کشمیری ڈی این اے تبدیل ہوا؟
سن انیس سو تریپن میں شیخ عبداللہ کی گرفتاری کے بعد جب بخشی غلام محمد کو کشمیر کے تخت پر بٹھایا گیا تو انہوں نے بھارتی حکمرانوں سے خزانے کا منہ کھلا رکھنے کا زوردار مطالبہ کیا۔ حکمرانوں نے پوچھا کہ 'آپ اتنی بڑی رقم سے کیا کرنا چاہتے ہیں؟'
'چالیس لاکھ کشمیریوں کو ہندوستانی بنانا ہے کیونکہ آپ واحد بھارت نواز رہنما عبداللہ کو بھی اپنے ساتھ نہ رکھ پائے تو میں چالیس لاکھ لوگوں کو روپے کے بغیر کیسے مائل کر پاؤں گا' بخشی نے جواب دیا۔
'کیا آپ روپے دے کر واقعی کشمیریوں کو خرید سکتے ہیں'حکمرانوں نے پھر پوچھا۔
'روپے دے کر خریدنا نہیں ہے بلکہ کشمریوں کا ڈی این اے تبدیل کرنے کا تجربہ کرنا ہوگا اس کے بعد ہی اِن کو ہندوستانی بنانے کی ایک موہوم سی کرن دکھائی دیتی ہے'۔ بخشی نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
پھر بخشی سے لے کر عمر عبداللہ تک سبھی کشمیری عوام کا ڈی این اے تبدیل کرنے میں جُٹ گئے۔ وہ کتنے کامیاب ہوئے ہیں اس کی تصویر آپ نے حالیہ مظاہروں کے دوران خود دیکھی ہوگی۔
راوی کہتا ہے کہ بخشی کی پالیسی پاکستان نے بھی اپنائی اور اس نے بھی اپنے خزانے کا منہ وا کر دیا اور بندوق سے لے کر رقومات تک کی ادائیگی کے سبھی حربے آزما کر کشمیریوں کا ڈی این اے ہندوستانی بننے سے روکا۔ گو کہ مکمل کامیابی کی امید نہیں تھی البتہ بار بار کے اُس کے غلط تجربوں سے ڈی این اے میں شدید ریکشن ہوتا گیا اور یہ مسئلہ اب پاکستان پر اتنا بھاری ہے کہ کشمیر میں چھ ہفتوں کی شورش کے بعد وہ ہمدردی کے دو بول بولنے پر مجبور ہوا۔
یہاں بھارتی آئین کے تحت الیکشن بھی ہوتے ہیں اور آزادی کے حق میں جلوس بھی نکلتے ہیں مگر حالات اکثر اوقات بھارت کے قابو میں نہیں رہتے۔
اس وقت بھی کشمیریوں کو ہندوستان نواز بنانے کا مسئلہ زیرغور ہے اور مختلف رہنماؤں سے مذاکرات کر کے اس کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ جب سے گیلانی نے رہائی پانے کے بعد کشمیری نوجوانوں کوگاندھی کی عدم تشدد کی پالیسی اپنانے پر زور دیا تو بیشتر حلقے مخمصے کا شکار ہیں کہ کہیں واقعی کشمیری ڈی این اے تبدیل تو نہیں ہوا ہے کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے مسلح تحریک کی حمایت کی وہ کیسے راتوں رات 'گاندھی واد' بن گئے اور کشمیری عوام جو ازل سے عدم تشدد کی پالیسی پر یقین محکم رکھتے تھے بندوق انہیں کیوں تھمائی گئی تھی۔ اس وقت بندوق کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔ کم از کم ان ہزاروں نوجوانوں کو بچایا گیا ہوتا جو بندوق کی وجہ سے قبرستانوں کی زینت بن گئے ہیں یا حالیہ پرتشدد مظاہرے کے آغاز پر ہی لوگوں کو متنبہ کیوں نہیں کیا گیا تاکہ کم از کم پچاس سے زائد نوجوانوں اور بچوں کی ہلاکت نہ ہی ہوتی۔
