ڈبل گیم کا نیم!
سندھی میں کہتے ہیں کہ 'اس کو کیا کہیے جو چور کو تو کہے چوری کر اور مالکوں کو کہے کہ خبردار وہ (چور) آ رہے ہیں'۔ زیادہ تر لوگ پتہ نہیں اس کو کیوں سیاست کہتے ہیں جسے اب ڈبل گیم کہا جا رہا ہے۔
بس اسامہ بن لادن کا پکڑا جانا تھا کہ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کو سب ایسے دیکھنے لگے کہ وہ لیڈرز کسی فلم میں ڈبل رول والے کردار ہوں۔ لیکن یہ کب نہیں تھے؟ ڈبل گیم کا ہی نیم پاکستان ہے پیارے!
بلکہ ڈبل کھیل وطن عزیر کے قیام سے قبل ہی شروع ہوچکا تھا۔ قطع نظر اس بحث کے کہ ملک لیا تو انگریزوں سے اسلام کے نام پرگیا تھا یا کہ سکیولر ازم کے نام پر؟ لیکن قوم کے باوا آدم تو کم ازم کم اپنی ذاتی زندگی میں سکیولر ہونے کے باوجود دو قومی نظریے کی کاک ٹیل پیتے رہے تھے۔
ڈیموکریسی کیا آنی تھی لیکن منافقت یا دوہرا پن قومی مقدر بن گیا۔ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ والوں کی آج تک تاریخ ایک ایسی ودھوا کی رہی جو ہمیشہ فوجی آمروں سے عقد ثانی، عقد ثالث، عقد الف لیلہ رچاتی رہی۔
ملک کی مانگ ویران ہوتی رہی لیکن فوجی آمر و جنریل سدا سہاگن رہے۔ ایسے میں عوام بچارے تو بقول فیض:
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی۔ بنے رہے۔
وہ اسلامی سوشلزم تھا یا نظام مصطفی کا ضیاءالحق والا 'ہر طرف ہو کا عالم تھا' والا دورِ پر آشوب یا اس سے پہلے اور بعد والے فیلڈ مارشل اور مارشل مشرف یا اب بہتر انتقام والی ڈیموکریسی، ڈبل گیم کا کاک ٹیل سلو پوائزن کی طرح ملک کی نس میں اترتا رہا۔
تب پھر دہشتگردی اور اسکے خلاف جنگ والا شیر میدان میں اترا یا اتارا گیا جس کی پشت ہماری لیڈرشپ کے لیے گڑ کی تھی جسے وہ کھاتے رہے اور ڈبل گیم کرتے رہے۔ تب تک جب تک اس اماوس رات میں کالے بیل کے اصل مالک یہ کھرا اٹھاتے ہوئے ایبٹ آباد نہ پہنچے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کے پیٹ میں جاتا ہے؟ کھیل ختم تو نہیں ہوا لیکن پیسے ہضم ہوگئے۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن مجتبی صاحب میرا آپ سے اور وسعت اللہ خان سے یہ کہنا ہے کہ اگر آپ کے پاس ثبوت نہیں تو بغیر اسکے قیاس آرائیوں پر مت جایا کریں۔ رائے عامہ تشکیل دینے والوں کی حیّیت سے آپ اپنی رائے ٹھوس بنیادوں پر قائم کریں۔قیآس آرآئیوں پر لکھے جانے پر قوم کو ہر پہلو سے قیمت چکانی پڑی ہے ۔خواہ یہ پہلو سیاسی ہو، مذہبی، سماجی یا اقتصادی۔ ہمارے پاس کوئی شحص ایسا نہیں جسپر ہم اعتبار کرسکیں اور آپ لوگ ان میں سے نہ بنیں۔
يہ بلاگ بی اے کے اردو کے پرچے ميں سليس اردو کے ليۓ بھی آسکتا ہے اس ليۓ اساتذہ اور طلباء ہوشيار رہيں۔ويسے بھی حسن مجتبی بلاگ عام لوگوں کے سمجھنے کے ليۓ نہيں لکھتے بلکہ چند پڑھے لکھے لوگوں کا امتحان لينے کے ليۓ لکھتے ہيں مگر کمال کا لکھتے ہيں۔
