عدم اعتماد کے مجاہد۔۔۔
اکیس سال پہلے یکم نومبر 1989 کو بینظیر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ناکام تو ہو گیا تھا لیکن اس مہم اور اس میں ڈالی گئی خفیہ ادارے کی بھاری رقم نے پاکستانی سیاست کو اندر سے خراب کرنے کا ایک دیر پا عمل شروع کر دیا۔
ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی نے 'مڈ نائٹ جیکلز' نامی آپریشن میں سیاستدانوں کو خریدنے کا جو عمل شروع کیا تھا اس سے لوٹا پولیٹکس کو فروغ ملا اور سیاستدانوں کو بدنام کرنے کی فوجی کوششوں کو مدد۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے پاکستانی تاریخ کے اس شرمناک واقعے کو وہ اہمیت نہیں دی جو ہمیں دینی چاہیے۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک تاریک باب تو ہے لیکن اس پر اگر غور کیا جائے تو ہماری موجودہ سیاست کے بہت سارے پہلووں پر بھی روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔
یہ قابل غور ہے کہ ملک کے ہی ایک ادارے نے ملک کا ہی کافی سارا پیسہ استعمال کر کے حکومت کے خلاف کام کیا اور اس کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اسے عام فہم میں غداری کہا جاتا ہے۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بیشتر پاکستانیوں کو یا تو اس کے بارے میں معلوم نہیں ہے یا پھر وہ اس کو 'غداری' نہیں بلکہ محب وطن پاکستانیوں کی ایک اچھی کوشش سمجھتے ہیں۔۔۔ یہ وہ ہی افراد ہیں جو عورت کی حکمرانی سے گھبراتے تھے، اور جو سمجھتے تھے کے سیاستدان ایک قابل تضحیک مخلوق ہے۔
جب گزشتہ کئی برسوں میں 'مڈ نائٹ جیکلز' کے دو اہم کردار میجر عامر اور برگیڈئر امتیاز 'بِلا' ٹی وی شوز میں آنے لگے تو ان کو غدار یا جمہوریت دشمن نہیں دکھایا گیا بلکہ ان سے ایسے بات کی گئی جیسے کہ وہ ماہرینِ تاریخ ہوں۔۔۔
لیکن 'مڈنائٹ جیکلز' سے یہ بات واضح ہے کہ آئی ایس آئی تب بھی اور آج بھی سیاستدانوں کے خلاف آپریشنز اور ڈِس انفارمیشن میں مصروف ہے اور اس نے گیارہ سال کی آمریت کے بعد جمہوریت کی جانب جانے کی کوشش کرنے والے نظام کو بگاڑنے کی بھیانک سازش کی تھی۔
'آپریشن مِڈنائٹ جیکلز' پاکستانی تاریخ کا ایسا باب ہے جس پر ہمیں پردہ نہیں ڈالنا چاہیے۔
تبصرےتبصرہ کریں
انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ خاکسار کو ‘اپریشن مِڈ نائٹ جیکالز’ نہیں بلکہ یہ بلاگ پراپیگنڈہ اور ڈِس انفارمیشن لگتا ہے۔ خاکسار کے خیال میں یہ ملکی تاریخ کا ایک ایسا اپریشن تھا جس سے پاکستان کی فوج نے ‘حب الوطنی’ کا صحیح معنوں میں ‘سرٹیفیکیٹ‘ حاصل کیا اور رواں دنوں میں یہی جانثار فوج ‘طالبان’ جو در اندازی کر کے ملک میں آتے ہیں یا انہیں کوئی بھیجتا ہے، کے خلاف بھرپور اور کامیاب اپریشن کر کے ‘حب الوطنی’ کا دوسرا سرٹیفیکیٹ’ حاصل کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ‘خارجہ پالیسی’ میں ایک اہم مقام بنا رہی ہے۔
حالت بدلتي نہيں اس قوم کي جسے نہ خيال ہو خود اپني حالت بدلنے کا -
عنبر خيری صاحبہ!يہ سلسلہ تو اب تک جاری ہے کيا کيا جائے؟
يہ الزامات کا سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا ليکن ان آپريشن کے نتيجے ميں انہی اداروں نے نہايت عظيم ليڈر شپ بھی تو عطا کی جس پر قوم کو ناز بھی تو ہے- اس کی اتنی بات ہے کہ لوگ اس کی لوٹ مار کو بھی اس کی حب وطنی سے تعبير کرتے ہيں- آج عالمی قوتوں کو اس ميں برائياں نظر آ رہی ہيں- کل تک تو ايوب سے ليکر مشرف تک آپکے وہ مقاصد پورے کر گئے جو خود آپ کے بس کي بات نہ تھي- يہ ادارے ملک کا نظام اس کی سکيورٹی پر کمپرومائز کرنے کو تيار نہيں- مشرف کے جانے کے اسباب ميں ايک سبب آپکی لگاميں پہننے کو تيار ہو گيا ليکن اب آپ کی گاڑی مزيد کھينچنے پر راضی نہ ہوا تو چلتا کر ديا- ہميں ايوب خان کی امريکی آشير باد کا بھی علم ہے- اور آپ کا اسے سر پے بٹھانہ اور اتارنا بھی ياد ہے-
