| بلاگز | اگلا بلاگ >>

قاتل قوم

عنبر خیری | 2011-03-02 ،11:44

آپ کو کسی کی بات اگر پسند نہ ہو یا آپ کو اس کی شکل اچھی نہ لگے تو شاید اس کو قتل کرنا کوئی بُری بات نہیں۔ کم سے کم پاکستان میں۔ اور اگر اس قتل میں آپ 'مذہب' اور 'کافر' کے پہلو لے آئیں تو شاید لوگ آپ کو اس عمل پر شاباش بھی کہنا شروع کردیں۔ کم سے کم پاکستان میں۔

پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کے قاتل گارڈ کی اس حرکت کو سراہا۔ کچھ لوگوں نے اس کی مذمت کی لیکن ڈرتے ڈرتے اور سہمے ہوئے انداز میں۔ اور اب وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بھی اسلام آباد میں ان کی گاڑی پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ اس قتل کی کتنی مذمت کی جاتی ہے، نہ صرف سرکار کی طرف سے بلکہ عوام کی طرف سے بھی۔ بیالیس سالہ شہباز بھٹی وفاقی حکومت کے وزیر تھے، پاکستانی تھے، سیاسی اور سماجی کارکن تھے، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے جد وجہد کرنے والے ایک شہری تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ سب کچھ کہا جائے گا یا صرف یہ کہا جائے گا کہ وہ عیسائی تھے اور (بقول جاہلوں کے) 'توہین رسالت کے قانون کے دشمن۔'

لیکن شہباز بھٹی کے قتل کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ جنہوں نے دہشت گردوں کی بھر پور مذمت نہیں کی، جنہوں نے انسانی جان کا لینا برا نہ سمجھا بلکہ پھانسی اور سزائے موت کو صحیح کہا، جنہوں نے ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ایک کمتر ذات سمجھا، جنہوں نے انتہا پسندوں کی مذمت نہ کر کے ان کی ایک طرح سے حمایت کر دی ، جنہوں نے خاموش رہ کر وحشیوں کو ان پر حاوی ہونے دیا، جنہوں نے اللہ رسول کا نام لے کر وحشیانہ حرکتوں کو صحیح قرار دے دیا۔۔۔

کیا عدم برداشت نے پاکستانی معاشرے کو دور جاہلیہ کے عرب معاشرے سے بھی بد تر معاشرہ بنا دیا ہے؟

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:55 2011-03-02 , رضا :

    حکمرانوں نے مہنگائي اور بيروزگاري جيسے مسائل سے توجہ ہٹانے کي غرض سے معاشرے کو امن عامہ کے چکروں ميں الجھا رکھا ہے- جو پکڑا بھي گيا کب سزاياب ہوا - سب سے بڑا مجرم مقامي ميڈيا ہے جو ان جنونيوں کو پليٹ فارم مہيا کرتا ہے - اکيسويں صدی کا پاکستان قرون وسطٰي کي جہالت ميں ڈوبتا نظر آتا ہے -

  • 2. 13:20 2011-03-02 ,desert sheikh :

    کیا خیال ہے اگر اسکو امریکہ بہادر کے ذمے لگا دیا جاے؟ دیکھیں، کچھ ہی دن پھلے ریمنڈ صاحب کے دہشت گرد تنظیموں اور طالبانوں سے خفیہ تعلقات کا راز کھلا ہے۔ اب ارباب پاکستان کو یہ عقدہ بھی حل کرنا ھو گا کہ کن کن طریقوں سے پاکستان کے دشمن ان دھشت گرد اور مزہبی تنظیموں کو فنڈز مہیا کرتے ہیں اور یہاں ان کے کون کون سے دوست ہیں جو اس ملک کو فرقہ واریت یا مزہبی انتہا پسندی کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔
    باقی عام آدمی میں رواداری تو آنجہانی ضیا صاحب نے ختم کروا دی تھی اور رہی سہی کسر سعودی عرب کی امداد سے کھلنے والے مدرسوں نے پوری کر دی۔

