| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ایک اور بحران نہ پیدا کر

جس ملک کے کروڑوں عوام سیلاب سے متاثر ہوکر کُھلے آسمان کے نیچے بھوک سے تڑپ رہے ہوں، رمضان کے مقدس مہینے میں جلوسوں پر خودکش حملوں کے نتیجے میں روزے داروں کے پرخچے اُڑ رہے ہوں اور سپاٹ فکسنگ کے الزام میں قوم دنیا بھر میں تماشہ بن گئی ہو، اُس ملک کے سیاست دان ٹیلویژن چینلوں پر حکومت بدلنے، مارشل لا لگانے اور ساز باز کرنے کی گرما گرم بحثوں میں ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دینے کے درپے ہوں تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ملکی سیاست کے اندر شدید خرابی ہے اور بار بار کے تجربوں کے باوجودسیاست دانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

یوں تو پاکستانی فوج پر ملک کے اندر اور باہر گڑبڑ کرنے کے بے شمار الزامات عائد ہوتے ہیں سیاست میں رخنہ ڈالنا، عدلیہ میں پھوٹ یا خُردبُرد کے الزامات تو آئے روز لگتے رہے ہیں، کم از کم فوجیوں نے بے آسرا اور بے یارو مدگار سیلاب زدگان کو مقدور بھر مدد تو کی جو ملک کے سیاستدانوں کی ذمہ داری بنتی تھی، جنہیں عوام نے ووٹ دے کر پارلیمان میں پہنچا دیا تھا۔ بجائے اُن کی مدد کرنے یا اندر باہر خرابیوں کو دور کرنے کےبعض سیاست دان تو حکومت گرانے یا مڈٹرم انتخابات کرانےکے ہی درپے لگ رہے ہیں۔
جو کل تک جمہوریت اور جمہوری اِداروں کو مستحکم کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے وہ آج اقتدار سے دور رہنے کے باعث ایک نیا بحران پیدا کرنے کا پلان بنا رہے ہیں۔
جمہوریت کا خواب دیکھنے والوں کی اُس وقت نیند نہیں آتی جب کروڑوں لوگ بے سروسامانی کی حالات میں ہوتے ہیں، ووٹ حاصل کرنے والوں کا سر اُس وقت شرم سے جھُک جاتا ہے جب اُن کے ملک کے کھلاڑی چند روپے کے عوض سپاٹ فکسنگ کے الزام کی زد میں آتے ہیں مذہب کا درس دینے والے اُس وقت چِلو بھر پانی میں ڈوب جاتے ہیں جب خود اپنے لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔
پاکستان اِس وقت شدید بحرانوں میں گھِرا ہوا ہے اگر آپ اِس کو بحران سے نکالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کم از کم ایک اور بحران کو پیدا نہ کریں کیونکہ اِن بحرانوں کی زد میں صرف غریب عوام ہی پس جاتے ہیں وہ نہیں جو بڑی حویلیوں میں بیٹھ کر بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:41 2010-09-04 ,علی گل،سڈنی :

    ان بحرانوں کے ذمہ دار امير اور غريب دونوں ہيں کيونکہ اگر امير بحران پيدا کرتے ہيں تو غريب بھی اليکشن ميں انہيں کو چنتے ہيں اور چمچہ گيری غريبوں کی ہی ايجاد ہے جبکہ آپ نے کہا اميروں کو کچھ نہيں ہوتا صرف غريب مرتے ہيں جبکہ بالکل ايسا نہيں امير بھی مرتے ہيں مثلاً بھٹو خاندان،اکبر بگتي،ضيا الحق اور ديگر کئي۔مسءلہ يہ ہے کہ ہم ملک چلانے کے ليۓ ايک نقطہ يا نظريہ پہ اکٹھے نہيں ہونا چاہتے کيونکہ ہميں ذاتی مفادات دوسروں کی زندگی اور ملکی ترقی سے زيادہ پيارے ہيں۔اگر کوئی فوجی جرنيل بھی آتا ہے تو اس کی اپنے ماتحتوں پہ اتنی گرفت نہيں ہوتی کہ کوئی انقلابی قدم اٹھائے اس ليۓ وہ بھی بندر بانٹ کے فارمولے کو ہی بہتر سمجھتا ہے۔بس ہميں اب چاہيۓ کہ دنيا ميں ايڈورٹائز کريں کہ ٹيکنيکل کنٹری ڈائريکٹر کی آسامی خالی ہے ہميں ايک يعنی متحد کرنے کے ليۓ اور بحرانوں پہ قابو پانے کے ليۓ کيونکہ ان اٹھرہ کروڑ ميں تو کوئی نہيں ہے جو کسی ايک بحران کو بھی قابو کرلے۔

