امی اٹھو نا!
امی دیکھو اٹھو!
فوجی انکل سے مجھ کو عیدی ملی
کتنے اچھے ہیں یہ
سارے انکل میرے
مجھ کو کھانا دیا
اور کھلونے دیے
پر یہ کہتے ہیں ابو نہیں آئیں گے
اور میں بھیا سے بھی نہ مل پاؤں گی
نہ میں اپنے ہی گاؤں کو جا پاؤں گی
امی اٹھو نا تم!
بات میری کبھی تم تو سنتی نہیں
ابو آتے نہیں، نہ ہی بھیا یہاں
یہ جو کپڑے مجھے انکلوں نے دیے
پہن کے اب انہیں کس کو دکھلاؤں گی
اب کے میں عید کیسے منا پاؤں گی
( یہ نظم مجھے فیس بک پر موصول ہوئی ہے۔شاعر نامعلوم ہے)
تبصرےتبصرہ کریں
بہت ہی اعلیٰ نظم ہے جو کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی حالت و جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ازرائے مہربانی فیس بک پر مزید سرچ جاری رکھیں تاکہ اسی قسم کی مزید اچھی نظمیں معزز قارئین کی نظروں میں آ سکیں۔ شکریہ۔
ویل ڈن وسعت اللہ خان صاحب۔۔۔ نظم میں شاعر نےجس طرح معصوم جذبات کو لفظوں میں پرویا ہے وہ انتہائی قابل داد ہے۔ قارئین کو ایسی عمدہ نظم پیش کرنے پر آپ کا بھی شکریہ۔
يہ نظم زلزلہ زدگان کے ليے لکھی گئی تھی۔ آپ کی اطلاعتی پارٹی بہت سست ہے، آپ تک پہنچانے ميں سالوں لگا ديے۔ خير يہ جب بھی پڑھی جائے، ملکی حالات پر فٹ بيٹھتی ہے يا يوں کہہ ليں ملکی حالات ہر وقت اس پر فٹ بيٹھتے ہيں۔
کوئی ہے جو ان کرپٹ سیاستدانوں سے اور سجھیلے جرنیلوں سے پوچھے کہ مرے ملک کو اب اور کتنا برباد کرو گے۔
کس کو الزام ديں؟ وہ جو بچے پيدا کرتے چلے جا رہے ہيں، نان اسٹاپ؟ يا وہ جو قومی سلامتی کے رياستي کنويں ميں سارے وسائل جھونک رہے ہيں؟ يا وہ جو جنت کا سرٹيفيکيٹ دے کر خودکش بمبار بھيج رہے ہيں؟ يا زرداروں کو جو جمہوريت کے بہترين انتقام سے قوم کا لاشہ گھسيٹے چلے جا رہے ہيں؟ يا طاقتور درندوں کو جو بند کاٹ کر غريب غرقاب کر رہے ہيں؟يا وہ جو ريموٹ کا بٹن دبا کر خونی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہيں؟ يا وہ جو بےغيرتی سے شاہ سے جوتے مارنے کی سزا پر احتجاج کرنے کے بجائے، جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہيں تاکہ انکا ٹائم مزيد ضائع نہ ہو؟
وسعت اللہ صاحب آپ کو بھی یہ فالتو کاموں کی عادت پڑگئی ہے یا کوئی موضوع آپ کو مل نہیں رہا۔ کوئی بلاگ لکھا کریں۔ جناب یہ نظمیں اور شاعری سے تو عوام پہلے ہی مایوس ہوچکی ہے۔
سلام۔ يہ نظم بلاگ کے قابل نہیں ہے۔
يہ نظم قومی و صوبائی اسمبلی کے داخلی دروازے پر چسپاں کرنی چاہيے تاکہ سيلاب کی تباہ کاريوں سے بچنے کے ليے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کريں۔ اور شايد ان جاگيرداروں کے دلوں ميں بھی خدا خوفی پيدا ہو جنہوں نے بحثيت ممبر فائدہ اٹھاتے ہوئے سيلاب کا رخ غريب بستيوں کی طرف موڑا، صرف اپنی فصليں بچانے کے ليے۔
