| بلاگز | اگلا بلاگ >>

چُلّو بھر پانی

اصناف: ,

حسن مجتییٰ | 2010-08-17 ،13:19

آپ کو نہیں لگتا کہ اب کے قدرت کی دہشتگردی میں سب کچھ پانی میں بتاشوں کی طرح تحلیل ہوتا جارہا ہے۔ گاؤں، شہر، گھر، یادیں، بچپن، زندگی سب کچھ۔ بلکل کسی کاٹن کینڈی پر پڑتے ہوئے پانی طرح۔

مجھے لگتا ہے موہن جو ڈارو بھی اس طرح کھنڈرات بن گیا ہوگا۔ پانچ ہزار سالہ عظیم الشان تہذیب جسے سندھی جریدے نے اپنے سرورق پر 'سندھ کا بیت المقدس' قرار دیا تھا۔

شاید اب ایک مرتبہ پھر سندھو تہذیب تہ و بالا ہوتی جاری ہی ہے۔ سندھو تہذیب جو سری نگر سے لیکر سندھ تک تھی۔ لوگ اور قومیں ایک دوسرے کیساتھ امتیازی سلوک روا رکھتی ہیں۔ زبان، رنگ، نسل، طقبے، مذہب کا لحاظ رکھتے ہیں لیکن موت اور دریا نہیں۔ دریا اپنی محبت اور غصہ برابری سے بانٹتا ہے۔

میرے دوست انور پیرزادو نے ایک دفعہ ایک ٹی وی مباحثے پر کہا تھا کہ دریا سے دست اندازی مت کرنا۔

دریا سے دست اندازی کرنے کا نتیجہ آپ نے دیکھا کہ دریا نے گھر گھر کئی دریا بہا دیے ہیں۔ آنسوؤں کے سمندر بہا دیے ہیں۔ ایسے ایسے شہر،گاؤں تباہ ہوتے جار ہے ہیں جن کے بارے میں ایسا سوچا تک نہیں جاسکتا تھا۔

ایک دوست نے مجھے لکھا: 'تصور سے باہر ہے کہ میرا گاؤں ، میرا گھر، جہاں میں نے اپنا بچپن گزارا، میرے بچپن کی گلیاں سب قاتل پانیوں میں گھری ہوئی ہیں۔ میرا گاؤں جو کہ میری محبت تھی، پہلی محبت جو آدمی بڑی چاہت سے محفوظ مقام پر چھپا کر رکھنا پسند کرتا ہے۔'

اب محبت تو کیا پچھہتر فی صد لوگوں کو سر چھپانے کے لیے شاید ہی کوئی محفوظ مقام میسر آیا ہو۔

پاکستان میں فلڈ ایمرجنسی ڈیوٹی میں مصروف ایک انتہائی باخبر اہلکار نے مجھے لکھاکہ یہاں کچھ بھی نہیں صرف فوٹو سیشن ہیں، غیر ضروری تاخیری حربے ہیں اور لوگوں کو بچانے میں سنجیدگي نہیں۔

ایک اور دوست نے لکھا کہ ہاکس بے پر جیکب آباد کے متاثرین کی کیمپوں پر بھتہ خور بھی پہنچے ہیں۔

میں نے سوچا ہر طرف پانی ہی پانی ہے مگر پھر بھی سرکاری اور غیر سرکاری بے حسوں اور فوٹو سشین کے بھوکوں کے لیے چُلّو بھر پانی کہیں موجود نہیں!

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:19 2010-08-17 ,فیاض امر :

    حسن بھیا ہے ناإ
    کیوں نہیں ہے۔۔۔۔ بہت سا پانی۔۔۔۔
    لیکن غیرت کا ہونا ضروری ہوتا ہے بھیا۔۔۔۔۔

  • 2. 14:40 2010-08-17 ,ہارون :


    درست کہتے ہیں آپ۔ ایسے ہی ہے۔
    ابھی کچھ ہی دن پہلے چنیوٹ میں فلڈ ریلیف فنڈ لگا تھا۔ کمشنر اور کچھ لوگ آئے اور دورہ کرکے چلے گۓ۔ صرف فوٹو سیشن ہوا اور سب ختم۔ کوئی امداد اکٹھی نہیں ہوئی۔ سوائے چند تھیلے آٹے کے اور چینی کے۔ جو کہ دو چار گھروں کیلیے کافی ہوں شاید۔

  • 3. 14:47 2010-08-17 ,یاسر عمران مرزا :

