ماڈرن پنجاب کا منصور
وہ غازیوں، شہسواروں، گھوڑوں، گھوڑے پال سکیموں سے لیکر جہادی پال سکیموں والے پنجاب میں نیا ہیرو بن گیا۔ کل نہیں تو پرسوں بہت سے سلمان تاثیر کو بھی احمد خان کھرل یا دلے بھٹی کی طرح عقیدت سے چاہیں گے۔
کٹھ ملائیت کے سامنے اس سینہ سپر انسان کا کردار ملامتی صوفی جیسا رہا۔
بینظیر بھٹو کے بعد بھرے پرے اسلام آباد میں پنجاب کے سٹنگ گورنر کا اسکی سخت سکیورٹی مییں اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل نہ فقط ایک بڑا سیاسی قتل لگتا ہے بلکہ بازیگروں کی طرف سے ایک اور بازی گری لگتی ہے، بقول شخصے انکا مبینہ قاتل نہ زخمی ہوا اور نہ ہلاک بلکہ آرام سے سرکاری ہتھیار سے راؤنڈ چلا کرگورنر کو قتل کرنے کے بعد قتل کے محرکات سمیت جرم کا اعتراف بھی ٹی وی کیمروں کے سامنے کرتا رہا۔
ٹی وی میڈیا پر گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر لوگوں کے تاثرات سے زیادہ انکے مبینہ قاتل کا چہرہ بار بار یوں دکھایا جاتا رہا جیسےاس نے گورنر کو قتل نہیں بلکہ گورنر الیون میں کوئي ٹرافی جیتی ہو۔
رحمان ملک کا بھی مسئلہ حل ہوگیا کہ قاتل بظاہر انکا گارڈ نکلا اور بغیر کسی تحقیقات کے جائے واردات پر قاتل نے قتل کے محرکات بتاکر معمہ ہی حل کر دیا۔
ٹی وی اینکر سلمان تاثیرکے قتل کی مماثلت پتہ نہیں کیوں اندرا گاندھی سے کرتے ہیں لیکن مجھے یہ اسلام آباد میں خونی کوریوگرافی والی واردات بینظیر بھٹو کے روالپنڈی میں قتل اور بڑے بھٹو کے دور میں حیات محمد خان شیرپاؤ کےقتل کے بیچ والی کوئي واردات لگتی ہے۔
لیکن کیا کہ ایک بے نوا بے آسرا مذہبی اقلیت کی خاتون لیکن پاکستان کی بیٹی آسیہ بی بی کو گورنر کی طرف سے انصاف اور داد رسی کی کوششیں انکا ایسا جرم بے خطا ہوگیا کہ ان کو جان سے جانا پڑا۔
کیا یہ پیغام ہے کہ ایسے سب لوگوں کو کہ سب سے طاقتور شخص جنرل کیانی کے پاکستان میں سب سے کمزور ترین آسیہ بی بی جیسے لوگوں کی ہمدری و حمایت کوئي بھی کرے گا اسکا یہی انجام ہوگا چاہے وہ گورنر ہی کیوں نہ ہو؟
تبصرےتبصرہ کریں
ارے لوگو تہارا کيا ميں جانوں ميرا خدا جانے
جو زر مانگو تو بے زر ہوں جو سر مانگو تو حاضر ہوں
مکھ موڑوں تو کافر ہوں ميں جانوں ميرا خدا جانے
چڑھا منصور سولی پر جو واقف تھا وہی دلبر
ارے ملاں جنازا پڑھ ميں جانوں ميرا رب جانے
تمہيں دلبر ہو سرور کا تہميں ہو پيارا حيدر کا
پلاؤ جام کوثر کا ميں جانوں ميرا رب جانے
واہ رے بی بی سی تیرا انصاف ڈاکٹر عافیہ( جنکاجرم امریکی عدالت بھی ثابت نہ کرسکی عدالت نے پھربھی مجرم قرار دیا)وہ تو دہشت گردوں کی ماتا ہری معلوم ہوتی ہیں،اور دوسری طرف آسیہ جنکا جرم بھی ثابت ہوچکا گواہوں کے دلائل بھی مکمل ہوچکے۔پھر بھی مظلوم اور کمزور معلوم ہوتی ہے۔حیرت حکومت بھی سیکولر لوگوں کی،پھر بھی آسیہ بقول آپکے کمزور ہے۔
شرم آتی ہے خود کو پاکستانی کھتے ھوۓ
آسيہ بی بی کی مد د کرنا اور بات ہے اور مذہب بيزاری کا مظاہرہ دوسری بات- گورنر اگر مدد ميں سنجيدہ ہوتا تو بغير پبلسٹی خاموشی سے کر سکتا تہا- ليکن مطمع نظر شہرت تہی تاکہ غير ملکی آشير باد ملے اور اقتدار مظبوط تر ہو- گورنر يہ کام بغير مذہب بيزاری کے بھی کر سکتا تہا- اس نے دراصل آسيہ کو مزيد گہری دلدل ميں دھکيل ديا ۔
اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ باقی سب ملکوں میں رہنے والے مسلمان مسلمان نہیں۔ اور لے دے کے اگر اسلام کو اور پاکستانی ملا کے ایمان کو خطرہ ہے تو صرف اس ملک کی دو فیصد سے بھی کم اقلیت سے۔ جو بھی ملا کے ایمان کو آزمائے گا وہی منصور کی طرح کا گستاخ قرار دیا جائے گا۔
