دماغ کا پیالہ !
ایک پاکستانی چینل پر سولہ دسمبر کی مناسبت سے بعنوان 'ہم کے ٹھہرے اجنبی' ایک دستاویزی فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح ایک ایسے اکثریتی صوبے کو نوآبادی سمجھا گیا جو قیامِ پاکستان کا نہ صرف پرجوش حامی تھا بلکہ تقسیم کے وقت یہ خطہ اپنی مرضی سے نئے ملک کا حصہ بنا۔ لیکن پھر ہوا کیا؟
مغربی پاکستان کے سیاستدانوں، نوکرشاہوں، جرنیلوں اور سرمایہ داروں نے آزادی کے سات برس بعد ون یونٹ قائم کر کے پہلے تو مشرقی پاکستان کی چھپن فیصد اور مغربی پاکستان کی چوالیس فیصد آبادی کو ففٹی ففٹی قرار دے دیا۔ پھر وسائل کی بندر بانٹ شروع ہوئی۔ ملک بننے کے پہلے چودہ برس میں کل ملا کر مغربی پاکستان کے ترقیاتی بجٹ کے لیے چار سو تیس کروڑ اور مشرقی پاکستان کے لیے ایک سو بہتر کروڑ روپے مختص کیے گئے۔
شیخ مجیب الرحمان سن چونسٹھ کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب کی مدِ مقابل فاطمہ جناح کی مشرقی پاکستان انتخابی مہم کے انچارج تھے۔ ایوب خان کی جیت نے بنگالیوں کو سمجھا دیا کہ بیلٹ بکس بھی ان کے دکھ کا مداوا نہیں۔ ستر کے انتخابی نتائج کو جس طرح پامال کیا گیا اس کے بعد اگر بنگالی بندوق نہ اٹھاتے تو بہت ہی حیرت ہوتی۔
کیا کوئی سبق سیکھا ؟
جو قوم ذمہ داروں کو سزا نہ دے سکے۔ اپنے گریبان میں جھانک کر خود احستابی نہ کر سکے اور سب کچھ ہندوستان کی سازش کہہ کر لپیٹ دے وہ کیا سیکھے گی؟ سیکھنے کے لیے دماغ کا پیالہ بھی بڑا ہونا چاہیے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بلکل درست فرمايا اپ نے
جب تک ہم اپنی غلطيوں کو تسليم کر کے ان کی اصلاح نہيں کر ليتے ہم ترقی کی راہ پر گامزن نہيں ہو سکتے
ہر کام کو سازش قرار دے کر اپنی ذمہ داريوں سے منہ پھير لينا درست نہيں ہے
دماغ ہو تو اس کا پیالہ ہو. اب بلوچستان بھی اسی رہ پر ہے. اور الزام ابھی تک انڈیا کو ہی مل رہا ہے.
یہ چیز مجھے ہمیشہ حیران کرتی ہے کہ بنگالیوں جیسی صابر و شاکر قوم کواتنا مجبور کیوں کیا گیا کہ وہ بزور بازو اپنا حق مانگنے پر مجبور ہو جائیں
متفق
درست لکھا ہے آپ نے۔ جانے کب ہم اپنی اس پختہ روش سے کنارہ کش ہوں گے؟
آخر کب تک ہم لوگ لکير پيٹتے رہيں گے؟ 40 سال کا عرصہ گزر گيا ہے جس قوم نے سبق سيکھناہو اس کے لۓ 4 سال بھی بہت ہوتے، پتہ نہيں ہم لوگ ہر سال ميڈيا پر کيا راگ الاپنا چاہتے ہيں ؛ اپني نام نہاد حقيقت پسندی کا يا بے بسی کا
پيالے والی بات سے ياد آيا کہ ہمارے ہاں کوتہ نظری اور محدود سوچ کا تقابلہ اس قبيح طور طريقہ سے کرنا چاہيے جيسا کہ پنجاب کے کچھ علاقوں ميں ”شاہ دولہ” کے چوہے بنانے کے ليے معصوم بچوں کے نرم و نازک سروں پر پيالے يا دھاتی خول چڑھا ديتے ہيں جس سے ان کے سر حجم ميں چھوٹے رہ جاتے ہيں۔
غربت کی ماری اس قوم کا حافظہ ذرا کمزور ہے اس ليے انہيں صرف سبق سکھا نے کے ليے بلوچستان کا مقتل کھولا گيا تا کہ بلوچستان کھونے کے بعد يہ باقی ماندہ ملک کی حفاظت تمام تر سماجی انصاف سے کر سکيں۔ بلوچ بھائيوں کو ہماری نيت پر ذرا بھی شک نہيں ہونا چا ہيے اور آپ جو بلا وجہ ٹانگ اڑا رہےہيں يہ انڈيا کی واضح دراندازی کا ثبوت ہے،اسے ياد رکھنا چا ہيے کہ يہ1970 کا زمانہ نہيں ہے۔ اوباما انکل سے شکايت لگا کر اسے بھی سبق سکھايا جا سکتا ہے۔
میں سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ عام آدمی تو اپنی روز کے کھانے کی فکر میں پریشان رہتا ہے، اسے صحیح یا غلط کی کوئی پرواہ نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے حکومت کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔
تیس لاکھ بلوچ میں سے صرف کچھ کو چھوڑ کر باقی سب پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور یہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ نا انصافی کرنے والے لوگ کوئی اور ہیں جو پورے ملک پر قابض ہیں۔
