| بلاگز | اگلا بلاگ >>

پولیس اور ہم

عنبر خیری | 2006-12-19 ،22:52

ایک پولیس افسر کے حالیہ قتل کی خبر سن کر بڑا افسوس ہوا۔ وہ اس لیے کیونکہ میں پاکستان کے ان چند افراد میں شامل ہوں جو پولیس والوں کو انسان سمجھتے ہیں۔


یہ شائد اس لیے کیونکہ میں نے شادی کی تھی ایک اے ایس پی سے اور میں نے قریب سے ان اہلکاروں کی زندگیاں دیکھی ہیں۔ ٹھیک ہے پولیس میں بے شمار بے ایمان اور بدعنوان افراد ہوتے ہیں لیکن ایسے افراد تو ہر شعبے میں ہوتے ہیں، صحافت میں بھی۔

بس مجھے یہ یاد ہے کہ یہ ایک انتہائی سخت اور مشکل زندگی تھی۔ لوگ یہ دیکھ کر جلتے تھے کہ ہمیں اردرلی اور گھر ملا ہوا تھا لیکن یہ نہیں سوچتے تھے کہ ہمارا مہینے کا گزارہ کتنی مشکل سے ہوتا تھا۔

police_166.jpg

تنخواہ میں تو وردی کی دھلائی اور استری کے پیسے بھی مشکل سے پورے ہوتے تھے۔ پھر مہمانداری کے خرچے الگ۔

لیکن پیسے کی تنگی سب سے مشکل بات نہیں تھی۔ سب سے مشکل تو یہ تھا کہ یہ ایک انتہائی خطرناک نوکری ہوتی ہے اور اس میں آپ کا واسطہ زیادہ تر جرائم پیشہ اور برے لوگوں سے پڑتا ہے۔

اگر آپ قانون کی بالادستی قائم کرنا چاہیں تو ہر طرف سے مخالفت ہوتی ہے۔ خطرناک اور مطلوب مجرموں کی رہائی کی سفارشیں ’اچھے‘ لوگ لے کر آتے ہیں جن میں حکومتی اہلکار، سیساتدان اور فوجی افسران بھی شامل ہوتے ہیں۔

سفارش پر زیادہ توجہ نہ دیں تو یہ سفارشات دھمکیاں بن جاتی ہیں۔

اور دھمکیاں صرف ’اعلی اہلکاروں‘ سے نہیں ملتیں بلکہ لاک آپ میں کسی انتہا پسند تنظیم کاوہ دہشت گرد بھی سپاہیوں کو سمجھاتا ہے ’مجھے تو عدالت رہا کر دے گی لیکن یاد رکھو مجھے معلوم ہے تم کہاں رہتے ہو اور تمھارے بیوی بچے کہاں ہوتے ہیں۔‘

ہر وقت خطرہ ہوتا ہے۔ اور پریشانی۔

اگر کوئی کام ٹھیک ہو جائے تو اس کا کبھی ذکر نہیں ہوتا حالانکہ اس میں کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنی پڑی ہو۔

لیکن اس سب کے باوجود اس پولیس فورس میں بہت جرات مند اور بہادر پولیس والے ہیں۔ اور وہ اپنی نوکری کے ہر دن اور ہر لمحہ جرائم پیشہ لوگوں کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔

پولیس والے تو دنیا کے کسی ملک میں پسند نہیں کیے جاتے۔ کیونکہ ان کا کام ہی پاپیولیرٹی والا نہیں ہوتا۔ لیکن ہمیں کم سے کم یہ تو پہچانا چاہیے کہ ان لوگوں کی نوکری کی نوعیت کتنی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:28 2006-12-21 ,محمد طا ھر ا مين :

    متفق بلاً خر

  • 2. 13:18 2006-12-21 ,tariq zaman :

    آپ کی بات اپنی جگہ صحیح لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ جب کوئی پولیس میں آتا ہے کیا اسے نہیں معلوم کہ اس کی تنخواہ کیا ہوگی؟ اگر اتنی کم تنخواہ پر لوگ کام کرنا چھوڑ دیں تو یقیناً حکومت کو سوچنا پڑے گا کہ ذمہ دار شخص کی کیا ضروریات ہو سکتی ہیں۔ کم تنخواہ ایک شکایت ہو سکتی ہے پر یہ ظلم اور زیادتی کا ساتھ دینے کے لیے حجت نہیں بن سکتی۔

  • 3. 13:23 2006-12-21 ,Ahmad Hasan :

    اپ کو شايد ا ندازہ نھيں ہے کہ لو گ عا بد علی سے کتنی محبت کر تے تھے ـ خد ا ا ن کے بچوں کو سلا مت رکھے ـ آمين