تاثير صاحب کے طرز رہن سہن و سياست سے لاکھ اختلاف سہی مگر جس طرح بہادری و جری پن سے انہوں نے مظلوم و کمزور آسيہ بی بی کا ساتھ ديا وہ چند سر پھرے شدت پسندوں کو نہ پسند آيا۔انکے دو ٹوک موقف نے انکو موت کے منہ ميں دھکيل ديا۔آپکا تجزيہ درست ہے کيونکہ ہم ہيں ہی مردہ پرست قوم۔ويسے تاثير کو مروانے ميں ملاؤں کے ساتھ ساتھ ميڈيا کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔آپکو اس طرف بھی توجہ کرتے ہوئے کچھ لکھنا چاہئيے تھا۔يہ بات بھی ٹھيک ہے کہ يہ واقعہ اسلام آباد ميں پيش آيا جہاں کے اعلی ايوانوں کے مکين سخت سيکورٹی کے حصار ميں رہتے ہيں مگر سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔معاشرے ميں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا اندازہ لگائيں کہ ايک طرف تو قاتل کا طرزعمل جس ميں نہ کوئی پچھتاوا اور ندامت ہے اس پر لوگ اس کو چاہتے ہوئے اس کو ہيرو بنا کر پيش کررہے ہيں۔آج عدالت پيشی کے موقعہ پر چند وکلاء نے اس پر گل پاشی کي۔تاثير کا قتل اب تاريخ کا حصہ بن گيا ہے۔جس طرح راج پال کا قتل اور غازی علم دين کا قصہ بيان کيا جاتا ہے تو اسی طرح اس واقعہ کو بھی بيان کيا جائے گا۔آٹے ميں نمک کے برابر اس پر افسوس کرتے ہوئے اسے ناجائز قرار ديں گے تو اکثريت اسے قرار واقعی اور جائز قرار ديں گے۔
اب وہ دن دور نہیں کہ پاک لوگوں کے پاک ملک میں مزدوری مانگنے والے "گستاخ" پر بھی آرٹیکل دوسو پچانوے سی استعمال کرکے "ایمان تازہ" کیا جائے گا۔
ڈر لگتا ہے
بہت سال پہلے جب میں پاکستان میں چھپ چھپ کر مارکس کی داس کپیٹل پڑھتا تھا . اور کہیں سے بائبل کا نسخہ لا کر پڑھتا تھا . اور انٹر نَشنل اسلامی یونی ورسٹی کے ہوسٹل میں شراب کی بوتل لا کر چھپ کر پیتا تھا تو مجھے ڈر نہیں لگتا تھا. پنجاب یونی ورسٹی کے ہوسٹل میں کمبل کٹ کھا کر بھی کوئی خوف نہیں آیا. اور ملتان میں تیس دن تک ڈاکٹر اسرار کا خطبہ سننے کے بعد ان کے ساتھ مذاق کرنے سے بھی ڈر نہیں لگتا تھا. نہ ہی ابو کے سامنے مرزا غلام احمد کی کشتی نوح پڑھنے سے ڈر لگتا تھا اور نہ ہی محسن نقوی کی مجلس پر جانے سے ڈر لگتا تھا.
لیکن کل جب ایک انیس سال کے میرے رشتے کے بھانجے نے سلمان تاثیر کے "قتل" کی مبارک کا اس ایم اس بھیجا تو مجھے اسے جوابی تنبیہ کرنے سے ڈر لگ رہا تھا. نہ جانے کتنے غازی علم دیں شہید ہم اب تک پیدا کر چکے ہیں.
توہینِ رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنے والے اور توہین رسالت کرنے والی آسیہ بی بی کی حمایت کرنے والا سلمان تاثیر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ حرم شریف اور اپنے محبوب کی حفاظت کا بیڑہ اللہ تعالی نے خود اپنے ذمے لیا ہے۔ان کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا ایسا ہی عبرت ناک انجام ہوتا ہے۔
بی بی سی اردو پر آ کر ہمیشہ احساس ہوتا ہے کی حسن مجتبیٰ ، علی سلمان ، ہارون رشید، اعجاز مہر اور محمّد حنیف جیسے "روشن خیالوں " کی ویب سائٹ ہے جہاں یہ حضرات عوام کی تربیت کا بیڑا اٹھاے ہوئے ہیں . اس دنیا میں مذہبی انتہا پسند ہیں تو آپ حضرات جیسے غیرمذہبی انتہا پسند بھی کم نہیں کے جنکا ہر بلاگ گھوم پھر کر کسی مولوی میں تنکے کی مانند پھنسس جاتا ہے . پاکستانی میڈیا اب کھل کر مذہب پر کافی مذاکرے کروا لیتا ہے ، آپ کو فرماش ہے کے شدّت سے جواب دیا جاتے تاکے اک "روشن خیال " معاشرے کا وجود ہو؟ آپکے طنز ۔بھرے بلاگ میں حل کیا ہوتا ہے سمجھ نہیں آیا
اس شہرِ سنگ دل کو جلا دینا چاہئے
پھر اِس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہئے
ملتی نہیں پناہ مسلم کو جس زمین پر
اِک حشر اُس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسمِ قاہری
اِس دہر کو اب اِس کی سزا دینا چاہئے
یہ جو مذہبی جنون کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اس کو واپس بوتل میں ڈالنا اب ممکن نظر نہیں آتا۔
جس طرح کے کام ہمارے ملا کروا یا ہمارے لوگوں کو دکھا رہے ہیں اس کا نتیجہ ایسے حادثات ہی نکلیں گے۔ آج مولوی چین کی نیند سوئیں گے۔ میرے لیے ایک بے نمازی ،دنیادار شراب پینے والا اچھا ہے بمقابلہ نفرت پھیلانے والے، قتل کرنے والے بظاھر دین دار مولوی سے۔