  • 2. 13:23 2010-09-04 ,Sajjadul Hasnain :

    نعيمہ جی آداب
    بجا فرمايا آپ نے مگر افسوس کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود جب سياست دان نءے ہتھکنڈے آزمانے لگيں تو پھر قوم کا سر شرم سے جھک جاءے گا کاش انہوں نے ايک لمحے کو بھی يہ سوچا ہوتا کہ سيلاب کی تباہی نے دينے والوں کو ايک ايک روٹی کا محتاج بناديا ہے بچوں کو ايک لمحے ميں يتيم و يسير کرديا ہے -لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرديا ہے تو وہ ايسا نہ کرتے - سيلاب ڈاءيری پڑی ہے ميں نے کءی انکشافات ہورہے ہے جو سر شرم سے جکھادينگے کہ کس طرح سرمايا داروں اور ضنعت کاروں نے اپنی جاءيداد بچانے کے لءے آب پاشی کے محکمے کے ساتھ ملی بھگت کرکے کءی علاقوں ميں پشتے توڑے ہيں موت تو آنی ہے خدا نے ديکھنا ہے دنيا تو بچالی آخرت کيسے بچاوگے ؟؟؟

  • 3. 16:15 2010-09-04 ,Hassan Askary :

    نعيمہ بہن حکومت بدل جائے ٹوٹ جائے پھر بن جائے مگر معاشرہ چلتا رہے گا کرکٹ والی خرابياں بھی ايسي نہيں کہ ملک کی سلامتی کو کوئی خطرہ ہے- سو يہ خرابی آج نہيں تو کل ٹھيک ہو ہی جائے گي- سیلاب بھی ايک قدرت کا امتحان تھا سو انشا اللہ اس گھڑی سے بھی ہم نکل ہی جائيں گے- مگر سب سے سيريس اور رونگٹھے کھڑے کر دينے والا معاملہ ہے روزے کے حالت ميں عام اور نہتے لوگوں کو بموں سے انتہائی بے دردی سے اڑا دينا- يہ ايسی چيز ہے کہ نہ تو مرنے والے واپس آ سکتے ہيں نہ ان کے خاندانوں کی دکھوں يا نفسياتی الجھنوں کو ختم کيا جا سکتا ہے- نہ ہی اسے انسانی غلطی کا نام ديا جا سکتا ہے- کيونکہ يہ خوفناک واقعات تو جان بوجھ کر کئے جاتے ہيں- ان کے خاتمے کيلئے حکومت يا سوسائٹی کے پاس کيا پلان ہے؟ دھشتگردی کے بعد چند گھسے پٹے بيان دينے يا دو چار ہفتہ کيلئے قاتلوں کو پکڑ کر چھوڑ دينے سے تو يہ واقعات نہيں رک سکتے- ہاں البتہ جب دھشتگرد چار چھ ماہ پہلے کسی واقعہ کی پلاننگ اور ريہرسل کر رہے ہوتے ہيں تب ان کو انٹرسيپٹ کر کے روکنا يا دبوچنا آسان اور قابل عمل ہوتا ہے- مگر يہ کام کس نے کرنا ہے؟ ظاہر ہے ملکی سلامتی کے اداروں نے- جو پتہ نہيں کہاں سوئے پڑے ہيں يا انکی ترجيحات ميں ہی يہ ہے کہ لوگوں کو مرنے دو ہميں کيا؟ مگر اہل قلم اور اہل کالم تو انہيں جگانے اور کسی ترتيب سے کام کرانے کی کوششوں کا آغازکر سکتے ہيں-

  • 4. 16:33 2010-09-04 ,مصدق خان نيازی ميانوالی :

