دل اندھیاری رات
اور اب صوفی دنیا کے سب سے خوبصورت ترین درویش شاعر فرید کے مزار پر پاک پتن میں دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے۔
فرید تو کئی صدیاں پہلے دہشت گردی کی انڈر ورلڈ کے لیے کہہ گیا تھا۔ 'دنیا گجھی بھاہ' کہ دنیا اک چھپی ہوئی آگ ہے۔ وہ آگ جو اب پاک پتن، پورے پاکستان اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہے۔
اس دن میں کہہ رہا تھا کہ پتہ ہے اس کا بیج کہاں بویا گيا تھا! جھنگ میں۔ ہیر کے جھنگ میں اور پھر دیکھتے دیکھتے یہ آگ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پشتو شاعر رحمان بابا، علی ہجویری داتا گنج بخش کے لاہور دربار میں، کراچي میں عبد اللہ شاہ غازی اور اب بابا فرید۔
حجاموں لختئیوں سے ٹپوں گيتوں سے
کبھی بدھ سے کبھی رحمان بابا کی غزل سے یہ الجھتے ہیں
(حسن مجتبی)
فلسفۂ تنگ نظری وانتہا پسندی یہ ہے کہ عوام الناس میں مقبول عقائد و خیالات پر ناکہ و ڈاکہ ڈالا جائے۔ یہ بیچارے دنیا اور دکھوں کے ستائے مرد و زن، یہ دیسی پردیسی عقیدت مند جو ان درباروں پر حاضری دیتے ہیں، پھول، شمعیں اور آنکھوں میں آنسوں لاتے ہیں، آسوں امیدوں سے اپنی جھولیاں بھر جاتے ہیں۔ یہ جیب کترے، یہ حالی موالی، یہ عاشق، یہ حسین و محبوب لوگ۔ یہ امیر و غریب، یہ ماتم گسار و مجرے باز، یہ پروانے، دیوانےاور مستانے جو پتنگوں کی طرح کھنچے چلے آتے ہیں۔ ان کی دلوں میں نہ کوئي انتہا پسند گھر کر سکتا ہے نہ ہی کوئی ان کے دل میں بسی بستیوں کے نقشوں کو بموں سے اڑا سکتا ہے اور نہ ہی شیخ فرید کے بولوں کو۔ آج تک انھیں مٹان کے لیے نہ تو کوئی گولی ایجاد ہوئی ہے اور نہ بم۔
کنھ مصلا، صوف گل، دل کاتی گڑ دات
باہر دسے چاننا دل اندھیاری رات
فرید
( کاندھے پر مصلا رکھے، گلے میں کالی کفنی پہنے، دل میں ذبح کرنے والی چھری اور منہ میں مٹھاس،
باہر سے تو روشنی لگتا ہے پر دل تاریک رات ہے)
فرید کی ایسی شاعری جو انتہا پسندوں اور ان کے فسلفے کو لڑتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
ابھی تک آدمی صید ِزبوں شیر یاری ہے
قیامت ہے کہ انسانِ نوع انسان کا شکاری ہے‘
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گَھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے‘
کوئی حيوان بھی بلا اشتعال (و اشتہا) حملہ آور نہيں ہوتا - يہ شرف ”اشرف المخلوقات” ہي کو حاصل ہے - انسان قدرت کی سفاک ترين مخلوق اور انسانوں ہي کا بدترين دشمن ہے۔