واہ واہ کیا بات ہے۔ آپ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ ٹھیک تو ہیں آپ؟
نظم تو اچھی ہے لیکن ۔۔۔ چلو کیا کہوں۔ کیا یہی کام رہ گیا ہے بی بی سی والوں کا کہ فیس بک سے نظمیں بلاگز میں کاپی کریں؟ ممکن ہو تو اگلی دفعہ امام دین گجراتی کی بھی کوئی نظم شامل کیجیے گا۔ شکریہ
ديار غير ميں يہ پياری نظم پڑھ کر مجھے اپنی چھوٹی بہن ياد آگئی جس نے بہت پہلے جب وہ چھوٹی سی تھی اور والد کا سايا سر سے اس سے بھی پہلے اٹھ چکا تھا تو وہ مجھے ہی بھائی اور ابو سمجھتی تھی۔ تب جب ميں پاکستان ميں کام کيا کرتا تھا اور ہر مہينے کی پہلی تاريخ کو تنخواہ پر اس کو روزانہ کے علاوہ تھوڑے زيادہ پيسے دے ديتا تھا اور گھر ميں اس دن خصوصی کھانا پکايا جاتا جو کہ مہينے ميں کبھی کبھار ہی ممکن ہو سکتا تھا۔ اسکے علاوہ عيد کے دن دوسرے پچوں کی طرح ميری وہ بہن بھی زيادہ عيدی کيليے ميری ناک ميں دم کر ديا کرتی تھی۔ ايک دن مجھ سے کہنے لگی لالا جی آپ کو پتہ ہے ميں کب مروں گی؟ ميں نے کہا پتہ نہيں تو کہنے لگی جب ساری عيديں اور پہلياں (مہينے کی پہلي) ختم ہو جائيں گی۔ خدا سب بہنوں کو زندہ اور خوش رکھے اور ان کے ابو اور بھائيوں کو بھی۔ سب چھوٹی پياری پياری بہنوں کو جن کے ابو اور بھيا کسی بھی وجہ سے بچھڑ گئے ہوں چاہے وہ سيلاب ہو يا خودکش حملے يا کوئی بھی حملے، کو ميری طرف سی سلام اور پيار پہنچے اور ميری اپنی بہن کو بھی جو اب کچھ بڑی ہوگئی ہے مگر عادتيں وہي چھوٹی والی۔
اس بھولی بھالی اور پياری نظم نے مجھے تو رلا ہی ديا۔ آج کل کے حالات ميں يہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ لکھنے والی پر يا اس کے پياروں پر کيا گزري۔ ميں حيران ہوں اگر اس کا اثر ان پتھر دل لوگوں کے دلوں کو تھوڑا سا سوچنے پر مجبور کر دے جو ہر روز بے گناہوں کا خون بہاتے ہيں اور اس پر اسلام کا ليبل لگا کر خوش ہوتے ہيں اور اسلام کو ايک دہشت اور بربيت والا مذہب ثابت کرنے ميں کوئی کثر نہيں چھوڑتے۔ حالانکہ اسلام تو امن اور آشتی کا مذہب ہے ، جو کہ دردمندوں کو اپنے دامن ميں ليکر ان کے زخموں کو مرہم فراہم کرتا ہے۔ آج مغرب کے وہ عام لوگ جن کا سياسی جنگوں سے کوئی لينا دينا نہيں يہ سوال کرتے ہيں ہم سے کہ کيا يہ وہی اسلام ہے جس کے بارے ميں سنتے آئے تھے کہ اسلام کا مطلب سلامتی ہے۔ اس کے علاوہ آج کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق اپنے آپ کو پاکستانی کہنا خصوصاً اور مسلمان کہلانا عموماً ايسا ہی ہے کہ آ بيل مجھے مار۔
