| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کھانے کی فکر اور سیلاب

اصناف:

آصف فاروقی | 2010-08-08 ،12:25

سیلاب آئے گا اور بہت تباہی مچائے گا، یہ بات جنوبی پنجاب کے لوگوں کو بہت پہلے سے معلوم تھی۔ نا صرف عام لوگوں کو بلکہ انہیں بھی جن کی ذمہ داری قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے خود کو اور عوام کو تیار کرنا ہے۔ خدشات کے عین مطابق سیلاب آیا اور وہی ہوا جو اس کے بعد ہوا کرتا ہے۔

دو ماہ قبل جب میں دریائے سندھ کے ذریعے صوبہ پنجاب کے ان علاقوں میں گھوم پھر کر دریا کے رخ بدلنے اور اس سے ہونے والی تباہ کاریوں کی فلم بندی کر رہا تھا، میرا گزر لیہ میں دریائے سندھ کے کنارے بستی بکھرو سے بھی ہوا تھا۔ آج صبح مظفر گڑھ سے جاوید اقبال کا فون آیا کہ دو روز قبل وہ بستی صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

اس بستی کے پچاسی سالہ غلام حسین نے اسی وقت مجھے بتادیا تھا کہ اس بار 'بڑا پانی' آئے گا۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ انہوں نے اس سیلاب سے نمٹنے یا بچنے کے لیے کیا تیاری کی ہے، تو غلام حسین نے ایک نظر قریب سے گزرتے دریا پر ڈالی اور خاموش ہو گئے۔

بستی سے باہر نکلتے، کشتی پر سوار ہوتے غلام حسین کے نوجوان بیٹے نے جواب دیا: 'سر ہم رات کے کھانے کی فکر کریں یا دو ماہ بعد آنے والے بڑے پانی کی'۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:59 2010-08-09 ,حيدر :

    اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق ميں ڈوب گيا
    روتے روتے بيٹھ گئ آواز ------- سودای کی

  • 2. 18:22 2010-08-09 ,Dr Alfred Charles :

    فاروقی صاحب!غريبوں کا کچھ ايسا ہی حال ہے ۔جب سيلاب نہ آيا تھا تب بھی کھانے کا فکر تھا اور اب بھی حالات کچھ مختلف نہيں۔صد افسوس ايسے ميں حکومت کہاں ہے؟لوگ کھانا مانگ رہے ہيں۔مخير حضرات ہی سامنے آئيں خدارااور ثواب دارين حاصل کريں

  • 3. 18:45 2010-08-09 ,MATLOOB MALIK, UK :

    ایک غریب آدمی سیلاب سے بچاو کے لیے کیا کر سکتا ہے۔ یہ تو حکومت کا کام ہے کہ موسم برسات کے شروع ہونے سے پہلےمتعلقہ حکام کو احکامات جاری کرے اور دریاوں اور نہروں کےحفاظتی پشتے مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ممکنہ متاثرین کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے انتظامات کرے۔البتہ میرے خیال میں جب تک ہمارے عوام اور نام نہاد سیاستدان اپنے علاقائی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتے رہیں گے، تب تک یہ تباہی و بربادی ہوتی رہے گی۔ آزادی کے بعد اب تک حکومت پاکستان کوئی بھی نیا ڈیم تعمیر کر نے میں ناکام رہی ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم ہوتا تو نہ اتناسیلاب آتا اور نہ یہ تباہی ہوتی بلکہ ہم قیمتی پانی سمندر بُرد ہونے سے بچا کر اپنی فصلوں کے لیے محفوظ کر لیتے۔ آج وہ لوگ کدھر ہیں جو کل تک ڈیم کی تعمیر اور پانی کی تقسیم کے خلاف مظاہرے اور ہڑتالیں کرتے پھر رہے تھے۔ اللہ تعالٰی ہماری قوم کو اس آزمائش سے جلد کامیابی کیساتھ ہمکنار کرے آمین۔