    یہ سب ہماری عوام اور حکومت کی نااہلیوں کا نتیجہ ہے۔ دریا کو اس طرح سے ہینڈل نہیں کیا گیا جس طرح کرنا چاہیے تھا۔ دریا ہمیشہ سے سرکش رہے ہیں اسی لیے سائنس نے دریا کی سرکشی کو فائدے کی سمت موڑنے کے لیے بند بنانے کا آپشن ہمیں دیا ہے، اگر ہم دریا جیسے سرکش گھوڑے کو قابو میں کرنے کے لیے کوئی عمل ہی نہیں کریں گے تو ظاہر ہے وہ ہماری گلیاں سڑکیں اور مکان سب اجاڑ دے گا۔

  • 4. 16:02 2010-08-17 ,ڈاکٹر الفریڈ چارلس :

    حسن بھائي! چلو بھر پانی تو ہے مگر ڈوبنے والے انتہائی مکار و چالاک ہيں۔آپ کی بات درست ہے کہ دريا بھی اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے پيش نظر ہی بپھرا ہے۔ہم نے اپنے عظيم سندھو دريا کے ساتھ کيا کچھ ناجائز و زيادتی نہيں برتي؟آلودگی و گندگی سے اسے بھرديا۔ ہرسال چند ايک غريب غرباء ہی دريا کے عالمی دن پر اس ميں گل پاشی کرتے تھے اور باقی تماشائی کا سا کردار ادا کرتے رہے۔!

  • 5. 16:02 2010-08-17 ,نجیب رحمان لاہور :

    ‘پانی پانی مجھ کو کرتی ہے میری تر دامنی
    چاہیئے اشکوں کی چادر منہ چھپانے کے لیے‘

  • 6. 20:35 2010-08-17 ,ساحر خان :

    ميرا ايک سوال ہے
    ترقی يافتہ ممالک ميں بھی مختلف قسم کی آفات آتی رہتی ہيں اور وہاں بھی حکمران ہوتے ہيں اور عوام کی مدد اسطرح کرتے ہيں کہ ہر کوئ خوش ہوتا ہے مگر ايک بات جو نہيں ہوتی اور ديکھنے ميں نہيں آتی وہ ہے پبليسٹی - تو پھر ہمارے حکمران ايسا کيوں کرتے ہيں کہ ہر جگہ فوٹو چاہے وہ ايک گلی ميں نالی بنانے کا افتتاح ہو يا کسی بيت الخلا کا اور يا پھر کسی بيوہ اور يتيم بچی بچے کی کبھی کبھار مدد کا موقع ہو ـ يہ حکمران کام کيوں نہيں کرتے بجاۓ اپنی پبليسٹی کے ؟ ميں نے کبھی کسی وزير کو کسی گلی روڈ يا کسی عمارت کا افتتاح کرتے نہيں ديکھا اور اگر کبھی ايسا ہوا بھی ہے تو کسی بہت بڑے منصوبے کا ـ مگر ہمارہ ہاں تو سرکاری اور سياسی حکمران کام تو کرتے ہيں بس اپنا نام ہر جگہ سنگ مرمر کی تختی پہ يا ٹي وی اور اخبارات ميں ديکھنا پسند کرتے ہيں اور يہيں عوام کی خدمت سمجھی جاتی ہے جو ہم جيسے ان پڑہ عوام سمجھ نہيں پاتے اور گلے کرتے پھرتے ہيں خوامخواہ ميں-

  • 7. 22:10 2010-08-17 ,ندیم احمد :

    حسن بھائي! آپ اس حکومت اور براکريسی کو جتنی مرضی یاد دلائيں، انکے کان پر جوں تک نہيں رينگني- ويسے آپ اور وسعت بھائی اپنا خيال رکھيں۔

  • 8. 6:09 2010-08-18 ,رفی اللہ خیرپور :

    .
    چلو بھر پانی تو پوری قوم کیلیے بھی نہیں جو دریا اور نہروں پر درخت کاٹ کر کھا گئي۔ اور اب نادم ہونے کی بجائے ایک اسی ایم ایس عام کیا جار ہا ہے کہ : ' اے سندہ دھرتی! تو کب سے پیاسی ہے۔ تیرے بیٹے لاکھوں کالا باغ ڈیم روند کر تیری پیاس بجھائيں گے۔ افسوس ہے اپنے ان لوگوں پہ جو کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کے پانی نے سندہ ڈبودیا۔ حکومت میں تو ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنکو احساس تک نہیں ۔ اس قوم نے ابھی بھی ہوش کےناخن نہ لیے تو یقینن تباہی مقدر ہے۔

  • 9. 9:18 2010-08-18 ,مسرور احمد، کيلگری :

    دريا بھی غربت کم کرنے چل پڑا- نہ غريب رہے گا نہ غربت- رہی بات چلو بہر پانی کی تو فوٹو سيشن والے چلو بھر پانی پروف ہيں-

  • 10. 11:20 2010-08-18 ,سید قلب عباس کاظمی :

