جب حکمران قاتل بن جائے
عرب دنیا میں عوامی مظاہرے شروع ہونے سے پہلے جب بھی کبھی لیبیا کی بات ہوتی تو میرے ذہن میں عمر مختار کی شبیہ اُبھر آتی جس نے انیس سو بارہ میں تقریباً بیس برس تک اطالوی افواج کی گوریلا جنگ کے ذریعے نیند حرام کردی تھی۔ نہ جانے لیبیا کو آزادی ملنے کے بعد کرنل قذافی کی شخصیت میں ہمیں عمر مختار کیوں نظر آتے، خاص طور پر اُس وقت سے جب سامراجی طاقتوں کے خلاف عرب و عجم میں تحریکیں شروع ہوئی تھیں۔
لیبیا عرب ممالک میں شاید پہلا ملک ہے کہ جس نے عالمی ایوانوں میں مظلوم قوموں کے حق میں کئی بار آواز اٹھائی ہے اور فلسطین سے لے کرکشمیر تک میں فوج کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں پر قذافی اکثر کُھل کر چِلائے ہیں۔
چند ہفتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمر مختار کےلیبیا میں عوامی مظاہروں کو کُچلنے کے لیے کس طرح کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے قذافی کی فوج نہ صرف لوگوں کوگولیوں سے بھُون رہی ہے بلکہ افریقی ملکوں سے کرائے کے مسلح افراد کو مظاہروں کے اندر گھُساکرتشدد کروارہی ہے۔
طرابلس کی سڑکوں پر پڑی لاشیں دیکھ کر نوے کے اوائل کا کشمیر یاد آتا ہے جب عوامی مظاہروں کو روکنے کے لیے فوجیوں نے اندھا دھُند فائرنگ شروع کی تھی۔ دنیا اُس وقت خاموش رہی۔ آج دنیا اس لئے چِلا رہی ہے کیونکہ اِن کے شہری لیبیا کے تیل کارخانوں میں ملازم ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جس قوم نے عمر مختار کو پیدا کیا اسی قوم میں قذافی بھی موجود ہے۔ ایک نے قوم کی خاطر سُولی پر لٹکنا قبول کیا دوسرا اِقتدار سے ہٹنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ایک نے غاروں اور پہاڑوں میں رہ کر اپنے عوام کے غیرت اور وقار کو بلند کیا دوسرا ملک کا سرمایہ لوٹ کر، محلات تعمیر کرکے عوام کی آواز کو گولیوں سے خاموش کر رہا ہے۔
اسلام کی تاریخ میں مسلمان حکمران کوامیرِ کارواں، سالاراعظم یا خلیفہ اول کہا جاتا ہے جو عوام کے لیے اپنی جان کی بازی لگاتا ہے مگر جو حکمران صرف اپنا اقتدار بچانے کے لئے ہزاروں کو گولیوں سے بھون ڈالے تو کیا وہ تاریخ کو مسخ نہیں کر رہا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ عرب دنیا کے بیشتر موجودہ حکمران نہ صرف جابر و ظالم ہیں بلکہ اب تو وہ اپنے عوام کے کُھلے عام قاتل بھی بن گئے ہیں۔
ایسی مملکتوں کا یہ زوال ہے یا عروج؟
تبصرےتبصرہ کریں
يہ اور ذوالفقار علی بھٹو ہمارے لڑکپن کے ہيرو ہوا کرتے تھے۔ ايک ساتھ پردہءسياست پر وارد ہوئے۔ قريبی دوست اور رفيق کار تھے۔ ملک اور قوم کے لئے سب کچھ کر سکتے تھے۔ اگر واقعي مخلص ہوتے تو نعروں سے بڑھ کر قومي ادارے مضبوط کرتے، عوام کو ہنرمند اور تعليم يافتہ بناتے، ملک ميں زرعي اور صنعتي ترقياتي منصوبے پروان چڑھا کرعوام کو باعزت اور باوقار زندگياں مہيا کرتے۔ يہی حال بيشتر عرب اور مسلمان حکمرانوں کا ہے، اپنی ذمہ داريوں سے غافل رہ کر ملبہ دوسروں پر ڈال رہے ہيں۔ آخريہ کب تک چلتا؟ جو بويا تھا، کاٹنا تو پڑےگا۔
