| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صرف چار چیزیں!

اب تک حکومتِ پاکستان نے جو تخمیہ لگایا ہے اسکے حساب سے ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں اور پچیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی تلے آئی ہے۔ پانچ لاکھ ٹن گندم کے ذخائر برباد ہوئے ہیں اور گنے کی بیشتر فصل ڈوب گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کہتی ہے کہ بحالی کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔

جب میں یہ اعداد و شمار کروڑ لعل عیسن کے ایک سیلاب زدہ ایف اے پاس کسان یوسف علی کو بتا رہا تھا تو اس نے کہا ہمیں اربوں ڈالر نہیں چاہیئیں۔ ہمیں تو بس حکومت ہر شخص کے متاثرہ رقبے کے حساب سے گندم کی اگلی فصل کے لیے مفت بیج ، کھاد ، ڈیزل اور ٹیوب ویل کا انجن دے دے۔ جیسے جیسے فصل کھڑی ہوتی جائے گی ہم بھی کھڑے ہوتے چلے جائیں گے۔

ان چار چیزوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والی پیداوار کی آمدنی سے ہم سال بھر میں دو کچے کمرے تعمیر کرلیں گے۔ایک دو بھینسیں خرید لیں گے اور اگلے برس کی کاشت بھی اپنے بل بوتے پر کرلیں گے۔

جس سیلاب نے برباد کیا ہے وہی سیلاب نئی مٹی کی شکل میں پیدا ہونے والی زرخیزی کا مرہم ہمارے زخموں پر رکھ دے گا ۔

جو لوگ اربوں ڈالر کی بات کر رہے ہیں وہ ہمارے لیے نہیں ہیں۔ وہ تو اسلام آباد کے ای اور ایف سیکٹرز ، پشاور کے حیات آباد ، کراچی کے ڈیفنس اور کلفٹن ، لاہور کے گلبرگ، ماڈل ٹاؤن اور ڈیفنس کے لیے ہیں۔

ہمیں بس ایک فصل کا بیج، کھاد، ڈیزل اور ٹیوب ویل انجن دے دو ۔باقی خود رکھ لو۔یوسف علی نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 6:11 2010-08-13 ,Riffat Mehmood :

    قوم کا ہر شخص اپنے حکمرانوں کے کرتوت ديکھتا رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ امداد کی رقم اس تک پہنچنے کے امکانات کم ہيں اور اگر دو چار ہزار کی امداد مل بھی گئی تو ڈھول بجا بجا کر پورا ملک سر پر اٹھاليں گے يا جعلی امداد کے ڈرامے اور فوٹو سيشن اخبارات ميں جابجا صرف ايک وزير اعلیٰ اپنے ہی ہاتھوں سے بانٹتا نظر آتا ہے بڑی ہمت اور طاقت ہے۔ اور لوگوں کو بھی کچھ بانٹنے چاہيں۔ سندھ کے وزير اعلی اتنا کام تو نہيں کر سکتے، پيران سالی ان کی راہ ميں مزاحم ہے۔ اب يہ امداد کس طرح بانٹتے ہيں ابھی نظر نہيں آيا، دور دور سے سيلاب کا جائزہ ليتے نظر آئے۔ اب تو ہر صوبے ميں اس کے لوگوں کی اپنی حکومتيں ہيں۔ وہ تو اپنے صوبے کے لوگوں کو امداد اور معاوضہ صحيح طريقہ سے ديں گے۔ اب تو انہيں اعتماد کرنا چاہيے۔

  • 2. 8:45 2010-08-13 ,Farooq Miana :

    وسعت اللہ صاحب، یوسف علی کو نہ تو کھاد ملے گی، نہ ہی ڈیزل، گندم اور ٹیوب ویل ملے گا۔ اس وقت ڈیڑہ کروڑ کے قریب لوگ یوسف علی بنے ہوئے ہیں، ان بیچاروں کو کچھ بھی نہیں ملنے والا۔ اور ملے بھی کہاں سے، حکومت کے پاس کچھ ہوگا تو ملے گا۔ ہمارے حکمران کیا کرتے ہیں؟ بیرون ملک جا کر عوام کے نام پر بھیک مانگتے ہیں۔ اگر بھیک مل جائے تو کچھ عوام کو دے دیتے ہیں باقی خود کھا جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں قیاس ہو رہا ہے مگر ہم لوگوں میں دم ہی کہاں کہ اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ بہرحال ایک بات پر میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ اگلے الیکشن میں یوسف علی ڈھول بھی بجائے گا، دھمالیں بھی ڈالے گا اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد یا تو شہید باپ کی شہید بیٹی کے بیٹے کو ووٹ دے گا یا پھر وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگا لگا کر اپنا گلہ بیٹھا لے گا اور ہاں مزے کی بات آپ تب بھی بلاگز لکھ رہے ہوں گے اور یہی پوچھ رہیں ہوں گے کہ آخر ہم لوگ کب سُدھریں گے۔۔۔

