جاوید لغاری اور جمہوریت
ڈاکٹر جاوید لغاری وہ پاکستانی امریکی ہیں جو آجکل پاکستان میں 'جمہوریت سب سے بہتر انتقام' کا پھل چکھ رہے ہیں۔
موجودہ حکومتی پارٹی کے کل تک سینیٹر اور حکومت کے منظور نظر ڈاکٹر جاوید لغاری سے پاکستان میں وہ سلوک ہوا جو وہاں وقت کی حکومتیں حزب مخالف یا سیاسی مخالفین سے تب کرتی ہیں جب انکے چل چلاؤ کا موسم قریب ہوتا ہے یا جب حکمران طاقت کے نشے اور بوکھلاہٹ میں ایسا اندھا ہاتھی بن جاتے ہیں جو کہ اپنے ہی لشکری روند کر رکھ دیتا ہے۔
سیاسی انتقام پسندی کا سب سے زیادہ شکار رہنے والی اس کل کی حزب اختلاف اور آج کی حکومت نے انتقام پسندی میں فائین آرٹس یہ قائم کیا ہے کہ قومی سطح پر انتقام پسندی کی نمائش کے بجائے بلکل مقامی یعنی تحصیل اور ضلع سطح پر زبردست انتقام پسندی کی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر جاوید لغاری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انگریزی شاعر ولیم بلیک کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنے والے پاکستانی امریکی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ تھانیدار کیا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید لغاری امریکہ میں برسوں سے ایک تعلیم دان، بینظیر بھٹو کے میزبان اور ان کے قریب ترین لوگوں کے طور پہچـانے جاتے تھے۔ وہ بینظیر بھٹو اور انکی پارٹی کے ایک طرح سے امریکہ میں غیر سرکاری لابیسٹ رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلے جاوید لغاری کو سینیٹر منتخب کروایا اور پھر ان سے ان کی نشست شوکت ترین کے لیے سندھ سے خالی کروا کر انہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ہیک) کا چئيرمین بنا دیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کہ جہاں آجکل رن جاری ہے۔
ڈاکٹر جاوید لغاری نے سینتیس اراکین پارلیمان کی جعلی ڈگریوں کو نظر انداز کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کی اس 'نہ' نے ان کے لیے اور ان کے اہل خانہ کے لیے مصائب و قید و بند کے دروازے کھول دیے ہیں۔ بلکل ایسے جیسے چوہدری ظہور الہی کو بھینسوں کی چوری میں، سندہ میں سابق صوبائي وزیر کوڑل شاہ کو چائے کی پتی چوری کرنے میں گرفتاری کیا گيا تھا۔
اب جاوید لغاری کے ڈی سی او بھائی فاروق لغاری پر کرپشن کے یکے بعد دیگر مقدمے قائم کیے گئے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ ڈی سی او فاروق لغاری فرشتہ ہے لیکن بقول شخصے شاید ڈی سی او فاروق لغاری پاکستان میں واحد کرپٹ شخص ہے! سولہ کروڑ لوگوں میں گاؤں بخشو لغاری کا لغاری ہی کیوں؟
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائي!اس ماہر تعليم کے ساتھ کيا ہورہا ہے اور کيوں ہورہا ہے سب کو معلوم ہے۔يہ سب کچھ طاقتور صدر کے کہنے پر ايک وڈيرا کررہا ہے جس پر روايتی سياست کی وجہ سے خود کھبی برا وقت تھا اور يہ در بدر چھپتا پھرتا تھا۔مرنجان مرجان وزیر اعلی کے تو فرشتوں کو بھی معلوم نہيں کہ گيم پلان کیا - وزیر اعظم يوسف رضا گيلانی نے بھی اس زيادتی کا کوئی نوٹس نہيں ليا صرف ملاقات کے موقعہ پر تھپکی دی ہے کہ کام جاری رکھو اور اپنے بھائی پر مقدمات در مقدمات قائم ہوتے ديکھو۔دوسری طرف ان سورماوں کو ديکھو کہ ارسا کے چيرمين پر انکی ايک نہيں چلتی اور وہ دھڑلے سے سينہ ٹھوک کر کہتا کہ چشمہ لنک کينال کھول ديں گے۔ويسے جمہوريت کا يہ انتقام اپنی طرز کا پہلا اور انوکھا انتقام ہے جس ميں پی پی کی حکومت بازی لے گئی ہے!
