کشمیر باعث ِتشویش نہیں
بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کے لیے رابطہ کاروں کی نامزدگی کے اعلان پر جہاں کشمیری عوام کو خاصی مایوسی پیدا ہوئی ہے وہیں خود بھارت کی سول سوسائٹی سے لے کر بائیں بازو کے سیاستدان تک سب حیران ہیں۔
دانشوروں کو اس کام کے لیے مقرر کرنا کئی طرح کے اشارے دیتا ہے۔ پہلا شارہ یہ ہے کہ حکومت موجودہ شورش کو سیاسی مسئلہ نہیں سمجھتی نہ اس کو سیاست دانوں کے ذریعے حل کرنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔ دانشور حضرات آزادی پسند رہنماؤں کو بہلا پُھسلا کر اندرونی خودمختاری کے لیے راضی کرنے کا ہنر خوب استعمال کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اندرونی سطح پر حکومت موجودہ حالات پر کافی تشویش میں ہے مگر اس کا اظہار کرنے کے بجائے وہ صدر اوباما کے دورے کے اختتام تک حالات پر پردہ ڈالے رکھنا چاہتی ہے۔
دوسرا عندیہ یہ ملتا ہے کہ حکومت نے وزارت داخلہ تک ہی کشمیر کو محدود رکھا ہے اور لاء اینڈ آرڈر سے لے کر کشمیریوں سے بات چیت کرنے کی تمام تر ذمہ داری اُس کے سپرد ہے جس کے لیے وزارت داخلہ نے گزشتہ دو دہائیوں سے کئی این جو اوز کے ذریعے عوام کے بیشتر طبقوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی گوکہ موجودہ شورش سے دو دہائیوں پر محیط اس کام پراب پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔
سیاست دانوں کو بات چیت کے عمل سے فل الحال دور رکھنے سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ حکمران جماعت کو کشمیر حل کرنے کے لیے جرات نہیں یا دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں۔
شاید کانگریس تنہا اس مسئلے کو حل کرنے سے گھبراتی ہے۔ بابری مسجد کے حالیہ فیصلے کے بعد کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہندو ووٹ ہتھیانا چاہتی ہے جبکہ بی جے پی ایودھیا کارڑ کھیل کر اس وقت کانگریس کے ووٹ بینک پر ایسے وقت ڈاکہ ڈالنا چاہتی ہے جب کانگریس راہول گاندھی کو اگلے انتخابات کے لئے تیار کر رہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ اگر اس دوران پھر میڈیا کی سرخیوں میں آگیا( حتی کہ اگر اندرونی خودمختاری تک ہی بھارت اس کو حل کرتا ہے ) تو کانگریس کو خدشہ ہے کہ وہ ووٹ بڑھانے کے بجائے ووٹ گھٹا سکتی ہے۔
بھارتی سیاست میں تبدیلی اور عالمی برادری کی خاموشی توڑنے کا انحصار اب کشمیر میں جاری شورش پر ہے کہ وہ کتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے یا حالات میں کتنا سُدھار آتا ہے کیونکہ گزشتہ دنوں بچوں اور نوجوانوں کے قتل و خون پر بظاہر عالمی برادری کتنی ہی خاموش نظر آرہی ہو لیکن اندرونی طور پر حکومت پر دباؤ قائم ہے کہ وہ حالات کو بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ ہوجائے کیونکہ جمہوریت کے علمبردار کہلانے والے بیشترملکوں کو اپنے لوگوں کی خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بھلے ہی وہ اس کا کُھل کر اظہار نہ کرے۔
بھارت گوکہ مغربی طرز پردانشوروں کو عوام کے طبقوں سے بات چیت کا عمل شروع کرکے یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کی جمہوریت اتنی مضبوط ہوگئی ہے کہ سیاست دانوں کے بجائے دانشور بھی سیاسی مسایل حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر ایسا مان بھی لیا جائےتو بھارت نے معروف مصنف ارون دھتی رائے یا دانشورگوتم نولکھا یا دوسرے حقیقت پسند سوچ رکھنے والوں کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟ یا پھر کشمیر کے لیے بھارتی جمہوریت کی تشریح تبدیل ہوجاتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بھارت پر بنیاد پرست ہندوانہ فلسفہ حکمرانی کر رہا ہے جس کی بنیاد ارتھ شاستر ہے۔ہندو طاقتور کے سامنے خود کو صاحب اخلاق اور انسانیت پسند ظاہر کرتا ہے اور کمزور کے خلاف بدترین ظالمانہ روئیہ اپنا لیتا ہے۔ ہندوﺅں کا یہی روئیہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان کیوں بنا۔ بھارت تو کیا اقوام عالم بھی جانتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہے لیکن بھارت چانکیائی انداز اپناتے ہوئے ظلم اور مکر و فریب کے حربے آزما رہا ہے۔ایک مغربی صحافی نے خوب کہا تھا کہ بھارتی سیکولرازم بانہال ٹنل کے پار ہی رک جاتا ہے،بھارتی سیکولر ازم سے بھارت میں رہنے والی اقلیتیں بخوبی آگاہ ہیں۔63سال گزر جانے کے بعد بھی مسئلہ کشمیر حل نہ ہونا بھارت کی ناکامی ہے مسئلہ کشمیر حل کر کے جنوبی ایشیا میں ترقی و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع کیا جا سکتا ہے لیکن بھارت ہمسایہ ممالک سے دشمنی صدیوں جاری رکھنے کا اظہار کر رہا ہے۔عقل کل بننے والا ایک بار بھر بھول جاتا ہے کہ اگر دیگر ممالک میں انتشار و تخریب ہوتی ہے تو خود بھارت بھی اس سے نہیں بچ سکتا۔
نعیمہ جی! آپ کا تجزیہ سو فیصد درست ہے۔ہندوستان مسئلہ کشمیر کو سیاسی نقطئہ نظر سے دیکھنا ہی نہیں چاہتا ہے،کیوں کہ سیاسی اعتبار سے وہ اس قدر کمزور ہے کہ وہ اس مسئلہ کو مسئلہ ماننے میں بھی پس وپیش سے کام لیتا ہے۔اس لئے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تاریخی حقائق کا انکار کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ اسی لئے عمر عبداللہ کو بھی اپنی امیج ختم ہوتی ہوئی نظر آئی تو بظاہر حقائق کا اعتراف کر کے کشمیریوں کو ناکام دھوکہ دینے کی کوشش کی۔اب ہندوستان کسی طرح وقت گذاری کرنا چاہتا ہے۔تاکہ فوج کے بل بوتے پر اس کا غاصبانہ قبضہ برقرار رہے۔ لیکن "ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں"
انڈيا کبھی بھی کشميريوں کو حق خود ارادئيت نہيں دے گا ايسے ہی جعلی حقوق کے علم برداروں کو آگے لا کر اپنی مرضی کے فيصلے کا نفاذ چاہتا ہے جيسے اسرائيل فلسطينيوں سے اور امريکہ ساری مسلم دنيا سے کرتا رہا ہے- اب انڈيا کس طرح اصل نمائيندوں کو اپنے ايجنڈے ميں شامل کر سکتا ہے اس کی نئيت نہ پہلے ٹھيک تھی نہ ہو گي- وہ مسئلے کا حل طاقت کے زور پر حل کرنے کا خواہاں ہيں مگر پاکستان جو ايک رکاوٹ ہے وہ اسے دور کرنے ميں سرگرداں ہے- جس ميں اسے عالمی طاقتوں کی حمائيت اور تائد بھی حاصل ہے- جيسے ماضی قريب کی سول ايٹمی معاہدے- اور پاکستان سے عدم تعاون جبکہ 1979 سے عالمی طاقتوں کے مفادات ميں قربانيوں کی طويل داستانيں رقم کرتا رہا ہے اور وہی اس کی بربادی کے منصوبوں پر بھی کمر بستہ ہيں- اسی ليے بھارت کے لئے مسئلہ کشمير باعثتشويش نہيں ہے-
دوہرے معياروں کی اس منافق اور خود غرض دنيا ميں فقط بے لوث قيادت ہی مظلوم کي نجات دہندہ ہے جو عوامی قوت مجتمع کرکے راہ راست پر ڈالتي ہے جس سے مطلوبہ اہداف حاصل ہو پاتے ہيں - بصورت ديگرعوام الناس بکريوں کے ريوڑ سے مختلف نہيں جن کی جملہ قربانياں رائيگاں ہوجانےکا خدشہ ہے - جناح اور منڈيلا اسی پاۓ کے ليڈر تھے جنہوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھايا - خدا کشميريوں کی آزمائش ختم کرکےانہيں (اور ہم پاکستانيوں کو بھي) ايسي ہي قيادت عطا کرکے نجات دلاۓ -
پاکستان میں خانہ جنگی کی سی کیفیت، دہشتگردی، بم دھماکے اور عدم استحکام بھارت کے لیے نہ صرف اطمینان کا باعث ہیں بلکہ وہ اسے کشمیریوں کو فوجی طاقت کے ذریعے دبانے کا ایک نادر موقع سمجھتا ہے۔مستقبل قریب میں کشمیر کے مسئلے کے حل کا دور دور تک کوئی سیاسی حل نکلتا نظر نہیں آرہا۔ بھارتی حکمران صرف مختلف حیلوں بہانوں سے ڈنگ ٓٹپاو پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
جب تک پاکستانی جمہوریت ‘کراچی‘ نہیں پہنچے گی تب تک بھاررتی جمہوریت ‘کشمیر‘ تک نہیں پہنچ سکتی اور جب تک ‘کراچی‘ باعثِ تشویش رہے گا تب تک بھارتی کشمیر بھی باعثِ تشویش رہے گا۔ یہ دونوں آپس میں باہم گہرا تعلق رکھتے ہیں۔