سرحدوں کی نہ پاسبانی کی
جس طرح پچھلے ہفتے کراچی میں پاک بحریہ کے مہران بیس کی شاہ فیصل کالونی نمبر پانچ اور کچی آبادی کے ساتھ بہتے پندرہ فٹ گندے نالے سے دہشتگرد حملہ آوروں نے 'سیسہ پلائی دیوار' پھاند کر شب خون آ کر مارا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ سمندر تسخیر کرنے والی نیوی نہ بلکہ انسداد ملیریا کا محکمہ تھا جو مچھروں کی فوج ظفر موج کے آگے بے بس ہوچلا ہو۔
اسے دیکھ کر بس حبیب جالب یاد آتے ہیں:
'سرحدوں کی نہ پاسبانی کی
ہم سے داد لی جوانی کی'
فرض کریں کہ اسامہ بن لادن کی موت کے انتقام کی کارروائی نہیں بلکہ نیوی کے اندر ناشتے پر آبدوز کھاجانے والی بڑی مچھلیوں کے درمیاں پی سی اورئين طیاروں کی کمیشن پر جھگڑا تھا؟ بہرحال ا س بحریہ کی میت بھی سمندر میں ڈوب گئی ہے۔ نیوی نل بٹہ نل نکلی۔
یہ کارساز کے کاروباری لوگ ہیں پارک، شادی ہال ، بیکریاں، پیٹرول پمپ اور ناشتے کے سیریل بیچنے والے جو وزیر اعظم ہاؤس کے آہنی پھاٹک اور دیواریں پھاند کر ملک میں گیٹ کریش انٹری ڈالتے ہیں۔ کھڑاک سے کہتے ہیں 'عزیز ہموطنو اسلام علیکم۔'
وہ وقت تھا جب مٹھی بھر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے لیے ایک فرض شناس ایس ایچ او کافی ہوسکتا تھا لیکن اب تو تین ڈویژن فوج بھی ان کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ کیونکہ فوج نے اپنی ٹوکری میں جو انتہا پسند تنظمیوں کے انڈے رکھے تھے ان میں سے ہزاروں دہشت گرد پھوٹ نکلے ۔ اور پہلے مرغی تھی یا انڈہ ہے کے مصداق یہ اب ایک مائنڈ سیٹ بن چکے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
دیکھیے جب گھر میں چور ہوں تو باہر سے کوتوال تو نہیں آئے گا چور ہی آئے گاا
اگر باہر کے چوروں کو روکنا ہے تو اس چور کو پکڑنا ہوگا جو گھر کے اندر رہ کر باہر کے چوروں کو دعوت دیتا ہے
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہمیں اب بھی اپنی تمام آرمی پر بھروسہ بھی ہے اور فخر بھی
حسن بھائي!آپ نے بالکل صحيح منظر کشی کی ہے جس پر آپ داد کے مستحق ہيں۔اس حقيقی عکاسی و عوامی ترجمانی کرنے کا شکريہ۔اب ہم تو يہی کہہ سکتے ہيں کہ ان کی نااہلی کھل کرسامنے آگئی ہے۔يہ بات بھی درست ہے کہ يہ ان کے پالتو ہونہاروں کا کارنامہ ہے۔يہ بات بھی من کو بھاتی ہے کہ کھانے پينے کے چکر ميں يہ سب ہوا۔اب يہ بڑی بڑی باتيں کررہے ہيں کہ وہ بڑے تجربہ کار و شارپ شوٹر تھے۔سوال يہ ہے کہ انکو يہ تربيت دی کس نے؟کيا کوئی گھر کا بھيدی بھی تھا جس نے لنکا ڈھائي؟
مجتبی صاحب
آپ اتنے بڑے میڈیا نیٹ ورک سے منسلک ہیں۔ کھل کر لکھا کریں۔ اگر ہمت نہیں تو پھر رہنے دیں............