ہر بات اور واقعہ کے دو رخ ہوتے ہیں اور آپ جیسے 'محقق' کو دونوں رخ سامنے رکھنا چاہیے۔ نہ مجھے قاتل سے کوئی ہمدردی نہ مقتول سے لینا دینا پر حیرت ہوتی ہے آج کے تجزیہ نگاروں پہ جو صرف اپنا موقوف سب پے ٹھونستے ہیں
آپ میں اور پاکستای ٹی وی اینکرز میں کوئی تو فرق ہونا چاہیے۔
سلمان تاثیر کا ناموسِ رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اور اس پر نظرِ ثانی کی بات پر قتل ہونا، پاکستان کے روشن خیال لوگوں کے لیے انتہا پسند مذہبی جنونی طبقے کی جانب سے ایک "شٹ اپ کال" ہے۔
انجنیئرخالداحمد کی رائے سے متفق ہوں۔
فی زمانہ مذہبی انتہاء پسندی ہی نہيں `روشن خيالي` بھی عروج پر ہے- اگر يہ`روشن خيال` کسی فيصلہ کو اپنی شخصی حيثيت ميں کرنے کے بجاۓ صحيح جمہوری طريقہ پارليمنٹ ميں لاۂيں اور نماۂندوں کی راۓ اور ووٹنگ کو تسليم کريں تب ان ميں اورانتہاء پسندوں کوئ فرق ہم محسوں کريں-
توہینِ رسالت کی سزا مذہبی منافقت پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے لیکن اگر کوئی بیوقوف یا جاہل دشنام طرازی کرے تو اس کو جیل میں بند کیا جائے تاکہ اس کے ہوش ٹھکانے آیئں۔ ملاں کو تو خون کے فواروں اور بکھرے ہوئے انسانی اعضاء میں اسلام نظر آتا ہے۔ توہینِ رسالت کی سزا قتل نہیں۔ مسلمانوں کو صبر اور تحمل کا حکم ہے۔ یہ مسلمان ہیں کہ خود کو خدا سے زیادہ غیور سمجھتے ہیں اور اس قابل بھی کہ محسن انسانیت (ص) کو اس دنیا میں معزز کریں۔ اصل توہین رسالت تو یہ ہوئی!
یہ بہت گھٹیا بات ہے جو سلمان تاثیر کو دلے بھٹی یا احمد کھرل سے ملایا جا رہا ہے۔ میں نے بہت سےغریب لوگوں کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے لوٹے جانے پر ورلڈ کال پے فون کے دفتر کے باہر روتے دیکھا ہے۔ تاثیر صاحب مالک ہیں اس کے۔ ہم لوگ نہ جانے کیوں چھوٹے سے فائدے کےلیے ایسے فوت ہونے والے لوگوں کی تعریف شروع کر دیتے ہیں۔
میرا اس شہرِ عداوت میں بسیرا ہے فراز
جہاں لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا چاہتے ہیں
اس نے قانون کے غلط استعمال کی مخالفت کی نہ کہ توہين رسالت کي۔ رہی بات نام کے مسلمان کی تو دلوں کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔
قانونِ رسالت میں ترمیم کی بات کرنے پر جن علماء نے سلمان تاثیر کے قتل کا فتویٰ جاری کیا اور بی بی سی کے معزز قارئین اسی فتوٰی کو بنیاد بنا کر ایک جنونی قاتل کو ہیرو سمجھ رہے ہیں، کیا وہ اپنے علماء کرام سے پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ چند سال قبل جب پرویز مشرف نامی ایک شخص نے کسی کو خاطر میں لائے بغیر پورے قانون ہی کی بساط لپیٹ دی تھی تو یہ سب اس کے بغل بچہ کیوں بنے رہے؟
اس منافقت کی بھی کوئی شرعی دلیل ان کے پاس ضرور ہوگی۔ یہ مذہبی وڈیرے اپنے نظریاتی ہاری و دھقاں کے کسی سوال کا جواب دینے کے پابند تو ہر گز نہیں لیکن پوچھنے میں کیا حرج ہے؟ اور ہم ایسے نا ہنجار ، بد تہذیب ، سیکولر کفار کی بھی تسلی کروا دیں تو مہربانی ہو گی۔
میں کیا کہوں اس بارے میں۔ سچ جھوٹ لگتا ہے اور جھوٹ سچ۔
"کچھ اور بھی دے گیا لطف
انداز تمہاری گفتگو کا"
بحیثيت مسلمان پغمبر(ص) کا احترام کرنا ہمارے ايمان کا لازمی حصہ ہے اور يہ کہ کسی کو بھی يہ حق نہيں کہ وہ آپ کی شان ميں کسی بھی انداز ميں گستاخی کرے۔ اب رہی بات اس توہينِ رسالت کے قانون کی حیثيت کی تو يہ نہ تو شريعت کا حصہ ہے اور نہ ہی قرآن کا بلکہ يہ تو چند دہائی پہلے ايک فوجی آمر کا بنايا ہوا قانون ہے جو اس نے سياسی عزائم کی خاطر بنايا تھا اور اگر اس کا غلط استعمال کر کے بےگناہ لوگوں کو جھوٹ بول کر نشانہ بنايا گيا ہے تو اس کو ٹھيک کرنے ميں حرج ہی کيا ہے؟ کسی بے گناہ کو قتل کرنا تو اسلام ميں حرام ہے۔ اسلام ميں يہ کہيں نہيں لکھا ہوا کہ اسلام کو کسی زمانے ميں کسی خطے کے قانون کے سہارے کے ضرورت پڑے گی۔ اسلام تو خود قانون ہے۔
سلمان تاثیر کے سیاسی نظریات اور اس کی ذاتی زندگی سے اختلاف کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن ایک انتہائی بھونڈے الزام کے تحت ان کا قتل پاکستان کے طاقتور طبقات کے مذہبی جنون اور پاگل پن کا مظہر ہے۔
