| بلاگز | اگلا بلاگ >>

سب کے گال سرخ ہو چکے تھے

اسد علی | 2006-09-14 ،16:13

ایک روز میں جامعۂ لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ ایفرو سٹڈیز کے سامنے سے گزرا تو بہت سے طالب علم دھوپ کے مزے لوٹتے ہوئے نظر آئے۔

سکول کی بار خالی تھی اور ہر کوئی اپنا اپنا مشروب لیئے سبزہ زار میں موسم گرما کی خوبصورت شام سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

rave_203.jpg


میری چھٹی حِس نے کچھ بھانپا اور میں قریب ہی ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ سامنے والی بنچ پر چار پانچ لڑکے لڑکیاں بیٹھے تھے۔ ایک لڑکے نے اپنا گِٹار اٹھایا گانا شروع کر دیا۔ اس کا تعلق اٹلی، ہسپانیہ یا لاطینی امریکہ کے کسی ملک سے تھا۔ وہ جس بھی زبان میں گا رہا تھا اچھا تھا۔ اس کے گانے میں وہی تاثر تھا جو کسی بھی خوبصورت رومانوی گیت یا میں ہوتا ہے۔ ایک کے بعد ایک گیت گاتا گیا۔ جب اس کا دِل بھر گیا تو اس نے گٹار زمین پر رکھا اور اپنا گلاس اٹھا لیا۔ وہاں موجود درجنوں لڑکے لڑکیاں دوبارہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو گئے اور میں بھی آکسفورڈ سٹریٹ کی طرف بڑھ گیا۔

اس دن مجھے سوٹزرلینڈ میں گزری موسیقی کی ایک اتنی ہی خوبصورت لیکن سرد شام یاد آ گئی۔ دو تین سال قبل میں ایک ویک اینڈ پرگیا۔ شام کو یوتھ ہاسٹل پہنچا جہاں مجھے فرانسیسی زبان بولنے والے درجنوں طالب علم نظر آئے جو اپنے اساتذہ کی زیر نگرانی سیر کرنے آئے تھے۔

عشایئے کے بعد سولہ سترہ سال کی عمر کے ان درجنوں طالب علموں کا ہجوم اپنے اساتذہ کے ساتھ باہر جاتا نظر آیا۔ میں ان کے پیچھے چل پڑا اور ان کے ساتھ ایک بار کے تہہ خانے میں پہنچ گیا۔ کافی وسیع کمرہ تھا۔ ایک طرف دائرہ نما ڈانس فلور تھا۔ کونے میں بڑا سا پیانو پڑا ہوا تھا۔وہاں کے قانون کے تحت بالغ شخص کی نگرانی میں آنے والے سولہ سال کی عمر والوں کو بھی شراب بیچی جا سکتی تھی۔ سب نے اپنا اپنا مشروب لیا اور ٹولیوں میں بٹ گئے۔

اساتذہ نے لمبے لمبے کوٹ پہنے ہوئے فِلمی کردار لگتے تھے۔ میری ان سے کچھ غیر رسمی سی بات چیت بھی ہوئی جو مجھے یاد نہیں۔ اتنے میں ایک استاد نے کے سامنے پڑی کرسی سنبھال لی اور اسے بجانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں طالب علم ڈانس فلور پر جمع ہو گئے۔ موسیقی تیز ہوتی گئی اور ساتھ ساتھ ڈانس کی رفتار بھی۔

سب لڑکے لڑکیوں کے گال سرخ ہو چکے تھے۔ وہ دو دو کے گروپ میں فلور پر آتے اور ناچ کے جوہر دکھا کر پیچھے ہٹ جاتے۔ ہر جوڑا ایک سے زیادہ بار فلور پر آیا۔ موسیقی خوبصورت تھی اور سب پوری توانائی اور مستی سے حرکت کر رہے تھے۔ ہر جوڑے میں ہم آہنگی ناقابل یقین تھی۔ کچھ ہی دیر میں ایسا معلوم ہونے لگا تھا کہ سب وہ کٹھ پتلیاں ہیں اور ان کی ڈور پیانو پر بیٹھے استاد کے ہاتھ میں۔ اس نے جس رفتار سے اور جتنی دیر چاہا انہیں نچایا۔ جیسے ہی اس نے کی بورڈ سے انگلیاں اٹھائیں تو ایسے لگا جیسے سب بلندی سے زمین پر آ گرے ہوں۔