    ابھی کچھ دن پہلے میری ہمشیرہ پاکستان سے ہو کر واپس آئیں تو اہل محلہ پر ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا ’حالات بہت خراب ہو چکے ہیں، امیر غریب کا فرق تو اپنی جگہ، لوگ مخالف فرقوں سے اتنی نفرت کرنے لگے ہیں جیسے وہ غیر مسلموں سے بھی برے ہوں۔ مجھے تو ڈر ہے کہیں شیعہ سنی اور وہابی میں خانہ جنگی نہ ہو جائے‘۔

  • 3. 13:23 2011-03-02 ,سجاد :

    بہتر ہے کھ اس حساس معاملے پر زبان بند رکھی جائے حکمرانوں کو ہوش کرنا چاھے

  • 4. 14:26 2011-03-02 ,Najeeb-ur-Rehman، لاہور :

    سلمان تاثیر کے قاتل کے ساتھ عوام کے "عقیدت مندانہ" سلوک کو دیکھتے ہوئے خاکسار اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ شہباز بھٹی کے قتل کی مذمت کرنے والے لوگوں و شخصیات کو بھی مذمتی بیان جاری کرنے میں خصوصی احتیاط برتنی چاہئے کہ اس بات کا بہت خطرہ موجود ہے کہ اگر کسی "جہاد پسند" نے مذمتی بیان کو "توہینِ رسالت" کے ذمرے میں لے لیا تو ۔۔۔۔ !

  • 5. 14:52 2011-03-02 ,احمد :

    اس قتل کی جتنی بھی مذمت کی جائے، اتنی کم ہے۔ مگر اس کو مذہب سے جوڑنا بالکل غلط ہے۔ یہ بلا شبہ ایک انتہائی گھناؤنی کام ہے کہ کسی کوسازش کے تحت قتل کرنا پھر وہاں پر پمفلٹ پھینک کر بھاگ جانا تاکہ شناخت باقی نہ رہے اور اسلامی تنظیمیں بدنام بھی ہو جائیں۔ توہینِ رسالت کے لیے جس نے قتل کیا اس نے ہتھیار پھینک کر گرفتاری دے دی، بھاگا نہیں۔

  • 6. 15:25 2011-03-02 ,جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین :

    اب ایسا بھی نہیں کہ پاکستان میں وحشی قوم بستی ہو کہ جس کا تاثر آپ نے اپنے اس بلاگ اور بشمول بی بی سی اور باقی میڈیا پاکستان کے بارے میں کسی بھی واقعہ پہ دینے سے نہیں چونکتا۔

    مسئلہ یہ ہے کہ پوری قوم کو پچھلے کئی سالوں سے نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کے نام پہ ان کے بنیادی انسانی حقوق اور جائز ضروریات کے حصول کے لیے مسلسل رگڑا دیا جارہا ہے۔

    اور رگڑا دینے والے اپنے آپ کو اسقدر مقدس و محترم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے شہر لاہور دن دھاڑے راہ چلتے تین لڑکوں کی جان لے لی اور اب انکے سفیر سے لیکر صدر تک ہر کوئی پاکستانی عوام کو سفارتی اشتنیٰ کا مسلسل درس دے رہا ہے۔

    ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل دو پاکستانی لڑکوں کے قتل اور تیسرے نوجوان کا ریمینڈ کے ساتھیوں کی گاڑی سے کچل کر ہلاک ہونے پر آپ بی بی سی بلاگرز کی طرف سے ایک آدھ بلاگ یا کوئی ایسی تحریر کیوں نہیں لکھی جاتی؟

    انسانی جان کوئی بھی ہو خواہ وہ لاہور میں ریمنڈ جیسے تربیت یافتہ قاتل کے ہاتھوں ہوں یا دہشت گردی کے خلاف نامی جنگ اور اس کے ردعمل میں مارے جانے والے ہزاروں پاکستانی افراد سبھی جانیں قیمتی ہوتی ہے۔

  • 7. 16:32 2011-03-02 ,Dr Alfred Charles :