  • 3. 8:58 2010-08-13 ,رضا :

    خدا بھلا کرے، آپ نے تو مخمصے سے نکال ديا۔ دور بيٹھ کر براہ راست مدد کيسے کی جائے کچھ سمجھ ميں نہيں آتا تھا۔ يہاں ہر دور ميں حکمرانوں سے توقعات بے سود رہي ہيں۔ شہريوں کو خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ خدا کرے آپ کي يہ تحرير اور لوگوں کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہو۔ ايک يوسف علی کی ذمہ داري تو ميں ليتا ہوں۔ مزيد براں آپ کی يہ تحرير اندرون اور بيرون ملک مقيم تمام عزيزوں، رشتہ داروں اور دوست احباب کو مہيا کر کے Adopt a Farmer کی ايک کوشش کر ديکھتا ہوں۔ آگے جو پرور دگار کی منشا۔ خدا آپ کو جزائے خير دے۔ اس ٹِپ کا بے حد شکريہ۔

  • 4. 10:30 2010-08-13 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    کسان یوسف علی نے حکومت سے چار چیزوں یعنی بیج، کھاد، ڈیزل اور ٹیوب ویل انجن کا مفت تقاضا کر کے حکومت کو احساسِ شرمندگی دلانے کی کوشش کی ہے کہ اگر یہ چار چیزیں بھی کسانوں کو حکومت کی طرف سے بطور ایڈ مل جائیں تو بھی کسی ’معجزہ‘ سے کم نہیں ہو گا۔ جبکہ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کسان یوسف علی نے چار بنیادی اشیاء کی دیمانڈ کر کے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کو سیلاب زدگان کو کھانے کے لیے ’مچھلی‘ نہیں دینی چاہیے بلکہ ’مچھلی‘ پکڑنا سکھانا اور مچھلی پکڑنے کے ٹولز مہیا کرنے چاہیئں تاکہ سیلاب متاثرین اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو کر اپنی مدد آپ کی ایک درخشاں مثال قائم کر کے ملک و عوام کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکیں۔

  • 5. 10:49 2010-08-13 ,جج بادشاہ،وولنگونگ آستراليا :

    يوسف علی کی فرياد اپنی جگہ جائز ہے مگر پاکستان ميں اب قابل بھروسہ لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس ليے امداد کی تقسيم کے ليے يا تو خدا کوئی فرشتہ بھيجے يا ميری اقوام متحدہ سے درخواست ہے کہ محترم عبدالستار ايدھی کے حوالے کر دی جائے تو حقدار لوگوں تک يقيناً پہنچے گی۔

  • 6. 11:41 2010-08-13 ,اشتیاق حسین :

    ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کے لیے یہ گریہ کافی ہے۔ مگر یہ سب سننے کے لیے کان ہیں کہاں۔۔۔؟

  • 7. 13:06 2010-08-13 ,Nadeem Ahmed :

    وسعت صاحب، آفرين ہے ہمارے ملک کے جفاکش اور محنتی کسانوں پر اور سلام پيش ہے افواج پاکستان کے بہادر جوانوں اور سول ورکرز کو، جو اس ناگہانی آفت ميں دن رات مصيبت زدہ لوگوں کی مدد کر رہے ہيں اور افسوس ہو رہا ہے ان نام نہاد شہری دانشوروں پر جو ہمارے کسانوں کو بے شعور اور جاہل سمجھتے ہيں۔

  • 8. 14:22 2010-08-13 ,MATLOOB MALIK, UK :

