش پر اتحادیوں کا ساتھ دینے کے ‘ردعمل‘ کے طور پر پاکستان کی سرزمین نامحسوس طریقے سے بتدریج ‘تورا بورا‘ بن یا بنائی جا رہی ہو، جب ہزاروں بے گناہ عام پاکستانی اسامہ کی تلاش کے ‘ردِعمل‘ میں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، جب ۔۔۔۔۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر اسامہ کی بظاہر و مبینہ تلاش کے عمل کو روکا کیوں نہیں جاتا؟ خاکسار اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اسامہ کی تلاش کی آڑ میں دراصل نئی منڈیاں اور نوآبادیاں تلاش کی جا رہی ہیں۔ مغربی عوام میں نا امیدی اگر بڑھی ہے تو اس کی بنیادی وجہ اسامہ کی تلاش میں ناکامی کی بجائے ایک ہزار امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہو سکتی ہے۔ بغور دیکھا جائے تو مایوسی قطعآ نہیں بڑھی بلکہ مایوسی بڑھنے کا ڈھنڈورا پیٹ کر دراصل جلد از جلد تیز ترین‘حرکت کرنے‘ اور ‘آگے بڑھنے‘ کا جواز ڈھونڈا جا رہا ہے۔ کیونکہ اگر واقعتآ مغربی لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی ہوتی تو پھر وہ اوبامہ کی نئی افغانستان پالیسی جس میں تیس ہزار فوج کی افغانستان تعیناتی کا اعلان ہوا، کے خلاف سڑکوں پر آتے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مغربی دنیا میں مایوسی بڑھنے کا سوال اس لیے پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ایسا کر کے اپنے ‘سپر پاور‘ ہونے کے اعزاز کو گرہن لگانا پسند نہیں کر سکتے۔
افغانستان سے تو انہیں واپس جانا پڑے گا۔ جیسے دیگر قابضین کو جانا پڑا۔البتہ اسامہ ایک ڈراؤنے خواب کی صورت انکل سام پر مسلط رہیگا۔