ارے حسن صاحب يہ ”انتہا پسند” مرغے”ديسی مرغے” ہيں جو مالک کے پاس رہنے ميں ہی عافيت سمجھتے ہيں اور مالک ان مرغوں کو اگلے آپريشن کے ”ريٹ” بڑہانے کيلۓ استعمال کررہا ہے---- ہاں يہ ہو سکتا ہے کہ دوچار مرغے خوراک کی کمی کی وجہ سے ادھر اُدھر بھٹک گۓ ہوں-
ويسے کمال کا بلاگ تحرير کيا ہے آپ نے داد دينا ہی پڑے گي----ليکن مجھے يقين ہے کہ دفاعي بجٹ اور دہشتگردي کے نتيجے ميں آنے والے ”ڈالروں” پہ موجيں کرنے والوں اور انہيں”پوجنے” والوں کو يہ تحرير بڑي”ناگوار” گزرے گی لہٰزا ” حملوں” کيلۓ تيار ہوجائيں
اگر ہمارے سياسی حکمران اور معزز جرنيل اپنی غلطیاں تسليم کرکے آئندہ انھيں نہ دہرانے کا وعدہ کريں تو پاکستان کو ابھی بھی بچايا جا سکتا ہے، ليکن وہ اپنی حماقتيں تسليم ہی نہيں کرتے، جيسے سابق صدر مشرف صاحب نےاپنے انٹرويو ميں فرمايا ہے کہ اگر ہم امريکہ کا ساتھ نہ ديتے تو وہ ہميں تباہ کر ديتا- گويا ہم نے ڈر کر امريکہ کا ساتھ ديا، ورنہ دہشت گردوں کو تربيت دينا، انھيں پناہ دينا اور انھيں اپنی سر زمين کو استعمال کرنے دينا کوئی حماقت نہيں تھي- انکی دانشورانہ باتوں سے يہ بھی نتيجہ نکلتا ہے کہ اگر امريکہ ميں افغانستان پر قبضہ کرنے اور ہميں دھمکانے کی صلاحيت نہ ہوتی تو ہم ابھی بھی وہی کام کر رہے ہوتے-
ارے مجتبی یہ کیا آپ آرمی پر لعن طعن کرنا شروع ہوگۓ ہو؟ یہ بھی بتادو کہ کس طرح بڑے ملک اپنی سیاست چھوٹے ملکوں میں چھکاتے ہیں اورر کس طرح اپنا اسلحہ بیچتے ہیں۔ باقی بات رہ گئ آرمی کی تو وہ آسماں سے تو نہکیں آئے۔ سب لوگ ادھر کے ہی ہیں۔
نیول چیف کہہ رہے ہیں کہ وہ دہشتگرد شارپ شوٹر اور اول درجے کے فائثر تھے۔ یمرا نیوی کو یہ مشورہ ہے کہ ایسے بڑہیا قسم کے دہشتگردوں کو سمندری محاذ کی حفاظت کرنے کیلیے بھرتی کریں اور خود چلتے بنیں۔
اس با ت سے تما م پا کستا نی نا لاں ہیں کہ ملک کو اس حالت میں پہنچا نے کے ذمہ دار یہ تما م حکمر آں اشرافیہ ہی ہیں
بلوچ نوجوانوں کی ڈرل مشین سے سوراخ کی ہوئی لاشوں پر بھی لکھنے کی جرئت کریں۔ گذشتہ فقط پانچ دنوں میں دس بلوچ نوجونوں کی لاشیں ملی ہیں۔
ایسا کچرا اخبار میں نے کبھی روئے زمین پر نہیں دیکھا۔
سچی بات یہی ہے جسے سب جانتے ہیں کہ کوئی انڈہ فروش اپنے انڈے نہیں توڑتا البتہ گندے انڈوں کو توڑا جاتا ہے۔اسی نیوی اور فوج کی بلوچستان میں آزادی پسندوں کے خلاف شاندار کارکردگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
کون کہتا ہے کہ پاک فوج بزدل ہے؟ بلوچستان ميں تيسری عالمی جنگ بس جيتنے والے ہيں
پورا ملک دہشتگردوں کے رحم و کرم پر ہے اور رحمان ملک نے ایک اور جوک سنایا ہے کہ دہشتگرد آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔
یہ بات کیسے ثابت ہوگی کہ پاکستان میں ہونیوالی دہشتگردی کے پیچھے طالبان یا القائدہ کا ہاتھ ہے؟
میرا ماننا ہے کہ دہشتگرد کوئی بھی ہے لیکن انکے پیچھےمبینہ طور صرف تین ممالک کا ہاتھ ہے امریکہ، اسرائیل اور انڈیا۔ پاکستان میں تمام ادارے اور استعماری طاقتیں تمام دہشتگردی کو طالبان اور القائدہ سے جوڑ ڈالتے ہیں لیکن ابھی تک امریکہ سمیت کوئی بھی کسی کبھی واقعے کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکا۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو صراط مستقیم پر لایا جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، فوج سیاست اور کاروبار کو بلکل چھوڑ دے، بحریہ ٹاون اور ڈیفینس ہاوسنگ کے منافع بخش منصوبے لپیٹ دیے جائیں، عسکری بینک، فوجی فاونڈیشن، این-ایل-سی، بیکری وغیرہ پرائوٹ سیکٹر کو فروخت کردی جائیں، اور فوج کو صحیح معنوں میں پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ خارجہ پالیسی مکمل طور پہ سول حکومت کو دے دے جائے-اسلام آباد میں 5 سال تک چیف جسٹس کی صدارت میں ایک وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، تمام حساس و غیرحساس ادارے سول حکومت کے تابع کئے جائیں، صوبوں کو آئینی حقوق لوٹائے جائیں، کرپشن کو بریک لگایا جائے، پھر دیکھئے گا یہ دہشت گردی اور افراتفری کا کالا جادو کیسے یکایک غائب ہوجائے گا- یہ سب کرنا مشکل نھیں, بس سب لوگ اس مختصر قومی ایجنڈہ پر مرتکز ہوجائیں اور “کالے جادوگر“ کے دل پر ایک آخری وار کردیں
‘تم ہی تجویز صلح لاتے ہو
تم ہی سامانِ جنگ بانٹتے ہو