    دنیا نے 2005 کے زلزلے میں پاکستان کی جتنی امداد کی اگر امدادی رقوم کو متاثرہ علاقوں میں ایمانداری سے خرچ کیا جاتا تو آج ہمارے وہ علاقے سونے کے ہوتے۔ لیکن غریب عوام ابھی بھی خیمہ بستیوں میں رہتے ہیں۔ اور زلزلے کے وقت فوجی آمر مشرف کی حکومت تھی جس نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امدادی رقوم کا خرد برد کیا اور بڑے پیمانے پربندر بانٹ کی۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت جو کہ سو فیصد بدعنوانوں کے ٹولے پر مشتمل ہے کوئی ذی شعور انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ امدادی رقوم اور دیگر سامان حقداروں تک پہنچے گا۔ ہمارے ملک کا واحد حل فوجی ڈکٹیٹرشپ ہے نا کہ جمہوریت کیونکہ فوجی حکمرانوں کی نسبت سیاستدان زیادہ کرپٹ ہیں۔ عوام بھوکی ننگی مر رہی ہے اور وہ کسی نجات دہندہ کی منتظر ہے جو انہیں موجودہ بحران سے نکال باہر کرے۔ امدادی رقوم ایدھی ویلفیئر سوسائٹی کے علاوہ ایمانداری سے کوئی متاثرہ لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا۔ لہذا حکومت ایدھی کے چینل سے متاثرین تک سامان پہچائے تو بہتر ہوگا۔ ورنہ ہم صومالیہ اور کانگو جیسے حالات سے دوچار ہوجائیں گے جہاں بھوک کو مٹانے کے لیے لوگوں نے اپنے بچے تک کھا لیے۔ اللہ بچائے۔

  • 9. 14:33 2010-08-13 ,عطاءالرحمان بر شور پشين :

    ہاۓ! افسوس ہميں يہ بھی پتہ ہے کہ ايسا نہيں ہوگا۔ اگر باالفرض حکومت ايسا ہی اعلان کرے تو اسی يوسف صاحب کے 12 بيٹے اور ہر ايک کی الگ زمين۔۔۔ اب اس ايک يوسف صاحب کو 12 انجن سميت ہر چیز بارہ بارہ چاہیے۔ اللہ کے اس عذاب کے بعد ہم نے کون سا گناہ چھوڑا جس کو ہم اپنے روٹھے ہوئے رب کے سامنے کر سکيں کہ يا اللہ اپنا فضل فرما۔

  • 10. 18:12 2010-08-13 ,Tanveer Arif :

    آپ نے پی سيناتھ کی کتاب every body loves a good drought پڑھی ہوگی، بس drought کی جگہ flood لکھ ليں حسب موقع۔

  • 11. 18:45 2010-08-13 ,Dr Alfred Charles :

    وسعت صاحب! آپ کے توسط سے جو يوسف بيان کر رہا ہے وہ ہمارے حکمرانوں کی قطعاً ترجيح نہيں۔

  • 12. 19:08 2010-08-13 ,محمد عمران ملک :

    وسعت اللہ صاحب! مجھے تو یقین ہے کہ اس ساری آفت میں کم ازکم پچاس فیصد ڈرامہ بھی ہوگا۔ اور ساری کوشش کی جا رہی ہوگی کہ کیسے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی امداد حاصل کی جاسکے۔ اگر میں صرف تصور ہی کروں تو کئی گدھ ابھی سے دانت نکوس رہے ہوں گے اور کئی تو آنے والی امداد کے حصے بخرے کرنے کا بھی پلان کر چکے ہوں گے۔ خدا کی قسم دل کرتا ہے کہ کہیں سے بھی ایک روپیہ نہ ملے۔ اگر کوئی مدد کرنا چاہتا ہے تو براہ راست کرے یا پھر ایدھی جیسے کسی امدادی ادارے کے توسط سے کرے۔ مجھے تو لگتا ہے جو بڑے شہر خالی کرائے جا رہے ہیں وہ بھی ان گِدھوں کی سازش کا حصہ ہیں۔ اور یقین کریں پہلی بار امریکہ کو مدد کرتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ جبکہ چین اور سعودیہ جیسے ملک جیسے سوئے ہوئے ہیں۔ ویسے وہ بھی سچے ہیں۔ سوچتے ہوں گے کہ وہ کیوں فرانس میں قعلہ نما محلوں کے لیے سرمایہ کاری کریں۔

  • 13. 21:35 2010-08-13 ,علی گل،سڈنی :