    آپ نے آخری سطر لکھ کر دريا کو کوزہ ميں بند کرديا ہے۔ ۔واقعی حالات ابتر ہيں ۔شہباز بھٹی کا بہيمانہ و سفاکانہ قتل اس بات کا شاہد ہے کہ معاملات دور جہالت کی نہج سے مماثلت رکھتے ہيں۔اس کا قصور بھی يہی تھا کہ وہ اقليتی برادری کا فرد اور وزير برائےاقليتی امور تھے۔تھے تو کمزور و پسے ہوئے طبقہ کے نمائيندہ جن کو کافر شمار کيا جاتا ہے اور سينہ تان کر بلکہ ٹھوک کر انکو واجب القتل قرار ديکر بقول انکے ايک ہی وار ميں واصل الجہنم کرديا جاتا ہے۔کسی انسانی جان کی قدر نہ کرنا جہالت کی نشانی نہيں تو اور کيا ہے؟

  • 8. 17:22 2011-03-02 , انشورنس والا :

    ہم سب اس جرم کے برابر شریک ہیں۔ سعودی حکومت اب اپنی مساجد میں یہودیوں کے خلاف لعن طعن پر پابندی لگا رہی ہے، اور ہم ہیں کہ پورے عالم اسلام کا ٹھیکا اٹھا کر نا حق خون بہانے پہ تلے ہوئے ہیں.
    ظلم تو یہ ہے کہ اچھے اچھے انٹلکچوئل حضرات خاموش ہیں، اور کچھ نہ ہوگا، ہم سب ڈوب جائیں گے. خدا معاف فرمائے.

  • 9. 17:50 2011-03-02 ,Muhammad :

    شہباز بھٹی کے قتل کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۔ جن لوگوں نے یہ گھناؤنی حرکت ہے ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔

  • 10. 19:19 2011-03-02 ,Abdul Waheed Khan, Birmingham, UK :

    افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔

  • 11. 19:53 2011-03-02 ,نغمہ سحر :

    پاکستان ایک خوفناک مثال بن گیا ہے قذافی بھی اپنی قوم کو پاکستان کا نام لے کر ڈراتا ہے کہ باز آجا‌‍‎ کیا لبیا کو بھی پاکستان بنانا ہے بات تو سچ کہی اور سچ کڑوا ہوتا ہے ویسے ہی پاکستانی میڈیا بدہضمی کی مریضہ ہے میثھی چیزیں بھی کم ہی ہضم کر تی ہے کڑوی کس طرح حلق سے نیچے اترتی ۔آج جو حالات پاکستان کے ہیں اس میں بڑا دخل اس میڈیائی آزادی کا ہے جس کی کوئی حدود متعین نہیں یہ جب چاہے قاتل کو ہیرو بنا دے اور ڈاکوں کو مسکین یہ چاہے تو دو ایجنسیوں کی چقلیش کی وجہ سے ہونے والے حادثے کو غیرت اور عزت کا مسلہ بنا دے ۔

  • 12. 21:40 2011-03-02 ,ساحر خان :

    اس ناحق قتل کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے اور مذمت کرنے سے آدمی کافر نہيں ہو جاتا۔ ميں تو اس سوچ ميں ہوں کہ ايک آمر کے بنائے گۓ قانون کی صرف درستگی پر بات کرنے سے ايک شخص کو قتل کرنے کا کيا جواز بنتا ہے اور شريعت يا قرآن ميں اس کا کہاں ذکر ہوا ہے جس ميں لکھا ہو کہ ايک دور آئے گا جب ايک فوجی آمر اپنی سياسی دکان چمکانے کے ليے اس طرح کی قانون سازی کرےگا تو اگر کوئی اس قانون کو درست کرنے کی بات کرے تو واجب القتل ہوگا؟ يہ تو سراسر ايک قتل ہے اور اسلام کی روح سے اگر اس قتل کا انصاف نہ کيا گيا تو قاتل قيامت ميں اس کے ليے جواب دہ ہوں گے۔ پاکستان ميں "تحريک قاتلانِ پاکستان" نے اپنے آپ کو يہ "لائنسنس" دے ديا ہے کہ جس کسی کو مرضی قتل کردو۔ يہ نام تو اسلام کا لے رہے ہيں مگر کام ان کے اسلام سے پہلے دور کی جاہليت والے لگتے ہيں۔ انہوں نے اسلام اور پاکستان کو دنيا ميں بدنام کرکے چھوڑ ديا ہے حالانکہ ان کا اسلام يا پاکستان سے کيا لينا دينا ہے؟ ميں اربابِ اختيار سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ يہ سب اسلحہ اور پيسہ ان دہشت گردوں کو کون دے رہا ہے اور کس ذريعے سے يہ لوگ يہ سب حاصل کرتے ہيں؟ حالانکہ پاکستان ميں عام آدمی تو ايک چاقو اپنی جيب ميں لے کر نہيں گھوم سکتا۔ خدا پاکستان ميں امن لائے۔

