ارون دھتی کو خطرہ نہیں
کئی روز سے معروف مصنف ارون دھتی رائے بھارتی میڈیا کے کچھ چینلز پر چھائی ہوئی ہیں اور قانونی ماہرین سے لے کر سیاست دانوں تک سبھی سے بظاہر یہ کہلوانےکی کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح ارون دھتی رائے کا کشمیر سے متعلق بیان سیڈیشن یا غداری کے زمُرے میں لاکر اُن کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا جائے۔
ارون دھتی کی حمایت میں جہاں آزادی پسند کشمیری اِس وقت فیس بُک سے لے کر اخبارات میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں وہیں مغرب میں بھی میڈیا نے اُن کے حق میں مضامین لکھ کر انہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس بات پر ارون دھتی کے خلاف اتنا کہرام اٹھا ہوا ہے اُس کے بارے میں مغربی میڈیا نے پھر بھی کچھ کچھ خاموشی اختیار کی ہے۔
بھارت نےعالمی سطح پرجو امیج قائم کی ہے اُس کی وجوہات بہتر معیشت، جمہوریت یا کثیر نسلی یا کثیر مذہبی ملک ہونا ہوسکتی ہیں مگر اس کا سہرا زیادہ تر ارون دھتی، اروند ارٹیگا، پنکج مشرا اور اُن جیسے بیشتر دانشوروں پر بھی ہے جنہوں نے پوری دنیا میں اس ملک کی جمہوری ساکھ قائم کی ہے اور بھارت کو ان ترقی پذیرملکوں کی صف میں کھڑا کیا جن کا پوری دنیا میں اب بول بالا ہے۔
بھارت میں دانشوروں کے بیان پر میڈیا کتنا ہی شور کیوں نہ مچائے اور ان کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کتنا ہی زور پکڑے لیکن بھارتی حکومت اتنی کمزور نہیں کہ اُن کے بیانات سے گھبرا جائے۔ بلکہ وہ اس بیان کو 'بڑا مسئلہ' بنانے پر ضرور پریشان ہوگی کیونکہ وہ کشمیر کو اندرونی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا چاہتی ہے نہ کہ اس مسئلے کو عالمی توجہ کا مرکز بناکر اور کسی ملک کو شامل کرکے۔
حکومت کو معلوم ہے کہ یہ لوگ غلط بات بھی نہیں کرتے اگر تاریخ کا مطالعہ صحیح ڈھنگ سےکیا جائے۔ بعض دانشوروں کے مطابق اندرونی طور پر حکومت بھی کشمیر کے معاملے کو حل کرنے سے پہلے ایک رائے عامہ تیار کرنا چاہتی ہے اور اگر وہ ارون دھتی رائے یا گوتم نولکھا یا ونود مہتہ کر رہے ہیں تو حکومت کا کام آسان بن رہا ہے نہ کہ پیچیدہ۔
بھارتی حکومت کو اس بات کا بھی بخوبی احساس ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کرسکتی جو بھارتی پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ عالمی شہریت کا پاسپورٹ بھی رکھتے ہیں، بھارتی جمہوریت کی علامات تصور کی جاتی ہیں اور اُن کے پیچھے باہر کی تھنک ٹینکس کے علاوہ جمہوریت کی علمبرادر حکومتیں بھی ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ ارون دھتی یا دوسرے دانشوروں نے جو بات کی ہے اس پر میڈیا کو ہنگامہ کرنے کے بجائےغور کرنا چاہے شاید جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
