جنرل مشرف انعام کے مستحق
پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے اس بیان پر کہ پاکستان کی حکومت نے کشمیری نوجوانوں کی مسلح تربیت کے لئے مراکز قائم کئے تھے ( حالانکہ بعد میں انہوں نے اس بیان کو غلط ملط طریقے سے پیش کرنے کی بات بھی کی) بھارت کے سیاسی اور کشمیر میں عوامی حلقوں کے اندر کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ سابق صدر، فوجی سربراہ اور چیف آف جوائنٹ سٹاف کی جانب سے یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت نے ملکی سطح پر اگرچہ جان بوجھ کراِس کا اتنا پرچار نہیں کیا ہے مگر عالمی برادری کے سامنے اس بیان کے تناظر میں وہ کافی کچھ کرنے کا مطالبہ کرنے لگا ہے۔
کشمیر میں مسلح تحریک کو شروع کرنے کا جو اِلزام بھارت پاکستان کو گزشتہ بیس برسوں سے دیتا آرہا ہے جنرل مشرف نے اِس کی تصدیق کی اور بھارت کے لیے جواز پیش کیا کہ اگر امریکہ دوسرے ملکوں کی حدود میں گھُس کر 'القاعدہ اور طالبان دہشت گردوں' کے خلاف ڈرون حملے کرسکتا ہے تو بھارت پاکستان کے اندر گُھس کرتربیتی کمیپوں پر حملے کیوں نہیں کر سکتا۔ اگر پاکستان نے درجنوں 'دہشت گردوں' کو امریکہ اور اتحادی فوج کے حوالے کیا تو 'کشمیری دہشت گردوں' کو بھارت کے حوالے کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بھارت نے یہ الزام دہرایا ہے کہ پاکستان کے اندر مسلح تربیت یافتہ کشمیری نوجوانوں کی خاصی تعداد موجود ہے اور بعض کے بارے میں حکومتِ بھارت نے حوالگی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
پاکستان کے سابق فوجی حکمران نےخود اس پٹاری سے ڈھکن اٹھایا ہے اور اس کا نقصان پاکستان سے زیادہ کشمیر کو ہورہا ہے جہاں گزشتہ بیس برسوں سے بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں کے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی تحقیقات کےبارے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کافی عرصے سے مطالبہ کرتی رہی ہیں اور بھارت اس کو ہمیشہ یہ کہتے ہوئے ٹالتا رہا ہے کہ 'دہشت گردوں کے ساتھ تصادم' میں اس طرح کےاِکا دُکا واقعات ہوئے ہیں جن کی اندرونی سطح پر تحقیقات ہوچکی ہے۔ جنرل مشرف کے بیان کے بعد بھارت ان الزامات سے بھی بّری ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ افعانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اتحادی افواج کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں پر نیٹو کتنا نادم ہوا ہے کہ اب بھارت کو نادم ہونا پڑے گا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کے اکثر سابق حکمران اقتدار چھوٹنے کے بعد بھارت کے اچانک دوست بن جاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف بھی جلا وطنی کے دوران بھارتی نمائندوں سے خوب ملا کرتے اور بیشتر شامیں ایک ساتھ گزارتے تھے۔ اب اگر جنرل مشرف بھی پاکستانی سیاست میں آنے کے لیے بھارتی دروازہ استعمال کرناچاہتے ہیں تو اُس قوم کا کچھ تو خیال کرتے جو ساٹھ برسوں سے مظالم کی چکی میں پِس رہی ہے جن کی چار نسلیں تشدد کے ہتھے چڑھ گئی ہیں اور جو پُر امن جدو جہد سے کشمیر کی سڑکوں پر اپنا حق مانگ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف عالمی برادری کی خوشنودی حاصل کرکے نوبل انعام کی خواہش رکھتے ہوں مگر یہ بات کچھ کچھ صحیح لگ رہی ہے کہ جہاں تک کشیر مسئلےکو سُلجھانے کا سوال ہے وہاں بھارت اور پاکستان کی سوچ میں کوئی فرق نہیں اور دونوں اس کی آڑ میں اپنی سیاست کر رہے ہیں، اصل میں دونوں کے لئے کشمیر محض ایک میدان جنگ ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