  • 4. 18:55 2010-08-09 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    سیلاب کے راستے پر آنے والے اہلِ علاقہ کا دو وقت کی روٹی کے علاوہ سیلاب کے خطرہ کو خاطر میں نہ لانے کی تین بنیادی وجوہات اور بھی ہیں۔ ان میں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ایسی سرزمین جہاں پر انسان نے جنم لیا ہو، بچپن گذارہ ہو، کھیلا کُودا ہو، رنگ برنگی ثقافت و روایات سے لطف اندوز ہوا ہو، علاقائی لوک گیتوں، ماہئیوں، ٹَپوں اور جُگنی گنگناتے ہوئے اور ہیر پڑھتے ہوئے جوانی کی دہلیز کو چُھوا ہو، جس مٹی میں دادا پردادا اور آباؤ اجداد کی خُوشبو رچی بسی ہو، اس مٹی کو، اس علاقے کو، اس دھرتی کو آسانی سے خیرباد کہہ دینا کوئی ‘خالہ جی کا گھر‘ نہیں ہوتا بلکہ ایک بہت کرب ناک عمل ہوتا ہے اور جس کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے بڑا دل گردہ درکار ہوتا ہے۔ ان سب حقائق کی جیتی جاگتی تصویریں وارث شاہ کی ‘ہیر‘ راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں، کرشن چندر کے ناولوں اور سعادت حسن منٹو کے افسانوں بالخصوص ایک افسانہ بعنوان ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔
    دوسری وجہ یہ ہے کہ ابھی چند ماہ پہلے ہی ہنزہ کے مقام پر عطاباد جھیل سے پانی کے زبردست اخراج کے خطرہ کے پیشِ نظر ارد گرد کے علاقوں کے لوگوں کو ہنگامی طور پر محفوظ مقامات پر ہجرت کر جانے کا ‘الٹی میٹم‘ جاری کیا گیا تھا اور بہت سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر چلے گئے تھے اور جن کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، انہوں نے چوراہوں اور سڑکوں پر ڈیرے ڈال دیئے تھے۔ یہ سب لوگ حکومتی امداد کے منتظر تھے اورمنتظر ہی رہے۔ عطاباد جھیل سے پہاڑ کاٹ کر جو سپل وے بنایا گیا تھا، اسی راستے سے جھیل کے پانی کا معتدل اخراج ہوتا رہا اور کوئی تباہی و بربادی سننے دیکھنے کو نہ آئی۔ حتٰی کہ عطاباد جھیل کے نتیجہ میں جو تباہی و بربادی کے نقشے میڈیا میں گردش کرتے نظر آئے، ان کی عملی تدبیر بفضلِ خدا دیکھنے کو نہ ملی۔ لہذا اس واقعہ یا ‘معجزہ‘ اور چونکہ ہوا کے رُخ کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب اپنا رُخ بدل لے، اس لیے بھی سیلاب کی ممکنہ گذرگاہ کے علاقوں کے باسی اپنا ٹھکانا چھوڑنے پر آسانی سے راضی نہیں ہوتے۔
    تیسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ اگر لوگ سیلاب کے خوف سے اپنا گھر بار چھوڑ کر اور ڈھور ڈنگر سمیٹ کر دوسرے محفوظ علاقوں اور شہروں کی طرف جائیں تو ان کے روزگار، بچوں کی تعلیم، تحفظ، عزتِ نفس، اور چھت کا کیا ہو گا؟ سوات ملٹری اپریشن میں لوگوں نے جب کراچی میں جا کر پناہ لینی چاہی تو وہاں کے ایک مخصوص ضیائی باقیات کے لسانی ٹولہ کی طرف سے ‘کراچی‘ آمد پر ان متاثرین کو ‘طالبان‘ کہا گیا جس سے متاثرین سوات کی جان و مال داؤ پر لگ گئی تھی۔ اسی قسم کی صورتحال لاہور کی پنجاب یونیورسٹی جس پر جماعتیوں نے ‘شکل مومناں کرتوت کافراں‘ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عرصہ دراز سے قبضہ کیا ہے، میں بھی بلوچ طلباء اور بلوچ اساتذہ پر حملے ہوئے تھے اور جن پر بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے محترم علی سلمان صاحب نے ایک فیچر بھی لکھا تھا۔ جب ملک کے اکثر شہروں میں لسانیت، صوبائیت، نسلی و گروہی جراثیم جڑ پکڑ چکے ہوں تو ایسے میں دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرکے جان و مال داؤ پر لگانے سے بہتر ہے کہ اپنی دھرتی، اپنی زمین پر ہی سب کچھ سیلاب پر چھوڑ دیں۔ اس طرح کم از کم قبر تو دادا پرداد کے ساتھ بن ہی جائے گی۔