ہم سبھی کو معلوم ہے کے توہینِ رسالت قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے لیکن افسوس کہ ایسے واقعات کے بعد کوئی بھی اس قانون کا شکار بے گناہوں کی حمایت نہیں کرے گا۔ ایسے کسی مولوی صاحب کو اگر دوکاندار کوئی چیز ادھار دینے سے بھی انکار کر دے تو وہ اس پر کفر اور شرک کے فتوے لگا دیتے ہیں تو ان سے کیا بعید کہ وہ قانونِ رسالت کا غلط استعمال نہ کریں؟
جن کا یہ کہنا ہے کہ سلمان تاثیر چپکے سے بھی آسیہ بی بی کی مدد کر سکتے تھے تو میں انہیں یہ بتانا چاہوں گا کہ سلمان تاثیر ایک سیدھے سادھے مسلمان تھے، مولوی نہیں تھے جو منافقت سے کام لیتے۔
سلمان تاثیر نے جس طرح کے بیانات دیئے تھے اس سے قطعاً نہیں لگتا تھا کہ وہ ایک مظلوم کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ عدالت میں ثابت شدہ ایک مجرمہ کو وہ کیوں مظلوم قرار دینے پر مصر تھے؟ اگر آسیہ بی بی پر ظلم ہوا تھا تو اپنے دلائل کے ساتھ عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے کیوں قانون کے نفاذ میں مداخلت کی؟ جب وہ خود قانون اور عدالت کو نظر انداز کر چکے ہیں تو ان کے مخالفین کے بارے میں کیوں یہ توقع رکھی جائے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے۔ مزید یہ کہ جس طرح کے بیانات آئے تھے وہ صاف صاف بھڑکادینے والے تھے گویا کہ وہ چیلینج کر رہے تھے کہ میں جو چاہوں کہوں میں کسی قانون کا پابند نہیں ہوں اور مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسے میں اگر ممتاز قادری نے اس چیلنج کو قبول کیا ہے تو اب کیا شکایت ہے؟
توہینِ رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنے والے اور توہینِ رسالت کرنے والی آسیہ بی بی کی حمایت کرنے والا سلمان تاثیر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ حرم شریف اور اپنے محبوب کی حفاظت کا بیڑہ اللہ تعالٰی نے خود اپنے ذمے لیا ہے۔ان کی شان میں گستاخی کرنے والوں کا ایسا ہی عبرت ناک انجام ہوتا ہے۔
میڈیا کی تو بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں بالخصوص اس کے ایک بظاہر مشہور چینل کے کہ اس میڈیا پر ضیائی ‘اسلامائزیشن‘ دور میں پروان چڑھنے والی نسل براجمان ہے لہذا ایسا میڈیا اگر قادری جیسےمبینہ قاتل کو ڈھکے چھپے الفاظ میں ‘ہیرو‘ شو کر رہا ہے تو اس میں کوئی حیران ہونے والی بات نہیں ہے۔ صورتحال گھمبیر ہوتی تب دکھائی دیتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مبینہ قاتل کی عدالت میں پیشی کے دوران جو اس کا والہانہ و ‘عقیدتمندانہ‘ استقبال دیکھنے میں آیا ہے اور اس استقبال میں پڑھے لکھے طبقے کالے کوٹ نے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور جو کہ پاکستان کے لیے ملایئت سے بھی زیادہ لمحہء فکریہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سے تو یہی نظر آتا ہے کہ سلمان تاثیر کا قتل محض ایک شخص کا فعل نہیں بلکہ اجتماعی قتل ہے اور اسکے پیچھے باقاعدہ ایک ‘انتہا پسند مائنڈ سیٹ‘ کارفرما ہے۔ اسی طرح سوشل ورکنگ ویب سائٹس پر بھی جس طرح سے لوگ مبینہ قاتل کو سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں اس سے تو ایسا لگنے لگتا ہے جیسے پاکستان پوری دنیا میں انتہا پسندی و جنونیت اور اندھی تقلید پرستی و اعتقاد پرستی کا گڑھ ہے اور جس نے ‘پاپائیت‘ کے دور جس کو تاریخ میں ‘سیاہ ترین دور‘ کہا جاتا ہے، کا عملی نمونہ پیش کر دیا ہے۔ نیزمبینہ قاتل کو جو ‘پیر‘ کا رتبہ دیا جا رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مبینہ قاتل نے ماڈرن پنجاب کے منصور کو قتل کر کے گویا کوئی ‘فرض کفایہ‘ ادا کیا ہو۔ اگر ایسے ‘فرض کفایہ‘ ادا ہونے لگے تو کچھ بعید نہیں کہ جلد ہی انسان کا ‘انسانیت‘ پر سے سرے سے ہی اعتماد اٹھ جائے جو ابھی کسی نہ کسی تھوڑا بہت باقی ہے۔