آداب عرض! سابق صدر پرویز مشرف نے کوئی انہونی بات نہیں کہی بلکہ ایک کڑوا سچ اپنے منہ سے ادا کیا ہے اور یہ ایسا کڑوا سچ ہے جو کہ بھارت اور پاکستان کا بچہ بچہ دہائیوں سے جانتا آ رہا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ آخر پرویز مشرف کو ایسی عام سی بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ مشرف نے چونکہ اپنی سیاسی جماعت ‘آل پاکستان مسلم لیگ‘ کی بنیاد رکھ دی ہے لہذا اب وہ ملک کی عام سیاسی پارٹیوں کی طرح اچھی طرح جان گئے ہیں کہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کیے بغیر پاکستان کی کرسیء صدارت پر براجمان ہونا اور اس پر ٹِک کر بیٹھے رہنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف نے کشمیر بارے بیان دے کر امریکہ کی آشیرباد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس بیان سے سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہی ہوتا ہے کہ اسی نے ‘وار اگینسٹ ٹیرر‘ کا رُخ عراق سے افغانستان اور پھر پاکستان کی طرف موڑا۔ ظاہر ہے مشرف جو کہ سابق فوجی آفیسر بھی ہیں، کی زبان سے پاکستانی سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں کشمیریوں کی مسلح ٹریننگ کا بیان امریکہ کے ‘وار اگینسٹ ٹیرر‘ کو پاکستان کا رُخ دینے کو ایک درست فیصلہ قرار دینے میں ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتا ہے۔ اگر پرویز مشرف کے کشمیر بابت بیان سے بھارت کو پاکستان کے اندر گُھس کرتربیتی کمیپوں پر حملے کرنے کا اخلاقی جواز مل سکتا ہے تو پھر سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان، ‘جناح پور‘ اور ‘آزاد بلوچستان‘ کے سازشیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ‘را کے ایجنٹوں‘ کو سبق دینے کے لیے بھارت کے اندر حملہ کیوں نہیں کر سکتا؟ اور آخر میں ذرا سوچنے کی زحمت فرمائیں کہ جب پرویز مشرف نے کشمیر پر بیان دے کر ایک سچ کو بیان کیا ہے اور جس کو آپ ہم سب مانتے بھی ہیں تو پھر کس منطق کے تحت کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں، ظلم و ستم بھارتی فوج ڈھا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
جی ہاں دونوں ملکوں کی حکومتوں کو کشمیریوں ،ان کے مسائل و مصیبتوں سے کوئی سروکار نہیں دونوں کشمیر کے حوالے سے اپنے اپنے مفادات میں مشغول ہیںاس کی ایک بڑی مثال انڈس واٹر ٹریٹی ہے جب دونوں ملکوں نے اقوام متحدہ کے تحت قرار دی گئی متنازعہ ریاست کشمیر کے آبی وسائل پر بندر بانٹ کی۔عالمی طاقتوں نے کشمیریوں کایہی نصیب لکھا کہ 1947-48ءکی جنگ کے ذریعے کشمیر کو کوہستانی علاقے پاکستان کے حوالے کے کے باقی کشمیر کو بھارت کے حوالے کر دیالیکن کشمیریوں نے اسے نہ تسلیم کیا اور نہ ہی گزشتہ ساٹھ سال میں کشمیریوں کو عزت و وقار ملا اسی وجہ سے کشمیریوں کی نسل در نسل جدوجہد آزادی جاری ہے نصف صدی میں دونوں ملکوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ کشمیر پر حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ علمی و تہذیبی طور امیر کشمیریوں کو تیسرے درجے کا شہری سمجھ لینا دونوں ملکوں کی ناکامی کا اظہار ہے بھارت کشمیریوں کے خلاف بڑا غاصب ہے جو نہتے کشمیریوں کو اپنی طاقت سے کچلنا چاہتا ہے جبکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کشمیریوں کو اپنا ملازم ہی رکھنا چاہتی ہے حقیت یہی ہے کہ دونوں ملک کشمیر پر حکومت کرنے کے قابل نہیں ہیںدونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن ہیں تو آپس میں سرپٹھول کریں،کشمیر اور کشمیریوں کو اپنی نفرتوں کا میدان نہ بنائیں اب پاکستان مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانے کی فکر میں نظر آتا ہے اصل مسئلہ بھارت کا کشمیریوں کے خلاف غیر انسانی سوچ وعمل پر مبنی روئیہ ہے