میں بار کے قریب ایک سٹول پر بیٹھا خاموشی سے یہ خوبصورت منظر دیکھتا رہا۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں تازگی کے احساس کے ساتھ ان کے پیچھے چلتا ہوا یوتھ ہاسٹل واپس آ گیا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:09 2006-09-14 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    کيا بات ہے اس پتلی تماشے کی۔ ويسے يہ دنيا بھی تو ايک پتلی تماشہ ہی ہے۔
    اپنا خيال رکھيئے گا۔
    خير انديش

  • 2. 22:46 2006-09-14 ,فدافدا :

    واہ چودھری صاحب کيا بلاگ لکھ ديا۔ حق ادا کر ديا۔ جيسے سہگل کو گاتے سنا’سر انسان بنا ديتا ہے‘، سُر کی آگ ميں جلنے والے ديوانے نادان نہيں‘۔ يعني کہ چوہدری صاحب عبادت کھلی فضاؤں ميں بھي ہوتي ہے

  • 3. 23:46 2006-09-14 ,جاويد گوندل :

    محترم چودھری صاحب
    آپ گاؤں کی ياديں باتيں لکھتے سجتے ہيں ۔اس طرع کی محفليں تو يہاں قدم قدم پہ ہوتی ہيں مگر اس ميں اسقدر رومانس نہيں ہوتا يہ سب آپکی نظر کا قصور تھا آئيندہ اکيلے گھومنے سے احتراز کيجيئے گا - آپ کو سولہ سترہ سال کے ’ٹين ايجرز‘ کا پيچھا کرنے کی ضروت کيوں پيش آئي؟ کيا يہ عمرِ رفتہ، عہدِ رفتہ کو آواز دينے کی کوشش تھي؟ اور آخر آپ کو اُن سے کی گئی غير رسمی گفتگو کيوں ياد نہيں رہی جبکہ ان کی محفل کا رومانس ياد رہ گيا جبکہ آپ کا ہر دوسرا بلاگ ياد کے حوالے سے ہوتا ہے-
    خير انديش

  • 4. 1:50 2006-09-15 ,اے رضا :

    استنبول ميں دوران ملازمت، اکتيس دسمبر کي شام، نيو ائرسٹاف پارٹی ہُوا کرتی تھی جس ميں چھوٹے بڑے سب اپنے ساتھي کے ساتھ مدعوہوتے تھے- کھانے اور فلورشو کے بعد بزُرگ حضرات سال نو کي مبارکباد کے ساتھ رُخصت ہوجاتےتو ' زمانہ ' نوجوانوں کا ہوتا -

    ايسی ہی ايک پُرانی ياد تازہ کر دی آپ نے.....ليکن اس احساس کے ساتھ ... کہ گويا کُچھ ادھُورا رہ گيا ہو-

    آج سے پندرہ برس بعد...اسي قسم کے کسي مُمکنہ تاسف سے بچنے کے لیۓ بہتر ہوگا... کہ آئندہ اس طرح مت لوٹيۓگا !

    ڈانس ضرُور کيجيۓگا!

  • 5. 1:59 2006-09-15 ,muhamad rizwan :

    میں نہیں سمجھ سکا کہ اس بلاگ کا مقصد کیا تھا۔ کیا اپ بغیر کسی مقصد کے کچھ لکھ رہے ہیں یا صرف شراب نوشی کو خوبصورت انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ اس سے لکھنے والا ذہنی مریض ظاہر ہوتا ہے۔

  • 6. 2:10 2006-09-15 ,azfar Khan :

    چودھری صاحب یہ گورے لوگ زندگی کا مزہ کر رہے ہیں اور ہم لوگ مولوی، ملا جنت اور دوزخ۔ آپ کبھی نہ آنا پاکستان اور وہیں موج مارنا۔

  • 7. 4:13 2006-09-15 ,Rana :