  • 4. 13:54 2006-12-21 ,Sajjadul Hasnain :

    عنبر جی -ہر شعبے ميں اچھے اور برے آدمی ہوتے ہيں - دنيا جہاں برے آدميوں سے بھری پڑی ہے وہيں اچھے انسان بھی موجود ہيں -وہ کہتے ہيں نا کہ قہر خداوندی صرف انہيں علاقوں ميں نازل ہوتی ہيں جہاں گناہ اپنی حديں عبور کرجائيں -گويا ابھی بھی دنيا اچھے انسانوں کا مسکن ہے اور برائياں بہت ہونے کے باوجود نہ کہ برابر ہی کہلائينگي- رہا پوليس کا محکمہ تو ظاہری بات ہے يہ محکمہ بنا ہی برائيوں کو ختم کرنے کے لیے مگر نہ جانے کيوں اس کے ذمہ دار ہی برے قرار دے ديے گئے صرف پاکستان ہی نہيں ہندوستان ميں بھی تھانے يا پوليس کے نام سے لوگ کان پکڑتے ہيں- اور ايسا ہوتا بھی ہے کہ اگر کوئی شريف آدمی کسی چکر ميں پھنس کر پوليس کے چکر ميں پھنس جائے تو جان چھوٹتی ہے بڑی مشکل سے۔ مگر اس کا يہ مطلب نہيں کہ ہر پوليس والا برا ہوتا ہے-فسادات کے دوران ميں نے برے کم اور اچھے زيادہ ديکھيے ہيں اور کئی ايسے عہديداروں کو ديکھا ہے جو پريشان حال لوگوں کی مدد کرتے نظر آتے ہيں اگر واقعات گنانے بيٹھوں تو بات طويل ہوجائے گي۔ پاکستان کے تعلق سے انڈيا ميں عموماً يہی تاثر ہے کہ وہاں کی پوليس بڑی خراب ہوتی ہے راشی ہوتی ہے اور ظالم و بے رحم بھی۔ لاہور ميں ميرے ماموں رہتے ہيں اور ابھی تک ميرے جتنے بھی رشتے داروں نے ان سے ملنے کے لیے لاہور کا سفر کيا ان ميں ايک بھی ايسا نہيں ملا جس نے پاکستانی پوليس کی تعريف کی ہو مگر شميم صاحب کے بلاگ پر جو ردعمل آئے ہيں ان ميں تصوير کا دوسرا رخ بھی واضح ہوجاتا ہے اور پھر آپ نے جو بتايا يہ بھی تو پوليس کے اچھے پہلو کی جيتی جاگتی مثال ہے ۔
    سجادالحسنين،حيدرآباد دکن

  • 5. 14:13 2006-12-21 ,'Joseph Brewster' :

    محترمہ عنبر خیری صاحبہ، سب سے پہلے السلام علیکم
    آپ نے بڑے اچھے دلائل دیئے ہیں لیکن ایک حرام کھانے والا انسان حرام خور اور کسی دوسرے کی محنت پر حق جتانے والے کو ’پیراسائٹ‘ کہا جاتا ہے۔ کسی دہشتگرد یا تنظیم کے لیڈر سے دھمکیاں صرف پاکستان میں نہیں ملتیں، بیرون ممالک میں بھی پولیس جب کسی ہائی پروفائل شخص کو پکڑتی ہے تو انہیں بھی شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پولیس والوں کا معیار یہی ہے کہ وہ صرف کوڑیوں کے بھائو میں بکتے ہیں جس کی مثال آپ کو کورنگی قیوم آباد روڈ پر کھڑے ان اہلکاروں سے مل سکتی ہے جو کہ محض 20 روپوں کے عوض بس ڈرائیور حضرات کی لاقونیت پر آنکھیں بند کردیتے ہیں۔ جو کچھ آپ نے بھی کہا ہے وہ رحم اور احساس آپ کو صرف اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ آپ کے شوہر پولیس فورس میں ہیں اور کوئی آپ کو تنگ نہیں کرتا، لیکن آپ ایک عام انسان کی طرح سوچ کر دیکھیں تو ہی آپ کو اس غریب ترین شخص کا احساس ہوگا جو کہ ٹھیلا لگاتا ہے اور پولیس والا اس سے مفتے میں سامان لے جاتا ہے۔ امریکا میں ایک پولیس اہلکار کو عام شہریوں کا بیسٹ فرینڈ تصور کیا جاتا ہے، آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں ایک پولیس اہلکار کو کیوں بیسٹ فرینڈ کا درجہ نہیں دیا جاتا۔
    رہی بات کام کی کہ کوئی کام اچھا ہوجائے تو اس پر کوئی شاباشی نہیں ملتی، تو اس کے جواب میں، میں یہ کہوں گا کہ ایک پولیس اہلکار کو اچھا کام کرنے کا ہی معاوضہ ملتا ہے۔
    میں خود ایک صحافی ہوں اور آپ کی طرح اس بات کا قائل ہوں کہ زندگی کے ہر شعبے میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں لیکن جب تک ایک انسان کا ضمیر زندہ ہوتا ہے اس وقت تک آپ کو دنیا کی کوئی برائی چھو نہیں سکتی۔