مبینہ قاتل کے ساتھ رکھنے والی یہی ‘عقیدت‘ ہی غالبآ بنیادی وجہ ہے کہ جائے واردات کے دوران کسی بھی دوسرے باڈی گارڈ نے اس کے خلاف نہ ہی مزاحمت کی اور نہ ہی کوئی کمانڈو ایکشن کی طرح کی پوزیشن سنبھالی۔ اور تو اور بحال شدہ عدلیہ نے انسانیت سوز اس واقعے پر ازخود نوٹس تک لینے کی تکلیف نہ اٹھائی جس سے خاکسار کو محسوس ہوتا ہے کہ قاتل اپنے ‘انجام‘ تک نہیں پہنچے گا اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس کو بچانا مقصود تھا ورنہ آئے روز پولیس مقابلوں میں تو مجرموں کے ساتھ راہ چلتے لا تعلق بے گناہ افراد بھی سیکنڈوں میں ‘پار‘ کر دینے میں پنجاب پولیس مشہور ہے۔ بہ مطابق خاکسار، سلمان تاثیر کا قتل جزوی طور پر تو ‘سیاسی قتل‘ ہو سکتا ہے لیکن کُلی طور پر نہیں۔ ملک میں پنجے گاڑھے ہوئے ‘ملائیت‘ کو دیکھیں تو مجموعی طور پر یہ قتل ‘مذہبی جنونیت‘ و ‘طالبانائزیشن‘ کا نتیجہ ہے۔ ‘
یہ کیا غضب کیا کہ ایک عیاش گورنر کو منصور حلاج قرار دے دیا۔ ہر مقتول شہید نہیں ہوتا۔ کیا خاکم بدہن، رنگیلا رسول چھاپنے والا راجپال بھی منصور تھا؟ بی بی سی سے درخواست ہے کہ اپنے نام نہاد صحافیوں کی بھی جانچ پڑتال کریں۔ سلمان تاثیر اور منصور حلاج؟؟؟ کل مردود سلمان رشدی کو کیا کہیں گے؟ حضور تاریخ فیصلہ دے گی مگر وہ اس کے الٹ ہوگا جو آپ نے کہا۔ امریکی سلطنت جب ردی کی ٹوکری میں جائے گی، تب فیصلہ ہوگا اور تب لوگوں کو خریدنے کے لیے ڈالر نہ ہوں گے۔
جیسا کہ آپ نے بتایا کہ ٹی وی چینلز والے ایک قانون توڑنے والے قانون کے محافظ مگر قاتل کو ایسے دکھا رہے تھے جیسے کہ اس نے قوم یا مذہب کے لئے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ممتاز قادری کے اس فعل کو کس عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ ناجانے کتنے قانون کتنی بار توڑے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر ناموسِ رسالت قانون میں تبدیلی ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑے گا۔ کیا اس قانون کی پرواہ ممتاز قادری جیسے لوگ کریں گے؟؟
سلمان تاثیر کا قتل غیر اسلامی ہے۔ رسول اکرم نے اپنی حیات میں نہ تو کسی منافقین مدینہ کو قتل کرایا اور نہ ہی کسی کو قتل کے لئے کہا۔ کسی فرد کو یہ حق نہ ہے کہ وہ خود ہی منصف بن کر کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے۔ پاکستان میں قانون کی عملداری ہے۔ لاقانونیت، فتنہ اور فساد سے معاشرے میں انارکی پھیل جائے گی۔
میڈیا کا قادری کو غازی بنا دینے کی کوشش ہو یا وکلاء کا قاتل سے اظہارِ عقیدت، سیاست دانوں کی بے رحمانہ خاموشی ہو یا علماء کرام کی منافقانہ روش یا پھر روتی بسورتی عوام کی بے حسی، ایک انحطاط پذیر معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جہاں مذہب ذاتی مفادات کے حصول کی مذموم کوشش کے علاوہ کوئی وقعت نہ رکھتا ہو اور جہاں انسانی اقدار کو بلا سوچے سمجھے مغربیت کا لیبل لگا دیا جائے، جس معاشرے کی تقدیر کرائے کے قاتلوں کے ہاتھ ہو تو کیا اس سے کوئی گلہ کوئی شکوہ روا ہے؟ "بہت اچھے قادری صاحب، بہت خوب" بس تھوڑی داد ہی تو دے رہے ہیں۔
شریعت کو کالا قانون کہنے والے کا یہی انجام ہونا چاہیے۔قادری نے کوئی جرم نہیں کیا۔ اللہ نے قادری کے ہاتھ سے توہینِ رسالت کرنے والے کو سزا دے دی۔ خدا کرے کہ جو بھی دین کو برا کہے اس کو اسی طرح سزا ملتی رہے۔ جب مسلمان ہونے کا دعوٰی کرتے ہو تو قرآن کے مطابق دین میں داخل ہو۔ کوئی زبردستی تو نہیں کرتا نا۔۔۔