صوفیا اکرام نے توغیر مسلموں کوبھی سینے سے لگایا اور یہ "مسلمان" مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں ۔ ایک ہاتھ میں تسبیح دوسرے میں لوٹا،ایک کندھے پر مصلٰی دوسرے پر بستر اٹھا کران لوگوں نے سو سال تک ہمارے عقیدے بدلنے کی کوشش کی اور اب تھک ہار کر اپنے اصل ایجنڈے پر اتر آے ہیں۔ جھنگ جو شاہ جیونہ، پیر محبوب عالم، حق باہو کا مسکن اورعشق کی دیوی ہیر کا مدفن تھا وہیں سے مذہب کے نام پر یہ آگ اور خون کا کھیل شروع ہوا۔ خدا کی قسم کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو ان حملوں کے بعد ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ان کا تعلق کس گروہ سے ہے اورحکومت میں ان کے حمایتی کون۔۔
اگر مزاروں پہ جانا، شمعٰیں جلانا، لنگر بانٹنا، دھاگے باندھنا ان کے نزدیک کفر ہے تو ہم کافر ہی سہی۔
بلھے شاہ تینو کافر کافر کہن ۔۔ تو آہو آہو کہہ
درگاہ حضرت بابافریدشکرگنج پرحملہ بزدلانہ فعل ہے۔اس سے قبل پاکستان بھرمیں درگاہوں،مساجد اورعبادت گاہوں پر خودکش حملوں میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں جنکی کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے، آج کراچی سے گرفتارکئے گئے 12 سالہ مبینہ خودکش بمبارنےمیڈیا پرجن باتوں کا اعتراف کیا اور انتہاپسندوں کے طریقہ واردات کوبیان کیا ہے اس سب کچھ سننے اور جاننے کے بعدمیں اپنی اس سوچ میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتا کہ پاکستان میں دہشت گردی، خودکش حملے اور تباہی و بربادی کا یہ کھیل کوئی مذہبی، نظریاتی یا لسانی جنگ یا تصادم نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ غیرملکی ایجنٹوں کی کارروائی ہے ۔پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ مغربی سرحدی علاقوں میں قیام پذیر قومیں باآسانی گمراہ ہوکر ملک کے خلاف مذہب کے نام پر اٹھ کھڑی ہوئی ہیں،یہ کرائے کے قاتل ہیں جنکا اپنا کوئی دین مذہب نہیں،یہ کٹھ پتلیاں ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ انکے خلاف موثر کارروائی کسی بھی حکومت کے لئے ہرگزآسان کام نہیں ہے کیونکہ دشوارگذار اور سنگلاخ پہاڑوں میں چھپے اس دشمن تک رسائی آسان نہیں لیکن میرایقین ہے کہ پاکستانی قوم بہادر ہے اور وہ ایسی گھناؤنی اوربزدلانہ کارروائیوں سے دبنے والی نہیں بلکہ پاک فوج کے شانہ بشانہ ملک دشمن عناصر کو ضرورٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوگی۔۔۔۔
محترم مجتبیٰ صاحب، صوفیاء کی شاعری نے تو یورپی ذہن بھی فتح کر لیا ہے۔ دوسری طرف طالبان ہیں جو اپنے مقصد کی خاطر زمین کا ایک انچ بھی فتح نہیں کر سکے۔ اس کے بر عکس، جس بے نصیب قوم نے ان سے ہمدردی کی وہ بھی ہلاک ہوئی
ان دھماکوں میں، میں اور آپ مر رہے ہیں، کوئی مخدوم، گیلانی یا شاہ نہیں مر رہا. یہ سب لوگ تو حکمران ہیں یا بننے کی تیاری کر رہے ہیں. اس کھینچاتانی میں یہ بھول رہے ہیں کے اگر آپ اور میں ھی نا رہے تو یہ حکمرانی کس پر کریں گے.