    ميڈم جی سلام آپ کے خيالات عاليہ پڑھ کے خاکسار کو کافی خوشی ھوئ ليکن ادب سے گزارش ھے کہ آمروں کو ٹائم ديا جاتا ھے تو کچھ سياستدانوں کی نا سمجھی کی وجہ سے پورا نظام تلپٹ کردينا بھی درست نھيں„„„گزارش يہ کہ اگر فوج نے اچھا کام کيا تو اسے سراھنا چاھۓ ليکن مارشل لاء کی باتيں کرکے ذمہ دار لوگوں کو انکی کارکردگی پہ بانی نہيں پھرنا چاھے„„آخر دو تين دور اگر جمھوری کچھ زيادہ کارگر صييح ثابت نھيںھوتے تو بالاآخر اسکی کوکھ سے تبديلی اور شعور کی فصليں اگيں گي„„„ھم سب کو با اعتماد اور پر اميد رھنا چاھۓ

  • 5. 16:55 2010-09-04 ,Abbas Khan :

    محترمہ، سياستدانوں کے بارے آپکي رائے بالکل درست ہے، ليکن تيسري دنيا کے سب سياستدان ايسے ہي ہوتے ہيں- باقي آپ نے فوج کو حکومت سے الگ دکھانے کي جو کوشش کي ہے، اس سے اتفاق نہيں کيا جا سکتا- فوج، وفاقي حکومت کا ايک ادارہ ہے، اور يہ وفاقي حکومت ہي ہوتي ہے جو فوج کے بجٹ کا انتظام کرتي ہے، ضروريات زندگي پر اندھادھند ٹيکس لگا کر اور عوام سے گالياں کھا کر فوج کو جديد ترين ہيلی کاپٹر اور دوسری چيزيں مہيا کرتی ہے، تاکہ وہ مشينری مصيبت ميں عوام کے کام آئے- جب بھی ملک ميںمصيبت آتی ہے، فوج اپنا کھيل شروع کر ديتی ہے، ليکن اس بار وہ اپنے مقصد ميں کامياب نہيں ہو گي-

  • 6. 17:05 2010-09-04 ,Dr Alfred Charles :

    نعيمہ جي! بات تو ٹھيک ہے مگر جو نفسا نفسی بلکہ افراتفری کا دور دورہ چل رہا ہے اس ميں اس طرف کون توجہ ديتا ہے؟کون سوچتا ہے اس بارے ميں؟

  • 7. 17:23 2010-09-04 ,کاشف ورک :

    جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے رے

  • 8. 19:30 2010-09-04 ,MATLOOB AHMED, UK :

    گذشتہ 5 سالوں سے جس حد تک پاکستان کی تباہی ہوئی اسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ہمیں اس بیماری کی جڑ ڈھونڈنی ہوگی۔ اورمیرے خیال میں، وہ ہے نام نہاد عالمی طاقت امریکہ کی علاقے میں موجودگی۔ میرے خیال کے مطابق جب تک امریکہ اس خطے میں رہے گا حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ وقت آگیا کہ پاکستانی حکومت امریکہ سے اپنے مقبوضہ ہوائی اڈے واپس لے اور کہہ دے گو امریکہ گو ۔۔۔۔۔۔۔ انشاء اللہ حالات پُر امن ہو جائیں گے۔ شکریہ

  • 9. 2:06 2010-09-05 ,Ch Allah Daad :

    نعيمہ جي- ہمارے ملک کے سياست دانوں ميں ايک خوبی ہے، کہ جب چاہيں مارشل لاء لگوا ديں- ہماری بھی دعا ہے کہ سياست دان اپنی کوششوں ميں کامياب ہوں- ليکن ويسے مارشل لاء نہيں،جو پہلے لگتے رہے ہيں، بلکہ اصلی والا مارشل لاء- جو سب سے پہلے تمام دہشت گردوں اور انکے ہمدردوں کا صفايا کرے، پورے ملک کو اسلحہ اور منشيات سے پاک کرے اور ہر کرپٹ کو ٹھکانے لگائے- اگر ايسا نہيں کرنا تو بے شک زرداری راج کرتا رہے-

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