  • 13. 21:53 2011-03-02 ,حامد :

    اُس نظریے کی طرف سے جو مسٹر تاثیر کے قتل کا سبب بنا تھا، اب ریاست کو ایک مزید پرُعزم اور خطرناک پیغام ملا ہے۔ یعنی یہ کہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آخری لبرل کا بھی خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

  • 14. 22:34 2011-03-02 ,علی سید :

    وقت کرتا ھے پرورش برسوں
    حادثہ ایک دم نھیں ھوتا

    سعودی عرب کی مساجد اور مدرسوں میں 'انووسٹمینٹ' سے پہلے نہ تو پاکستان مِں فرقہ وارانہ فسادات تھے اور نہ ھی دھشت گردی ۔ ۔ ۔

  • 15. 22:42 2011-03-02 ,Nadeem Ahmed :

    مزمت کرنے يا نہ کرنے سے کوئي فرق نہيں پڑنے والا- ايک گروہ کو مارنے ميں کوئی ڈر نہيں، اور دوسرے کو مرنا اعزاز لگتا ہے- کيوں ان گروہوں کے رنگ ميں بھنگ ڈاليں- بھٹی صاحب کو کس حکيم نے کہا تھا کہ بغير سيکيورٹی کے پھريں- کيا انھيں اپنے ملک کے حالات اور اپنی حيثيت کا پتہ نہيں تھا- يہی حال تاثير صاحب کا تھا- ايسا صرف پاکستان ميں ممکن ہے کہ ايک ارب پتی انسان بھی ذاتی سيکيورٹی پر اپنا خرچہ نہ کرے- جب حکمران اتنے غافل اور لا پرواہ ہوں تو عوام کا اللہ حافظ

  • 16. 16:35 2011-03-03 ,Dr Aslam Khan :

    شہباز بھٹی ،وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور کا قتل ایک عظیم سانحہ ہے اور یہ اسلامی شریعہ کے بالکل خلاف ہے۔ کسی بھی فرد کو یہ حق نہ ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ مین لے کر دوسسرے کو خود سزا دینا شروع کر دے ۔اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلا جبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔
    یہ فتنہ اور فساد کا موجب ہو گا۔ طالبان فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہین۔ اسلام مہین اقلیتوں کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ طالبان کی اس حرکت سے پاکستان دنیا کی برادری مین بدنام ہو گیا ہے۔ اس قتل سے یہ تاثر ابھرتا ہے یہ پاکستان مین اقلیتوں کو تحفظ حاصل نہ ہے۔ طالبان ملک اور اسلام کے کھلے دشمن ہین ان کی بیخ کنی بہت ضروری ہے اور ہم سب کو اس ضمن مین کام کرنا ہو گا۔

  • 17. 17:01 2011-03-03 ,sohailbawa :

    شہباز بھٹی کے قتل کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے اکيسويں صدی کا بدترين الميہ ہے حکومت کی عدم توجہ کے باعث قوانين کی خلاف ورزی عام ہوچکی ہے جس کی وجہ سے تشدد اور انسانی حقوق کی پاماليوں کے واقعات ميں آئے دن اضافہ ہورہا ہے عصبيت اور مسلکی منافرت نے بھائی کو بھائی سے دست و گريبان کراديا ہے امن و يکجہتی ہی مسائل کا حل اور ترقی کی ضمانت ہے

  • 18. 6:53 2011-03-04 ,DecentOne :

