| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ہزاروں کمائی لاکھوں دان

اسد علی | 2010-12-14 ،11:51

'ہماری زندگیوں میں جو باتیں اہم ہیں وہ ہیں ایک دوسرے کےساتھ وقت گزرانا، قریبی دوستوں کے ساتھ گپ شپ اور خوبصورت کتابیں پڑھنا اور موسیقی سننا اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس رہنے کے لیے جگہ ہے اور ارد گرد اتنی ثقافتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جو ہمیں متحرک رکھتی ہیں۔ اس سب کچھ کے بعد آپ کیا کسی اور چیز کا مطالبہ کریں گے۔'

یہ ہیں خیالات متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک برطانوی نوجوان ٹوبی اورد کے جنہوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی ان لوگوں کے لیے وقف کر دی ہے جن کے پاس ان کی ضرورت سے کم ہے۔


اکتیس سالہ اورد نےجو آکسفورڈ یونیورسٹی میں محقق ہیں اپنی زندگی میں دس لاکھ پاؤنڈ ضرورت مند افراد کو دینے کا عہد کیا ہے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے اورد نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سالانہ بیس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ جتنا کمائیں گے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں گے اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر بیرنادیت ینگ نے اپنے لیے پچیس ہزار ہاؤنڈ کا ہدف رکھا ہے۔

وہ کرائے کے ایک کمرے کے خوبصورت فلیٹ میں رہتے ہیں جس میں صرف ضرورت کی بنیادی چیزیں رکھی ہیں۔ ان کے پاس ٹی وی نہیں لیکن اس کی وجہ پیسے کی کمی نہیں بلکہ ان کی خواہش ہے۔ وہ دو ہفتے میں ایک بار باہر کھانا کھاتے ہیں، ہفتے میں ایک بار کافی پیتے ہیں۔

اورد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ طالب علم تھے اور سالانہ چودہ ہزار پاؤنڈ کماتے تھے اس وقت وہ دنیا کے امیر ترین چار فیصد لوگوں میں سے ایک تھے۔ 'میں نے سوچا کہ اگر میں اس آمدن کا دس فیصد کسی کودے دوں تو میں پھر بھی دنیا کے امیرترین پانچ فیصد لوگوں میں شامل ہوںگا۔'

اب اورد تنہا نہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی چونسٹھ لوگ ان کی تحریک 'Giving What We Can'(اپنی حیثیت کے مطابق دے دینا) میں شامل ہو چکے ہیں۔

کتنے بد قسمت ہے وہ معاشرے جہاں لوگوں کے پاس ضرورت سے کہیں زیادہ پیسہ ہے لیکن ان میں مل بانٹ کر کھانے کا حوصلہ نہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:21 2010-12-14 ,Ali Athar :

    کیوں بی بی سی ہر وقت سچ دکھا سنا، اور پڑھوا کر ہم پاکستانیوں کو اور زیادہ ڈپریس کرتے ہیں۔

  • 2. 15:23 2010-12-14 ,عبد الخالق همدرد :

    قابلِ ستائش عمل ہے۔ اسلام بھي یہی سکھاتا ہے مگر افسوس کہ یہ بات صرف كتابوں ميں ره گئي ہے۔

  • 3. 15:56 2010-12-14 , اکبر بروھی ۔ UAE :

    بڑے لوگ بڑی باتيں، يہ اگر اپنے پورے پيسے بھی خرچ کرےگا پھر بھی بھوکا نہيں سوئےگا۔ پاکستان ميں ايک عام آدمی پورا دن کام کرتا ہے پھر بھی بھوکا سوتا ہے۔ اور جن کے پاس سب کچھ ہے وہ لوگ بہت کچھ حاصل کرنے کے پيچھے خوار ہيں۔ بقول شاعر، نہ خدا ہی ملا، نہ وصالِ صنم ۔۔نہ ادہر کے رہے نہ اُدہر کے ہم ۔

  • 4. 16:22 2010-12-14 ,احمد بگٹی :

    آپ اس طرح کی باتيں لکھ کر چاہتے ہيں کہ ہم سرے محل اور رائيونڈ فارمز کے موروثی حق سے دست بردار ہو جائيں۔لوگو اس کی بات مت سننا،اسے تو لکھنے کے پيسے ملتے ہيں۔

  • 5. 16:34 2010-12-14 ,راشد :

    کوئی يہ بات ہمارے وزرا کے لشکرکو سمجھا دے

  • 6. 16:53 2010-12-14 ,Dr Alfred Charles :

    اس بلاگ کو پڑھ کر پہلے تواحساسِ ندامت ہوئی کہ ايسی نادر مثاليں وہاں سے ہی کيوں سامنے آتی ہيں؟ پھراحساس کمتری نے آن گھيرا کہ اگر ہم جيسوں کے ہاتھ رقم لگتی تو کيا ہم اس طرح کا کوئی نيک کام کرتے؟

  • 7. 5:38 2010-12-15 ,khurram shahzad :