ہزاروں لالہ و گل ہيں رياض ہستی ميں
وفا کی جس ميں ہو بُو، وہ کلی نہيں ملتی (اقبال)
تمياں توں تربوز نئيں بن دے-
کٹ کٹ مشرياں پائيے -
بے اصلاں دے اصل نئيں ہوندے-
بھانويں لکھ پئے سمجھائيے-
(مياں محمد بخش)
اسلام کے معنی سلامتی کے ہيں اور سلامتی کے ليۓ پيارومحبت لازمی جزو ہيں۔ اسی پيارومحبت کو اجاگر کرنے کی خاطر ان صوفيائے کرام نے اپنی زندگياں وقف کيں اور برصغير کے ان لوگوں کو پناہ دی جو معاشرے کی اونچ نيچ اور جس کی لاٹھی اس کی بھينس کے قانون کی وجہ سے نچلے درجے کے انسان سمجھے جاتے تھے۔بنيادی طور پر ابتدائی اسلام يعنی رسول پاک اور حضرت علی کے دور تک ايسا اسلام ہی تھا مگر بدقسمتی سے آنے والے کچھ خلفاء نے اپنی سلطنتوں کو دوام بخشنے کے ليۓ فوجی لشکروں اور ہتھياروں کے ساتھ ساتھ جذبہ ايمانی اور شرک کے نئے فلسفے اخذ کرکے اپنی فوج کو ظالم و جابر بناديا تاکہ ان کے سامنے دنيا کی کوئی اہميت نہ رہے اور وہ لڑتے مرتے رہيں۔اسی طرز کے نيم ملاں کا وجود اب تک موجود ہے جو کہ بڑے بڑے سرمايہ کے مالک بھی ہيں اور ان ميں سے کچھ افغانستان ميں منشیات کے کاروبار ميں بھی ملوث ہيں اور يہ ہی لوگ سادہ عوام کے نوجوانوں کو ورغلا کر ايسے اقدام کرنے پر مجبور کرديتے ہيں تاکہ ملک ميں افراتفری رہے ۔اسی طرح کے کچھ انتہا پسند ہندؤؤں ميں بھی موجود تھے جس سے تنگ آُکر بابا گرونانک نے سکھ ازم بنايا يا بعد ميں اکبر بادشاہ نے دين الہی اور پھر قدرے دير بعد مرزائی يا بہائی فرقہ بنا۔
جب تک اسلام میں تصوف کی آمیزش نہیں ہوئی تھی مسلمان عروج پر تھے ۔ جب سے اسلام مساجد سے نکل کر خانقاہوں میں آیا ہے ، مسلمان زوال پذیر ھو گئے ہیں۔
مسلمان ہی مسلمان کا دشمن ہے۔ مجتبٰی صاحب آپ ہم کچھ نہيں کرسکتے سوائے افسوس کرنے کے ۔
ہر حادثہ کے پس منظر ميں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہيں، غلطيوں، سازشوں، نفرتوں اور ذيادتيوں کا ايک سلسلہ ہوتا ہے جو ٹايم بم کی طرح اپنے وقت پر پھٹتا ہے؛ حادثے و سانحے بظاہر اچانک ہوتے ہيں مگر ہم سب مل کر بقدر حصہ ان سانحوں کی پرورش کررہے ہوتے ہيں، جہالت، نفرت، عصبيت، عدم برداشت اور superiority complex سب ان ٹايم بموں کے اجزائے ترکيبی ہيں جو ہم نے کئ دہائيوں سے بڑی جان فشاني تيار کرکے ايسے عفريتوں کے حوالے کئے جو اب اپنے ہي خالق کو نگل جانا چاہتے ہيں،مگر محبتوں کے سوداگر صوفياۓ کرام اس احسان فراموش معاشرے ميں انسانيت کا پرچار کرنے کی بھاری قيمت ادا کررہے ہيں۔
اسے کہا جاتا ہے عالمی نرغا جس ميں بڑے منظم طريقے سے عمل درآمد ہو رہا ہے ليکن تخريب کاری ايک تسلسل سے ہو رہی ہے۔ کبھی صوبہ پختونخوا ميں مزارات پر خودکش دھماکے، کبھی لاہور کے داتا دربار ميں، کبھی کلفٹن حلانکہ مزاروں کا تقدس تمام لوگ صديوں سے کرتے چلے آرہے ہيں۔ اسی طرح کراچی اور کوئيٹہ جہاں ٹارگٹ کلنگ کا بازار اچانک گرم کر ديا جاتا ہے- مقصد مذہبی اور لسانی منافرت کا فروغ کہ لوگ آپس ميں دست و گريباں ہو کر ايک دوسرے کے خون کے پياسے ہو جائيں۔ايسے ميں ملک کے خلاف شازشيں کرنے والوں اور ہمارے روایتی دشمنوں کو اپنے مقاصد کا حصول آسان ہو جائے۔ يہی کچھ ديکھتے ہوئے کئ دھائياں بيت چليں، ليکن سرا ہاتھ نہيں آ رہا کہ کون سی قوت ہے جو اس پاکستان کو نقصان پہنچانے کے در پے ہے۔ قومی سياست لسانی سياست کا رخ اختيار کر گئی ہے۔ يہ مزاروں پر دھماکے تو اسی انارکی کا تسلسل ہے۔ اسے آپ ٹريلر کہہ سکتے ہے اصل فلم تيارکر کے رکھ لی گئی ہے۔اب يہ فلم رليز کب ہو گی، ہمارے دوستوں کو اس کا ٹائم فريم معلوم ہے۔ کبھی تخريب کار گرفتار نہ ہو سکے ملک کی سيکيورٹی سواليہ نشان بن گئی ليکن دوستياں نبھانے اور امداد کے حصول ميں سرگرداں ملک ميں انصاف اور اس کے نفاز سے مبرا ادارے جانے کس تک و دو ميں مصروف ہيں۔ اب تو بقا کے مسائل ہی رہ گئے ہيں شايد ہميں ادھ موا کر کے ہمارے حال پر انہيں رحم آ جائے جو مشکل دکھائی ديتا ہے۔
عبدالباسط صاحب نے اپنے تبصرہ میں لکھا ہے کہ ُُجب تک اسلام میں تصوف کی آمیزش نہیں ہوئی تھی مسلمان عروج پر تھے ۔ جب سے اسلام مساجد سے نکل کر خانقاہوں میں آیا ہے ، مسلمان زوال پذیر ھو گئے ہیں‘۔
موصوف کا کہنا درست نہیں کیونکہ تاریخ اور حقائق و حالات، موصوف کے بالا خیال کے برعکس ہیں۔ باسط صاحب کو علم نہیں کہ اسلام میں تصوف کی آمیزش کا آغاز نویں صدی عیسوی میں جنید بغدادی، ابوبکر شبلی، ابوالقاسم قشری نے صوفیانہ مسلک اختیار کر کے کیا تھا اور امام غزالی نے ‘صوفی ازم‘ کو باقاعدہ فلسفے کا رنگ دیا۔ جب کہ جو فرقہ واریت مسلمانوں میں آج عروج پر ہے، اس کے ڈانڈے، ‘صوفی ازم‘ سے بہت پہلے جنگ صفین اور واقعہ کربلا کے فوری بعد پھوٹ چکے تھے اور اسی دور سے مسلمان سیاسی گروہوں میں تقسیم ہونا شروع ہوئے، جس کا عروج رواں دور میں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے اور آج ہر ایک فرقے نے اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تصوف نے مسلمانوں کو زوال میں دھکیلا۔ حقیقیت یہ ہے کہ جب سے اسلام مساجد سے نکل کر ‘جہاد سنٹرز‘ میں اور ‘سڑکوں‘ پر آیا ہے تب سے مسلمان بھی زوال پذیر ہیں اور دنیا کا امن و امان بھی تہس نہس ہو چکا ہے۔ صرف یہی نہیں، عقل و خرد، صبر و تحمل اور برداشت جیسی انسان دوست خصوصیات کا جنازہ بھی نکل رہا ہے جو کہ کسی ‘قیامتِ صغریٰ‘ کے آنے کے آثار سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ملک کی جو حالت ہے، اس بات کو اچھی طرح واضح کر دیتی ہے۔
مجتبیٰ صاحب، آپ نے ہمیشہ اپنے قلم اور لفظوں کا صحیح استعمال کیا ہے لہذٰا میری دعا ہے کہ آپ کے الفاظ اُبھرتے ہوئے سورج کی کرنوں کی مانند گمراہی کی عمیق تاریکیوں میں دھنسے ہوئے لوگوں کے لئے مشعل راہ بن جائیں، کاش آپ کی جگمگاتی تحریروں سے تاریک دل روشن ہوجائیں اور اس قوم کو لاشعوری کی تاریکیوں سے نکلنے کا موقع مل جائے۔ آمین۔
‘پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں
توں نام رکھ لیا قاضی
ہَتھ وِچ پھڑ کے تلوار
توں نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا
تے نام رکھ لیا حاجی
بلھے شاہ حاصل کی کیتا
جے توں یار نہ رکھیا راضی‘
حسن بھائي! آپ سے صد فيصد متفق ہوں۔