تم ہی کرتے ہو، قتل کا ماتم
تم ہی تیر و تفنگ بانٹتے ہو‘
چ بلوچستان کے بارے میں شاید ہم نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے-گزشتہ دنوں انسانی حقوق کی ایک ٹیم بلوچستان ہوکر آئی ہے اس کہنا ہے کہ جن لوگوں کو گمشدہ یا بعدازاں بے دردی سے قتل کیا جارہاہے اُن کے لواحقین جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور بچوں کے پائوں ننگے ہیں۔پسنی میں ایک نوجوان کوپاکستان کی بہادر ایجنسیوں نے اغواء کے بعد قتل کیا اس کے مکان کی تصویر بلوچستان کے ایک اخبار نے شائع کی کجھور اور دیگر گھاس پھونس کے پتوں سے بنی ہوئی تھی تصویر کیپشن بلوچ کے غریب شہید ہیرو کی رہائش گاہ درج تھی ۔۔۔۔۔۔ہماری فوج ان کے خلاف لڑ رہی ہے جن کو سر چھپانے کو ٹھکانہ نہیں اور ہم اسے عالمی جنگ قرار دے رہے ہیں، اگر ہمیں مستقبل میں ایشیاء کے نازی کا خطاب نہیں حاصل کرنا تو ہمیں فوج پر بلوچستان میں بلوچیوں کی نسل کشی بند کر نے کے لیے میدان میں نکل کر انسانی حقوق کے ان سہمے ہوئے اداروں اور بی بی سی کے نڈر صحافیوں جیسے اہل قلم کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ورنہ خدا حافظ پاکستان کا ۔
اگر اسامہ کی ہلاکت کے بعد انتقامی کاروائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر نام نہاد اور خود ساختہ “دہشتگردی کے خلاف جنگ“ کو جاری رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ “کے جی بی“ یا “ایم سولہ“ اپنی شکست کا بدلہ لینے کی بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے گی اور کوئی بھی انتقامی کاروائی نہیں کرے گی؟ حالانکہ سن اسی کی دہائی میں امریکی صدر رونلڈ ریگن کے دورِ صدارت کے شروع سے ہی امریکی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ عالمی سطح پر دہشتگردی کے پسِ پشت روس کا ہاتھ ہے۔ اب کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے لہذا اس میں سکت ہی نہیں اٹھنے کی۔ تو یہ منطق بھی اس لیے قرین قیاس قرار نہیں دی جا سکتی کہ زخمی شیر، صحتمند شیر کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ایک وقت ہوتا تھا جب مٹھی بھر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے لیے ایک فرض شناس پولیس آفیسر ہی کافی ہوتا تھا لیکن اب تین ڈویژن فوج بھی ان کے آگے بے بس نظر آتی ہے اور اس کی مثالیں، کشمیر کی وادیوں، افغانستان کے بیابانوں اور پاکستان کے سبزہ زاروں میں دہشتگردوں کی کامیاب کاروائیوں سے عیاں ہیں۔ لیکن یہاں سوچنے کی بات ہے کہ جب دہشتگروں کے خلاف ایک ایس ایچ او ہی کافی ہوتا تھا تب کسی ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں دوسرے ممالک کا مفاد پوشیدہ نہیں ہوتا تھا، تب حکومتیں اُلٹنے کے لیے دہشتگردی کا سہارا نہیں لیا جاتا تھا، تب مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے دہشتگردوں سے ہنگامے نہیں کروائے جاتے تھے تاکہ ملک کو داخلی انتشار کا شکار ثابت کیا جا سکے، تب تشدد اور تباہی کے ذریعے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کا رواج نہیں ہوتا تھا، تب “بوری بند کلچر“ کی دہشت نہیں تھی، تب آتشیں اسلحہ سرِ عام نہیں بکتا تھا۔ تب پولیس اور فوج میں کرپشن نہیں تھی۔ ان حالات و واقعات و حقائق و تبدیلیوں کے پیشِ نظر فوج، نیوی اور سیکورٹی اداروں پر دہشتگرد حملوں کو فوج کی کمزوری و نااہلیت سے مشروط کرنا حقائق و حالات پر پردہ پوشی اور عوام الناس کی آنکھوں میں دن دھاڑے دھول جھونکنے کی ایک منحنی سی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہلا سکتا۔
‘ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی‘
مجھے تو لگتا ہے اب تو ہماری آرمی کے جوان بھی مایوس ہوگئے ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ آرمی میں لوگ جاتے تھے کہ ہم پاکستان کے دشمنون سے لڑیں گے۔ اب آرمی والے ضرور سوچتے ہونگے کہ ہم کس سے لڑ رہے ہیں؟ ہمارا دشمن کون ہے؟ ہمیں لگنے والی گولیاں کہاں سے آرہی ہیں؟ آرمی کا جذبہ تو اسکی اصل طاقت ہے وہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف جو کہ روز اول سے پاکستان کے موجودہ مسائلن کی واحد وجہ ہیں کی میزبانی اب برطانیہ کر رہا ہے۔ اور اسی طرح بی بی سی انکی میزبانی کر کر انکے ایجنڈا کو آگے بڑھا رہی ہے۔
.
