موت کو قریب سے دیکھا
چھ دسمبر انیس سو بانوے کا وہ دن جس کا خوف اب بھی بدن میں کپکپی پیدا کرتا ہے۔
میں اپنے بیٹے کو لے کر بھارت یاترا کے ایڈوینچر پر چل پڑی تھی اور اُس کو کتابوں سے ہٹ کر اصلی بھارت کی تصویر دکھانا چاہتی تھی۔ اُن دنوں بھارت کی تصویر اتنی تبدیل نہیں ہوئی تھی جو اب نظر آرہی ہے۔
مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب وہاں مذہب کی بنیاد پر نہ دوستی کی جاتی تھی نہ مباحثوں میں مذہب کا اتنا عنصر غالب رہتا تھا۔ جن صحافیوں اور دانشوروں کو میں نے اپنا آئیڈیل مانا تھا ان کی سوچ 'ہندو' سوچ نہیں بن گئی تھی بلکہ کشمیر میں جاری مسلح تحریک کے نتیجے میں وہاں کی آبادی کو کریک ڈاون میں جانوروں کی طرح جس طرح ہانکا جاتا اور گرفتاریوں کے بعد بعض نوجوانوں کی لاشیں لوٹائی جاتیں، اس پر میرے آئیڈیل بعض اوقات آواز بھی اٹھاتے تھے۔
میں دلی کے ریلوے سٹیشن پر جموں جانے والی ٹرین کا انتظار کر رہی تھی کہ چاروں طرف سے لوگوں کا ایسا ریلا آیا جو وہاں موجود سب کو اپنے ساتھ بہا کر لے جانے لگا۔ کیسری دھوتیوں میں ملبوس، ہاتھوں میں ترشول لیے اور ترشول کی پوزیشن ایسی کہ سیدھے آنکھوں میں اتر جائے، ہونٹوں پر 'جے بجرنگ' کے نعرے، ہر طرف ہُو کا عالم، ریلوے سٹیشن پر خوف اور دہشت میں لوگ بھاگے جا رہے ہیں۔ سامان ڈھونے والے چند مسلمان مزدور جان بچانے کے لیے ٹرین میں گھُسے جا رہے ہیں مگر چند لمحوں میں یہ مزدور خون میں لہو لہان کر دیے گئے اور انہیں اٹھانے کی کوئی جرات نہیں کر رہا تھا۔
میں اپنے بیٹے کے ہمراہ بجرنگ دل کے جلوس میں گھِری پڑی ہوں، میں مزدوروں کو بچانے کے لیے چِلانا چاہتی ہوں مگر میری آواز حلق میں بندھ ہوگئی اور خود کو بچانے کا راستہ تلاش کرنے لگی۔
پلیٹ فارم سے نکل کر ہوٹل تک جانے کے راستے میں صرف زخمی مرد عورتیں اور بچے گِڑاگِڑا رہے تھے۔ جہاں نظر پڑتی خون میں لت پت لوگ نظر آرہے تھے اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اتنا خون خرابہ کیوں ہو رہا ہے۔
بچ بچاتے جب میں ہوٹل میں پہنچی تو معلوم ہوا کہ ایودھیا میں رام مندر بنانے کی کوشش کے بعد فسادات بھڑک اٹھے ہیں۔ میں نے دیکھا اُس روز بھارت میں صرف ایک مسجد ہی نہیں ڈھائی گئی بلکہ بھارتی سیکوالزم کی ایک بڑی عمارت کو زمین بوس کردیا گیا تھا۔ اس روز کے بعد بھارت میں موجود میرے آئیڈیل بھی بدل گئے اور وہ بھی جنہیں ہم سیکوالزم کی علامات سمجھتے تھے۔ میں نادم تھی کہ کاش بیٹے کو ایسی تصویر نہ دکھاتی۔
اس لیے لکھنو بینچ کے فیصلے سے مجھے خوشی ہوئی نہ حیرت ہوئی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
ہندو انتہا پسندوں نے دلی سرکار کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ سیکولرازم کا لبادہ اوڑھے بھارت اسرائیل کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جو دیش میں بسنے والی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلانے والی ہندو انتہا پسند تنظیموں کی پشت پناہی کررہاہے۔ موجودہ ہندو انتہاپسندی کو اگر حکومتی سطح پر یونہی سپانسرشپ ملتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہ پورا خطہ بری طرح تباہی کی لپیٹ میں آ جائیگا۔ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو وہ مٹ جایا کرتا ہے۔