    چودھری صاحب آپ بھی ڈانس کی کوئی کلاس لے لیں۔

  • 8. 4:53 2006-09-15 ,راجھ عمران :

    بیکار اورفضول بات لکھنے کی کيا ضرورت تھی۔

  • 9. 5:43 2006-09-15 ,Mian Asif Mahmood :

    اسد علی صاحب اتنے اچھے مضمون کے لیئے شکریہ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس طرح کی محفلیں سے ہر وقت لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔ کیا وہاں حدود آرڈیننس ، القاعدہ اور طالبان جیسے مسائل نہیں ہوتے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے طالب علموں اور استاذہ میں بھی اسی قسم کے روابط پیدا ہوں۔

  • 10. 5:44 2006-09-15 ,لائق تھيبو :

    اس بلاگ سے يہ بات مزيد واضح ہو گئی کہ مغرب کے تعليمی نظام ہمارے نظام سے بالکل الگ اور آگے ہیں۔ وہاں استاد اور شاگرد کے بيچ ايک گہرا رشتہ ہے وہ فرينڈلی ہونے کي وجہ سے ايک دوسرے سے بہتر انداز ميں کميونيکيٹ کر سکتے ہيں- ہمارا تعليمی نظام جھوٹی اور دقيانوسی روايات پر مبنی ہونے کي وجہ سے بالکل بيکار اور ناکارہ بن چکا ہے- ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک کے سارے دانشور حضرات اس سلسلے ميں آگے آکر اپنا کردار ادا کريں اور اس نظام کو بدليں-

  • 11. 6:01 2006-09-15 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمی اسد صاحب
    ميں آپ کے اس بلاگ کا کيا مطلب لوں، کيا آپ مو سيقی، شراب نوشی، ڈانس اور بیہودگی کو روح کی غزا سمجھ رہے ہيں يا پھر اساتذہ کی بے عزتی کر رہے ہيں، يا پھر آج کی نوجوان نسل پر تنقيد کر رہے ہيں - آپ نے جو کچھ لکھا اس ميں اپنا کوئی موقف واضع نہيں لکھا، لگتا ہے کہ آپ بھی ’بش ہاؤس‘ ميں رہ رہ کر مغربی ہو چکے ہيں ، ورنہ يہاں پر آپ مشرق، مغرب، اسلام اور غيرمسلم کا خوبصورت تجزيہ پيش کر سکتے تھے مگر آپ نے ون وے ٹريفک چلادی۔

  • 12. 6:16 2006-09-15 ,Fida Hussain Gulzari :

    جو نقشہ آپ نے کھينچھا ہے اس سے لگتا ہے کہ سٹوڈنٹس کو يورپ ميں اپنے آپ کو اظہار کرنے کی کتنی آزادی ہے۔ ايسے ہی ماحوں سے انسان کی تخليقی صلاحيتيں ابھر کر سامنے آتی ہيں۔ مقابلتاً ہمارے ہاں ايسا ماحول ميسر نہيں۔ (ميں غريب سرکاری سکولوں کی بات کر رہا ہوں۔ اميروں کے سکولوں کی نہيں ) سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں کے ماحول ميں زمين اور آسمان کا فرق ہے۔ بلکہ سارے مسلمان ملکوں ميں مذہبی سول اور جاگيردار قسم کے آمروں نے لوگوں کی ذہنی نشوونما اور صلاحيتوں پر شب خون مارا ہوا ہے۔

  • 13. 7:06 2006-09-15 ,عمر دراز :

    صاب کیوں ہم غریبوں کو دوسری دنیا کی خوش رنگ داستانیں سناتے ہو۔ ہم تو دال روٹی کے چکر سے ہی فرصت نہیں ہے۔

  • 14. 8:04 2006-09-15 ,sana khan :

    آپ نے اپنا نہيں بتايا کہ کتنی دير تک ڈانس فلور ہلاتے رہے؟ مجھے تو اميجن کر کے ہی اتنا اچھا لگ رہا ہے اور ميری چھٹی حس کہتی ہے کہ آپ نے بھی دو يا تين پنجابی گانے تو ضرور سنائے ہونگے۔ ويسے آپ اس لاطينی امريکن، ہسپانوی يا اٹيلين کا نام پتہ مصدق بھائی کو دے ديں وہ پھر ضرور حسب معمول ’ايک شام گٹارسٹ کے نام‘ کا اہتمام کر دينگے ملٹی ميڈيا پر۔ يہ کوئی اچھی بات نہيں کہ جہاں ميوزک سنا چل پڑے۔ پيک فرين کی اسٹوری پڑھی ہے ناں؟ ہر بينڈ باجے کے پيچھے نہيں چلنا چاہيے۔۔۔مفت مشورہ!