    جب ملک کے اندر اتنے بڑے بڑے سرمايہ دار موجود ہوں اور عام آدمی کے پاس بھی اتنا پيسہ ہو کہ رات کو بڑے ريسٹورانٹوں پر جگہ نہ ملے يا گورمے اور ميکڈونلڈ میں قطار ميں کھڑے ہو کر باری آئے تو باہر سے امداد لينا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اور اگر مل بھی جاتی ہے اور متاثرين تک نہيں پہچتی تو پاکستان کا دشمن کون بنا؟ امريکہ يا انڈيا؟ اس ليے ميں ہر وقت کہتا ہوں کہ پاکستان کے دشمن اس کے اندر ہی ہيں اور آپ کے ہيروز کی شکل ميں يا مذہبی ٹھيکيداروں کی شکل ميں موجود ہيں۔ کدھر گئے وہ تبليغ کرنے والے اور چِلا کٹانے والے؟ کتنی مدد کی ان متاثرين کی؟ اتنا پيسہ ہے ان کے بڑوں کے پاس، ميڈيا کہيں بھی ان کی کوريج نہيں کرسکا۔ ظالمان تو پہلے ہی امريکہ سے ڈرتے چھپے ہوئے ہيں اور مذہبی جماعتوں کے ليڈر بھی خاموش ہيں، جو بڑی عيد پر زيادہ نماياں نظر آئيں گے، کھاليں اکھٹی کرنے کے ليے۔ ميری پاکستانی قارئين اور عوام سے درخواست ہے کہ تمام عطيات آنکھيں بند کر کے ايدھی ٹرسٹ کو ہی ديں۔ صرف يہی قابل بھروسہ ادارہ ہے پاکستان ميں اور شايد اسی طرح کے چند نيک انسانوں کی وجہ سے پاکستان کا وجود ابھی تک ہے۔

  • 14. 23:25 2010-08-13 ,خالد احمد :

    پاکستان کو ریوڑیاں دے کر ٹرخایا گیا اور لگائے رکھا نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں۔ جو کہتے ہیں کہ سونا بن جاتے ہیں زلزلہ سے متاثر ہ علاقے غلط کہتے ہیں۔ امریکہ اربوں دیتا ہے ہر سال ان کو جن کو اس کے ضرورت بھی نہیں لیکن ہمارا اس جنگ میں نقصان بھی پورا نہیں ہوتا۔ سیلاب میں بھی یہی ہونے والا ہے۔

  • 15. 23:49 2010-08-13 ,Mansoor Ahmed :

    محترم وسعت بھائی، اس مشکل وقت سے باہر نکليں تو کھاد وغيرہ کا سوچيں گے، آپ اپنی سيلاب ڈائری کے سلسلے ميں نوشہرہ يا چارسدہ تشريف لائیں، ميرے ريلیف کيمپ کا وزٹ کريں تو آپ خود ہی اندازہ لگا لو گے کہ حالات کيا ہيں اور لوگ کيا مانگتے ہيں۔ يہاں ايک وقت کی روٹی اور ايک گلاس پانی کے لالے پڑے ہوئے ہيں سر۔ خدارہ اس طرف بھی کچھ سوچيں، جہاں پورا پاکستان سيلاب سے متاثر ہوا ہے مگر خيبر پختونخواہ برباد ہو گيا ہے۔ يہ لوگ بھی پاکستانی ہيں، ان کا بھی ہم پر اتنا حق ہے جتنا دوسرے پاکستانيوں کا۔ ميں پختون نہیں مگر یہاں رہ کر يہاں کے لوگوں کا کرب اور درد محسوس کر سکتا ہوں۔ حکومت خود کچھ کرنے سے قاصر ہے اور اگر ہم جيسے کچھ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان علاقوں ميں جا کر کام کرتے ہيں تو ہم کو طالبان سے ڈرايا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ جائيں بھی تو کہاں؟ اب تو لوگ يہی شکوہ کرتے نظر آتے ہيں کہ کاش يہ سيلاب ہم کو بھی ساتھ بہا لے گيا ہوتا۔

  • 16. 14:00 2010-08-14 ,رمضان مندازی آمری پاکستان :

    وسعت صاحب، ہمارا ہمسایہ ملک ایران برسوں سے یوسف بھائی کی فارمولے پر عمل کر رہا ہے جبھی تو وہ امریکہ اور یورپ کو آنکھیں دکھا رہے ہیں کیوں کہ وہ معاشی طور پر اپنے کسانوں کو مضبوط کر چکے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران آج سے ٢٠ سال پہلے یہی طریقہ آزماتے تو آج ہمیں کسی کی آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے۔ بہرحال ہمارے حکمران خوش ہیں آخر جینا تو ان کو ہے نا۔

  • 17. 14:16 2010-08-14 ,Ch Allah Daad :

