| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کیا بات ہے جناب !

اصناف: ,

ہارون رشید | 2010-12-10 ، 8:47

داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا ہے۔

ایک تقریب میں جنوبی افریقہ کی ایک سابق سفارت کار سے ملاقات ہوئی تو گفتگو کے دوران ان سے پوچھا کہ کیا پاکستانی نوکریوں کی تلاش میں ان کے ملک پر بھی یلغار کیے ہوئے ہیں تو ان کا جواب تھا ہاں۔

۔ پوچھا وہاں پاکستانیوں کہ بارے میں عمومی تاثر کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بہت محنتی ہیں اور ہر حال میں گزارا کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات کو اس سب پر پانی پھر دیتی ہے وہ ہے کہ ان کا جھوٹا ہونا۔ شرمندگی سے سر وہیں جھک گیا۔

جھوٹ بولنے کی انتہا کہیں اسے یا عادت سے مجبور کہ جعلی پینے کا پانی، ڈگریوں اور ہتھیاروں کے علاوہ اب نوبت اس تک آن پہنچی کہ بعض پاکستانیوں نے وکی لیکس کی جعلی کاپیاں بھی بنانا شروع کر دی ہیں۔ دو بڑے پاکستانی اخبارات کو بھارت سے متعلق یہ جعلی لیکس شائع کرنے پر معذرت کرنی پڑی ہے۔

وکی لیکس جو امریکی اہلکاروں اور دنیا بھر کی اہم شخصیات کے ظاہر اور باطن کا فرق ختم کرنے میں معاون ثابت ہو رہی تھی، اسے بھی بعض پاکستانیوں نے مشکوک بنانے کی اپنی سی پوری کوشش کر دی ہے۔

وکی لیکس کہہ چکی ہے کہ بھارت سے متعلق دستاویزات بھی منظر عام پر لائی جائیں گی لیکن لگتا ہے کسی کو بھارت سے بھیجی جانی والی امریکی کیبلز کے انتظار کی کوفت قبول نہیں تھی لہذا اس کی طرز کی اختراع شروع کر دی۔

اس کے بعد اور کیا آنا باقی ہے؟؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 9:43 2010-12-10 ,اسلان آفندی :

    جيسے بڑے ويسے چھوٹے، جيسے ليڈر ويسی قوم۔ بيرون ملک ذليل و خوار کر رکھا ہے۔ شہريت بتاتے شرم آتی ہے۔ کسي بھوٹان يا نيپال ميں پيدا ہو جاتے بہتر تھا۔ ان ميں شمار تو نہ ہونا پڑتا۔

  • 2. 11:18 2010-12-10 ,Nadeem Jamali :

    ہارون صاحب، آپ نے بلکل صحیح بات کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والے افراد اب تک پاکستانی قوم ہی نہیں بن سکے ہیں۔

  • 3. 12:18 2010-12-10 ,Imran Ghani :

    گھر ميں والد اور سکول ميں استاد جھوٹ بولتے ہيں۔ بچے جھوٹ سيکھتے ہيں۔ باہر کے ملک ميں کم از کم استاد تو جھوٹ نہيں بولتے۔ کاش صرف يہی ايک سچ بولنے کی عادت دوبارہ ہاتھ آجائے۔ اے کاش !!

  • 4. 12:39 2010-12-10 ,AQEEL ANWAR :

    ہارون صاحب، آپ نے بلکل صحیح بات کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والے افراد اب تک پاکستانی قوم ہی نہیں بن سکے ہیں۔

  • 5. 13:01 2010-12-10 ,Athar Massood Wani :

    جیسے ہوا کے بغیر کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح پاکستانی جھوٹ اور منافقت کے بغیر اس معاشرے میں نہیں رہ سکتے۔ سیاسی و معاشی زندگی کیا گھریلو زندگی، رشتوں میں بھی جھوٹ اور منافقت ہمارا خاصہ ہے۔ یہ کمزور معاشرے کے کمزور افراد کی نشانی ہے۔ آپ ایک صحافی کی ٹیبل سٹوری پر ہی نالاں ہیں۔ حقیقت یہ کہ ہم جاہل بھی ہیں،منافق بھی،گندے بھی اور جنونی بھی۔

  • 6. 13:59 2010-12-10 , اکبر بروھی ۔ UAE :

    میں اٌپ کے اس بلاگ سے بلکل اتفاق نہیں کرتا۔ جن دوستوں نے رائے دی ہے وہ پاکستان سے باھر نہیں گئے۔ جو پاکستانی ملک سے باھر رہتے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں کرتے۔ باقی پاکستانیوں کی بدنامی کا سبب بہت سے ملکوں کے لوگ ضرور بنتے ہیں جن کو دو ہزار میں پاکستانی پاسپورٹ مل جاتا ہے۔

  • 7. 15:08 2010-12-10 ,DR. Sab :

    ہارون صاحب،ايک نظر ý پر بھي!"ہندوستان کی رياست اترپرديش کے شہر بنارس کے پاس جسے ورانسی بھی کہتے ہيں، شيتلا گھاٹ کے قريب بم دھماکہ ہوا ہے جس ميں کم از کم چونتيس افراد ہلاک ہوگئے ہيں۔" گنتی کھچ نھيں دی۔ پاکستانی نےاخبارات معذرت کر کے اپنی سی پوری کوشش کر دي... اب ديکھنا يہ ہے کہ ý بھی جھوٹ پر معذرت کرتی ہے؟..

