| بلاگز | اگلا بلاگ >>

بھٹو کہاں سے آئے!

اصناف:

حسن مجتییٰ | 2010-08-04 ،13:02

پتہ نہیں کیوں، جب دریاؤں اور آنسوؤں کے بند ٹوٹ جاتے ہیں تو پاکستان کے اکثر لوگوں کو ذوالفقعار علی بھٹو یاد آتے ہیں۔

انیس سو بہتر کے سُپر سیلابوں میں ماؤ کیپ پہنے فضا سے ہیلی کاپٹروں کے شیشوں سے غم کی تصویر بنے بھٹو، پانیوں میں دور دراز خس و خاشاک ہوتی بستیوں میں انسانوں کو بچانے کے مشن میں خود زمین پر متاثر لوگوں کے درمیاں دن رات موجود بھٹو۔ جیسا کہ سفید لمبے بالوں والا یہ شخص کوئی خواجہ خضر ہو جس کا کام لوگوں کو مصائب و موت سے نکالنا ہو۔ کم از کم انیس سو بہتر کے سپر سیلابوں میں تو بھٹو نے یہی کیا تھا۔

اطالوی صحافی اوریانا فلاسی نے تب انہیں دیکھ کر لکھا تھا: 'میں نے بھٹو کو سیلابوں کے مارے ہوئے لوگوں کی مصائب پر روتے دیکھا'۔
اور اب جب پاکستان میں سُپر فلڈ آئے ہوئے ہیں جس سے تقریباً دس لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور سینکڑوں پانیوں میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ پختون خواہ میں نوشہرہ سے لے کر بلوچستان میں نوشکی تک اور پنجاب میں لودھراں سے لے کر سندھ تک انسانی دہشت گردی کے مارے ہوئے لوگ اب قدرت کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ بستیاں کھلونوں کی طرح اور انسان و جانور گھاس کوڑے کی طرح بہتے جا رہے ہیں تو حمکران 'پتلی گلی' کی تلاش میں ہیں۔

انہیں خود جان کے لالے پڑے ہیں تو وہ بھٹو کیسے بنیں گے۔ وہ اپنے ارد گرد حفاظتی بند مضبوط کریں یا دریاؤں کے گرد؟ اب بھٹو کا نظریہ نہیں، 'جان بچاؤ مال بناؤ' کا اصول چلتا ہے۔
سندھ میں تو حکومت نے کچے کے علاقوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے سے معذرت کرلی کہ لوگ 'اپنی مدد آپ کے تحت' خود نکل آئيں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ بچاؤ بند پر گۓ تو پر ایسے کہ 'کیجو نظارہ دور دور سے'۔

اس ملک کے لیے کیا کہا جا سکتا ہے جہاں زلزلے کے متاثرین کے لیے آنے والے کمبل 'راجہ بازار' میں پہلے پہنچ جاتے ہوں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:01 2010-08-04 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ’انسان اپنے آپ میں مجبور ہے بہت
    کوئی نہیں ہے بے وفا، افسوس مت کرو
    یہ دیکھو پھر سے آ گئیں پھولوں پہ تتلیاں
    اک روز وہ بھی آئے گا، افسوس مت کرو‘

  • 2. 14:07 2010-08-04 ,علی خان :

    سو فيصد کڑوا سچ۔ اللہ تعالیٰ مزيد لکھنے کی توفيق عطا فرمائے۔

  • 3. 14:11 2010-08-04 ,عرفان عادل :

    وہ بھٹو تھے اب زرداری بھٹو بن گئے ہیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ اگر بے نظیر ہوتیں تو شاید منظر کچھ اور ہوتا۔

  • 4. 14:22 2010-08-04 ,علی گل،سڈنی :