بخشی نے عوام کو صرف ہندوستانی بنانے کے لیے ڈی این اے تبدیل کرنا چاہا تھا مگر بعض رہنماؤں نے بندوق کے بل پر کشمیری خون کو ہی بدل ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
عدم تشدد کی پالیسی اگر پہلے ہی کشمیری ڈی این میں رچی بسی تھی تو اس کو تبدیل کر کے اس قوم کو 'دہشت گردوں' کے زمرے میں کیوں ڈال دیا گیا۔ گاندھی کے نئے پیروکاروں سے کوئی پوچھے گا؟
تبصرےتبصرہ کریں
آپ کا بلاگ بڑا اچھا ہے۔ لیکن کشمیری نوجوانوں کو جیسے آپ نے کہا کہ بندوق تھمانے والے اب ان کو پر امن رہنے کی تلقین کر رہے ہیں تو میں آپ سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ آپ کی کیا مرضی ہے؟ لاشیں یونہی گرتی رہیں؟ کشمیری مرتے رہیں۔ ارے بھائی یہ پر امن تحریک تھی اور نوجوان جنہوں نے ایک لمبے عرصے تک بھارتی وعدوں کے وفا ہونے کا انتظار کیا تھا اور مایوس ہو کر خود بھارتی سرکار کے خلاف اپنے حق کے حصول کے لیے بندوق اٹھائی تھی۔ آج ایک موقع اور دے رہے ہیں مہذب دنیا اور بھارتی ایوانوں میں بیٹھے ہنو مان اور گاؤ ماتا کے پجاریوں کو کہ ہمارا حق آزادی ہم کو لٹا دو۔ ورنہ کس کو پتہ کہ مجاہدین آزادی کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ اگر بھارتی نیتا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم آر اے ایف یا بلیک کیٹس کے ذریعے کشمیریوں کو دبا لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے اور وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ غدار چاہے شیخ عبداللہ ہو یا بخشی غلام محمد، فاروق عبداللہ ہو یا عمر عبداللہ وہ قابل نفرت تھے اور رہتی دنیا تک رہیں گے۔ ان کی وجہ سے ہی کشمیری 60 سالوں سے بھارتی ظلم و استبداد اور ریاستی دہشتگردی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ رہی بات پاکستانی عوام اور حکومت کی تو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں ایک کشمیری ہونے کی حثیت سے پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی 18 کروڑ عوام پہلے بھی کشمیریوں کے ساتھ تھی، اب بھی ہے اور انشاءاللہ آئندہ میں بھی رہے گی۔
عدم تشدد کی پاليسی ہی واحد راستہ ہے جس کے ذريعے نا صرف کشمير بلکہ پورے برصغير ميں امن قائم کيا جا سکتا ہے۔ تشدد کی پاليسی کے حاميوں کو ختم کرنے کے ليے دونوں ملکوں کو اپنے اپنے نصاب ميں تبديلی کرنا ہوگی اور طلبا کے ايسے مضمون ختم کرنا ہوں گے جس ميں قوميت يا مذہب کی بنياد پر تعصب والی تحريريں موجود ہيں۔ اس طرح ڈی اين اے بھی تبديل ہوگا۔ مسلح تحريکوں کو کامياب بنانے کے ليے کم از کم ان کے برابر فورس ہونی چاہيے جو کہ کشميريوں کے پاس نہيں۔ لڑ مر کر رہنے سے بہتر يہ ہے کہ مذاکرات کا کوئی طريقہ نکالا جائے۔ رہی بات دہشتگردوں کے زمرے ميں ڈالنے کی تو يہ بات انڈيا کے ليے دنيا کے سامنے ثابت کرنا مشکل نہيں کيونکہ ان کو ساری امداد دہشتگرد تنظيميں جن کے ٹھکانے پاکستان ميں ہيں ہی ديتی ہيں۔ اب بلوچستان يا سرائکستان کے حاميوں کو آپ دہشتگرد نہيں کہہ سکتے کيونکہ ان کی سر پرستی دہشتگرد تنظيموں کے پاس نہيں يا خالصتان کے حامی بھی کبھی دہشتگرد نہيں کہلائيں گے۔
