پالتو گلیشئر!
(یہ تازہ بلاگ میری تحریر نہیں بلکہ یوسف حسین آبادی کی کتاب تاریخِ بلتستان سے ایک اقتباس ہے)
بلتستان میں زمینوں کی سیرابی کے لئے قدیم زمانے سے گلیشئر پالنے کا رواج ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ جس بستی میں پانی کی قلت ہو وہاں کے لوگ دو بڑے گلیشئروں سے برف توڑ کر اس مقام تک لاتے ہیں جہاں نیا گلیشیئر پالا جائے گا۔
برف کے یہ ٹکڑے ایک نر اور ایک مادہ گلیشئر سے مساوی مقدار میں لئے جاتے ہیں اور انکا وزن جفت کے بجائے طاق اعداد میں ہونا چاہئیے۔مثلاً تین ، پانچ یا سات من کے ٹکڑے بارآور ثابت ہوں گے۔ اگر انکا وزن دو، چار یا چھ من ہے تو بارآور نہیں ہوں گے۔جب یہ ٹکڑے نئی جگہ منتقل کئے جارہے ہوں تو اس عمل کے دوران سستانا یا آپس میں گفتگو کرنا ممنوع ہے۔
گلیشئر کی اس برف کے ٹکڑے بستی میں ایک ایسی جگہ گڑھا کھود کر کوئلے اور بھوسے کے اندر دبا دئیے جاتے ہیں جہاں دھوپ کم پڑتی ہو۔ پھر اس ڈھیر پر ایک جھونپڑی بنا دی جاتی ہے۔جس کی چھت پر عام سی برف کے ٹکڑے یا پانی سے بھرے مشکیزے یوں رکھ دیتے ہیں کہ قطرے ڈھیر پر ٹپکتے رہیں۔یہ عمل برف باری کا موسم شروع ہونے تک جاری رکھا جاتا ہے۔تین چار سردیوں کے بعد یہ پالتو گلیشئر جڑ پکڑ لیتے ہیں اور پھر بستی والوں کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔بلتستان میں ایسے سینکڑوں پالتو گلیشئیر پائے جاتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
پتہ نہيں خان صاحب ہم لوگ تو بس پالتو دہشت گردی سے واقف ہيں۔اللہ کرے بلتی بھائ اس عفريت سے محفوظ رہيں۔
مصيبت کا مارا انسان يا تو خدا کو ياد کرتا ہے يا تھوڑی بہت توہم پرستی کے ذريعے اپنے آپ ميں اعتماد پيدا کرکے مشکل سے مشکل کام بھی سرانجام دے ليتا ہے۔گفتگو نہ کرنا يا سستانے سے پرہيز اور طاق اعداد ميں کوئی چھپا راز بھی ہوسکتا ہے مگر ايسی توہم پرستی جس سے کسی کی جان کو خطرہ نہ ہو قابل قبول ہے۔ مادہ اور نر گليشير کا فرق بتا ديتے تو بہتر تھا۔ان پالتو گليشير کے ماہرين کو شاباش۔
میں احمد بھائی کے ساتھ ہوں۔ بلوچستان سے بلتستان تک سب پاکستانی خیریت سے رہیں۔ ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ مردانہ اور زنانہ گلیشئر کا کس طرح پتہ چلتا ہے؟
حیرت انگیز ہے
جناب خان صاحب ! ايك اهم جيز جو آب ني نهي لكها وه هي نمك. نمك كي ايك بهاري مقدار بهي اس برف مين شامل كردي جاتي
وسعت صاحب یہ آرٹیکل سمجھ نہیں آیا۔
مجھے پالتو گلیشئر کا سن کر بہت خوشی ہوئی۔ یہ بہت ہی عجیب و غریب ہے۔ پاکستان ایک خوبصورت و دلفریب ثقافت اور تاریخ کا حامل ملک ہے۔
وسعت بھائي! پس ثابت ہوا کہ اگر حضرت انسان نيک اور اچھے کام قصد کرے تو اس کے اچھے نتائج بر آمد ہوتے ہيں۔اسی کو کہتے ہيں نا اپنی مدد آپ اور ہمت مرداں مدد خدا!
صحافی لوگ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو تو بہت نمایاں کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے غریب عوام ابھی تک آئینی حقوق سے محروم ہیں، خطے میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوئی انڈسٹری یا صنعت نہیں۔
میرا خیال ہے ہمارے یہاں صدیوں سے یہ کام چلا آرہا ہے لیکن کاش کہ ملک کے حکمران بھی کوئی پالتو ڈیم یا کوئی پالتو بجلی گھر بنانے میں کامیاب ہوتے۔
کتنے اچھے ہیں یہ پالتو گلیشئر کہ مشکل وقت میں ساتھ دیتے ہیں جبکہ سیاستدان اور مختلف محکموں کے حکام عوام کے مفاد میں عوام کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔عوام کے مفاد کے نام پر یہ ملک بنا لیکن عوام ہی ملک میں بے توقیر قرار پائے ہیں۔ فوج کی پائپ لائنوں سے گزر کر سیاستدان بننے والے،آئین توڑ کر حکومت کرنے والے، نیا گلیشئر بنانے کے ترکیب تو آپ نے بتا دی، اب کوئی ایسا فارمولہ بھی بتائیں کہ جس سے قائد اعظم جیسا مخلص لیڈر پیدا ہو سکے۔
ہمارے ہاں بہت سی چیزوں کی قلت ہے۔ شعور و آگاہی ، قومی غیرت و خودی، اصول پسندی ، وسعت قلبی (وسعت بھائی سے معذرت کے ساتھ) ، تقوٰی ، مذہب و اخلاق ، معاشرتی قدریں، نظم و ضبط ، معاشی و معاشرتی مساوات ، عدل و انصاف اور حق گوئی۔ اور کیا کیا لکھوں؟ ان کی پرورش کا بھی کوئی طریقہ سمجھا دیں ۔
ضرورت ايجاد کی ماں ہے۔ مجھے ياد آيا ”ذرا نم ہو تو يہ مٹی بڑی ذرخيز ہے سا قي” ۔ مونث مزکر کے چکر ميں پڑنا بےکار ہے۔
میرا تعلق بھی بلتستان سے ہے، اصل میں ہمارے یہاں لوگ توہم پرست ہیں، اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔حسین آبادی صاحب آپ مجھے ایسے ایک گلشیر کا نام بتائین۔