ہماری جس سوچ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، حکمرانوں کا وہی انداز یہاں بھی نظر آتا ہے۔
جب تک ایوب سے لےکر مشرف تک کی غیر آئینی و غیر قانونی حکومتوں کی سرکاری سطح پر مذمت کرتے ہوئے ، ان کے فیصلوں سے لاتعلقی کرتے ہوئے ، ان ذمہ دار کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہوئے ، آئین و قانون کی بالا دستی کویقینی نہیں بنایا جائےگا، اس وقت تک اصلاح کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یقین کریں اہم قومی امور سے متعلق عوام کو جھوٹ کے لالی پاپ دینے کا چلن اب بھی جاری ہے۔
اب ہوش کے ناخن لينے کی اشد ضرورت ہے اور آگے کے بارے ميں فيصلہ کرنا ہے کہ کيا کيا جائے۔اب الزام تراشيوں کو چھوڑ کر مستقبل کے بارے ميں نا صرف سوچنا ہے بلکہ وقت کا بھی تعين کرنا ہے ۔ ہمارے پاس وقت نہيں ہے زيادہ سوچنے کا کيونکہ دنيا بہت تيزی سے آگے جارہی ہے۔ ہميں فيصلہ يہ کرنا ہے کہ کيا ہم ايک ترقی يافتہ خوشحال اور خود کفيل بننا چاہتے ہيں يا ايک بھوکی مفلس، فاقہ زدہ اور بھکاری قوم ہی پر اکتفا کرکے اسے تقدير کا لکھا سمجھ کر بھول جائيں۔
حل یہ ہے کہ پہلے ذمہ داریوں اور اختیارات کا تعین ہو پھر ان ذمہ داریوں کے مطابق ادارے بنائے جائیں اور ان اداروں کو اختیارات دے دیئے جائیں۔ ہر ادارہ عوام کو ہر تین ماہ بعد رپورٹ کرے۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ اختیارات اضلاع کے سپرد کردیئے جائیں تا کہ عوام کو ہر مسئلہ کے لئے اسلام آباد کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔
پاکستانی ریاست کو چاہیے کہ وہ تمام قومیتوں کی تشخص کو ملحوظ خاطر رکھ کر بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ تمام اکایوں کو وسائل کے استعمال کا حق دیں۔ اکایئاں مضبوط ہوں گی تو ریاست سے کسی کو کوئی شکوہ نہیں رہے گا۔ موجودہ صورتحال میں قومیتوں کو ان کی تشخص کا احترام، طبقاتی نطامِ تعلیم کا خاتمہ، جاگیردارانہ نظام سے نجات، غریب اور امیر کے لیے قوانین کے اطلاق میں یکسانیت، نوکر شاہی کی تشکیل نو اور سامراجی نظام کے خاتمے کےلئے مشترکہ جدوجہد میں ہی پنہاں ہے۔
وسعت اللہ خان كا كالم ہميشہ دل كو تراوت اور دماغ كو ايك نئی سوچ بخشتا ہے۔
ہمارے حکمران طبقات نے سبق ضرور سيکھا ہے۔ ليکن کرپٹ حکمران طبقات کا خود احتسابی کرنا يا اپني غلطيوں سے سبق سيکھنا اور طرح کا ہوتا ہے۔ پہلا سبق جو انھوں نے سيکھا ہے کہ اپنے سرمائے اور بال بچوں کو محفوظ مقام تک پہنچا دو۔ دوسرا سبق يہ کہ کسی بھی سياسی جماعت کو فيصلہ کن اکثريت نہ ملنے پائے تاکہ دوسرا مجيب نہ پيدا ہو۔ تيسرا يہ کہ جب جنگ ناگزير ہوجائے تو دشمن کے فوراً پاؤں پڑ جاؤ۔ چوتھا يہ کہ اپنے عوام کو غربت، بيروزگاری اور بيماريوں کے ايسے جھٹکے دو کہ وہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہيں۔
بلوچوں کے ساتھ رواں رکھا جانے والا سلوک بیان کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اگر اس کا غیر جانب دارانہ موازنہ کیا جائے تو آپ کو بلوچوں پر ہونے والے بد ترین ظلم کی مثال آج کہیں بھی نہیں ملے گی۔
ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کے ذمہ دار ہندوستان، اسرائیل یا مغربی ممالک ہوتے ہیں تو اس میں سزا کس کو دیں ؟ ہم تو کچھ کرتے نہیں ہیں اور اگر کوئی سچی بات بولے تو اسے ہندوستانی ایجنٹ یا ملک دشمن کہہ دیا جاتا ہے۔
وسعت صاحب! کیا آپ مجھے اس ڈاکٹر کا پتہ بتا سکتے ہیں جس نے ایک عراقی لڑکی کی سرجری کی تھی۔ دراصل میرے بھانجے کو بھی وہی مسلئہ ہے جو اس لڑکی کو تھا۔ برائے مہربانی اس کے بارے میں معلومات مجھے ای میل کر دیں۔ شکریہ