نعيمہ مہجور صاحبہ، اہل پاکستان کی طرح کشميری عوام بھي نالائق قيادت کا خميازہ بھگت رہے ہيں۔ اوائل ہي سے عدم تشدد کي پاليسی اپنا کر قيمتی جانيں بچاتے اور مکمل سول نافرمانی کی تحريک چلاتے تو نتيجہ مثبت ہي نکلتا۔ دوسرے، ہم پاکستانيوں کو دخل در معقولات سے باز رکھتے جنہوں نے خود اپنے لیے بھی کچھ نہيں کيا۔ ہماری دراندازی نے انہيں آزادی تو نہ دلائی البتہ ان کے بھارت سے کسی ممکنہ تصفيے کا امکان ختم کر ديا۔
علی گل سڈنی! کشمیر میں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا اپنا ایک پس منظر ہے جیسا کہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی شامل ہے۔ نہ پاکستان نے کبھی کشمیر میں در اندازی کی اور نہ ابھی کر رہا ہے۔ یہ خالصتاً کشمیریوں کی اپنی جدوجہد ہے جو انشاءاللہ ضرور اپنے منتقی انجام تک پہنچے گی۔ خطے کا سب سے بڑا دہشتگرد ہندوستان ہے۔ جو اپنی فوجی طاقت سے نہ صرف کشمیر بلکہ دیگر 12 ریاستوں میں ریاستی دہشتگردی کر رہا ہے۔ بحثیت مسلمان ہمیں یقین ہے کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائیگا۔
بات اتنی سی ہے کہ اگر عدم تشدد کےفلسفے سے متاثر ہو کر شيخ عبداللہ نے کانگريس کی حمايت ميں اپنی منزل قريب محصوص کی ليکن ان کو کوئی فائدہ نہ دے سکی اور مسئلہ جوں کا توں ہی رہا انہيں اسٹيٹ کے جھنڈے تلے بھی وہ حيثيت نہ ملی وہ کشميريوں کو کوئی فيض نہ پہچا سکے۔ بس مشروط اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ ايسے ميں کشميريوں نے حقوق کے نام پر بندوق اٹھائی کہ شايد اس طرح مہزب دنيا تک ان کی آواز پہنچ جائے اور انڈين گرفت سے آزادی ملے۔ ليکن يہ کشمير ہے کوئی ايسٹ تيمور نہيں کہ دنيا مسئلہ حل کر دے-اور انڈيا اس مسئلے کے حل کے لئے کسی طور اس لئے رضا مند نہيں ہو سکتا کہ پھر تو يہ سلسلہ بڑھتا جائے گا اور اسٹيٹ ميں عليحدگی پسند قوتيں اٹھ کھڑی ہوں کی اور انہيں روکنا مشکل ہوگا۔ ليکن اس احتجاج کو بھی آخر ديکھنا ہی ہوگا کہ کس طور اسے حل کيا جائے۔ اس کے ذہن ميں کشمير بشمول پاکستان کے کنٹرول والا حصہ بھی ملا کر ايک عليحدہ رياست انڈين ڈومينيٹڈ ہو اور پاکستان سے اس کا تعلق نہ ہو مہزب دنيا کی مدد سے بنائی جا سکے اسی ليے تمام مخالف قوتوں بشمل عسکری دھڑے - انہيں اپنے ايجنڈے پر لايا جاسکے اور کشمير کے مسئلے کے حل کی تجويز دی جائے اور پاکستان کو غير متعلق کر ديا جائے