وہ عقیدت نہیں رہی۔۔۔
چند برس پہلے تک پاکستان میں کُتا بھی مرجاتا تو کشمیر ماتم کُناں ہوتا اب سرکردہ لیڈروں سے لے کر عام لوگوں کی ہیبت ناک ہلاکتیں ہو رہی ہیں مگر کشمیر میں چیں بھی نہیں ہوتی جو باعث حیرت ہی نہیں بلکہ باعث پریشانی بھی ہے کیونکہ کئی کشمیری پاکستان کو جنون کی حد تک عزیز سمجھتے تھے۔
میں جب اپنے بزرگوں سے آپریشن جبرالٹر میں پاکستان کی ناکامی کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتی تو وہ ہمیشہ آبدیدہ آنکھوں سے کہتے 'ان دنوں کشمیری گھروں اور مساجد میں صبح و شام ایک ہی دعا کی جاتی کہ پاکستان کا وجود قائم رہے جب بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ میں محاذ کھول کر جنگ کی سمت بدل ڈالی تھی'۔
مجھے بنگلہ دیش کی 'آزادی' یا تشکیل کا لمحہ یاد ہے، جب پورا کشمیر اندھیرے میں ڈوبا رہا ہر طرف اداس اور افسردہ چہرے تھے، اکثر گھروں میں چولہا نہیں جلا اور ہر آنکھ نم تھی۔
اکہتر کی جنگ سے کشمیر کی نفسیات پر ایسا گہرا زخم پڑا کہ جن کے رسِنے کے نتیجہ میں ہی تیسرا آپشن معرض وجود میں آیا کیونکہ دو قومی نظریہ کی بنیادیں ہل گئی تھیں اور وہ عمارت دھڑام سے نیچے گر گئی جس پر کشمیر کی آزادی کی بنیاد پڑی تھی۔
کشمیر کے لیے ایوب خان ، بھٹو، ضیا الحق، مشرف، نواز شریف یا زرداری صرف نام ہیں۔ اس کے لیے اہم پاکستان تھا۔ بھٹو کو پھانسی دی گئی تو کشمیریوں نے ماتم کیا۔ ضیا حادثے کا شکار ہوگئے تو کشمیر میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی، پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا کیا کہ کشمیر کی گلیوں میں غبارے پھوٹے یا میانداد نے چھکہ کیا مارا کہ ہماری گلیوں میں پوری رات پٹاخے چلتے رہے۔
کئی کشمیریوں کے لیے جماعت اسلامی، سیکولرازم، اعتدال پسندی یا کٹر پرستی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی بلکہ ان کے لیے پاکستان کافی تھا۔
ضیا نے جب اسلام کا نیا بیج بویا تو اس کی کونپیلیں کشمیر میں اس قدر نظر آئیں کہ جس نے گلی گلی شہر شہر ایک خون ریز باب تحریر کیا مگر اس کے باوجود کتنی مرتبہ کشمیر میں 'جیوے جیوے پاکستان' کے نعرے گونجے۔
غرض یہ کہ پاکستان کے تخت پر کوئئ بھی رہا لیکن کشمیر سے ہمیشہ دعا نکلتی رہی کہ اللہ اس ملک کو قائم و دائم رکھے۔
چند برسوں سے حالات بدل گئے ہیں وہ چاہے بے نظیر بھٹو کا قتل ہو یا سلمان تاثیر کا، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہوں یا اسلام آباد میں خودکش حملہ، کشمیر اب اُف بھی نہیں کرتا اور عوام کو جیسے چُپ سی لگی ہے۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں خاموشی کی ایسی کیفیت اُس وقت طاری ہو جاتی ہے جب کوئی شدید صدمے سے دوچار ہو۔
گو کہ کشمیر کی بیشتر آبادی اب الحاق پاکستان کے نظریہ سے کافی آگے نکل چکی ہے مگر شاید انہیں ایک خلش ضرور ستا رہی ہے کہ جس مذہب کی بنیاد پر یہ ملک وجود میں آیا تھا وہی مذہب نفرت، رقابت، ہلاکت اور تباہی کا موجب کیوں بن گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں اسلام کی نئی تشریح لکھی جا رہی ہے اور کشمیر اس تشریح سے خوف کھانے لگا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘اب تو عادت سی ہو گئی ہے مینر
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا‘
ایک وقت تھا جب پاکستان میں کتے کی موت پر بھی ماتم کیا جاتا تھا، اصل میں اب کشمیری سمجھ چکے ہیں کہ یہ .. خود کو بھنبھوڑ دیتے ہیں، انہیں کیا بخشیں گے اور اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو کشمیری خوش قسمت ہیں کہ انہیں بروقت زمینی حقائق کا اندازہ ہوگیا۔ ویسے بھی آج کی دنیا مفروضوں اور نعروں سے نہیں بہلنے والی ہے۔