  • 8. 15:17 2010-12-10 ,Aleem :

    اکبر صاحب میں لندن میں رہتا ہوں۔ مشرقی لندن میں کافی پاکستانی رہتے ہیں یہاں جس کسی نے بھی دو نمبر کام کروانا ہوتا ہے تو وہ مشرقی لندن جاتا ہے اور وہاں سے ہر قسم کی جعلی دستاویز اور سب کچھ مل جاتا ہے اپنے دیسی بھائیوں سے۔

  • 9. 15:21 2010-12-10 , اسلان آفندی :

    ايک دوست نے دعوٰي کيا ہے راۓ دہندگان کبھي ملک سے باہر نہيں گۓ - ميں پينتيس برس سے بيرون ملک مقيم ہوں اور جو لکھا ہے عمر بھر کا تجربہ ہے۔ يہ لوگ باہمی کاروبار ميں بھي جھوٹے اور نوسرباز ہيں۔ ميں حتي الوسع کسي پاکستاني سے لين دين نہيں کرتا۔ علاوہ ازيں جن وجوہات پر يہ ملک خبروں ميں رہتا ہے شائد لوگ اس کے عادي ہو چکے ہيں۔ انہيں کوئي فرق پڑتا نظر نہيں آتا ہے۔

  • 10. 15:58 2010-12-10 ,M Farman Khan :

    ایک صاحب کے خیالات پڑھ کر افسوس ہوا۔ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے۔
    رہی بات کہیں اور پیدا ہونے کی تو اللہ تعالی نے آپ کو پاکستانی پیدا کرنا تھا ایسی ہمت توڑنے والی باتیں نہ کریں۔ ہم لوگ خود ہی اچھے نہیں ہیں۔ اگر ہم سب خود اپنا آپ اچھا کر لیں تو سب اچھا ہو جائے گا اور پاکستان بھی۔

  • 11. 16:04 2010-12-10 ,Dr Alfred Charles :

    ہارون صاحب! يہ صحافتی بدنيتی کے زمرے ميں آتا ہے۔ معافی تواس جھوٹی خبر کو جاری کرنے والی نيوز ايجنسی کو مانگنی چاہيے تھيـ اب يہ نيوز کسي اور ايجنسی کی کارستانی معلوم ہوتی ہے۔

  • 12. 17:43 2010-12-10 ,ہارون رشید Author Profile Page :

    غلطی کی نشاندہی کا شکریہ۔ خبر کی سرخی درست تھی جس میں زخمی لکھا گیا تھا۔ خبر کے اندر غلطی سے یہ لکھا گیا تھا۔ اسے اب درست کر دیا گیا ہے۔ یہ غیردانستہ غلطی تھی۔

  • 13. 18:20 2010-12-10 ,اسلان آفندی :

    ايک صاحب نے ميرے خيالات پر افسوس کيا ہے - افسوس مجھے بھی ہے - مجھے کچھ بدلتا نظر نہيں آتا - دو ، پانچ ، دس ، بيس نہيں ، تريسٹھ سالہ ريکارڈ يہی بتا رہا ہے -

  • 14. 20:02 2010-12-10 ,iqbal khan :

    آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہاں متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہے اور آج تک میں نے ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا ہے۔ آپ یہاں آئیں میں ثبوت دوں گا۔

  • 15. 22:51 2010-12-10 ,Asif :

    جو لوگ پاکستان کے خلاف بات کر رہے ہیں وہ پاکستانی نہیں ہیں۔

    PAKISTAN..............ZINDA BAD

  • 16. 12:00 2010-12-11 ,ساحر خان :

    ميرا نہيں خيال کہ پاکستانی بالکل معصوم ہيں وہ غلطياں کرتے ہيں اور يہ بھی درست ہے کہ وہ بہت محنتی ہوتے ہيں ـ مگر اس بات سے زيادہ ہميں شرمندہ اپنے ليڈروں پر ہونا پڑتا ہے ـ مجھے اکثر اوقات کسی پارٹی ميں يا کسی شادی وغيرہ ميں مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کہتے ہيں کيا آپ کے پاس کوئ لپڈر نہيں تھا

  • 17. 12:38 2010-12-13 ,Arif Zaman :

    میں ارسلان صاحب سے متفق ہوں۔ یہاں یو اے ای میں ہم پاکستانی ایک بہت بڑی تعداد میں بہت عزت کے ساتھ رہتے ہیں۔ تقریبا ایک سو مختلف اداروں میں پاکستانی کام کر رہے ہیں جہاں کسی قسم کی مشکل درپیش نہیں آتی۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