محترم حسن صا حب جہاں تک آپ کے بلاگ کا تعلق ہے آپ کی بات درست ہے ! يہ قتل اتنا سادہ نيں جتنا دکھائی دیا جارھا ھے - قادری تو سافٹ وير کی اصطلاح ميں صرف ايک پاپ اپ ہے - باقی بات تبصروں سے تو لگتا ھے ھر شاخ پے الو بيٹھا ہے - ہر شخص اپنا منجن بيچ رہا ہے فرق يہ کہ بی بی سی والوں کا منجن ذرا برانڈیڈ ہے- اگر آپ لوگ ذرا يورپ کے ايک تاريخی وااقعہ پر ذرا کچھ بو ليں تو بھائی جان کی نوکری بھی جائے گی اور سزا بھی ہو سکتی ہے- یہ قا نو ن بھی تو انسانوں کا بنا يا ہوا ہے - چلو ھم اس قا نو ن کا احترام کرتے مگر آ پ ہی منجن اس وقت بھی بيچتے تو اچھا لگتا جب جرمنی کی بھری عدالت ميں ايک تين ماہ کی حاملہ عورت کو صرف حجاب لينے پر قتل کر ديا گيا تو جب محترم حنيف ،حسن مجتبیٰ ، علی سلمان ، ہارون رشید، جیسے "روشن خیالوں " کو سانپ سو نگھ گيا - اور ويسے بھی بی بی سی کی روشن خیالی تو رياض سھيل کے کرا چی کے ھم جنس پرستوں کی رپورٹ اور حضرت عيسی کے با رے ميں ايلٹن جان کے بيان کو رپورٹ کر نے ميں ہے - ميرے محترم ھم سب حمام کے ننگے ھيں
سیکیورٹی گارڈ قادری اور سلمان تاثیر دونوں نے "اپنی اپنی جنت" کھری کرلی۔ ایک تو سیاسی شہید ہوگیا تو دوسرا غازی ہے۔ جنت تو جنت ہی ہے چاہے شہادت سے ملے یا غازی ہوکے۔ ہمارے ملک کو واقعی "روشنی" کی طرف جانا ہے تو یہ سارا "چراغاں" اسی مد میں ہے۔ ابھی شاید کچھ دنوں پہلے ایک دوست نے ایک فورم پر لکھا تھا کہ "بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں میلہ چراغاں پر خون کے دئیے جلیں" واقعی سچ لکھا تھا۔ کچھ احباب کو شاید علم نہ ہو کہ خون کے دئیے میں لو زیادہ ہوتی ہے اور روشنی کی طرف سفر تیزی سے ممکن ہے۔ ڈر تو مجھے اپنے آپ سے لگنے لگا ہے کہ مجھے کب یہ جنت پکی کرنے کا چسکا لگ جائے۔ مذہب کے شہسوار اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اب بحرِظلمات ہو یا بےگناہ عوام کا ریوڑ، کوئی ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔
خاموش ہو کيوں داد جفا کيوں نہيں ديتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کيوں نہيں ديتے،
وحشت کا سبب روزن زنداں تو نہيں ہے
مہر و مہ انجم کو بجھا کيوں نہيں ديتے،
کيا بيت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
ياران قفس مجھ کو صدا کيوں نہيں ديتے۔
"وہ کیسے لوگ ہیں یارب جنہوں نے پا لیا تُجھ کو
ہمیں تو ہو گیا دشوار ، اِک انسان کا ملنا"
تاثیر مستقبل کا رائے احمد خان کھرل اور دلا بھٹی، کیا زبردست لطیفہ ہے۔ خیر موصوف اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ غازی عمل دین شہید جیسے لوگوں کو تاریخ کوئی انتظار نہیں کراتی۔
خدا کے لئے کچھ لکھنے سے پہلے تھوڑا سوچ لیا کریں۔ ایک غیر سنجیدہ، غیر ذمہ دار اور "عیاش" آدمی کو کن لوگوں سے ملا رہے ہیں ؟؟
کچھ تو سمجھو معاملے کو يہ خدا صرف ميرا يا تمھارا تو نہيں۔ کيا پتہ يہ موت تا ثير کو کس مقام پر لے گئی ہو؟ اپنی پروا کرو ايک مسلمان کے قتل پر خوشی منانے والو، کل کو کہيں اسی بات پر تمہاری پکڑ نہ ہو جائے۔
جی ہاں! ماڈرن پنجاب کا دلا بھٹی یا ماڈرن منصور حلاج ....یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ماڈرن بھی ہو اور معاشقے نا ہوں..اور اگر اس میں غیر ملکی ایجنسیوں کی وفاداری ہو تو کیا ہی کہنے ... رہی بات کرپشن کی تو یہ تو معاشرے میں عزت کی علامت ہے۔ جتنا بڑا چور اتنی ہی زیادہ عزت ....صحیح کہا ماڈرن دور کا دلا بھٹی یا ماڈرن پنجاب کا منصور حلاج۔
ڈاکٹر عبدالجبار کی بات پر دل خوش ہو گیا کہ "کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے"۔ آسیہ بی بی کو مظلوم کہنے والوں کو شاید یہ علم نہیں کہ انہوں نے اپنا جرم قبول کیا ہے اور وہ ملزم نہیں مجرم ہیں۔ یہ ایسی بیٹی ہیں قوم کی جس نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے اور قانونِ پاکستان کو بھی توڑا۔ باقی رہی بات سلمان تاثیر مرحوم کی تو ان کے ساتھ جو ہوا وہ انداز ٹھیک نہیں تھا۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن یہ سب کچھ جو پاکستانی معاشرے میں ہو رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ انصاف کا نہ ملنا ہے۔
شيرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہي بتا، تيرا مسلمان کدھر جائے،
وہ لذت آشوب نہيں بحر عرب ميں
پوشيدہ جو ہے مجھ ميں، وہ طوفان کدھر جائے،
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد
آيات الہٰي کا نگہبان کدھر جائے۔