  • 5. 19:28 2010-08-09 ,رضا :

    حسرت ہي رہی کوئي خير کي خبر آ جاۓ اس ملک سے - خدا جانے اس قوم کا امتحان کب ختم ہو گا - ختم ہو گا بھی يا نہيں ، جناب آصف فاروقی صاحب -

  • 6. 20:39 2010-08-09 ,....وحیداللہ آفریدی ......... خیبرایجنسی :

    آصف فاروقی صاحب! آپ کے بلاگ کاآخرسطر پڑھتے ہوئے میری آنکھیں اشکبار ہوگئی۔آخرہمارے ملک کے ان غریبوں کا کیا ہوگا؟ خیبرپختونخوا،پنجاب اورسندھ کے ان تمام غریبوں کے سروں سے چھت چھین گئے اب ان کی بحالی کب اور کیسے ممکن ہوگی اس بارے میں ہم سب کو اورخصوصاََ صحافی برادری کو اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہنے ہوگا۔ حالیہ سیلاب نے بکھرو جیسے سینکڑوں بستیاں اپنے آغوش میں سمیٹ کر بہا لے گیا۔
    آخر میں میں یہ کہونگا کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اب اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہر آفت اور تکلیف کے بعد ہمارے ملک کے حکمران یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں بھرپور اقدامات کرینگے۔ تاہم موجودہ سیلاب نے ان کے دعوے جھوٹے ثابت کردیئے۔ لیکن اس مرتبہ ہمیں اپنے ملی جذبہ سے اپنے متاثرہ بھائیوں کی بحالی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ تاکہ غلام حسین کے بیٹے جیسے ہزاروں نوجوانوں کو روٹی،کپڑا اور مکان کی فکر کرنے کی بجائے اس ملک اور قوم کی ترقی پر توجہ دینے کیلئے موقعہ مل سکے۔ اللہ تعالٰی ہمارے ملک و عوام کو اس امتحان سے نکالے اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔

  • 7. 21:47 2010-08-09 ,سید طاہر شاہ چاغی بلوچستان :

    جناب سیلاب سے نقصان پوری قوم کا ہوا جبکہ فائدے ہمارے سیاست دانوں، وڈیروں،سرداروں اور چودھریوں کو مل رہی ہیں بیرونی امداد کی مد میں ، خدا کے علاوہ ان کا حتساب کرنے والا مجھے نظر نہیں آتا
    سید طاہر شاہ چاغی بلوچستان

  • 8. 21:54 2010-08-09 ,محمّد رمضان مندازی آمری پاکستان :

    اگر سہلاب نہیں آتی تو ہمارے سیاست دان باہر سے پیسے کمانے کے لئے کیا حربے استمال کرتے آخر خدا نے سن لی نہ ان کی
    محمّد رمضان مندازی آمری پاکستان

  • 9. 4:05 2010-08-10 ,Daniyal Danish :

    کا ش کہ آپ مظفرگڑھ کے ان باسیوں سے پوچھ لیتے کہ کیا آپ ایسے نمائندوں کودوبارہ منتخب کریں گے ۔جنہوں نے سیلاب سے نمٹنے کیلئے اقدامات تک نہیں کئے ۔اور جو متاثرین کی مدد کو بھینہپہنچ سکے۔
    مگر مجھے کوئی شک نہیں۔اگر یہ لوگ دوبارہ بھی ووٹ دیں تویہ انہی لوگوں کو ووٹ دیں گے جیسا کہ جمشید دستی کے معاملے میں ہوا تھا ۔ان کی ڈگر ی سپریم کورٹ نے جعلی قرار دے دی ۔تو وہ دوبارہ عوام میں گئے اور منتخب بھی ہوگئے۔واہ رے عوام۔