پاکستان میں ہونے والے ہر بڑے حادثے کو بی بی سی کے بلاگرز یا رپورٹرز طنزیہ انداز میں بیان کرتے ہیں
جبکہ باقی دنیا میں کہیں بھی ہونے والے معمولی واقعے کو بھی بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں۔ کئی دفعہ تو صرف شک ہوتا ہے کہ کہیں فلاں ملک میں مشکوک لفافہ مل گیا ۔ بی بی سی میں ملازمت کرنے والے صحافی یا رپورٹر غیر چانبدار یا نیوٹرل رہ کر کام کیوں نہیں کرتے؟
سلیم شہزاد سے میری آخری ملاقات چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں نہیں بلکہ تقریباً بارہ سال پہلے ہوئی تھی جب میں نے تازہ تازہ صحافت چھوڑی تھی اور وہ نیا نیا دنیائے صحافت میں آیاتھا۔ روزنامہ اسٹار جب اس نے جوائن کیاتھا تو میں اسٹار چھوڑ کر سرکاری ملازمت شروع کرچکا تھا اور اب تک ایک سرکاری ادارے میں ہی ہوں۔ وہ اکثر میرے دفتر آتا تھا اور دھانسو قسم کی خبر کا تقاضہ کرتا تھا جو ظاہر ہے سرکاری شعبے میں نووارد ہونے کے باعث اُس وقت میرے پاس بالکل نہیں ہوا کرتی تھی۔ کچھ عرصے وہ میرے پاس آتا رہا اس کے بعد اپنی صحافتی ذمہ داریوں میں بہت زیادہ مصروف ہوگیا۔ دو تین سال بعد پتہ چلا کہ وہ اسٹار کے نمایاں رپورٹرز میں شمار کیا جانے لگا ہے پھر میں نے سنا کہ وہ اسلام آباد منتقل ہوچکا ہے اور عالمی سطح کی صحافت کرنے لگا ہے۔ اس کے بعد میں اپنی سرکاری ملازمت میں اتنا مصروف ہوا کہ کبھی بات چیت کا بھی موقع نہ ملا۔ ایک ہفتہ پہلے اس کے غائب ہونے کی خبر پڑھی تو یہی سوچا کہ حسب معمول جس طرح صحافیوں کو تفتیش کے لیے اُٹھایا جاتا ہے ایسا ہی کچھ اس کے ساتھ ہوا ہوگا اور یہ کہ کر دل کو تسلی دی کہ اللہ خیر کرے گا۔ دو تین روز بعد جب اس کی موت کی خبر پڑھی تو پیروں تلے زمین نکل گئی، یہ تو میں جانتا تھا کہ وہ انتہائی حساس موضوعات پر بڑی بے باکی سے لکھنے لگا تھا لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ سزا اتنی سنگین ہوگی، جس دن سے وہ اس دنیا سے گیا ہے اُس کا ایک ہی جملہ بار بار یاد آرہا ہے کہ کوئی دھانسو سی خبر دو یار۔ آج میں ایک پکی نوکری کے مزے لوٹ رہا ہوں جہاں جتنا کم سچ بولا جائے اتنا ہی بندہ کامیاب ہے جبکہ وہ سچ کو گلے لگائے اگلے جہاں جا چکا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں صحافیوں کے پے درپے قتل کے بعد میں یہی سوچنے لگا ہوں کہ اگر میں آج دنیائے صحافت میں ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کا شکر ہے اب میں صحافی نہیں ہوں۔