| بلاگز | اگلا بلاگ >>

صحافت کا کمال

اصناف: ,,

عنبر خیری | 2010-10-18 ،13:55

انیس سو نوے میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت گرنے سے پہلے 'معتبر ذرائع' نے میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم کے شوہر کرپشن میں ملوث ہیں اور یہ ذرائع دیگر صحافیوں کو اس بارے میں دستاویزات بھی دیتے رہے۔
صحافیوں کو بتایا گیا کہ حکومت 'بس جانے ہی والی ہے' اور پھر حکومت بر طرف ہو گئی۔

نواز شریف کی برطرفی سے پہلے بھی اچھا خاصہ ماحول بنا دیا گیا۔پھر وہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔
بے نظیر کی دوسری حکومت گرنے سے پہلے بھی یہ ہی ماحول بنا جس میں پھر وزیر اعظم کے بھائی میر مرتضی بھٹو کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کو حکومت گرانے کا اضافی جواز بنایا گیا۔
بہت سال گزرنے کے بعد جب کسی کے خلاف کبھی کوئی الزامات ثابت نہ ہوئے، میں نے اپنے ایک معروف صحافی ساتھی سے پوچھا : کیا آپ کو یہ نہیں لگا کہ ہم (یعنی ہمارا جریدہ اور ہم صحافی برادری) یہ رپورٹیں چھاپ کر کہ' اسلام اباد میں ذرائع کہتے ہیں کہ حکومت کی چھٹی آج/کل/پرسوں ہونے والی ہے' یا یہ کہ بہت کرپشن ہو رہا ہے ۔۔۔ ایک سیاسی گیم میں استعمال ہوئے ؟
میرے مشہور صحافی دوست بہت ناراض ہوئے۔ جواب میں بولے'تمہیں تو جرنلزم کا کچھ پتہ ہی نہیں!! وہ تو سکُوپ تھا سکُوپ!'
سکوپ یعنی صحافی کی ایک بڑی اور تازی اور ایکسکلوزیو خبر۔ لیکن یہ کیسا سکوپ جو تمام میڈیا کو بانٹ دیا گیا ہو؟
میں صحافت میں کئی دہائیوں سے کام کر رہی ہوں اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر صحافی کسی چیز کی تصدیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ بیان ضرور لے لیں گے لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ موقع پر جانا، دستاویز نکلوانا، دعووں کو ٹیسٹ کرنا۔۔۔ یہ کون کرے اور کیوں؟ ریڈی میڈ کہانیاں مل ہی جاتی ہیں۔
اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جو خبر اخبار میں چھپ جاتی ہے لوگ اسے حقیقت سمجھتے ہیں۔ ایک اخبار یا ٹی وی چینل پر خبر چلتی ہے تو سب اس کی بغیر چھان بین کے چلانا شروع کر دیتے ہیں۔
لوگ اسے ایسے بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں جیسے وہ خود اس جگہ موجود تھے اور ان کی دیکھی سنی بات تھی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ صحافی خود اس پر توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں، نا مالکان اور نہ ہی عدالتیں۔ سنہ چھیانوے میں تو حکومت کی برطرفی کے بعد عدالت نے غیر مصدقہ اخباری رپورٹوں کو برائے ثبوت مان لیا تھا۔
لیکن مجھے کیا پتہ۔۔۔بقول میرے سینئیر ساتھی: مجھے تو جرنلزم کا کچھ پتہ ہی نہیں

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:17 2010-10-18 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    ‘بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘

  • 2. 15:15 2010-10-18 ,MATLOOB MALIK, UK :

    یاد ماضی عذاب ہے یارب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

  • 3. 15:19 2010-10-18 ,Athar Massood Wani :