جو ہندو انتہا پسندوں نے ظلم و جبر کا سلسلہ پورے ہندوستان میں شروع کیا ہوا ہے وہ کسی بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ملک مسلمانوں کا تھا اور انگریزوں نے سو سال حکومت کرنے کے بعد ہندو بنیے کو دے دیا تھا۔ ابھی صرف انتظار ہے کہ کب امریکہ دم دبا کر خطے سے بھاگتا ہے پھر ہندوستان کی خیر نہیں۔
لکھنؤ بينچ کے فيصلے سے مجھے حيرت ہوئی ہے۔ بھارت ميں بسنے والے مسلمانوں کو حکومتی سطح پر يونہی سپانسرشپ ملتی رہی تو وہ دن دور نہيں جب يہ پورا خطہ بری طرح تباہی کی لپيٹ ميں آ جائے گا۔
ایسا لگتا ہے ہندوؤں نے منصوبہ بندی کے تحت فیصلہ لیٹ کروایا تاکہ تب تک وہ جج ہی ریٹائر ہو چکے ہوں جنہوں نے فیصلہ کیا۔ اس کے بعد بھی ایسی تقسیم کی جو مسلمانوں کو قابل قبول ہو ہی نہیں سکتی۔ انڈیا ایک طرف اپنے سیکولر ہونے کا شور مچاتا ہے تو دوسری طرف متعصب فیصلے ان کی عدالتوں میں ہوتے ہیں۔
اس فيصلے پر اظہار افسوس، تشکر، ندامت، کيا کيا جائے؟ مگر عدالتی فيصلے ميں اس بات پر کوئی تفتیش نہين کی گئی نا ہی اس واقعے کا نوٹس ليا جو 1992 میں پيش آيا۔ اس پر متعلقہ افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہيں کی۔ کيا اس طرح کے واقعے روکنے کی کوشش کی جائے گی؟ انصاف تو تب ہوتا جب مجرموں کو بھی سزا دي جاتی۔
جو محترمہ نعیمہ کے ideal ہیں وہ ایسے موقعے پر صرف idle ہی نظر آتے ہیں اور کچھ نہیں، یہ ideal نام کی مخلوق پس پردہ ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ انڈیا اور اسرائیل کے لیے باقی ساری دنیا اچھوت ہے، اس لیے وہ دنیا کو ان ناپاک اچھوتوں سے پاک کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
بھارت کو بھی اب یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ زیادہ دیر تک طاقت کے ذریعے کشمیریوں پر اپنا جابرانہ تسلط قائم نہیں رکھ سکتا اور کشمیریوں کے حق آزادی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ بھارت کی سیاسی جماعتوں نے بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت نوشتہ دیوار پڑھ لے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے۔ اسی میں عالمی امن اور خطے کی بقاء ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے لیے حیات تنگ کی جا رہی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ مگر بھارتی حکمرانوں کو سوچ لینا چاہیے کہ اتنی بڑی مسلم آبادی اگر ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تو پھر ہر گلی میں داؤد ابراہیم کا سامنا کرنا پڑے گا۔
2004 میں نئی دہلی کے بلیماران علاقے میں ایک ایسے مسلمان کی دعوت میں شرکت کی جس کا دادا کانگرس بنانے والوں میں شامل تھا۔ وہ ہمیں سمجھانا چاہتا تھا کہ ریاست کشمیر کا بھارت کے ساتھ رہنا بھارتی مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے، اس نے شیخ عبداللہ کی یو این کی سیکورٹی کونسل میں کی گئی تقریر کے پمفلٹ بھی دیے، باتوں باتوں میں نسلی و پیدائشی کانگریسی نے کہا کہ اگر صدر مشرف بھارت کے خلاف کوئی بیان دیتا ہے تو مجھے اپنے گھر سے نکلتے ہوئے دفتر تک راہگیروں، ساتھیوں، لوگوں کی تنقیدی نظروں اور تنقیدی جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پر میں نے اس بھارتی مسلمان سے کہا کہ آپ تو نسل در نسل کانگریسی ہیں، آپ پر اس لیے اعتبار نہیں کیا جاتا کہ آپ مسلمان ہیں، مسئلہ کشمیر پر ہمیں قائل کرنے کی کوشش کرنے والے اس مسلمان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔
نعیمہ مہجور صاحبہ، کیا آپ اپنے عمر بھر کے تجربے کو اپنی آئندہ نسل سے پوشیدہ رکھنا چاہیں گی؟