آپ نے ہمیشہ حق اور سچ پر لکھا ہے، جب بھی آپ کے کالم پڑھتا ہوں تو ایک بات چمجھ نہیں آتی کہ آخر کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر پوری دنیا کیوں خاموش ہے؟ لیبیا پر تو ہر کوئی چیخ اٹھا ہے، بہت خوش ہو رہے ہیں کہ عرب میں عوام جاگ گئی ہے لیکن کشمیر پر کیوں دھیان نہیں دیا جا رہا؟ ہم ہی قذافی کو بہت پسند کرتے تھے یہان تک کہ اپنا ایک اسٹیڈیم اس کے نام سے منسوب کر دیا تھا مگر اب ہم ہی اسے برا کہہ رہے ہیں۔
کئی دہائيوں سے برسرِاقتدار ظالم جابر حکمرانوں کو گھر بھيجنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ نئی نسل اب مزيد اس ظلم و جبر کو نہ سہنے کا عزم ليے سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ يہ عوامی عروج اور ان حکمرانوں کا زوال ہے۔ اس کارِخير ميں جديد ميڈيا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اگر واقعی يہ عوامی حکمراں ہوتے تو اس انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ يہ عوام کوکچھ سمجھتے ہی تھے، اب عقل ٹھکانے لگ جائےگي۔ قذافی کو ديکھيں، عوامی غيض و غضب کا سامنا کرنے پر جب راتوں کی نيند اڑگئی تو حواس باختہ ہو کر ان کو حشرات سے تشہبہ دے دي۔ اس تبديلی کی لہر سے مثبت تبديلی آئےگی۔
آپ کا بلاگ پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ آپ بھی مغربی پروپيگنڈے سے متاثر ہوگئيں؟ جيسے عرب کے بيروزگار نوجوان متاثر ہو کر اپنے اچھے بھلے ممالک کی اينٹ سے اينٹ بجا رہے ہيں۔ قذافي، جس وقت ہمارا ہيرو تھا، اس وقت بھی ويسا ہي تھا جيسا اب ہے۔ اس ميں تو تبديلی نہيں آئي، البتہ ہماری ذہنيت ظاہر ہوگئی ہے۔ ہم اپنے دوستوں کی پيٹھ ميں کيسے چھرا گھونپتے ہيں، یہ کوئی ہم سے سيکھے۔
یہ ان جیسے تمام نااہل حکمرانوں کے زوال کی ابتدا ہے۔
عرب دنیا بالخصوص مسلم دنیا ایک اچھی قیادت سے محروم ہے کیونکہ کسی بھی قوم کا حقیقی قائد وہ ہوتا ہے جو عوامی اور قومی مفاد کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ اور ہمت رکھتا ہو۔ لیکن موجود حکمران صرف اپنی کرسی بچانے کی خاطر اپنی ہی عوام کو مولی گاجر کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ عمر مختار جیسے افراد قومیں بناتے ہیں لیکن بعد میں آنے والے ناخلف جو کرتے ہیں وہ لیبیا میں دیکھا جا سکتا ہے۔
جی بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔ مسلمان خلفاء نے تو پوری دنیا کو تہذیب سیکھائی ہے لیکن کرنل قذافی اسلام کی بتائی ہوئی ساری تہذیب کو بھول چکے ہیں۔