جی ہاں يہ درست ہے کہ پاکستان ميں اسلام کی ايک نئی تشريح لکھی جا رہی ہے۔ اسلام کو جو کہ امن اور آشتی کا مذہب ہے کو ايک دہشت والے نظام کے طور پر متعارف کرايا جا رہا ہے۔ خودکشی کو جائز قرار ديا گيا ہے۔ نئی تشريح کی روح سے اس جيد عالم جس کو ديکھ کر ايک سکون سا محسوس ہوا کرتا تھا کی جگہ ان پڑھ لوگوں نے داڑھياں رکھ کر لے لی ہے۔ انہوں نے اپنے کو امير کا درجہ ديکر لوگوں کو قتل کرنے کا لائسنس لے ليا ہے۔ نئی تشريح کی رو سے اگر کسی کو کسی غير مسلم سے کوئی کاروباری يا کوئی اور مخالفت ہو جاۓ تو آپ بڑی آسانی کے ساتھ اس پر توعين مذہب کا الزام لگا کر ابدی نيند سلا سکتے ہيں۔ پاکستان ايک ملک سے زيادہ ايک ايسا سٹيج بن گيا ہے جہاں ہر کوئی قاتل کا کردار بہت احسن طريقے سے نبہا رہا ہے۔ اس طرح کی صورتحال ميں کشميری اپنی پہلے سے اجيرن زندگی کو کيوں مزيد مصائب ميں ڈاليں۔ کشميری تو کشميری يہاں تو پاکستانی پاکستان سے بھاگ جانا چاہتے ہيں۔ پاکستان ميں وہ کچھ ہو رہا ہے جو کسی دوسرے مسلمان ملک ميں نہيں ہو رہا- اس کا خميازہ باقی کے مسلمانوں کو جو غير مسلم مغربی ممالک ميں رہتے ہيں اس طرح بھگتا رہے ہيں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانہ مشکل ہوگيا ہے اور پاکستانی کہلانہ تو ايک گالی بن گئی ہے۔ ميں تو کبھی سوچتا ہوں کہ کس طرح غير مسلم مغربی ممالک ميں مسلمانوں کو برداشت کيا جا رہا ہے باوجود اس کے کہ ہم پاکستان ميں ان کے ساتھ کيا سلوک کرتے ہيں۔ کشمير کے بارے ميں جو کام بھارت اپنی پوری طاقت کے ساتھ ساٹھ برس ميں نہ کر سکا وہ ہمارے ہاں چند لوگوں نے چند برس ميں ہی کر ديا- کشميری بھائی دعا کر کے انتظار کريں کہ پاکستان پھر سے امن اور آشتی کا ايک مضبوط مرکز بن کر ابھرے۔
پاکستان آج کل داخلی طور پر اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ امن وامان نداردہے جبکہ بیرونی مداخلت انتہائی حد تک بڑھ چکی ہے۔ جہاں تک آپ نے ذکر کیا کہ
”چند برسوں سے حالات بدل گئے ہیں وہ چاہے بے نظیر بھٹو کا قتل ہو یا سلمان تاثیر کا، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ہوں یا اسلام آباد میں خودکش حملہ، کشمیر اب اُف بھی نہیں کرتا اور عوام کو جیسے چُپ سی لگی ہے“۔ ان سب واقعات کا تعلق آمریت سے جڑا ہوا ہے۔ آمریت کی جاری غلط پالیسیوں کے باعث ہی مملکت خداداد داخلی انتشار کا شکار ہوئی ہے۔ مگر یہ دورانیہ بھی انشاء اللہ عارضی ہی رہیگا۔ کشمیر پاکستانیوں کے دل میں بستا ہے۔ آج بھی خیبر سے لے کر کراچی کے ساحل تک بسنے والا کوئی بھی عام آدمی کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ سے کم د رجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔
کشمیریوں کےلیے پاکستان اب بھی اتنا عزیز ہے مگر بات ہے حکمرانوں اور طرز حکمرانی کی جس سے نہ صرف کشمیری بلکہ ہر محب وطن پاکستانی نفرت کرنے لگا ہے۔ اللہ ہمارے ملک کو ان حکمرانوں سے بچائے۔
نعیمہ آپ نے بلکل صحیح کہا، جو اسلام سلامتی تھا وہ اب بظاہر خون کا پیاسا بنتا جا رہا ہے۔ جب پاکستان کے موجودہ شہری انتہا پسندی کا شکار ہیں، ایسے میں کشمیری بھائی جو گزشتہ 60 سال سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ یقینا ناامید اور مایوس ہوئے ہونگے۔
ہم جنوبی ایشیا کے جس علاقے میں رہتے ہیں وہ انسانیت کی ترویج میں بہت پیچھے ہیں۔ برصغیر میں رہنے والے چاہے وہ ہندو ہوں، مسلمان یا کسی اور فرقے کے، وہ جنونی بھی ہیں وحشی بھی اور جاہل بھی۔ غلام کشمیریوں کی جدوجہد اپنی عزت و وقار کے لئے ہے، اسے کسی معنوں میں محدود کرنا مناسب نہیں ہے۔
شرم آتی ہے خود کو پاکستانی بتا کر!