    اگر کوئی بھی شخص سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لیئے جائے امداد پر اس انتظام کے ساتھ جائے کہ وہ ٹی وی یا میڈیا والوں کو پہلے سے دعوت دے کہ آپ فلاں جگہ پہنچیں، میں نے وہاں سیلاب زدگان کے درمیان امداد تقسیم کرنی ہے۔ جب میں متاثرین ِ سیلاب کو امداد بانٹوں تو تم فوٹو کھینچنا، تو ایسے انتظام کو بجا فوٹو سیشن کہا جائے گا۔
    لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور میڈیا والے اپنے فرائضِ منصبی کو نبھانے کی خاطر اپنے طور پر ایسا کرتے ہیں تو اسے ٖ فوٹو سیشن کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
    قارئین، اب خود حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا اندازہ لگائیں کہ کیا جو کچھ ہورہا ہے محض فوٹوسیشن ہورہا ہے یا سیاسی مخالفین پر صرف کیچڑ اچھالا جا رہا ہے؟
    یاد رہے کہ فوٹو سیشن کی صورت میں امداد بھی جعلی ہوتی ہے اور متاثرین بھی جعلی ! کیا واقعی ایسا ہے؟
    اس مشکل گھڑی میں کوئی مثبت کام تو کیجئے۔

  • 11. 11:31 2010-08-18 ,شیخ وحید خان :

    حسن بھائي سیلابی اداکاروں کو آئینہ دکھانے کا شکریہ7 اپریل 2009 کو اٹلی میں زلزلے سے خوفناک تباھی آ ئی مگر آفرین ھےاس کے لیڈروں کے کہ جنھوں نےاپنی عقل و تدبرسے فوٹوسیشن کروائےبغیر تباہ شدہ علاقوںکی تعمیر نو کی ۔۔آٹے کےتھیلےاورخوراک کے پیکٹ کےلئے پولیس کے ڈنڈےکھاتے ھمارے بہن بھائی ہماری حکومت پر طمانچہ ہے۔

  • 12. 20:35 2010-08-19 ,حسنین حیدر :

    حسن مجتبیٰ صاحب افسوس کی بات ہے کہ آپ کو سیلاب کے وقت میں بھی ملک دشمنی اور تعصب ہی سوجھتا ہے۔ آپ آج بھی ’’سندھو‘‘ تہذیب کی بات کرتے ہیں سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ پاکستانی تہذیب تباہ ہو رہی ہے مگر آپ جیسے لوگ ہمیشہ سے صرف نفرت اور تعصب کا بیج ہی بوتے آئے ہیں سیلاب سے پورا ملک متاثر ہوا ہے صرف سندھ نہیں آپ نے باقی لوگوں کے بارے میں قلم اٹھانے کی ذحمت گوارا کیوں نہیں کی جب سیلاب دوسرے صوبوں کو تہس نہس کر رہا تھا تو تب آپ کی قلمی صلاحیتیں گھاس چرنے گئی تھیں؟ اب کہیے چلو بھر پانی کی ضرورت کسے ہے؟

  • 13. 20:37 2010-08-19 ,رفعت محمود :

    يہ ہمارا قومی الميہ ہے سب ڈرامہ اورجعلی امداد دينے کے ڈرامے اور ميڈيا کا کردار لوگوں کی آگہی کا باعث ہے- پہلے ايسے ڈراموں کی کوريج کے لئے سرکاری کنٹرولڈ ميڈيا استعمال کيا جاتا تھا-
    ليکن اب حقائق سے پردہ اٹھ ہی جاتا ہے- سب کی رپورٹيں کھل ہی جاتی ہيں ليکن يہ سياست دان اپنے قل و فعل کے تضاد کی قبيح علت سے چھٹکارہ پانے کوآمادہ ہی نہيں تو تبديلی کيسے آ سکتی ہيں ايسے ہی ڈرامے اور فوٹو سيشن امداد کے نام پر ہوتے رہيں گے-اور عوام امداد ملنے کی توقع لئے بھوکے رہ جائيں گے--

  • 14. 21:18 2010-08-19 ,آصف قسیم :

    اگر ہم نے ابتک ایسے لیڈروں سے کوئی سبق نہیں سیکھا تو پھر مجھے ڈر ہے کہ ہم بھی سب اس سیلاب کی نذر نہ ہوجآئيں۔ اب تو ہم سب کو اس نیند سے جاگ جانا چاہیے۔ .

  • 15. 18:35 2010-08-31 ,مقصود احمد دیوکہ :

    سیلاب ہو سکتا ہے کسی عوامی انقلاب کی راہ ہموار کر دے، اب سیاستدانوں سے تو ہر طرح کی توقعات ختم ہو چکی ہیں۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