یہ کیسی بنیاد ہے
میں انڈیا میں پیدا نہیں ہوا۔ اور شاید ہوتا بھی تو انیس سو بانوے سے پہلے یہ نہ جانتا کہ بابری مسجد کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ لیکن چھ دسمبر انیس سو بانوے میں ہندو کارسیوکوں نے اس مسجد کو امر کر دیا اور ہند و پاکستان کے بچے بچے کو پتہ چل گیا کہ بابری مسجد کیا ہے۔ یہ اتنا بڑا کام کرنے کے لیے انہیں صرف متنازع مسجد کو مسمار کرنا پڑا اور کچھ نہیں۔ پبلسٹی پہ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں بھی ان نادان لوگوں میں سے ایک تھا جنہیں اس مسجد کے اوصاف اور اہمیت کا اس دن ہی اندازہ ہوا۔
کارسیوکوں کی لگائی آگ پورے ایودھیا، گجرات اور ممبئی سے ہوتی ہوئی پاکستان میں داخل ہو گئی اور بدقسمتی سے اس آگ کے ساتھ ہی میں بھی۔
ہوا یوں کہ اس وقت میں کویت کے ایک جریدے 'کویت ٹائمز' کے ساتھ کام کرتا تھا اور اسی روز چھٹیوں پر کویت سے لاہور لینڈ ہوا تھا۔
لاہور ماں جی کو ملنے کے بعد دوسرا کام ماں کی بہن یعنی خالہ سے ان کے گھر جا کر ملنا ہوتا تھا۔ گھر بھی کچھ دور نہیں تھا۔ خیر جب وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ میری ایک کزن اپنی سہیلی کے گھر جانے کے لیے بے چین ہے جس کی اگلے ہی دن شادی تھی۔ میرا کوئی خالہ زاد بھائی گھر پر موجود نہیں تھا اس لیے میں نے حامی بھری کہ میں تمہیں قریب ہی انارکلی کے پاس نیلا گنبد چھوڑ آتا ہوں، رکشا روکا دونوں بیٹھے اور دس منٹ میں اپنی منزل پر جا پہنچے۔ مگر یہ کیا سامنے تو منزل جل رہی تھی۔
وہاں پہنچنے پر جو میں نے محسوس کیا وہ کیا لیکن جو پہلی آواز مجھے یاد ہے وہ میری کزن کی چیخ تھی۔ سامنے کی جلتی ہوئی منزل ہی ہماری منزل تھی یعنی یہ میری کزن کی دوست کا گھر تھا جہاں اگلے روز اس کی شادی تھی۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بابری مسجد اور اس کے بعد لگائی جانے والی آگ سے مشتعل ہو کر لاہور میں بھی جنونی لوگوں نے مندروں کو یا تو مسمار کرنا شروع کر دیا یا پھر آگ لگا دی۔ میری کزن کی سہیلی کا گھر لاہور کے مشہور بازار انارکلی کی اس نکڑ پر تھا جہاں نیلا گنبد مسجد کے قریب ہی ایک پرانا مندر تھا۔ مندر سے منسلک اس لڑکی کے گھر میں اگلے روز اس کی شادی تھی۔
بابری مسجد اور اس کے 'کار سیوکوں' نے اس بیچاری لڑکی کا سارا قیمتی سامان جلا دیا۔ شادی کے سارے وہ جوڑے جو اس نے بہت چاؤ سے بنوائے ہوں گے اور وہ سب چیزیں جو اس کے گھر والے برسوں سے اس کے لیے اکٹھی کر رہے ہوں گے۔
لکھنؤ میں ہائی کورٹ کے ستمبر تیس کو دیے جانے والے فیصلے پر اس معصوم لڑکی کے کپڑوں، ارمانوں اور گھر کے جلنے کا کوئی اثر یقینی طور پر نہیں ہونا چاہیئے اور نہ ہی اس جلے ہوئے مندر کا جو کہ 1992 میں لاہور کی انارکلی کے علاقے نیلا گنبد میں تباہ ہوا۔ لیکن مجھ ناچیز کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ایودھیا میں گزشتہ پانچ صدیوں سے کھڑی اس تاریخی عمارت کے انہدام کا اس فیصلے میں ذکر کیوں نہیں تھا۔ اگر یہ فیصلہ کسی اور درخواست پر بھی ہوا ہو تو تب بھی اس کا ذکر کیا جانا شاید ضروری ہے۔
یہ حصہ ہندوؤں کو دے اور وہ مسلمانوں کو۔ کیا اس سارے مقدمے کا اصل مقصد یہ تھا۔ کم از کم مجھے ہمیشہ یہ لگا ہے کہ مدعا جنونی ہجوم کے ہاتھوں ایک تاریخی اور مقدس مقام کو منہدم کیے جانے کا تھا۔ چاہے اس کی ملکیت کسی کے پاس ہی ہو۔ میں یہاں ایک مثال دیتا کہ اگر میرے گھر پر کوئی کئی سال سے قبضہ کر رکھے تو کیا مجھے اختیار ہے کہ میں اس کے گھر کچھ لوگوں کو لے کر جاؤں اور اسے جلا کر راکھ کر دوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ انصاف کی کسی بھی شکل میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔
اب وہاں مندر بنے یا مسجد، بنیاد تو وہاں ناانصافی کی ڈل ہی گئی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ جھوٹی کہانیاں لکھ کر انڈیا کے انتہا پسندوں کو کبھی بھی justify نہیں کرسکتے ،اور یے کیا بات ہوئی انڈیا کی ہر برائی میں آپ خوامخواہ پاکستان کو گھسیٹ لاتے ہیں ،کیا bbc اردو والوں کو پاکستان سے الله واسطے کا بیر ہے