    صحافی کے لکھنے یا کہنے سے حکومتیں نہیں جاتیں، یہ فیصلے تو کہیں اور ہوتے ہیں صحافی تو صورتحال بیان کرتا ہے۔پاکستان میں اقتدار کی قوت کس کے پاس ہے؟ یہ بات صحافی کو ضرور معلوم ہونی چاہئے۔کوئی صحافی حکومت کی حمایت کو صحافت سمجھتا ہے اور کوئی اپوزیشن کی حمایت کو،افسوس ملک کی سلامتی کو درپیش سنگین ترین خطرات اورعوام کے مصائب و ذلت کے امور اس قابل نہیں کہ اس کا کوئی بدل مل سکے۔پاکستان میں نظریاتی صحافت کا خاتمہ ہو چکا ہے،اب کمرشل صحافت ہے۔۔۔

  • 4. 15:27 2010-10-18 ,Sajjadul Hasnain Hyd India :

    غنبر جی سلام مسنون
    جی سچ کہا آپ نے آج کل ہر کوئی يہی دھونس جماتا نظر آتا ہے کہ تم کيا جانو جرنلزم ہوتا کيا ہے- پاکستان کے صحافيوں کا ايک وفد کچھ دنوں پہلے ہندوستان کے دورے پرآیا تھا پتہ نہيں ميں نے اسی اوڈ پڈانگ معاملے کو ان کے سامنے اٹھايا اب چونکہ وہ مہمان تھے شائد اسی لیے ايک زير لب سی خاموش مسکراہڈ اور بس ويسے انڈيا کے گھاگ صحافی بھی اپنا سا منہ لے کے رہ جائیں ليکن يہ سوال تو اپنی جگہ سيسہ پلائی ديوار کی طرح کھڑا ہے کہ مسابقت کی دوڑ ميں ہم اپنے ہوش کيوں کھوتے جارہے ہيں

  • 5. 18:13 2010-10-18 ,Dr Alfred Charles :

    عنبر خيری صاحبہ!يہ بات تو طے شدہ ہے کہ آپ ٹہريں مستند و ثقہ صحافي کيونکہ آپ کا تعلق بريکنگ نيوز اور ٹکر کمونٹی سے نہيں!! ويسے جس سوچ کی جانب آپ اشارہ کررہی ہيں وہ اپنی جگہ مگر کيا يہ بھی سچ نہيں کہ حکومت کوئي بھی ہو کسی کی بھی اپنی حماقتوں سے ميڈيا کو موقع ديتے ہيں کہ حکومت کا دھڑن تختہ کرديں۔ حکومتوں کی نااہلی وعوام دشمنی ہی صحافيوں کو بلآباخبر ذرائع سے متعارف کرواديتی ہے۔آج کل کے تناظر ميں ديکھيں تو ايسا ہی ہورہا ہے

  • 6. 18:47 2010-10-18 ,طالوت :

    پاکستانی حکومتوں کے جانے میں صحافی حضرات کے منفی کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بااختیار طبقہ کوئی سا بھی ہو وہ حقائق کو نقطہ نگاہ بنانے کی بجائے اپنے نظریات و خواہشتات و نوازشات کے نقطے پر مرتکز ہیں ۔ مگر میرے خیال میں اس میں زیادہ کردار سیاستدانوں کا اپنا ہی ہے۔

  • 7. 18:58 2010-10-18 ,محمداسد :

    پاکستان میں اکیسویں صدی کی شروعات سے میڈیا نے جو بے انتہا تیز ترقی اور آزادی حاصل کی، اس تیزی میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے جو کسی دوسرے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں پروڈیوسرز، بینکرز اور ڈاکٹرز وغیرہ شامل ہیں۔ صحافت کے شعبے میں ان کی شمولیت اور وہ بھی صحافتی اصولوں اور قوانین کی تعلیم کے بغیر بالکل ایسا ہی ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا۔

  • 8. 3:20 2010-10-19 ,ناصرحسین پھلروان :