حکمران عوامی احتجاج پر تبھی گولی چلاتا ہے جب وہ عوام ميں اپنی عزت اور شہرت کھو ديتا ہے اور تبھی حقيقی زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ ورنہ تو عوامی رہنما نيلسن مينڈيلا اور سلطان مہاتير محمد کی طرح راضی راضی اقتدار خود ہی چھوڑ کر تاريخ ميں امر ہوجاتے ہيں۔ عوامی رہنما کو صرف عوام سے غرض ہوتی ہے نہ کہ اقتدار سے۔ اکثر سياسی لوگ بڑی غلطی يہ کرتے ہيں کہ وہ اپنے بعد اپنی اولاد اور خاندان کو اقتدار ميں لاتے ہيں جسے خانداني آمريت اور موروثی شہنشائيت ميں شمار کيا جا سکتا ہے اور يہ ايک ايسا نشہ ہے جس کی قيمت قوموں کو ادا کرنی ہی پڑتی ہے۔ قذافی بھی اپنی خاندانی حکومت برقرار رکھنے کے ليے عوام کو قتل کر رہا ہے، اس سے تو حسنی مبارک ہوشيار نکلا جس نے باوجود اٹھارہ دن کی تگ و دو کے بعد اقتدار چھوڑ ہی ديا۔
آپ کی باقی باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن میں آپ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ "ملک کا سرمایہ لوٹ کر، محلات تعمیر کرکے"۔ آخر قذافی نے کون سے محلات تعمیر کیے ہیں؟؟؟
سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، اردن، اسرائیل اور مصر مشرقِ وسطیٰ کے ایسے ممالک ہیں جو کہ امریکہ کے اگلی صف کے دوست ہیں اور خطہ عرب میں امریکہ کو "درانداز" کروانے میں ان ممالک کو بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ یہ بھی ایک زندہ جاوید حقیقت ہے کہ انہی ممالک کی "نظریاتی سوچ" اور "مالی و عسکری و پلاٹونی کمک" کی بدولت امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف "سرد جنگ" جیتی۔ دوسری طرف عراق، لیبیا، فلسطین، ایران اور سوڈان نے عرب خطہ میں سامراج کی موجودگی و دراندازی کو ناپسند کیا اور اس کے خلاف آواز ممکن حد تک آواز اٹھائی۔ صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کے دراصل تیل پر سامراجی اجاردہ داری ختم کرنے کی ایک کوشش کی تھی جو کہ "عرب قوم پرستی" کا ایک شاندار اظہار تھا۔ مشرقِ وسطٰی میں عوامی تحریکیں "نیو ورلڈ آرڈر" کو سپورٹ کرتی ہیں لہذا سامراجی سازشوں کو نظر انداز کرنا بذاتِ خود "سامراجیت" ہے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے ورنہ عربوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔
اچھا سوال اٹھايا ہے آپ نے۔ بے شک يہ زوال ہی کی نشانياں ہيں۔ معمر قزافی کی فوج آواز کو دبانے کے لئے ظلم و جبر کررہی ہے۔ يہ بات حقيقت ہے ليکن يہاں سوال يہ ہوتا ہے کہ عرب جيسی غيور قوم آخر کيوں سوتی رہی؟ فلسطين پر ظلم و ستم ہوتا رہا، عرب ليگ کے اجلاس ہوتے، مذمتی قرارداد پاس ہوتی، سب اپنی برہمی ظاہر کرتے اور سب کو چپ لگ جاتی۔ اسرائيل مظالم کا بازار گرم کرتا رہتا اور دنيا خاموش تماشائی بنی رہتی۔ بے شک کشمير ميں ظلم ہوا مگر کسے پڑی ہے؟ ايسا لگتا ہے کہ سب مفاد کے پجاری ہيں۔ سيدھی سی بات ہے کہ شيطان مسکرا نہيں بلکہ قہقہے لگا رہا ہے اپنی کاميابی پر۔ حضرت انسان ازل سے ہی بہکاوے کا شکار رہا ہے۔ نہ ہماری فطرت بدلےگی اور نہ شيطان ہارےگا۔