یہ مسئلہ توہینِ رسالت کا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان میں قانون کے اصولوں کا نہ ہونا ظاہر کرتا ہے۔ روزانہ کتنے ہی پاکستانی اس وجہ سے پِس رہے ہیں۔ افسوس تب ہوتا ہے کہ جب سلمان تاثیر جیسے ہمارے نام نہاد حکمران اپنے فائدے اور غیروں کو خوش کرنے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ سلمان تاثیر نے بجائے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے، جیل میں جا کر آسیہ سے ملاقات کی اور اسے رہا کروانے کے "شارٹ کٹ" تلاش کرتے رہے۔
سب گورنر کے قتل کی بات کررہے مگر آپ میں سے آج تک کسی نے عافیہ کی بات نہیں کی۔ اگر آسیہ قوم کی بیٹی ہے توکیا عافیہ قوم کی بیٹی نہیں؟ آسیہ کو سزا اس ملک کی عدالت نے دی۔ گورنر کی مداخلت کیا نظام کے خلاف بغاوت نہیں تھی؟ اپنے ہی ملک کے قانون کو کالا کہنا کس طرح سے قانون کی پاسداری ہے؟ عاصمہ جہانگیر نے آج تک عافیہ کی بات کیوں نہیں کی؟
مجھے ايک بات کی سمجھ نہيں آتی کہ توہين رسالت کے قانون ميں موت کی سزا کيوں رکھی گئی حالانکہ اگر آپ ديگر اسلامی ممالک کے قوانين پر نظر ڈاليں تو شايد سعودی عرب يا افغانستان ميں سزائے موت صرف اسی صورت ميں ہے اگر ملزم اپنے موقف پہ قائم رہے اور معافی نہ مانگے۔ جب اللہ تين دفعہ معاف کرديتا ہے اور پيغمبر اسلام نے توہين آميز رويے کا مسکرا کر جواب ديا اور حتی کہ منہ مبارک پہ تمانچہ مارنے والے کے آگے منہ مبارک کا دوسرا رخ رکھ ديا کہ ادھر بھی مار۔ نيز يہ وہابی فرقہ جو کہ پيغمبر اسلام کی حیثيت کو بڑے بھائی سے زيادہ نہيں سمجھتے تو ايسا قانون بنانے کی ضرورت کيوں پيش آئی کہ جس کے غلط استعمال کی وجہ سے مظلوم لوگ اسے کالا قانون کہنے پہ مجبور ہوجائيں۔کیا پاکستان کے روايتی جگا ٹيکس وصول کرنے والوں نے حالات کے مطابق چہرے بدل کر پہلے پوليس کا بھيس استعمال کيا اور جب پوليس ميں جگہ نہ بچی تو مذہبی تنظيموں کی چادر اوڑھ کر سامنے نہيں آئے۔کيا اسلام کے صرف يہ چند اجزا پر ہی لوگ عمل نہيں کرتے يعنی توہين رسالت، چور کی سزا يا جہاد وغيرہ اور بھی بہت سے اسلامی جز ہيں جن پہ قطعا” کوئی عمل نہيں کرتا مثلا” حقوق نسواں، اتحاد ويگانگت اور ايمانداری وغيرہ يعنی ان چيزوں پر کوئی بھی قانون بنانے کی نہيں سوچتا۔
تاثیر مستقبل کا رائے احمد خان کھرل اور دلا بھٹی، کیا زبردست لطیفہ ہے۔
وقاراعظم
"فی الحال تو لطيفہ ہی ہے جب تک ہمارے ہاں انسانوں کا معاشرہ قائم نہيں ہو جاتا تاثير ولن ہی رہے گا"۔
جب لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا اور بڑے عہدے پر فائز کوئی شخص اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرے گا تو ایسے حادثات ہوتے رہیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس قوم نے خدا تعالٰی سے مذہب کی حفاظت کی ٹھیکہ لے لیا ہے اور مذہب کے نام پر تمام قانون اس قوم کے بنائے ہوئے چلیں گے نہ کہ خدا تعالی اور رسول اللہ کے دیے ہوئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پہلے تو کچھ لوگ طالبان کی مخالفت کی بات کرتے تھے مگر اب تو انسانی جان لینے پر ایک قاتل کی حمایت میں پورے کا پورا ملک اور میڈیا طالبان بن گیا ہے اور نام لیتے ہیں رسول اللہ کا جوکہ رحمت اللعٰلمین ہیں۔ خدا کا واسطہ ہے کہ دلائل کو سامنے رکھ کر بات کرو اور انسانیت کی اہمیت کو سمجھو۔ نہ ہی قرآن میں کوئی ایسا قانون ہے اور نہ ہی نبی پاک کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ ملتا ہے اور پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں بھی ایسا کوئی قانون نہیں ہے جس میں کسی انسان کی جان لی جائے، چاہے اگلا معافی کا طلب گار ہی کیوں نہ ہو۔ کیا نبی کی شان میں تب فرق پڑا تھا کہ جب طائف والوں نے پتھروں سے لہو لہان کر دیا تھا، جب ہندہ نے آپ کے چچا کا کلیجہ چبایا تھا، جب روز آپ پر کوڑا پھینکا جاتا تھا؟؟؟ ایک لمحہ کے لیے سوچو کہ اگر آپ طائف کے لوگوں پر عذاب آنے دیتے، کوڑا پھنکنے پر اس عورت سے بدلہ لیتے اور ہندہ کو فتح مکہ بن کر سزا دیتے تو عرب کے عام لوگوں اور آپ میں فرق کیسے ہوتا ؟؟؟ خدا تعالی نے آپ کو رحمت اللعٰلمین بنایا۔ آپ تو انسان کیا جانوروں کے ساتھ بھی نرمی کا سلوک کرتے تھے اور آج آپ کے ماننے والے انسان کی جان لینے پر ہیرو بن جاتے ہیں۔ خدارہ کچھ سمجھو کہ کس کے نام سے یہ ظلم منسوب کررہے ہو!!۔ قتل و غارت چھوڑو اور امن اور محبت والی اسلامی تعلیم کو اپنا شعار بناؤ۔