    میرے خیال میں اگر ہر شخص اپنی ضرورت سے زیادہ ان لوگوں کے لیے وقف کر دے، جن کے پاس ان کی ضروریات سے کم ہے تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم وہ حقیقی سکون حاصل کر سکتے ہیں جس سے آج ہم محروم ہو چکے ہیں۔ جو کہ مل بانٹ کے کھانے سے حاصل ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے تمام معاشرتی برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ انسان جیسا کہ اسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے لیکن آج پست سے پست درجے تک چلا گیا ہے ۔دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتا ہے۔

  • 8. 6:15 2010-12-15 ,علی گل،سڈنی :

    ضرورت مند کی تعريف کيا ہے؟ وہ جسے ايک وقت کا کھانا ميسر نہيں يا جسے ايک وقت کا تو ميسر ہے اگلے دن کا نہيں يا پورے ہفتے کا نہيں؟ يا کھانے کا مسئلہ نہيں بلکہ ديگر ضروريات زندگی ميسر نہيں؟ الغرض بات يہ ہے کہ ضرورت ايک ايسا گڑھا ہے جو کہ قارون کا خزانہ بھی پُر نہيں کرسکتا۔اکتيس سالہ اورد جب اور بوڑھا ہوگا تو اس کا ذہن تھک جائے گا، سوچ بدل جائے گي اور بچوں کے سياپے ميں پڑ کر خود مانگنا شروع ہوجائے گا۔ويسے بھی مغربی ملکوں ميں فلاحی کام کرنے والے کو کوئی پير نہيں مانتا بلکہ گالياں نکال کر شرابی کہہ رہے ہوتے ہيں کہ فلاحی ادارے کی کھانے کی گاڑی ابھی تک نہيں آئي۔ہاں اگر بغير سود کے قرضہ دےکر کسی کا کاروبار بنانے ميں مدد کرے تو چراغ سے چراغ جلے گا ورنہ فقير روزانہ مانگتے ہيں اور لوگ پيسے بھی ديتے ہيں اور وہ مانگتے ہی رہتے ہيں۔

  • 9. 7:05 2010-12-15 ,سجاد الحسنين حيدرآباد دکن :

    بہت شانداراور خوبصورت تحرير ہے۔

  • 10. 11:41 2010-12-15 ,Muhammad Nawaz :

    یہ بہت اچعھی بات ہے۔ ہم مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے اور اکم سے کم زکواۃ تو دینی چاہیے۔ میرے خیال میں سبھی کچھ نہ کچھ دوسروں کو دے سکتے ہیں۔

  • 11. 15:32 2010-12-15 ,Riffat Mehmood :

    قابل ستائيش ہيں وہ لوگ جو عملی اقدامات اٹھا کر انسانيت کی خدمت کرتے ہيں- ميں ان کے اس جزبے کی تعريف کرتا ہوں- اور ايسے اقدامات ہمارے نئے نئے 71 کے بعد سے بننے والے کروڑ بلکہ ارب پتی صرف اپنی دولت ملک ميں لے آئيں تو يہ بھی پاکستانی قوم پر احسان ہو گا-

  • 12. 16:31 2011-01-01 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    بلاشبہ جس بندے کو اپنی حیاتی میں دوستوں، بیلیوں اور خاندان و رشتہ داروں کے ساتھ وقت گذارنے اور گپ شپ کے مواقع دستیاب ہوں، اچھی کتابیں پڑھنے کا شوق ہو، خوبصورت و با مقصد اور روح کے تاروں کے ہِلا دینے والی موسیقی سُننے کو ملتی ہو، ایسے لوگ مادی زندگی ہی میں "جنت" کا ذائقہ (حوروں کے سوا) چکھ لیتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں کون سا ایسا معاشرہ موجود ہے جس میں یہ ‘جنت‘ نظر آتی ہو؟ انفرادی طور پر ایسے خوش نصیب افراد دیکھنے کو مل سکتے ہیں، لیکن جب بات ‘معاشرہ‘ کی ہو تو خاکسار کے خیال میں دنیا کا کوئی بھی معاشرہ بشمول ٹوبی اورد کے معاشرہ، خطہ عرض پر موجود نہیں ہے جو "بد قسمت" نہ ہو۔ وجہ یہ کہ پوری دنیا میں بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طرح سے ‘سرمایہ داری نظام‘ رائج ہے۔ یہی نظام انسان کو انسان کے قریب نہیں بلکہ دُور کرتا ہے۔ ‘مادہ پرستی‘ کو ‘باغِ عدن‘ دکھا کر انسان کو ورغلا لیتا ہے اور بھولا انسان اس نظام کے جال کے چُنگل میں پھنس جاتا۔
    ایسی سوسائٹی جہاں تعلیم صرف پیسہ کمانے کے لیے حاصل کی جاتی ہو نہ کہ ایک با ذوق، بھلامانس، نیک، ہمدرد، نرم دل، خیر خواہ، منطق پسند، انسان دوست بننے کے لیے حاصل کی جاتی ہو اور یہی آج ہر جگہ خصوصاً پاکستان میں ہو رہا ہے، ہر دوسرا اسٹوڈنٹ کامرس، اکاونٹنگ، بینکِنگ مضامین میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھاگ رہا ہے محض روپے پیسے کا ڈھیر حاصل کرنے کے لیے۔ تو ایسا معاشرہ ‘مادیت پسند‘ ہوتا ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