    پاکستان اس وقت امن پسند پاکستانيوں اور مذہبی جنونيوں کا مجموعہ ہے۔ اس ميں کوئی شک کی بات نہيں کہ يہ مذہبی جنونی اب بھی آٹے ميں نمک کے برابر ہيں جو ميری دانست ملک ميں موجود ہمارے نااہل ليڈروں کی وساطت سے کچھ دوسرے ممالک کی سازشوں کی وجہ سے پھيل رہے ہيں۔ ہمارا ملک بدقسمتی سے کبھی بھی آزاد ملک نہيں رہا۔ پاکستان وجود ميں آتے ہی ہم مقروض ہوگئے اور دوسروں کے دست نگر بھی۔ ہم کل بھی غلام تھے اور آج بھی غلام ہيں۔ قائداعظم کے بعد زولفقارعلی بھٹو نے ملک کو غيرملکی تسلط سے آزاد کرنے اور ملک کو عوامی نمائندہ ملک بنانے کی کوشش کی مگر سزا دی گئی پھر ملک پر ضياء کی حکومت مسلط کی گئی اور اسی دور سے مذہبی جنونيت کا راج شروع ہوگيا۔ پاکستان ايک پُرامن ملک تھا مگر اسے ايک دہشتگرد ملک بنا دياگيا ہے۔ يہاں طالبان مسلط کئے گئے، پھر القاعدہ، سپاہ صحابہ اور نہ جانے کيا کيا۔ اب تو سمجھ ميں نہيں آتا کہ ہم کس کے ہاتھ بے اپنا لہو تلاش کريں؟ لگتا ہے اب اگر کوئی خوني انقلاب ملک ميں آيا تو وہ بھی کسی سازش کے تحت ہی ہوگا۔

  • 19. 7:15 2011-03-04 ,پرویز :

    پاکستان میں کوئی بھی قتل، شہید یا کچھ بھی ہو، اسے مذہبی تنظیموں کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے حالانکہ اسلام ہر قتل کی مذمت کرتا ہے اور اسے انسانیت کے قتل سے تعبیر کرتا ہے۔ اس لیے بغیر سوچے سمجھے کسی پر الزام لگانا بھی قابل مذمت ہے۔ سلیمان تاثیر ہوں، بے نظیر بھٹو ہوں یا شہباز بھٹی، سبھی اپنے دور میں جبکہ وہ اکثریتی جماعت کے فرد تھے قتل ہوئے۔ تمام وسائل کی مدد سے ان کے مجرموں کا سراغ لگانا حکومت کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوتا مگر اس سارے معاملے کو توہینِ رسالت بل کے ساتھ جوڑ کر اپنے مقاصد کا حصول بھی پاکستان کا تاثر خراب کرنا، اسلامی ریاست کو تباہ کرنا، اس کے دشمنوں کو فروغ دینا، جن لوگوں کے مقاصد ہیں وہی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔

  • 20. 8:06 2011-03-04 ,muzammil :

    شرم آتی ہے کہ میں اس جنونی مچاشرے کا حصہ ہوں جہاں انسانی جان کی کوئی قدر نہیں ہے۔ یہ حالات دیکھتے ہوئے میں خود کو اس ملک میں محفوظ نہیں سمجھتا تو جو اقلییت میں ہیں، ان کا کیا حال ہوگا؟

  • 21. 9:38 2011-03-04 ,Umar Farooq :

    میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ ہم ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں بلیک میل ہونے سے جان چھڑا لیں اور انسان کو انسان سمجھیں۔ اس کے ساتھ ہم اپنے مذہب کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں اور اس ملک کو تباہ ہونے سے بچائیں۔

  • 22. 9:45 2011-03-04 ,مياں اشفاق :

    پاکستان کے لوگ تو خود لبرل لوگوں اور جن کو آپ انتہا پسند کہتی ہے کے بيچ میں سينڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ ميرے خيال میں شہباز کا قتل "انکل سام کے گريٹ گيم" کی ہی ايک کڑی ہے۔ سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے جن کو اپنے ملکی مفادات سے زيادہ امريکہ کی خوشنودی اور اپنے اکاؤنٹس عزيز ہیں۔

  • 23. 11:21 2011-03-04 ,ساحر خان :