    حسن مجتبیٰ صاحب، ذوالفقار علی بھٹو کا تذکرہ کر کے شايد آپ نے کئی لوگوں کو جگا ديا۔ مرحوم عوام کے دلوں کی آواز تھی جسے دبا ديا گيا اور پاکستانی قوم نے ليڈ کرنے کا ايک آسان موقع ضائع کر ديا۔ بھٹو صاحب کی اولاد بھی انہيں کے نظريات پر چلنے والی تھی ليکن جب قائد کی جان چلی جائے تو اس سے کم تجربہ کار کيسے کامياب ہوگا اور اس کی نسل کو بغير کچھ کيے صرف خوف سے ہی ان ظالموں نے ختم کر ديا۔ نام نہاد ملاں نے ايجنسيوں اور ڈرگ مافيا کی رقم کا استعمال کر کے انہيں اس ليے ہلاک کيا کہ وہ اپنی عوام اور دنيا سے سچ بولتا تھا۔ سچ کی تلقين کرنے والوں نے سچے کو اس ليے مارا کہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کو زندگی ملتی تو آج کے ان نام نہاد ليڈروں يا نيم ملاں کا وجود نہ ہوتا۔

  • 5. 14:25 2010-08-04 ,Athar Massood Wani :

    اس قسم کے سیاستدان اب پاکستان میں نہیں پائے جاتے۔ اس دور کے بعد کے سیاستدان سیاست کو بطور کاروبار اپناتے تھے اور اب کے سیاستدان بلکہ سیاست میں آنے والے سیاست کو ناجائز دھندے کے طور پر اپناتے ہیں۔

  • 6. 14:57 2010-08-04 ,Abdul Waheed Khan, Birmingham, UK :

    ’تيری ياد آئی تيرے جانے کے بعد
    تجھے کھو ديا ہم نے پانے کے بعد‘

  • 7. 15:24 2010-08-04 ,sagheer ahmed :

    جس قوم نے صرف ایک ہی نعرہ سیکھا ہو ’جئے بھٹو‘ اور ’زرداری سب پر بھاری‘۔ ایسی قوم کو تو قدرت ضرور نشان عبرت بناتی ہے۔

  • 8. 16:36 2010-08-04 ,MATLOOB MALIK, UK :

    اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ بھٹو ایک ہمدرد، بیباک، غیرت مند اور انقلابی لیڈر تھے۔ جو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ لیکن وہ ایک ڈکٹیٹر کے ہاتھوں تختہ دار پہ چڑھا دیے گئے۔
    رہی بات موجودہ حکومت کی جو خود کو بھٹو کا وارث/جانشین کہتی ہے تو ان کو سوائے اپنی جیبیں بھرنے، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کے عوام اور ملک سے کوئی سروکار نہیں۔ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں لیڈر شپ کا جو خلا پیدا ہوا ہے وہ شاید ہی پورا ہو سکے۔ لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ سیٹ اپ جو عوام کے حقوق کا خون کر رہا ہے اس کا یہ آخری موقع ہے۔ کاٹھ کی ہنڈیا ایک دفعہ ہی چڑھتی ہے۔ بارحال بات بھٹو صاحب کی ہو رہی تھی تو ان جیسا کوئی لیڈر شاید ہی پاکستان کی دھرتی میں دوبارہ جنم لے۔ اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔

  • 9. 16:39 2010-08-04 ,محمد عمران ملک :

    حسن مجتبیٰ صاحب! بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن اب بھی شہباز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے، کہ کسی نہ کسی حد تک بھٹو کی یاد تازہ کیے ہوئے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ یہ مسلم لیگی بھٹو ہے۔ باقی رہی پیپلز پارٹی تو میں سوچتا ہوں کہ اگر آج بی بی ہوتیں تو کیا وہ بھی آج لندن میں ہوتیں۔ ویسے بھی جیسے اعمال ویسے حکمران۔ دستی اور جٹ کے الیکشن جیتنے کے بعد تو اگر کوئی حکمرانوں کا گلہ کرتا ہے تو اس پر اب ہنسی ہی آتی ہے۔ عوام جب خود لتر کھانے کے لیے تیار ہیں تو بسم اللہ۔