صاحب جی سلام۔ اميد ہے آپ کی سيلاب ياترا اچھی گزر رہی ہوگي۔ آپ کی سيلاب ڈائری کا ہر تازہ ورق پڑھ کر شہاب نامہ پتہ نہيں کيوں ياد آجاتا ہے۔ خير اوپر درج کی نظم يا نوحہ کو پڑھ کر دل کافی غمگين ہوا۔ اس قوم کو اب مرثيے اور نوحے کی عادت ہو جانی چاہیے کیونکہ خوشياں سراب کی حيثيت کر گئی ہيں۔
’خوشی کی خبر کہيں سے ملے منير
اس روز و شب ميں ايسا کمال ہو‘
دل چیرنے والی اور دماغ میں ایک ہلچل سا برپا کر دینے والی یہ نظم ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو شاعر اس کا خالق ہے اس نے خون جگر میں انگلیاں ڈبو کر تحریر کی ہے۔ ان باتوں کا احساس اُسے ہی ہو سکتا ہے جو دل میں زخم رکھتا ہو۔
وسعت صاحب
صرف چار لائن کی نظم ہے۔ پڑھ تو لی مگر آنکھيں ہيں کہ تھمنے کا نام ہی نہيں ليتيں۔ دل ہے کہ بھرا بھرا جاتا ہے۔ نہ جانے کتنی ايسی معصوم بچياں ہوں گيں جو اب کے عيد، عيد تو کجا شايد زندگی بھر کے لیے ايک درد سميٹے غم و اندوہ کی نا ختم ہونے والی تصوير بن جائينگی۔ اللہ رحم فرمائے اور ہم سب کو اتنی طاقت دے کہ کچھ حد تک ہی سہی ہم ان معصوموں کی نم آنکھوں کو خشک کرنے ميں کامياب ہوجائيں۔
وسعت بھائی جو حالات ہوگئے ہيں وہ کچھ اِتنے زيادہ تکليف دِہ ہيں کہ ہر چيز، ہر بات ہر خوشی سے دِل اُٹھ گيا ہے۔ نا کوئی خوشی کی خبر دل کو خوش کرتی ہے اور نا ہی کسی بھی موقعے پر خوش ہونے کو دل چاہتا ہے۔ ہميشہ ہی رمضان کے بابرکت مہينے ميں عِبادتوں ميں خشوع و خضوع بڑھ جاتا ہے ليکن اس بار عالم کچھ اور ہے۔ خشوع وخضوع کی فراوانی تو ہے ليکن حالات نے جو عجيب رخ اِختيار کر ليا ہے، اپنے پاس سوائے دعا کے اور کوئی چارہ نہيں رہا۔ بے بسی کی انتہاؤں پر محسوس کر رہے ہيں ہم خود کو۔ عيد اور عيدی جيسی کسی بات کے متعلق سوچ بھی نہيں آ رہی۔ اتنی پردرد نظم ہے اور کتنے پيارے انداز ميں دِل کی بات لِکھی گئی ہے کہ دل کے تاروں کو چھو گئی ہے۔ اللہ تعاليٰ ہمارے حال پر رحم کرے اور رمضان کے اِن باقی رہ جانے والے دِنوں ميں اپنا مُحاسبہ کرنے کی توفيق دے۔ آمین
’وقت سے پہلے بچوں نے چہروں پہ بڑھاپا اوڑھ لیا
تتلی بن کر اُڑنے والے سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں
فارغ کیسے دور میں یہ تاریخ ہمیں لے آئی ہے
اپنے دکھ بھی سہتے ہیں تاریخ کے دکھ بھی سہتے ہیں‘
بی بی سی کو اپنے نمائندوں کو اس بات کا بھی پابند کرنا چاہیے کہ وہ کبھی کبھار اوکھے سوکھے ہو کر کوئی اپ ٹو ڈیٹ بلاگ بھی لکھ دیا کریں۔ رواں دنوں میں ملک میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر خصوصاً سکیورٹی اداروں پر خودکش حملے اور امریکہ میں ایک چرچ کے پادری کی جانب سے قرآن کو جلانے کا بیان بہت اپ ٹو ڈیٹ عنوانات ہیں۔ لہذا اس جانب بلاگ لکھنے کی طرف پر تولے جائیں۔ شکریہ۔