ڈبل گيم ہمارے خون ميں شامل ہے۔سياست،آمريت،ملاں ازم،حکومتی و نجی ادارے، کھيل اور آپس کے مامعلات سب اسی پہ چلتے ہيں مگر ڈبل گيم اگر ذاتی مقصد کی بجائے ملک کی بہتری کے ليۓ کھيلی جائے جيسے امريکہ اپنی بہتری کے ليۓ کھيلتا ہے تو کوئی مضائقے والی بات نہيں۔قائداعظم کو اس گيم ميں شامل کرنا اس ليۓ مناسب نہيں کيونکہ وہ تاريخ کا حصہ بن گئے ہيں ۔اگر اس کے بنائے ہوئے ملک ميں عوامی حکومت قائم نہ ہوسکی تو ان کو الزام دينے کی بجائے ہميں اپنا گريبان ديکھنا چاہيۓ۔اس طرح تو پيغمبروں کے بنائے ہوئے مذہب بھی تنزل کا شکار ہيں تو کيا ان کے بارے ميں بھی نعوذبالا کچھ کہيں گے؟ يا قايداعظم کو اس ليۓ لوگ آسانی سے الزام ديتے ہيں کہ وہ پيغمبر نہيں۔پاکستان کی شناخت کو قائم رکھنے کے ليۓ قايد کو ليڈر ماننا ضروری ہے اور ان کی کردار کشی ملک دشمنی ہے۔نيز ان کی سادہ زندگی ان کے مخلص ہونے کا ثبوت ہے۔
ہر کسی نے وہ بيچا جسکی مانگ تھی ـ ملا اور ضياء نے مومن بن کراسلام بيچا، مشرف نے پاکستان بيچا، پی پی پی نے جمہوريت بيچي، ن ليگ نے شرافت اور باقی کی پارٹيوں ميں سے کسی نے زبان تو کسی نے قوميت کا بھاؤ لگايا اور کسی نے علاقاقيت کی بولی لگائی تو کسی نے اپنی ہی قيمت لگائي مگر منزل سبکی مشترک تھی اور وہ تھا اقتدار اور پيسہ ـ ہر ايک کي کوشش تھی اور ہے کہ کسی نہ کسی طرح پورے کا پورا اقتدار، آدھا پون يا کچھ بھی مل جانے کو غنيمت جاناـ
بہت اچھے حسن بھیا۔۔۔۔ کچھ بات میں آگے کروں؟ مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ جمہوریت ایک ایسے حکومتی ڈھانچے کا نام ہے جس میں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کی جگہ "جس کی بھینسیں اس کی لاٹھی" ہوتی ہے.
کتابوں میں تو جمہوریت جس کیفیتٍ حکومت کا بتایا جاتا ہے، سچ پوچھیں تو مجھے بارٍ دگر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ "جمہوریت" مرنے کے بعد ہی نصیب ہونی والی کسی نعمت کا نام ہے جو ہر گنہگار یا عابد و زاہد قسم کے مرحوم کو ضرور عطا ہوگی۔. .
اور اسی قنطوری جمہوریت میں ہم جی رہے ہیں۔۔
حسن بھائي! بڑے پتے کی باتيں يہاں لکھ دينے کا شکريہ! يہ مفاد پرستی کا کھيل يونہی جاری رہے گا اور عوام تماشائی بنے رہيں گے۔ ہاں ان کا زود ہضم معدہ لکڑ ہضم پتھر ہضم کے مصداق سب کچھ ہڑپ کرتے رہيں گے۔
خاکسار کی رائے میں پاکستان کی مجموعی سیاست و تاریخ اور باشندوں کی مجموعی نفسیات کو مختصر ترین وقت و الفاظ میں جاننے و سمجھنے کے لیے محترم حسن مجتبٰی کا یہ بلاگ جامع، مدلل اور اختصاریت کا بہترین مرقع ہے اور درجنوں سیاسی و تاریخی کتابوں پر بھاری ہے۔ بالخصوص اس کی ایک سطر “ڈبل گیم کا ہی نیم پاکستان ہے پیارے“ نے تو پاکستان بابت کئی انسائیکلوپیڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل سے جو ڈبل گیم کھیلی جا رہی ہے اس کی بہترین تشریح و مفہوم کو خاکسار کی ماں بولی پنجابی زبان میں یوں بھی بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ “وِچوں وِچوں کھائی جاؤ، اُتوں رولا پائی جاؤ“۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے، بعد اور آج ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ سرسید احمد خان کو دیکھیں، خود تو مذہبی سیاست کرتے مگر مسلمانوں کی سیاست سے باز رہنے اور تعلیم پر توجہ دینے کی تلقین کرتے، ایک طرف مسلمانوں کو عیسائی مشنریوں سے پرے پرے رہنے کی تلقین کرتے جبکہ دوسرے پاسے انہیں یورپی طرزِ معاشرت اختیار کرنے پر زور دیتے (یہ الگ بات کہ سرسید نے مذہبی عقیدوں کو سائنسی انداز میں پیش کرنے کی سعی کی)۔ ایک طرف “اسبابِ بغاوتِ ہند“ کتاب یا رسالہ لکھ کر انگریزوں کو ہندوستان میں حکومت کرنے کے نئے نئے خیالات و ٹِپس و گُر بتائے اور دوسری طرف مسلمانوں کو “قابض انگریز“ کے خلاف کھڑا کرنے کی بجائے دھرتی ہی کے باشندے ہندوؤں کے خلاف بذریعہ “دو قومی نظریہ“ کھڑا کر دیا، بجائے اکثریتی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان قرار دلوانے کی جدوجہد کرنے کے اُلٹا “اردو ہندی تنازعہ“ ایجاد کر دیا جس کی غالبآ وجہ یہی تھی کہ سرسید یو پی کے رہنے والے تھے اور ان کی مادری زبان اردو تھی، ایک طرف انگریزوں کے خلاف جہاد کو اسلامی تعلیمات کی رُو سے ناجائز قرار دیا جبکہ دوسری طرف اپنے ہی ہم وطن ہندوؤں کے خلاف جہاد کی تلقین کی۔ لہذا ثابت ہوا ڈبل گیم کا نام ہے “تحریک علی گڑھ“ پیارے !۔ علامہ اقبال کو دیکھیں، پہلے پہلے “سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہمارا، ہم بُلبلیں ہیں اس کی، یہ گُلستاں ہمارا ہمارا“ اور بعد ازاں “پاکستان کا خواب“ اور “خطبہ الہٰ آباد“۔ یہ الگ بات کہ یہ خواب ہندوستان کے اندر ہی “صوبہ پاکستان“ کی حیثیت سے اقبال نے دیکھا مگر “ملائیت“ نے اس کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور صوبہ کی بجائے الگ ملک اس خواب اور خطبہ الہ آباد میں سے ایجاد کر لیا۔ جناح کو دیکھیں، ذاتی زندگی میں سیکولرازم کا نمونہ جبکہ سیاسی زندگی میں مذہبی بالادستی، ایک طرف جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ اور دوسری طرف بیک وقت گورنر جنرل، مسلم لیگ کے صدر اور آئین ساز اسمبلی کے صدر کے تین عہدے رکھے اور تیسری طرف کھڑے کھڑے صوبہ سرحد کی اسمبلی منسوخ کروائی اور سندھ میں ایوب کھوڑو کو وزراتِ اعلٰٰی سے ہٹایا۔ ڈبل گیم دریافت ہو گئی ! الطاف حسین کی ایم کیو ایم کو دیکھیں، پہلے “جناح پور“ اور پھر “پاکستان ہے تو ہم ہیں“ کا نعرہ لگا دیا۔ نواز شریف کی ن لیگ کو دیکھیں، پہلے سپریم کورٹ پر دن دھاڑے مسلح حملہ اور بعد میں اسکی تقدیس میں خصوع و خشوع سے آغاز۔ ضیاء الحق کو دیکھیں، ایک طرف افغانستان میں اللہ کی خوشنودی بذریعہ “جہاد“ کا درس جبکہ دوسری طرف پاکستان میں “فرقہ واریت“ کی تن، من اور دھن سے سرپرستی۔ لہذا “ڈبل گیم“ سامنے آ گئی۔ اور ایک ‘ہِز ایکسیلینی صدر پاکستان“ آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے “جمہوریت سب سے بہترین انتقام “ فلسفہ کو روزِ اول سے ہی تھاما ہوا ہے اور آج تک پیپلز پارٹی کے دشمنوں کو بھی گلے لگایا ہوا ہے۔ لہذا اس واحد موقعے پر ڈبل گیم نہیں بلکہ سِنگل گیم!
کسے خبر تھی ہمیں راہبر ہی لُوٹیں گے
بڑے خلوص سے ہم کارواں کے ساتھ رہے
دو نوالے ہی ملے آنکھوں کا پانی بیچ کر
اپنی بوڑھی ماں کی خاطر ایک بیٹی شہر سے
لے کے آئ ہے دوا لیکن جوانی بیچ کر
سچ کہاں لکھے گا میرے دور کا تاریخ دان
جب وہ اپنا پیٹ بھرتا ہے کہانی بیچ کر
پوچھا جو میں نے حکمران کی امیری کا سبب
ملا جواب ۔۔۔ ابھی آیا ہوں امریکہ میں پاکستانی بیچ کر
حسن مجتييٰ صاحب کے خلاف باتيں کرنے والے دوغلے لوگوٰ جاگ جائو اس سے پہلے کہ کبھی نہ جاگ سکو،