غیرجانبداریت کا تقاضا یہ ہے کہ اب اگلا بلاگ ثناء اللہ مستی خیل کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کا پنجاب اسمبلی سے پاس ہونا اور پھر نواز شریف کا ثناء اللہ مستی کے دوالے ہونا اور میڈیا کا جمہوریت کو بلیک میل کرنا اور جمہوریت پر تین دن تک دھاوا بولنا پر لکھیں۔ بصورت دیگر یہی سمجھا جائے گا کہ آپ اپنا ذاتی پسندیدہ رُخ اور یا پھر بی بی سی کی پسند و ناپسند کو دیکھ کر ہی قلم اٹھاتے ہیں جو کہ قلم کے شایانِ شان نہیں۔ شکریہ۔
پاکستان اور انڈيا دونوں ملکوں کے زيادہ تر لوگ چاہے وہ سياستدان يا فوجی ہوں يا عام آدمی ہو تنگ نظری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور برداشت کی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔اگر آپ کا ذہن کسی سے نہيں ملتا يا سوچ ميں اختلاف پيدا ہوجائے تو وہ دشمن کی کيٹيگری ميں آجاتا ہے۔اگر کسی کو کسی کمپنی يا اسمبلی يا قومی ٹيم سے نکال ديا جائے تو وہ بعد ميں اس کی ناکامی کی ہی دعا کرے گا۔يہ تمام برائياں جمع ہوکر معاشرے کی زبوں حالی کی وجہ بنتی ہيں اور ہر کوئی اپنا اپنا راگ گا رہا ہوتا ہے کہ يہ نظریہ ٹھيک ہے ادھر آجاؤ ميں صحيح ہوں وہ غلط ہے تو عام آدمی کو سمجھ نہيں آتی کہ وہ کيا کرے۔اس کے علاوہ سرکاری اداروں يا حکومت ميں اہليت دکھانے يا احسن طريقے سے کام کرنے کی بجائے باس کی تعبیداری اور خوشامد کرنے والے کو زيادہ اہميت دی جاتی ہے۔
حسن بھائی جب تک ھوا و حوس سے پاک، عُجب(خود پسندي) سے دور، رحم دل اور خوف خدا رکھنے والے لوگ قيادت ميں نہيں آئينگے يہ ہوتا رہيگا- بصورت ديگر نام نہاد سرمايہ دارانہ جمہوريت کے شيدائی اسی طرح کے تماشے کرتے رہينگے- يا پھر متشدد طالبانی لشکر بے سہارہ اور بے يارو مدد گار لوگوں کو کچلتے رہينگے-
„اُم الامراض„ مسئلہ اہل تقوی کا سياست و قيادت سے دوری ہے جو يہ موجودہ جمہوری نظام اپنی ہيت ترکيبي کے عين مطابق شفاف لوگوں کو بليک آؤٹ کر ديتا ہے- سرمايہ دارانہ جمہوری نظام ميں يا تو حوس پرست, اہل زر اور زور آور لوگ اوپر آتے ہيں يا مذہبی بہروپئے جو دين تک کو اپنی خواہشات پر بيچنے ميں ذرہ بھر تعامل نہيں کرتے- اگر ليڈر شپ نفيس اور اہل عرفان لوگوں پر مشتمل ہو تو پھر آپ ديکھيں کہ قوم کيسے جہالت سےنکل کر سکائی راکٹ ڈيولپمنٹ کرتی ہے-
يہ کيا بات ہوئی کہ پہلے ڈاکوؤں کے گروہ ميں شامل ہو جاؤ- لوٹ مار ميں پورا حصہ وصول کرو اور جب برے وقت کی چاپ محسوس ہو تو ايک ناں کرکے ہيرو بننے کی کوشش کرو- جاويد لغاری اتنا بھی معصوم نہيں، جتنا آپ نے بنا کر دکھا ديا ہے- بنگلہ ديشی ماڈل ميں اپنی سيٹ پکی کرنے کے ليۓ ابھی اور بھی بہت ”ناں” کہنے والے ہيں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا بھی کوئی چانس لگ جائے، کيونکہ آپکے بلاگ سے بھی يو ٹرن کی بو آ رہی ہے-
ہم آہ بھی کر تے ہيں تو ہو جا تے ہيں بد نام
وہ قتل بھی کر تے ہے تو چرچا نہں ہو تا
آپ تو جی بڑے یار باش بندے هیں ، اپنے یاروں کی حمایت میں لکھ رہے هیں
يہ تعلیم دان کيا ہوتا ہے-
جب ناہید خان اور صفدر عباسی جیسے لوگوں کو ساتیڈ لائین کرسکتے ہیں تو جاوید بجآرے کا کیا کہنا؟ اب آکے آکے دیکیھے ہوتا ہے کیا؟
پہلے ہي”ج”کيا کم تھے جمہوريت کا بستر گول کرنے کيلئے جو يہ ”ج”سے جاويد لغاری آگئے نہ معلوم اور کتنے جيموں سے واسطہ پڑے گا اس بے چاری جمہوريت کا
بہت خوب ۔صاب جی کافی تيز قلم چلايا ھے۔بہت اعلی
افسوس افسوس بس افسوس بے چارے عوام
کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا
دولت ! اقتدار ! اور فرعونيئت آج کا حکمران ان تين کی مثلث ميں گم ہے- آنکھوں پر پٹی بندھی ہے مطمع نظر مقصد کا حصول ہے جو جلد سے جلد پورا کرنا ہے وہ بھی آج ہي- اس خدشہ کے پيش نظر کہ شايد کل ہی نہ آئے- ايک مثال ہے کہ اگر گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو بھوکا ہی مرے گا- اب پچھلی دوستياں اور خدمات کی پروا کريں گے تو پرويز مشرف ہی صدر ہوتے ملک ميں تبديلی بھی نہ آتي- اب لغاری صاحب کو پاکستان کے اصل سياسی داو پيچ کا اندازہ ہو گيا ہو گا- جمہوريت کا تو حسن يہی ہے کہ مجارٹی کی رائے کا احترم کر کے جعلی ڈگريوں کا کيس حکومتی ايما پر چھوڑ کر کمپرومايئز کريں- چونکہ وزيراعظم بھی کہتے ہيں يہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اسے قبول کرنا چاہيے- جعلی اسمبلی ممبران کی پگڑيوں کو سروں ہی پر رہنے ديں شايد اور بڑے بڑے اپنی پگڑيوں کی حرمت سےخوفزدہ ہيں۔