  • 10. 16:55 2010-08-04 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    جو لکھا بجا۔ لیکن ایک بات یہ بھی سو فیصد بجا ہے کہ مگرمچھ کے آنسو اور حقیقی آنسوؤں میں پہچان کرنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر آنسوؤں سے ہی کسی کے دردِ دل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے تو پھر اگر خاکسار غلط نہیں تو الطاف حسین کو دوسرا بھٹو نہ کہنا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہو گا۔

  • 11. 17:06 2010-08-04 ,Riffat Mehmood :

    دراصل شروع ہی سے کرپشن کی آبياری کی گئی اور کليدی افراد کسی ضابطے کی پابندی کے قائل بھی نہيں رہے۔ صرف ايک سوچ کہ کس عمدگی سے دولت کا حصول ممکن ہو سکتا ہے اپنايا جائے۔ آپ نے بات کی کمبلوں کی تو ايسی بات تو کالا باغ سے روايت ہے کہ امدادی کمبل خاندان کے افراد ميں بانٹے گئے اور سالوں سال ان کے پاس ان کمبلوں کا ذخيرہ رہا جب ابتدا ہی ايسی ہوئی تو راجہ بازار ميں بيچنے والے تو روايات نبھا رہے ہيں۔ اب جو امداد آ رہی ہے شايد وہ بھی بازاروں ميں دستياب ہو۔ کچھ روايت کا پاس بھی تو رکھنا ہوتا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ اس امداد کو ايدھی جيسے اداروں کو دی جائے جو بے لوث انسانيت کی خدمت ميں کوشاں ہيں۔ پھر راجہ بازار ميں ملنا مشکل ہو گی۔
    حکمران تو حکمران ہی ہوتا ہے کارندے جو ہيں کام کرنے کے لیے۔ حکومتی معاملات اتنے گھمبير ہيں کہ دن رات اسی ميں مصروف رہتے ہيں۔ اس کے باوجود شہبار شريف اور ہوتی صاحب نے دورے کيے، لوگوں کی دل جوئی کی، ميذيا بھی لائيو کوريج کر رہا تھا۔ کچھ اقدامات بھی کيے۔ يہ اچھی اپروچ ہے اور اس سے لوگوں کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے وزراءنے بھی دورے کيے۔ آپ نے بات کی بھٹو کی تو بھٹو پہلے سياسی ليڈر تھے اور وہ اسے پروف بھی کرنا چاہتے تھے۔ آجکل شہباز شريف بھٹو کے سے انداز ميں جلسوں ميں تقريرں کرتے دکھائی ديتے ہيں۔

  • 12. 17:13 2010-08-04 ,رضا :

    حسن مجتبٰی صاحب، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ نظام درست کر کے مخلص اور ديانتدار لوگوں کو سونپ جانا ہی اس ملک کی عظيم ترين خدمت ہوتا جو کوئی نہ کر سکا۔ تاريخ آپ کے سامنے ہے۔

  • 13. 21:25 2010-08-04 ,ساحر خان :

    سيلاب کے مارے ہوۓ بچوں اور لوگوں کو ديکھيں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور دل کرتا ہے کہ ان لوگوں کے سارے غم اور پريشانياں اپنے دامن ميں لے ليں ـ اور دوسری طرف جعلی بھٹوؤں کو بھی ديکھو ـ چاہيۓ تو يہ تھا کہ وہ قوم کے ساتھ اس سخت وقت ميں کھڑے ہوتے اور اپنے کپڑوں کو اسی طرح گدلا اور گيلا کرتے اور سچے آنسوؤں کے بند توڑتے تو يقين کريں يہ قوم انکو امر کر ديتی مگر اے کاش !