    جو اصحاب پاکستان کو لبرل اور غير ليبرل ميں تقسيم کرتے ہيں ٹھيک نہيں لگتا۔ ميں تمام دہشت گردوں کو جاہل اور جنونی قاتل سمجھتا ہوں مگر اس کا يہ مطلب نہيں کہ ميں لبرل ہوں۔ ہاں مگر ميں پُرامن ہوں اور اسلام کی صحيح روح اور پيغمبرِ اسلام کی رحمت للعالمين ہونے کی وجہ سے اسلام کو ايک پرامن مذہب کے طور پر ديکھتا ہوں جو کہ حقيقت ہے۔ اسلام خودکش بمباروں کو پھاڑ کر بےگناہ بچوں، عورتوں اور مردوں کو خون ميں نہلا کر نہیں پھيلایا جاتا۔ پيغمبرِاسلام نے تو غير مسلموں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کيا کہ خود ہی ہر کوئی مسلمان ہوتا چلا گيا اور آج دنيا ميں ہر چوتھا شخص مسلمان ہے۔ ايک اور بات کہ يہ جو بھرے بازاروں ميں اور نمازيوں سے بھری مساجد کو بموں سے اڑايا جاتا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی جاتی ہے، وہاں امريکہ کہاں سے آگيا؟ قاتل خود چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ اس نے قتل کيا ہے۔ مگر ہماری سادگی کہ يہ کہہ کر اپنے آپ کو پرسکون کر ديتے ہيں کہ يہ سب امريکہ کا کيا دھرا ہے۔ اسلام لبرل اور غير لبرل ميں بٹا ہوا نہيں ہے بلکہ اسلام ايک ہے اور اس کی بنياد بھی ايک ہی ہے۔

  • 24. 14:46 2011-03-04 ,yasir talib :

    میں نہیں سمجھتا کہ یہ قتل توہینِ رسالت کی وجہ سے کیا گیا ہے بلکہ وہاں پمفلٹ پھینکنے کے پیچھے سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ کوئی بھی اس مقدمے کی تفتیش کرنے سے ڈرے۔ ہمارے رہنماؤں کا قتل پوری قوم کا قتل ہے، اس لئے اس کی پُر زور مذمت ہونی چاہیے اور ان عناصر کو سزا دینی چاہیے جو پاکستان کو ٹوڑنا چاہتے ہیں۔

  • 25. 15:09 2011-03-04 ,Dr. Shahzad :

    يہ بڑا ظلم ہے کہ پیغمبرِاسلام کے نام پر "دہشت گردی" کی جارہی ہے۔

  • 26. 12:18 2011-03-08 ,SYED TAUSEEF HAIDER :

    جب کسی معاشرہ میں رواداری ، قوت برداشت اور دوسروں کےمذہب کا احترام کرنے
    کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے تو وہاں سے حیوانیت شروع ہوتی ہے ، یہی صورتحال
    وطن عزیز میں کئی برسوں سے موجود ہے ، بدقسمتی سے اس میں شک کی ساری
    کڑیاں مذہبی جماعتوں کی طرف ہی جاتی ہیںصرف حکومت ہی اقلیتوں کے جان ومال
    اور عزت وناموس کی ذمہ دار نہیں ہوتی، معاشرہ کا ہر فرد ان کی حفاظت کا ذمہ دار
    ہوت ہے،

  • 27. 11:03 2011-03-16 ,Tahir :

    توہین رسالت کے قانون میں جب تک تبدیلی نہ کی گئی تو ایسے حالات میں مزید شدت آئےگی جتنا إسلام نے سچ بولنے پر زور دیا مسلمان اتنا ہی سچ کم
    ،جتنا انصاف و عدل کا کہا،اتنی ہی زیادہ کمی۔جتنی زیادہ غریب ومسکین کی دیکھ بھال کا حکم،اتنی ہی بے اعتنای۔ صفائی نصف ایمان،اسی قدرگندگی کے ڈھیر نا قابل بیان۔جتنا ۱قلیتوں سے حسن سلوک کاحکم ،اسیقدر زیادہ ظلم غرض اسلام کے ہر حکم کے برعکس عمل ۔ویسےتمام تبصروں سے بالا آپکا عنوان ’قتل قوم‘ ہے

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