نعيمہ جي! پس ثابت ہوا کہ جب يہ حکمراں ہوتے ہيں تو صبح شام کسی اور طرح سے کشمير کا ورد کرتے ہيں اور جب اقتدار سے محروم ہوجاتے ہيں تو پھر کشمير کا تذکرہ کسی اور طرح کرتے ہيں
یہ صرف مشرف کی بد حواسیاں ہے اور اب یہ بھی چاہتے ہیں کہ الطاف حسین کی ظرح باہر بیٹھ کر سیاست کریں اسکے لئے ضروری ہے امریکہ کی خوشنودی جو وہ اچھے طریقے سے حاصل کررہے ہیں
کشمیر اور دنیا کے کسی بھی دوسرے خطے کی صورتحال میں زمین و آسمان کا فرق ہے جسے اب عمر عبد اللہ نے بھی اسمبلی مین جوش و خروش سے اٹھایا ہے وہ یہ کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ نہیں ہے یہ برطانوی استعمار کا کھڑا کیا ہوا تنازعہ ہے جسے اقوام عالم کو جنرل اسمبلی کی قرادادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا ہے اس لیے کے جو ظالم کے ظلم پر نہ بولے وہ بھی ظالم کے ساتھ ہے ۔اس زخم زخم خطے کے باسیوں کو حق حاصل ہے کہ جہاں سے ،جس سے ،جیسی بھی مدد ملے لیں اور اپنے اوپر چھائے ہوئے ظلم کی تاریک رات کو زیرہ چیرہ کردیں ۔ ایشو یہ نہیں کہ انہیں کس نے مسلح کیا کہ مسلح ہونا مظلوم کا حق ہے ایشو یہ ہے کہ کشمیر کے مظلوم عوام کو ان کا حق رائے دہی ملے جہاں سے ملے جیسے ملے جس کی مدد سے ملے یہ ان کا ازلی و ابدی حق ہے رہا انڈیا تو اس کے لیے عمر عبد اللہ کا بیان ہی کافی ہے
جنرل ریٹائرڈ مشرف نے اپنے دور میں بھی پاکستانی دیرینہ موقف بار بار تبدیل کرکے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی پوزیشن کو بہت کمزور کیا ہے۔ابھی ایک دفعہ پھر جب کشمیریوں کی جدوجہدآزادی عروج پر ہے تو مشرف نے گویا انکی پیٹھ میں چھورا گھونپاہے۔ بارحال ایک ذمہ دار شخص جوصدرپاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف رہ چکا ہو اسکو ایسا بے بنیاد بیاں نہیں دینا چاہیے تھا۔ مشرف کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے مطابق ٹرائیل کیا جانا چاہیے۔
مشرف نے پاکستان آرمی کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ اس کے خلاف پاکستان کے سرکاری قانون برائے رازداری کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہئے۔ ڈر یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے نہ صرف رازدان ہیں بلکہ بہت خطرےناک شخصیت کے مالک بھی۔ پاکستان کو اللہ مشرف کے شر سے محفوظ رکھے۔ شکریہ
يہ بات تو روز روشن کی طرح عياں ہے کہ کشمير پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے- اور آزاد کشمير جو بزور طاقت کشميريوں کی مدد سے حاصل کيا گيا آج بھی بھارت کے مقبوضہ کشمير کے مقابلے ميں بہت بہتر ہے- کشميری اپنی تحريک کو عوامی حمايت سے جاری و ساری رکھے ہوئے ہيں انہيں مقامی سپورٹ ہر طرح کی حاصل ہے- قائد اعظم سے آج تک جتنے بھی حکمران آئے اس مسئلے کو متنازعہ قرار دے کر اسے حل کرنے پر عالمی برادری پر زور ديتے رہے ان کی اخلاقی مدد کرتے رہے- ليکن کشمير کے مسئلے پر ان کی ہر طرح کی امداد عوامی سطح پر ہوتی رہی اور وہ جاری بھی رہے گی -
خدا کرے يہ کشميريوں کي آنکھيں کھولنے کو کافي ہو اور خود ان سب سے لاتعلقي برتتے ہوۓ اپنے مفادات کا تحفظ کريں -