  • 14. 7:47 2010-08-05 ,شاہد جاوید، ابو ظہبی، متحدہ عرب امارات :

    میں اگر دیانت داری کا مظاہرہ کروں تو شہباز شریف نے دکھ کی اس گھڑی میں پنجاب کے متاثرہ عوام کو تنہا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے سیاسی مخالفین کی بے جا تنقید کے باوجود اپنا مشن جاری رکھا ہوا ہے اور وہ عوام کی محفوظ مقامات پر منتقلی میں خود بھی پوری طرح سے شامل ہو رہے ہیں۔ ایسے ہی لیڈر ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

  • 15. 8:10 2010-08-05 ,عرفان علی گھمرو :

    حسن صاحب ایک تو یہ بتا دوں کہ بھٹو ایک مسیحا تھا جس کی وجہ سے آج بھٹو کے ساتھ لوگوں کا رشتہ جنونی ہے اور اُسی بھٹو کی کمائی یہ حکمران اب تک کھا رکھے رہیں، جہاں تک بات ان حکمرانون کی ہے تو ان کو کیا پڑی ہے کہ یہ سارے زندگی لوگوں کے دلوں میں رہیں -
    یہ جو بات آپ نے سندھ میں کچے کے علاقوں میں رہنے والوں کی کہی تو میں اس سے متفق نہیں ہوں کیونکہ میرا تعلق بھی سکھر سے ہے اور سندھ حکومت کی طرف کیے جانے والے اقدامات بہت اچھے ہیں۔ اور لوگ خود کچے کے علاقوں سے نہیں نکلنا چاہتے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مگر آج کل لگتا ہے انہوں نے سپر ٹانک پیا ہوا ہے اور سیلابی ریلے کی رفتار سے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ ان کی عمر اور صحت ان کو ایسی اجازت نہیں دیتی۔
    آخر میں یہ بتاتا چلوں کہ لاکھ میرے پی پی کے ساتھ اختلافات ہوں مگر بھٹو دنیا کی تاریخ میں کبھی پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس جیسا کوئی اور ہوگا۔

  • 16. 9:16 2010-08-05 ,ساجد رضوی :

    لوگوں کے مصائب پر رونا انسانی فطرت ہے اور بھٹو کا رونا اور زرداری کا نہ رونا معیار نہیں

  • 17. 12:22 2010-08-05 ,حسین گردیزی :

    'جان بچاؤ مال بناؤ

  • 18. 13:17 2010-08-05 ,جمال :

    ڈرامہ تھا یا حقیقت ، لیکن نواز شریف کو پاپولر کرنے میں بھی انیس سو بانوے کے سیلاب کا ہاتھ ہے۔ مجھے یاد ہے جب انہوں نے ان اسیلابوں کے دوران خوشاب کا دورہ کرکے عوام کے دل جیت لیے تھے

  • 19. 13:26 2010-08-05 ,عباس خان :

    افسوس ہے ان لوگوں پر کہ بھٹو کے عبرتناک انجام کے بعد بھی لوگوں کو بھٹو بننے پر اکسا رہے ہيں- کال کوٹھڑی ميں پڑا بھٹو بھی سوچ رہا ہوگا کہ کاش وہ بھٹو نہ ہوتا اور اگر ہوتا تو اس قوم ميں پيدا نہ ہوتا- اس قوم کو اب جيسے ليڈر ٹھيک ہيں، جو مل گۓ ہيں، اب صبر شکر کريں

  • 20. 14:06 2010-08-05 ,نثار احمد چنہ :

    آپ نے بھٹو صاحب کے بارے میں لکھ کر پھر سے پاکستانی قوم کا تینتیس سالہ پرانا زخم تازہ کردیا ہے۔. ہم پھر سے وہ بھٹو کہاں سے لائيں جو ہر وقت اپنے ملک کے غریب عوام کے بارے میں سوچتا تھا۔

  • 21. 15:32 2010-08-05 ,وحیداللہ آفریدی ......... خیبرایجنسی :

    خوب تحریر کیا ہے آپ نے اور اطالوی صحافی نے جو دیکھا وہی تحریر کیا۔ بنیادی طورپر بھٹو ایک عوامی لیڈر تھے اور یہی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے وہ عوام میں بے حد مقبول تھے۔ موجودہ حکمران پارٹی بھی انہی کی جماعت ہے لیکن بات پارٹی کی نہیں بلکہ لیڈرز کی ہوتی ہے افسوس کہ ان میں نہ تو بھٹو ہے اور نہ ہی بے نظیر

  • 22. 15:31 2010-08-07 ,محمد شاهد ارشد :

    حسن بهائي بالكل صحيح لكها

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