    وسعت بھائی کيا يہ چار چيزيں ان غريب کسانوں کے پاس پہلے تھيں، جو اب مانگ رہے ہيں۔ آپ نے کسی امير زميندار کے دستر خواں کا لطف اٹھا کر، سارے ليہ کا اندازہ لگا ليا ہے۔ ورنہ ليہ، بھکر اور بورے والہ وہ علاقے ہيں، کہ ہمارا باس ان علاقوں ميں ٹرانسفر کا ڈراوا ديکر اپنے ماتحتوں سے اچھی خاصی رقم بٹور ليتا تھا۔ اس سيلاب سے غريبوں کو کوئی فرق نہيں پڑے گا، ہاں آپ کے ميزبان ان غريبوں کے نام پر ليے گۓ قرضے ضرور ہضم کر ليں گے۔

  • 18. 15:32 2010-08-14 ,Noble Tufail :

    محترم وسعت اللہ خان صاحب خداوند آپ کو برکت دے کہ آپ نے بر وقت ايک اچھا اشارہ ديا۔ ميں رضا صاحب کی بات سے اتفاق کرتا ہوں اور ايک يوسف علی کی ذمہ داری ليتا ہوں۔

  • 19. 20:29 2010-08-14 ,محمد یوسف :

    بیرونی ممالک اور امدادی ادارے یوسف علی کے فارمولے پر عمل کریں اور غریب کسانوں میں بیج، کھاد، ڈیزل اور ٹیوب ویل انجن براہ راست تقسیم کریں۔ حکومت پاکستان کو اس میں شامل نہ کریں یا حکومت کے توسط سے کڑی نگرانی میں تقسیم کریں۔

  • 20. 0:59 2010-08-15 ,Shahid Abbasi :

    ایک معصوم اور سادہ لوح کسان کی جانب سے نہایت بہترین اور بروقت تجویز ہے۔ لیکن وہ بیچارا یہ نہیں جانتا کہ تجویز تو ہمیں درکار ہے لیکن وہ امداد فراہمی کے متعلق نہیں، امداد کے حصول کے متعلق ہونی چاہیے۔ اس کا ثبوت 2005ء کا زلزلہ، گزشتہ برس کے آپریشن متاثرین اور کراچی سمیت ملک بھرمیں امن و امان کی خرابی کا شکارافراد ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں کرپشن ہماری شناخت، بددیانت قیادت ہماری قسمت اور رشوت و چور بازاری ہماری عادت بنا دی گئی ہے۔

  • 21. 7:19 2010-08-15 ,Farhan DAnish :

    لوگوں کو نقصانات کا اندازہ نہیں یا پھر لوگوں میں حکومتی اداروں پر اعتماد کا فقدان بڑھ گیا ہے اور انھیں شک ہے کہ ان کا پیسہ سیلاب زدگان تک پہنچنے سے پہلے ہی کہیں پہلے سے بھری تجوریوں میں ہی نہ چلا جائے۔

  • 22. 15:51 2010-08-16 ,abbas :

    کسان یوسف علی نے حکومت سے چار چیزیں یعنی بیج، کھاد، ڈیزل اور ٹیوب ویل انجن کا مفت تقاضہ کر کے حکومت کو احساسِ شرمندگی دلانے کی کوشش کی ہے کہ اگر یہ چار چیزیں بھی کسانوں کو حکومت کی طرف سے بطور ایڈ مل جائیں تو بھی کسی ’معجزہ‘ سے کم نہیں ہوگا۔ جبکہ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کسان یوسف علی نے چار بنیادی اشیاء کی دیمانڈ کر کے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کو سیلاب زدگان کو کھانے کے لیے ’مچھلی‘ نہیں دینی چاہیے بلکہ ’مچھلی‘ پکڑنا سکھانا اور مچھلی پکڑنے کے ٹولز مہیا کرنے چاہیئں تاکہ سیلاب متاثرین اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو کر اپنی مدد آپ کی ایک درخشاں مثال قائم کر کے ملک و عوام کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکیں۔

  • 23. 12:08 2010-08-30 ,عرفان علی گھمرو :

    وسعت اللہ صاحب کیا آپ کے سندھ میں آنے پر کوئی پابندی ہے یا آپ پنجاب کو پاکستان سمجھ بیٹھیں ہیں۔ صاحب جی کبھی کبھی ہی صحیح سندھ والوں کی خبر بھی لے لیے کریں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