    عنبر خیری صاحبہ، آداب

    اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان میں ہردورمیں کرپشن اپنے بام عروج پر رہی لیکن یہ الگ بات ہے کہ شاطرقسم کے یہ بدعنوان لوگ اس کمال فن سے لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں کہ مشکل سے ہی انکی بدعنوانیوں کے سراغ ملتے ہیں۔۔مسٹر ٹین پرسنٹ سے لیکر بیوروکریسی تک سبھی نے عالی شان محل اور غیرممالاک میں بنگلے ایسے تو نہیں بنالیئے اتنی مہنگی مہنگی جائیدادوں کے پیچھے ملکی خزانے کو بے دردی سے لوٹنے کا کارنامہ ضرور شامل ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کرپشن کے ثبوت شاید موجود نہیں ہیں،اسی وجہ سے ذمہ داروں کو پکڑنے اور لوٹ ثابت کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔۔۔۔۔

  • 9. 8:32 2010-10-19 ,Athar Massood Wani :

    یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صحافی ادارے(اخبار،نیوز ایجنسی،نیوز چینل) کے لیے کام کرتا ہے اور اس ادارے کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ اب تو ایسا تاثر بھی مل رہا ہے کہ ہمارے کئی نیوز چینل خفیہ ایجنسیوں کے لیے بھی کام کرتے ہیں ۔جذبات سے ہٹ کر دیکھیں،ہماری صحافت نہ تو آزاد ہے نہ اس کے سامنے ملک و عوام کا مفاد مقدم ہے ۔کمرشل صحافت ہے،اکثر صحافی بھی عوام کی طرح اپنی معاشی بقاء کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کئی ٹی وی چینلز کے پروگرامز کو فنانس کرتی ہیں تا کہ ان کی مطلوبہ بات پیش کی جائے۔المختصر یہ کہ نہ ہم آزاد نہ ہماری صحافت، صحافت کے لیے مخصوص دائرے ہیں، اس کے ا ند ر جتنی مرضی’ ’ اچھل کود“ کی جائے لیکن اس سے باہر نکلنے کی اجازت نہ،مضبوط صحافتی ادارہ تو سٹینڈ لے سکتا ہے لیکن آخر صحافی کو جان بھی تو پیاری ہوتی ہے۔

  • 10. 8:44 2010-10-19 ,tadeeb :

    پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب صحافیوں کوخریدا گیا، لفافہ جرنلزم کی اصطلاح غالبا انہی لوگوں کے لئے استعمال کی گئی تھی،دوسری بات یہ ہر دور میں صحافیوں کا ایک ٹولہ موجود ہوتا ہے جو حکومتی منشا کے مطابق خبر رپورٹ کرتا ہے اور ایک ایسا گروہ بھی موجود ہوتا ہے جو غیر جانبدار ہو کر کام کرتا ہے،سابق صدر مشرف کے دور میں میڈیا کو جتنی آذادی حاصل ہوئی اتنی کسی دور میں نہیں ہوئی اب آ زاد میڈیا کوئی ہلچل پیدا کرتا ہے تو اس میں برائی کیا پے،سچ کو برداشت کرنے کی ہمت ہونئ چاہیئے

  • 11. 8:48 2010-10-19 ,Riffat Mehmood :