گورنر صاحب اگر عدالتی امور میں مداخلت کریں اور آٓسیہ کو چھڑائیں تو کوئی بات نہیں، گورنر صاحب اگر روڈ اور عام مجالسس میں توہینِ رسالت کے موضع پرباتیں کریں اور انٹریوز دیں تو انہیں کوئی نوٹ نہیں کرتا۔ لیکن عام پاکستانی اگر ان کے خلاف روڈ پر مظاہرہ کریں تو مغربی اور مشرقی تمام دانشور پریشان اور فکر مند ہوجاتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت حد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ عوام سے سب کہتے ہیں کہ یہ باتیں روڈ پر حل کرنے کی نہیں لیکن کوئی گورنر سے کیوں نہ کہہ سکا کہ یہ عام مجالس کی باتیں نہیں اور یہ کیس عدالت میں بھی زیرِسماعت ہے؟؟؟۔
بی بی سی کا اصل چہرہ کافی عرصہ سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ مظلوم عافیہ صدیقی کے لئے تو بلاگ لکھنے کی کسی میں جرات نہیں لیکن اب آسیہ بی بی اور سلمان تاثیر کی حمایت میں سب ہی ہلکان ہوئے جاتے۔ رہی بات عافیہ کی تو اس کا نام لینے سے پیٹ میں مروڑ تو اٹھ سکتا ہے، پیٹ بھر نہیں سکتا۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل ہوا تو گویا ایک فارغ البال قوم کے ہاتھوں چٹ پٹی خبر ہی آگی۔ میڈیا کے تمام صحافتی اداکار سرگرم عمل تھے تو سیاسی فنکار بھی اپنی اپنی بولیوں میں کہاں کسی سے کم تھے۔ ایک طرف مذہبی بہروپئے تھے جنہوں نے شریعت کے زہر آلود نشتر چلا کر مذہب کی چھاتی کو خوب لہو لہان کیا تو دوسری طرف کالے کوٹ والوں کے کالے کرتوتوں نے بھری عدالت کے باہر ایک قاتل کو پھولوں کے ہار پہنا کر ایک مذہبی جنونی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے قانون اور انصاف کی شہ رگ پر بھرپور گھناونے وار کئے۔ اب بھلا عوام ایسے میں کہاں کسی سے پیچھے رہنے والی تھی، ہم نے بھی جو کیا خوب کیا۔ آج کے مسلمان کی تعریف کہ جن سے غیر تو غیر خود مسلمان بھی محفوظ نہیں .
کیا ہوا کیوں آدمیت کی جبیں شل ہوگئی
کیا جہالت کے جنوں سے قوم پاگل ہوگئی
سارے دریا، خون نا حق سے لبالب بھرگئے
دہشتوں کی بارشوں سے خوب جل تھل ہوگئی
کون ہیں بمبار خود خودکش، ہے کہاں القائدہ
وہ جو اک پہچان کی مشکل تھی وہ حل ہوگئی
سچ تو یہ ہے کہ آج المیہ سلمان تاثیر کا قتل نہیں اور نہ ہی المیہ قاتل کا جنوں ہے بلکہ حقیقی المیہ تو سلمان تاثیر کے قتل پر عوامی رد عمل ہے۔ المیہ آج قوم میں جنونیت و جہالت کی وہ انتہا ہے جس نے ہم سے غور و فکر اور تدبر کی وہ تمام طاقتیں سلب کر لی ہیں کہ جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سمجھا سکیں۔ سیاست میں مذہب کی آمیزش تو سمجھ میں آتی ہے مگر جب مذہب خود ہی سیاست بن جائے تو پھر اس قوم کا ذلتوں میں جینا اور گمنامی کی موت مرنا واجب ہو جاتا ہے۔ جس قوم کے ہیروز خونی اور پیشہ ور قاتل ہوں اور مذہبی و سیاسی رہنما ڈاکو لٹیرے ہوں، انصاف و قانون کے رکھوالے مجرموں کی گل پاشیاں کریں اور خود وہ قوم ایک مسلمان کے قتل پر مٹھائیاں تقسیم کرتی تو کبھی دختر قوم آسیہ کے لئے موت کی دعائیں مانگتی، جشن مناتی نظر آے اور جس عظیم قوم کا ہر فرد مجاہد اور ہر کوئی شہید ہو تو پھر بھلا قوم کو خود ساختہ تباہی سے کون بچا سکتا ہے .
پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے
پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے
مجهے آج بهي حيرانگي هوتي هي کہ اتنا جلدي تبصره ڪيون ڪرتے هين اتنا جلدي مين ڪيون هوتي هين. ڪسي ڪو منصور ڪهه دينا اب تو روايت هو گئي هي ايڪ سستي سي عادت اپنا لي هوئي هي.