  • 10. 4:40 2010-08-10 ,....وحیداللہ آفریدی ......... خیبرایجنسی :

    غلام حسین اور اس کے بیٹے جیسے کتنے لوگ سیلاب کے بعداب در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالٰی ان کا حامی و ناصرہو۔

  • 11. 5:56 2010-08-10 ,تنوير احمد :

    غلام حسين کے بيٹے نے سچ ھی کہا کے ہم رات کے کہانے کی فکر کريں يا دو ماہ بعد آنے والے بڑے پانی کی - ہماری حکومت نے حالات ہی ايسے پيدا کر ديے ہيں کہ عوام اور کچھ نہ سوچنے پر مجبور ہيں

  • 12. 8:23 2010-08-10 ,علی گل،سڈنی :

    رات کے کھانے کی فکر کريں يا دو ماہ بعد آنے والے سيلاب کي۔
    ہمارا سب سے بڑا الميہ يہ ہی ہے کہ ہم چادر ديکھ کر پاؤں نہيں پھيلاتے۔دريائے سندھ کے کچے کا علاقہ ہو يا شہروں کی کچی آبادياں يا شہروں کے پرانے علاقے غريب آدمی کو سوائے آبادی بڑھانے کے کام ہی کوئی نہيں۔ ايک کمرے کے مکان ميں آٹھ آٹھ بچے پيدا کر ديتے ہيں اور يہ ہی بچے بڑے ہو کر اردگرد کا ماحول ديکھتے ہيں تو مايوسی کا شکار ہو جاتے ہيں۔ کسی کو مدرسے کا شوق لگ جاتا ہے اور وہ دہشت گرد بنتا ہے کوئی مجرم بن جاتا ہے اور اگر کوئی غلام حسين کے بيٹے کی طرح کھانے کی فکر ميں لگ کر محنت مزدوری شروع کردے تو کام اس نے بھی وہی آٹھ بچے بنانے کا کرنا ہے۔اگر ايک دو افراد کی روٹی کا مسءلہ ہو تو پھر سيلاب کی بھی فکر کی جاسکتی ہے۔جب تک ہم اپنا فکر خود نہيں کريں گے ہم باقی دنيا کا مقابلا نہيں کرسکتے۔دريائے سندھ يا کسی اور دريا کے کنارے بسنا يا ريل کی پٹری پر ليٹنا ايک ہی بات ہے اور وہ بھی جب پتا ہو کہ گاڑی آنے والی ہے۔ٹھيک ہے ہم قدرت کا مقابلا نہيں کرسکتے ليکن عقل کے استعمال سے کوے نے بھی گھڑھے سے پانی نکال ليا تھا۔بلکہ ميں تو يہ بھی کہوں گا کہ سيلاب سے جتنے بچے يا پالتو جانور ہلاک ہوئے ان کے قاتل انہيں کے بڑے ہيں جو ہر سال آنے والی آفت کا پتہ ہونے کے باوجود علاقہ نہيں چھوڑتے اور سب کچھ خدا پہ ڈال ديتے ہيں۔

  • 13. 18:05 2010-08-10 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے
    بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے‘

  • 14. 22:52 2010-08-10 ,Abbas Khan :