    صحافت ايک بڑا ذمہ داری اور غير جانب داری کا متبرک شعبہ ہے- بد قسمتی سے پوری دنيا نے اسے اپنے مقاصد اور پروپيگينڈا کی موثر مشين سمجھ کر اسے زرد صحافت ميں تبديل کر ديا ہے- اس کے پيچھے مقاصد اور عزائم کارفرما ہوتے ہيں- صرف پاکستان ہی نہيں ترقی يافتہ ممالک ہی کی مثال لے ليں گڑ بڑ ہے- ترقی يافتہ ميں تناصب کم ہوتا ہے ترقی پزير ممالک ميں گڑبڑ کا تناسب زائد ہوتا ہے- اسکی بنيادی وجہ سياسی شعبوں حکومتوں کو انہيں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا بھی ہے- اب تصديق کون کرے ملک ميں بيروکريسی کے مقاصد کی تکميل کرتے دکھائی ديتے ہيں- اس غلط خبر کو چيلنج کرنے کا اگر کوئی سوچے تو دھائيوں ميں جا کر کہيں شنوائی شايد ہو اور جب تک جانے کتنی حکومتيں جرابوں کی طرح تبديل ہو جائيں- ابھی تو اسمبلی ممبران کے ڈکلئير اثاثوں کو ديکھ کر ميرے ہوش اڑ رہے ہيں- اگر بڑے ناموں والے صحافی حضرات کے اثاثوں کا پنڈورا بکس کھولی تو اس صنعت ميں بھی اچھی کمائ نظر آئے گي-
    اب اگرآپ نے ايماندارانہ صحافت کی تو آپ بھوکے مرنے کی تياری کر ليں- اب پاکستانی صحافت باؤنڈريز کے باہر بھی نکل پڑی ہے- ملک سے باہر بھی اسکا حلقہ اثر ہے- اسے اب غير ملکی قوتوں سے تعلقات رکھ کر اپنی صحافت کو چمکانا بھی ہے-
    رہی حکومتيں تو حکمرانوں کے تو الچھن خود ہی انکی بربادی کے مواد فراہم کرنے کے لیے کافی ہيں بيوروکريسی اپنے مقاصد کی تکميل ہونے کے بعد ميڈيا کو ايکٹيو کر ديتے ہيں اور پھر پنڈورہ بکس کھل جاتا ہے- ايک جاتا ہے دوسرا آجاتا ہے- يہاں عالمی طاقتوں کے اشارے بھی ہوتے ہيں تو ميڈيا ميں پروپيگيڈا شدت اختيار کر کے حکومتوں کو گرانے کا باعث بن جاتا ہے۔ اگر صرف عدليہ غير جانب دار رہ کر جلد فيصلے کرنے کا تہيہ کر لے تو ہر چيز جگہ پر آجائے گی اور لٹيروں اور جعلی ڈگری والوں کو اسمبليوں کی طرف نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہيں ہو گی اور صحافت بھی صحيح اور اصل روح کی طرف چل پڑے گي- ليکن دولت اتنی نہيں بن پائے گي- اب معلوم نہيں کہ بلوگ ايسا چاہتے بھی ہيں- اس ملک کے 60 فيصد شے زائد لوگ ملک ميں صحيح نظام چاہتے ہيں جہاں غلط کو صحيح نہ کہا جائے اور لٹيروں کو عبرت ناک سزا دی جائے-

  • 12. 12:26 2010-10-19 ,حا ر ث ملک :

    محترمہ ميڈيا کی عقل پر کيا کم ماتم کيا جاۓ کہ اب ايک شخص کی دو شاديوں کی کوريج دی جا رہی ہے لگتا ہے کہ ان کی عقل گھاس چرنے چلی گئ ھے۔

  • 13. 13:50 2010-10-19 ,فائقہ قاسم :

    عنبر صاحبہ، ہمارے پورے معاشرے کی بنياد ہی جھوٹ پر ہے- حديث ہے کہ انسان کے جھوٹا ہونے کہ لئے يہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بغير تحقيق کے آگے بيان کر دے- چليں احاديث کو تو اب ہم لوگ آؤٹ ڈيٹڈ سمجھتے ہيں، ترقی يافتہ ممالک سے ہی ہم کچھ سيکھ ليں - وہ تو ہمارے آئيڈيل ہيں نا- ميرے خيال سے اس بات کا تعلّق صحافتی اصولوں سے زيادہ انسانی اصولوں سے ہے- اور انسانی اصول نا ہماری حکومت ميں نظر آتے ہيں اور نا معاشرے ميں - ليکن يہ ايک ايسا سچ ہے جو ہميں بہت کڑوہ لگتا ہے -  

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