  • 15. 8:24 2006-09-15 ,Abdul-Rahim Ahmad :

    آپ کو اس تہہ خانے کی جگہ کھلی ہوا میں زیادہ تازگی ملی ہوتی۔۔۔

  • 16. 10:36 2006-09-15 ,Allah ka banda :

    استغفراللہ۔ کاش بی بی سی میں کسی تبلیغی جماعت کے روح پرور تجربات پے مبنی بلاگز بھی شائع ہوں۔ اس یکطرفہ صحافت کے نتیجے میں ہی الجزیرہ، المنار جیسے چینل وجود میں آتے ہیں۔

  • 17. 11:29 2006-09-15 ,جويريہ صديق :

    اسد آپ نے بالکل صحيح کہا کہ استاد کے ہاتھوں ميں طالب علموں کی ڈور ہوتی ہے جس طرح چاہيے ان کی شخصيت کو کسی بھی سانچے ميں ڈھال ديں۔ ويسے تو سارے اساتذہ کرام نہايت ہی لائق فائق اور قابل ہوتے ہيں ليکن اگر اس کے ساتھ اگر وہ خوش گفتار، خوش اخلاق، خوش لباس اور فرينڈلی بھی ہوں تو سونے پر سہاگہ ہو جائے۔ اسد پتہ نہيں کيوں اکثر ہمارے استاتذہ نے اپنے آپ کو رعب اور سختی کے خول ميں بند کر کے رکھا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے طالب علم ان سے کچھ سيکھنے کی بجائے سارا وقت ان سے ڈرنے ميں گزر جاتا ہے۔ اگر اساتذہ کرام دوستانہ ماحول ميں پڑھائيں تو طالب علم ان سے زيادہ پيار کرتے ہيں اور ان سے زيادہ سيکھتے ہيں۔ ميرے استاتذہ ميں ميڈم ريحانہ، ميڈم انيلا اور ميڈم عارفہ نہايت ہی خوش اخلاق، طالب علموں کی نفسيات کو سمجھنے والی۔۔۔ان کی سنگت ميں طالب علم کو سانس کو روک کر نہيں بيٹھنا پڑتا اور ان کی کلاس ميں آزادی رائے کا پورا حق حاصل ہے۔ ايسے استاتذہ کے طالب علم زيادہ اچھی کارکردگی دکھاتے ہيں۔ استاد اور طالب علم ميں دوستانہ رشتے کا ہونا بہت ضروری ہے۔

  • 18. 14:25 2006-09-15 ,Muhammad Shoaib :

    اسد صاحب دنیا کی شراب سے کیا حاصل ہمیں تو اس جام کا انتظار ہے جو کہ انشاللہ بروز قیامت حوض کوثر پر حضور(ص) کے ہاتھوں پینا ہے۔
    محمد شعیب

  • 19. 16:47 2006-09-15 ,عطا :

    جناب اسد صاحب
    کيا ہی اچھا ہوتا اگر اپ يہ بلاگ نہ لکھتے۔ آپ نے بی بی سی کی ویسب سپیس اور لوگوں کا وقت ضائع کیا ہے۔

  • 20. 0:04 2006-09-16 ,nadia ch :

    یہ طالب علمی کے زمانے کی خوبصورت مثال ہے۔ مغرب میں طالب عمی میں بہت آزادی ہوتی ہے مگر یہاں بھی پروفیشنل کالجوں میں اس کی جھلک ملتی ہے۔ مجھے اپنے میڈیکل کالج میں گزرے دن یاد آ گئے۔ نوجوان چہروں پر جوانی کی امنگ ہمیشہ اچھی لگتی ہے۔

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