جناب عارف شمیم صاحب
آپکے مندرجات یقینا لایق تشویش ہیں، مجھے امید ہیکہ ہندوستان میں اس تحریک سے وابسطہ افراد یقینا اس سے غافل نہیں ہونگے. فیصلہ آنے کے بعد منعقدہ اپنی پریس کانفرینس میں وزیر داخلہ ہند غالبا اسی فکر کی ترجمانی کر رہے ہیں
جناب آپ سے قطعا اتفاق نھں کرتا؛سمجھ سے بالاتر ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اتنے مظالم ہونے کے باوجود
آپ کو شکایت بھی مسلمانوں ہی سے ہے؟
شميم صاحب!اگر آپ جيسی سوچ سب کی ہو يا ہوجائے تو بات بنے گي۔ جن لوگوں نے اس مخصوص واقعات سے فوائد اٹھانے تھے اٹھا لئيے۔دو سيٹوں والےاگلے انتخابات ميں برسراقتدار آئے۔اسی طرح اس افسوس ناک واقعہ کے ردعمل ميں اپنی سياسی دوکان چمکانے والوں نے بھی مزے لے لئيے ۔نقصان تو بے گناہوں، بے قصوروں کا ہوا تھا۔آخرميں آپ نے جس بنياد کی بات کہی ہے اسے بنياد پرستی کے فروغ کے تناظر ميں ديکھنا چاہئيے۔
بھارتی عدلیہ کا فیصلہ انتہائی غیر منصفانہ، جانبدارانہ، ظالمانہ، ہندوانہ ہے جس میں صرف مسجد کی زمین کی بندر بانٹ کر دی گئی۔ ابھی رام/سیتا کا مندر بنا بھی دیا جائے گا تو اس کا حشر بھی مستقبل قریب میں بابری مسجد سے کم نہ ہوگا۔ اس فیصلے سے بھارتی عدلیہ کے وقار کو بہت زک پہنچی ہے۔ بھارت کاجعلی سیکولر چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔
يہ تو چوری اوپر سے سينہ زوری ہے۔ اب انڈيا کو ہندو رياست قرار دينا چاہیئے۔
شدت پسندی کم و بیش ہر معاشرے میں موجود ہوتی ہے اور بابری مسجد کی تباہی شاید اس کا شاخسانہ ہے۔ یہاں میرے ساتھ کام کرنے والے کچھ بھارتی دوستوں کے مطابق بابری مسجد کے ساتھ ملحقہ پانچ درجن ایکڑ سے زیادہ زمین بھی اس جھگڑے کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس جھگڑے کی وجہ سے وسطی پنجاب میں بھی بہت سارے مندر توڑنے کی کوشش کی گئی۔
ديکھئے جب کسی کام کو کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور وہ بھی حکومتی سطح پر تو ايسے ہی نتائج بھی متوقع ہوتے ہيں۔ بابری مسجد کے انہدام کا منصوبہ آج کا يا 1992 کا نہيں اس کی ابتدا تو اس وقت ہی ہو چکی تھی جب يہاں نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھي۔ جو سيکولر انڈيا کے چہرے کے خدوخال کو نماياں کرتا نظر آ رہا تھا۔ ويسے ہی کشمير سيکولر انڈيا کی مکمل نفی ہے جو مسلم اقليت کے حقوق کو تسليم کرنےکو تيار نہيں۔ اب جو عدليہ کا فيصلہ ہے وہ بھی سيکولر انڈيا کے چہرے پر ايک داغ ہے۔ جس ميں ہندو مذہبی جنونيت کا عکس بھی نظر آرہا ہے۔ اس مسجد کی بنيادوں ميں بھی کسی مندر کی تعميرات کے شواہد عدليہ کو بھی نہ ملے تو ہندوؤں کو اس جگہ دسترس کيوں دی گئي۔ انڈيا کی عدليہ کا کردار کھل کر سامنے آ گيا کہ کس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہيں۔ صرف ڈرامہ باقی سب فسانہ۔
واقعہ کوئی ہوگا ٹمبکٹو ميں ليکن سب سے پہلے اسکا ري ايکشن ہوگا پاکستان کے ’پاک‘ لوگوں ميں۔
بابری مسجدکامعاملہ اتناسادہ نہیں ہے پہلےتواس فیصلےمیں جان بوجھ کراتنی تاخیرکردی گئی کہ پورے تقریبااٹھارہ سال کےبعد اس کافیصلہ ہورہا ہےاوردوسرا فیصلہ سراسرمسلمانوں کےخلاف ہوا ہے کیونکہ ہندوستان کےآثار قدیمہ والےسروے سےیہ بات کہہ چکےہیں کہ یہاں پرکوئی بھی رام بھومی نہیں ہے۔ لیکن بات وہی ہےکہ ہندوکبھی یہ بات مانیں گے نہیں۔ دراصل ہندو اصل میں ہندوستان ہےجوکہ ہندوؤں کاہے باقی یہ سیکولرکی تو رٹ لگائی جاتی ہے سب سےزیادہ زیادتیاں تومسلمانوں کےساتھ کی جاتیں ہیں۔کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نےان کے اوپرحکومت کی تھی اس کابدلہ لے رہے ہیں۔ جبکہ ہمارےکچھ مسلمان بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانےلگ جاتےہیں۔
افسوس صد افسوس کہ مملکت خداداد کے باسیوں کو احتجاج کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آیا ۔ احتجاجی مظاہرے جلاؤ گھیراؤ سے شروع ہوتے ہیں اور معصوم شہریوں کی ہلاکتوں پر ختم ہوتے ہیں۔