نعیمہ یہ حالات تو اب سارے پاکستان کے ہیں۔
كشميرى ہونے كے ناطے اتنا تو خوب معلوم ہے كہ كشميرى اب بھی پاكستان سے بہت زياده محبت كرتے ہیں۔ جو پہلے نا کرتے تھے وه اب نا كريں گے۔۔۔ الحاق پاکستان كا معاملہ دوسری قسم كا ہے، بھارت گزشتہ دھائى سے طاقتور ترين ہوتا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ كشميرى الحاق پاکستان كو مشكل سمجھتا ہے۔ قيامِ پاکستان ہی سے پاکستان كے دشمن ہزار ہيں اور اس ميں بس اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
یہ نظریہ ہماری بنیاد ہے اور جس کی وجہ اسلام ہے، جس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جو پاکستان سے لےکر مڈل ایسٹ ،مڈل ایسٹ سے یورپ، یورپ سے امریکا اور ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
خود مختار کشمیر کی جانب بنگلہ دیش کے قیام کے بعد نہیں بلکہ بہت پہلے سے کشمیری متوجہ ہو چکے تھے۔ جب مقبول بٹ، امان اللہ خان اور اُن کے ساتھیوں نے محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھی اور آزاد کشمیر کے صدر کے ایچ خورشید نے آزاد کشمیر کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مہاراجہ کا پاکستان کے ساتھ جوں کا توں کا معاہدہ اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ کشمیر اپنی تاریخ کے زیادہ تر حصہ میں آزاد رہا اور آج بھی یہی ممکن حل ہے جسے کشمیری عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
کشمیریوں سے مخاطب ہونے کے لئے فراز صاحب کی روح سے معذرت کے ساتھ پہلے مصرعہ میں تھوڑی سی تحریف کی گستاخی کر رہے ہیں کہ "تم" کی جگہ دراصل فراز صاحب نے "ہم" کہا ہے ۔
"تم" کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو دیوار میں چن دیتے ہیں ۔۔
اب تيسری نسل جان چکی ہے کہ ان کو سہانے خواب دکھا کر قتل وغارت، موت کے ابليسی رقص کی جانب دھکيلا جارہا ہے۔ اس بات ميں حقيقت ہے کہ اب کشميری جان گئے ہيں کہ يہ الحاق الحاق کی اصل کہانی ہے کيا؟ لوگ پوچھتے ہيں کہ جن کا اپنا حال افراتفري، چوری چکاري، اقرباءپروري، بےايماني، امن وامان کی بگڑی ہوئی مخدوش صورتحال سميت ديگر قباحتوں کی موجودگی ميں کون آپ کے ساتھ آئے گا؟ اسی تناظر ميں آپ کی فکرانگيز تحرير درست سمت ميں اشارہ ہے کہ لوگوں کی سوچ گم ہوگئی ہے، جس کی تبديلی نماياں طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب کئی لوگ ابھی تک جہادِ کشمير کے نام پر اپنی دکان چمکانے سے ہرگز باز نہيں آرہے بلکہ ان کے لئے تو يہ محض لہوگرم رکھنے کا بہانہ ہے۔
کسی کو شرم تب محسوس ہوا کرتی ہے جب وہ خود کو اپنی بنیاد سے الگ سمجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی خلافِ طبیعت بات ہوتی ہو تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوا کرتا کہ وہ ساری دنیا میں اس کی بدنامی کا باعث بنے بلکہ سب دروازے بند کر کے اس نا پسندیدہ بات کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے گھر والوں میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں جو ہر چھوٹی سے چھوٹی بری بات کو بڑھا چڑھا کر باہر بتاتے ہیں اور ہر اچھی بات کو دبا دیتے ہیں۔ باہر دنیا میں بھی بہت کچھ غلط ہوتا ہے لیکن وہاں کے میڈیا والے قومی وقار کو مقدم رکھتے ہیں۔ ہمارے گھر میں بہت قباحتیں ہیں لیکن حل بھی ہمیں کو بغیر کوئی شرم محسوس کیے ہی نکالنے ہیں۔ باقی جہاں تک ہمارے کشمیر کا معاملہ ہے اس کے لیے حکومت جو چاہے مرضی کرے، ان حالات میں بھی پاکستانی عوام کے دل ہمارے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔
دنيا اب بدل چکی ہے۔
آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ خود مختیار کشمیر (تھرڈ آپشن) کا نظریہ نیا نہیں۔ نہ جانے آپ نے کس خیال سے اپنے تجزیہ میں اسے بنگلادیش کے قیام اور دو قومی نظریہ کی ناکامی سے جوڑ دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کشمیر کی تحریکِ آزادی۔ آپ کے بی بی سی کے لیے لکھے گے تجزیہ سے ایک بحث چل نکلےگی جس سے تھرڈ آپشن کے بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات ملیں گی۔
کشمیری ایک بات تو سمجھ گئے ہیں کہ ان سے پاکستان تو سنبھل نہیں رہا کشمیر کیسے سنبھالیں گے؟ 1971 میں بنگلادیش کا الگ ہونا آرمی، مذہبی جماعتوں اور سیاست دانوں کا کارنامہ ہے۔ اب یہی اس بچے کچے پاکستان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ خاکم بدہن اب تو ان surveys پر یقین آنے لگا ہے جن میں پیشن گوئیاں کی گئی ہیں پاکستان کے مزید ٹکڑے ہونے کی۔ کشمیری شاید فوقیت دے گا انڈیا کے ساتھ رہنے کو۔ کم از کم وہ ترقی تو کر رہے ہیں، ہمارے ساتھ رہ کر یا تو بھوکا مریں گے یا پھر بم دھماکوں میں اور جو بچ جایئں گے ان پر توہینِ رسالت کا کوئی مقدمہ چلا دیں گے۔ ایسے ملک کے ساتھ کوئی کیا رہ کر کرے گا جو اپنے لوگوں کو ، اپنے ہی گھروں میں تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور یہ بات کوئی ایک آدھ سال کی نہیں بلکہ جب سے پاکستان بنا ہے تب سے یہی حال ہے۔
‘کچھ دو اور کچھ لو‘ اور تالی ایک ہاتھ سے نہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، دونوں حقیقتوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو کشمیر کا پاکستان کے وقتا فوقتا افسوسناک حالات و واقعات پر مائل بہ افسوس ایک فطری عمل ہے اور یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں کو پاکستان سے آنکھیں پھیر لینے کا الزام دینا درست نہیں۔ دو عشرے قبل جو کشمیر کا پاکستان کے لیے اور پاکستان کا کشمیر کے لیے ‘دردِ دل‘ دکھایا جاتا تھا یا رکھا جاتا تھا، یہ بھی محض میڈیا اور حکومتی سطح تک تھا نہ کہ اس میں عوامی جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ سیاسی جماعتیں چاہے وہ کشمیر کی ہوں یا پاکستان کی، ان کو اپنی سیاست میں ‘پیٹرول‘ ڈالنے یا ‘گیس‘ بھرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایشو اچھالنا ہی ہوتا ہے اور ساتھ ہی بانس کو شہتیر بنانا بھی ان کی سیاست کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ لہذا سیاسی اجتماعات خصوصآ پاکستان میں جماعتِ اسلامی و دیگر مذہبی جماعتیں کشمیریوں سے جو اظہارِ یکجہتی کے لیے چار بندے اکٹھے کر کے جلسہ کر لیتی ہیں یا کوئی ریلی نکال لیتی ہیں تو اس کا یہ معنی نہیں ہو سکتا کہ سارا پاکستان ہی کشمیر کو ‘اٹوٹ انگ‘ سمجھتا ہے۔ دوسری طرف اسی طرح کشمیری جماعتیں اگر بھارتی فوج کے مظالم پر چار کشمیری اکٹھے کر کے جلسہ کر لیتی ہیں یا لانگ مارچ کا بندوبست کر لیتی ہیں تو اس سے یہ بھی نتیجہ نہیں نکلتا کہ سارا کشمیر ہی بھارت سے آزادی چاہتا ہے۔ رواں دور سرمایہ داری کا دور ہے لہذا اس ‘منافع پرستی‘ کے دور میں یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ ‘یکطرفہ‘ محبت کی جائے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ پاکستنا کی مذہبی و نیم مذہبی و سیاسی جماعتیں جماعتیں کشمیر کے لیے جو ‘دردِ دل‘ رکھتی ہیں، یہ صرف بیان بازی تک محدود ہے اور ان جماعتوں کا ایک سیاسی حربہ، فنڈز اکٹھے کرنے کا ‘روڈ میپ‘ اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی ایک پلاننگ ہے۔ حکومتی سطح پر جو کشمیر سے ہمدردی دکھائی جاتی ہے وہ بھی محض خارجہ پالیسی کا ایک حصہ ہے جو کہ سن سینتالیس سے ہی چلا آ رہا ہے۔