جزوی انقلاب سے نظام میں تبدیلی نہیں ہوگی البتہ قذافی جیسے ظالموں کا عرب ممالک میں سے خاتمہ ہو جائےگا۔
میں ان تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں اور چند الفاظ کا اضافہ کروں گا کہ المیہ یہ ہے مسلم دنیا خصوصاً پاکستان میں ایسے گروہ موجود ہیں جو عرب دنیا کے ان ظالم لوگوں کی عزتوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حالات سے پہلے عرب دنیا کے ان ظالم لوگ ان گروہوں کی امداد کرتے رہے ہیں۔ کاش کہ ان لوگوں کو احساس ہو جائے کہ حکمرانی کے لالچی لوگ صرف مسلمان اور اسلام کے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔
آپ پہلے خاموش رہیں اور ابھی قلم اٹھایا لیکن بہت دیر ہوگئی ہے۔
یہ سارا کھیل امریکہ کے اشارے پر ہو رہا ہے کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ لیبیا میں قذافی کی حکومت قائم نہ رہے بلکہ وہاں بھی "امریکہ نواز" حکومت بنے۔ قذافی ایک اچھا انسان ہے، اس پر بےجا الزام لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔
اس کو انقلاب کا عروج کہتے ہیں، کاش کہ ایسا انقلاب پاکستان میں بھی آئے۔
یہ ابھی انقلاب کی ابتدا ہے۔ عرب حکمرانوں کا وہ حال ہونے والا ہے جو چھ سو پچاسی میں مسلمان حکمرانوں اور ان کی فوج کا ہوا تھا۔ تاریخ دیکھ لیں یہ اپنے آپ کو دھراتی ہے۔
ليبيا کے عوام کی فی کس آمدنی اور معيار بہتر ہے۔ موجودہ حالات کے پیچھے بيرونی عناصر ہيں۔ انہی کی شہہ پر مخالفت کی جا رہی ہے اور اسے بہت بڑھا کر زيادہ ہی دکھايا جا رہا ہے۔ ايسے ميں پابندياں لوگوں کا معاشی قتل عام کرنا ہے، جو جائز نہيں۔ کبھی کسی تيسری دنيا کے ملک نے کہا کہ آپ کا نظام صحيح نہيں، ہم اسے ٹھيک کرنے کی جدوجہد کرتے ہيں؟ اس لئے ميرے خيال ميں ليبيا يا دوسرے ممالک ميں معاملات کے فيصلے انہي لوگوں پر چھوڑ دينے چاہيیں۔ رہا معمر قذافی کا معاملہ تو اسے پہلے بھی خطرناک شخص قرار ديا گيا تھا ليکن تمام حربوں کے باوجود وہ ان کےرعب ميں نہيں آيا۔ اب اس موقع کو استعمال کر کے اسے اقتدار سے باہر کرنے کا موقع نہيں چھوڑيں گے، جيسے صدام کو نہيں چھوڑا، اسی طرح قذافی بھی عالمی نرغے ميں ہے۔ ان رياستوں ميں کوئی بھی حکمران جو مغرب کو پسند نہ ہو اقتدار سے باہر ہو جائےگا۔
ليبيائی عوام کے "اعلٰي" معيار زندگی کي بات ہوئي ہے، گزارش ہے کہ وسائل کا سمندر موجود ہونے کے باوجود بعض حکمرانوں اور عوام کے رہن سہن ميں زمين آسمان کا فرق ہے۔ عالمي اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ليبيا کی دو تہائی آبادی دو ڈالر سے کم يوميہ آمدن پر زندہ ہے۔ اسی طرح ہر سعودی پرآسائش زندگی نہيں گزار رہا۔ سعودي عرب میں مقيم يا عازمينِ حج و عمرہ نے بعض سعوديوں کو پرائيويٹ کار بطور ٹيکسي چلاتے ديکھا ہوگا جو قطر، کويت يا امارات ميں سوچا بھی نہيں جا سکتا۔