اگر ایک غریب بندہ کی جیب اسے روزانہ دال ہی کھانے پر مجبور کرتی ہو تو پھر بھی وہ غریب بندہ کسی دوسری سبزی کی طرف لپکنے کے لیے کم از کم ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے۔ یہی صورت حال ایک قاری کے ساتھ بھی پیش آتی ہے کہ وہ ہر وقت ایک ہی صنف کا مطالعہ نہیں کر سکتا بلکہ ذائقہ بدلی کے لیے دیگر اصناف کے لیے بھی وقت نکالتا ہے۔ جبکہ تعجب ہے کہ آپ محترمہ کو کشمیر کے علاوہ کوئی دوسرا مسئلہ نظر ہی نہیں آتا یا آپ دیکھنا ہی نہیں چاہتیں یا پھر آپ کی سپیشلائزیشن ہی کشمیر پر چانن ڈالنے کی ہے۔
‘میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
میں چُپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے‘
محترمہ اروندھتی کی خدمت میں بطورِ خاص اور بصدِ خلوص:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہء صحرائی یا مردِ کوہستانی
نعيمہ جی بجا فرماتی ہيں آپ مگر افسوسناک پہلو تو ہے کہ اروندھتی نے يہ بات کہی تو عالمی ميڈيا اور مغرب نے ان کی حمايت کے لیے کھل کر سامنے کے آنے سے ذرا سا بھی پس و پيش نہ کيا مگر وہ مظلوم جو چيخ چيخ کر يہ کہتے نظر آتے ہيں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے اور وہ کشميری جو کھل کر يہ کہنا چاہتے ہيں کہ ان کے ساتھ غير انسانی سلوک کيا جا رہا ہے مگر کوئی بھی ان کی بات سننا نہيں چاہتا۔ حکومت کيا کر رہی ہے۔ حکومت کی پاليسی کيا ہے۔ حکومت کو کيا کرنا چاہيے؟ اس سے پرے کيا کسی نے اس بات ميں ذرا سا بھی سنجيدگی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ آخر کيوں آج بھی مسئلہ کشمير حل نہيں ہوتا۔ آخر کيوں؟ کوئی بھی حکومت اس ضمن ميں سنجيدہ اقدامات کی ہمت نہيں کرتی۔ مرکز تو مرکز خود کشمير کی حکومتوں نے اس سلسلے ميں کہاں کب سنجيدگی دکھائی ہے۔ فاروق عبداللہ برسوں تک حکومت کرتے رہے، مفتی سعيد کی جماعت نے بھی خوب اقتدار کے مزے چکھے، عمر عبداللہ بھی تو بہتی گنگا ہی ميں ہاتھ دھونے کے درپے ہيں۔ يہ سب بھی تو کشميری ہيں آخر کيوں انہيں کشميری عوام کے درد سے کچھ لينا دينا نہيں ہوتا- موجودہ ہوم منسٹر کی داد دينے کو جی چاہتا ہے کشمير کی سياست وہاں کے رسم و رواج وہاں کے لوگوں وہاں کی تہذيب کسی بھی چيز سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہيں ہے مگر پھر بھی وہ اس مسئلہ کو ليکر کہيں زيادہ سنجيدہ نظر آتے ہيں۔ رونا تو اسی بات کا ہے کہ کشمير کو ہميشہ اپنوں ہی نے جہنم کی آگ ميں جھونکا ہے۔ کيا يہ ايمان فروشی کی بد ترين مثال نہيں ہے؟
انسانیت کی عظمت قائم کرنے والے دانشوروں کو مل کر کام کرنا چاہئے،تاہم کمزور کو آسودگی دل نہیں ملتی، یہ دنیا جینے نہیں دیتی۔
تشدد اس وقت عالمگيريت کا روپ اختيار کر چکی ہے۔دنيا کا ہر خطہ کم و بيش ،بلواسطہ يا بلاواسطہ تشدد سے متاثر نظر آتا ہے۔اگر اس صدی کی اختتام پزير پہلی دہائ کو تشدد،اور انسانی اقدار کے انحتاط سے منسوب کيا جاۓ تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ايسے ميں موصوفہ کسی بھی حيثيت ميں،کسی بھی شہريت کا فائدہ اٹھاتی ہوي،امن وآشتی کی بات کرتيی ہيں تو يقيناُ قابل تحسين ہيں۔ہم سب کو اپنی تمام تر وابستگيوں سے بالاتر ہو کر انسانيت کے مفاد ميں ايسی ہر کاوش کو سراہنا چاہيے۔