يہ تو آج آپکو احساس ہو رہا ہے کہ جمہورئت کو ان اداروں سے خطرہ ہے- اور ويسے يہ احساس بھی ہے کہ پاکستان ميں موجودہ حکومت کرپشن کو کنٹرول کرنے ميں ناکام ہے-يہ دھرا معيار اور پاکستان ميں عالمی اداروں کی يلغار اورمداخلت اسے شديد نقصان سے دوچار کرنے پر آمادہ ہيں-
دوسرا آجکل عالمی قوتين اس ٹرائيکہ يعنی عسکری قيادت- حزب اقتدار اور حزب اختلاف تينوں سے يکسان تعلقات رکھنے پر مائل ہيں اور تينوں ميں يکساں مقبول ہيں اور تينوں پر يقين ہيں کہ نہ صرف وہ اچھا دوست ہے بلکہ قيادت کا اصل اہل صرف وہی ہے باقی سب غلط ہيں اب يہ سوچ تو ٹکراؤ کی اچھی فضا کے برقرار رکھے ہوئے ہيں-
اسی الميہ کا ہم شروع سے شکار ہيں اور مزيد کے مواقعے موجود ہيں- اب الزامات عالمی سطح پر کسی نئی کوشش کا حصہ بھی ہو سکتا ہے-
عنبر خيری صاحبہ!يہ سلسلہ تو اب تک جاری رہے گا جب تک کويء فوج کو لگام نہيں ڈالے گا-
بلا شک افواج پاکستان کا کرداراس معاملہ میں قابل رشک نہيں۔ مگرھمارے سياسی قائدين کو قطعی طور پراس کھيل سے بری الذمہ قرار نہيں ديا جاسکتا، جو سياست کو کاروبارسمجھتے ہيں۔ البتہ ھمارے پاس ايک مثال الطاف حسين کی موجود ہے جس نے دولت ٹھکرا دی۔ باقی نوازشريف ہوں يا عابدہ حسين سب نے بلا تخصيص رنگ و جنس اس بہتی گنگا ميں ہاتھ دھوئے ہيں۔
پاکستان کے آذاد دور اور اسلامی تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئےمیرا مشورہ یہ ہو گا کہ پاکسستان کے ہر فوجی سربراہ کو ریٹائرمنٹ کے بعد صدر منتخب یا نامزد کر دیا جائے۔ اور موجودہ فوجی سربراہ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ماہرانہ خدمات فراہم کرنے کے لئے اضافی وقت دینا چاہئے۔ اس کے علاوہ بری فوج کے کمانڈر، فضائیہ اور نیوی کے کرنلز کو صوبائی گورنر اور ڈپٹی گورنر تعینات ہونا چاہئے۔ ہر صوبے میں علاقائی حکومت ہونی چاہئے۔ صوبہ پنجا ب میں دو اور باقی صوبوں میں ایک ایک علاقائی حکومت ہو۔ یہ علاقے پہلے ہی اپنی زبان، ثقافت اور تاریخی اعتبار سے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ جیسا کے سرائیکی، پوٹھوہاری، بالائی سندھ ، سکھر، بلوچ اور ڈی آئی خان۔ اور تمام ایڈیشنل بیوروکریٹس، جنھیں صوبائی دارالحکومتوں میں رہنے کا شوق ہے، انہیں دور دراز علاقوں میں تعینات کرنا چاہئے۔ ان علاقوں میں غیر ملکی اور پاکستانی نژاد لوگوں کو سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جانا چاہئے تاکہ وہاں روزگار بڑھے اور غربت کا خاتمہ ہوسکے۔ اور یہی وہ واحد راستہ ہے کہ پاکستان میں دخل اندازی روکی جا سکے آخرکار فوجی عہدیدار منظم ہوتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ ملک کے نمائندہ ہیں اور ان میں حکمرانی خاندان میں منتقل نہیں ہوتی بلکہ یہ محنت اور صلاحیت سے حاصل کرتے ہیں یہ محض چند سیاستدانوں کے علاوہ کسی کے لئے نقصان دہ نہیں ۔ چند سیاستدان ایسے ہیں جو پردے کے پیچھے جرنیلوں کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں اورسیاستدانوں کے حامی محض پانچ سو خاندان ہیں جو ملک کے 125 اضلاع میں رہتے ہیں اور ملک کی نام نہاد نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں روکنے کے لئے کوئی بھی پابندی بےسود ہے۔ حالیہ انتخابات میں آٹھ سے نو ہزار ایسے امیدوار ہیں اس مافیا سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی سب سے بڑے قانون شکن ہیں۔ اور ان میں سے تقربا ایک ہزار نئے قانون دان منتخب ہو گئے ہیں جو صرف اپنا ہی خیال کریں گے کسی اور کا نہیں