    يہ خاکسار، جناب علی گل آف سڈني شريف سے پوری طرح متفق ہوتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہے کہ ہماری حکومتوں اور دانشوروں نے سب بڑی کوتاہی جو کی ہے، وہ ہے عام لوگوں کی تعليم و تربيت ميں غفلت- يہی وجہ ہے کہ لوگ پہاڑوں پر ڈوب کر اور دنيا کے سب سے بڑے اناج گھر ميں بھوک سے جان دے رہے ہيں- نا معلوم وجوہات کی بدولت ايسا کلچر تشکيل پا چکا ہے کہ ناگہانی آفات سے بچنے اور مقابلہ کرنے کی تياری کرنے والے پر کفر کا فتويٰ لگ جاتا ہے- ہم نے خود اپنی سے ديکھا کہ جب گورے نئی صدی کی آمد پر پريشان تھے اور اسٹوروں ميں ايمرجنسی کی چيزيں خريدنے کے ليۓ لائينں لگائے کھڑے تھے تو ہمارے جيسے ان پر ہنستے تھے- ٹھيک ہے کہ ہم غريب ہيں اور فضول پيسے نہيں، ليکن کيا ہم چنے، گڑ، اچار اور پانی کا اسٹاک بھی نہيں کر سکتے، کہ چند دن مصيبت کے نکل جائيں- مصيبت ميں گھرے لوگوں کو ديکھ کر اور اپنی قوم کی ناکامی ديکھ کر يہ سب کہنا پڑا-

  • 15. 1:41 2010-08-11 ,نغمہ سحر :

    مگر مجھے کوئی شک نہیں۔اگر یہ لوگ دوبارہ بھی ووٹ دیں تویہ انہی لوگوں کو ووٹ دیں گے جیسا کہ جمشید دستی کے معاملے میں ہوا تھا Daniyal Danish :
    تبصرہ نگار کی خدمت ميں عرض ہے کہ کيوں نہ ووٹ ديں جمشيددستی کو وہ آج مصيبت کے وقت اپنے حلقے ميں اپنے لوگوں کے ساتھ موجود ہے ۔يہ مظفرگڑھ کے لوگوں کا سياسی شعور ہے کہ انھوں نے ايسا نمائدہ ايک بار نہيں دو بار چنا اور ان لوگوں کو مسترد کرکے ثابت کرديا کہ وہ اب ان لوگوں کی باتوں ميں نہيں آئيں گے جنہوں نے نفرت کا زہر مذھب کے پيالے پيلايا خاندان تقسيم کرواديئے آزواجی رشتے ختم ہوگئے جنازے نہ پڑھے کے فتوے جاری کيے ايسی نفرت کی باتيں جب ہم سنتے ہيں تو ايسے عالموں فاضلوں اور ڈگری ہولڈوں سے گھن آتی ہے ۔انشاءاللہ آئندہ انتخابات ميں ملک بھر کے عوام جمشيد دستی جيسے لوگوں کو ہی منتخب کريں گے جو بغير کسی امتياز ہر وقت مدد کے لئے تيار رہتے ہو اور ان کی طرح نہ ہوں جو اليکشن کے بعد نظر ہی نہ آتے ہوں جب آتے ہوں تو سيلاب کی طرح سيلابی سياست کرتے نظر آتے ہيں ۔

  • 16. 14:32 2010-08-11 ,RAJA MUHAMMAD IQBAL KOTLI AK :

    جناب عالی! ہمارے ملک کے سیاستدان کرپٹ،بےایمان،بے حس اور بے غیرت ہو چکے ہیں۔ انکا باپ مسٹر 10 پرسنٹ اور بقایا90 پرسنٹ۔ عوام کے لیے کیا بچا = 0 پرسنٹ۔ ابھی عوام پھر فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس جمہوریت سے تو مشرف کی آمریت بہتر تھی۔ جوتا بردار جلوس پارلیمنٹ کا گھیراو کر کے پی پی پی کو عوامی ایوانوں سے بھگا دے ایک ہی حل نظر آرہا ہے۔ شکریہ

  • 17. 19:08 2010-08-11 ,عمران اشرف :

    یہاں کوئی بہی اپنی ذمہداری نبھاتا ہوی نظر نہیں آتا۔ حکومت عوام سے گلا کرتی ہے ، عوام حکومتی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ جب کسی کا بس نہیں چلتا تو خدا کی مرضی جان کر بات آئی گئی کر دی جاتی ہے۔ ہم سم کا اللہ ھی حافظ ہو۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