  • 6. 14:16 2006-12-21 ,ajmal usmani :

    میرے ایک دوست پنجاب پولیس میں ایس ایس پی ہیں۔ وہ کراچی کے ہیں لیکن پانچ سال سے وہ واپس کراچی نہیں جا سکے ہیں، مالی مشکلات کی وجہ سے۔

  • 7. 15:18 2006-12-21 ,ظہوراحمد سولنگی :

    آج بھی پولیس میں کافی ایماندار اور فرض سناس افسران موجود ہیں لیکن ان کی تعداد اّٹے میں نمک کے برابر ہے، ہاں اب بھی خادم رند، اے ڈی خواجہ، غلام نبی میمین ثناء اللہ عباسی جیسے لوگ اب بھی موجود ہیں، ایک تو پولیس والوں کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں اور اوپر سے ان کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا ہے، ہمیں بچبن میں ڈرانے کے لئے پولیس کا نام لیا جاتا تھا۔ اصل مسئلہ پولیس نظام کا ہے پورے کو تبدیل کیا جائے اور رشوت کلچر کو ختم کرکہ ان کی تنخواہیں بڑاہائی جائیں۔ جس طرح اسلام اّباد میں ماڈل پولیس کا نطام لایا گیا ہے اسی طرح پورے ملک میں پولیس سسٹم کی اصلاح کی جائے۔
    ظہوراحمد سولنگی
    اسلام اّباد

  • 8. 18:16 2006-12-21 ,فدافدا :

    شکريہ اپ نے ميرے دل کی بات کہی سارے پاکستان کی پوليس قابل تعريف مگر سرحد پوليس دنيا ميں لاثاني_آج کی دہشت گردی کا عالم ہو يا1975 ميں افغان جاسوسوں کے دھماکے سرحد پوليس ہمہ تن تيار رہی ہے دہشت گردی کی تاريخ ميں دھماکہ خير موارد بم ماينزاور ٹائم بم وقت پرناکارہ کر دکھانے کا عالمی ريکارڈ سرحد پوليس کے سر ہے جس سے لاکھوں جان ومال کا بچاو ممکن ہوا ہاں مگرکبھی نہ جان کی پرواہ کی نہ صلے کي۔

  • 9. 18:46 2006-12-21 ,عثمان :

    يہ آپ سے کس نے کہۂ ديا کہ”پوليس والے تو دنيا کے کسی ملک ميں پسند نہيں کيے جاتے” يہاں کينيڈا ميں تو پوليس کی بہت عذت کی جاتی ہے۔ اور يہ مقام اُنھوں نے اپنےکام اور رويے کی وجہ سے حاصل کيا ہے۔ جبکہ پاکستانی پوليس اپنے کرتوت اور ظلم و ستم کی وجہ سے بدنام اور قابل نفرت ہے۔

  • 10. 21:08 2006-12-21 ,محمد ايوب ايبٹ آباد :

    عمبر خيری صاحبہ آداب!
    محترمہ پوليس کو کوئ انسان سمجھے يا نہيں مگر پوليس لوگوں کو انسان نہيں سمجھتي- ان کی نظر ميں سبھی لوگ مجرم ہوتے ہيں- ايک شريف آدمی کے ساتھ کوئ زيادتی ہو جاۓ تو وہ اپنی عزت اور مزيد نقصان کے ڈر سے پوليس ميں رپورٹ درج نہيں کرا سکتا- کيا يو-کے ميں بچہ پوليس کو اپنے والدين سے زيادہ محفوظ نہيں سمجھتا؟
    پوليس ميں اچھے لوگ ہيں مگر بہت کم اور وہ وہ ہيں جن کو نوکری چھوڑنی پڑتی ہے يا پھر دنيا-

  • 11. 21:10 2006-12-21 ,محمد ايوب ايبٹ آباد :

    عمبر خيری صاحبہ آداب!
    محترمہ پوليس کو کوئی انسان سمجھے يا نہيں مگر پوليس لوگوں کو انسان نہيں سمجھتي- ان کی نظر ميں سبھی لوگ مجرم ہوتے ہيں- ايک شريف آدمی کے ساتھ کوئی زيادتی ہو جاۓ تو وہ اپنی عزت اور مزيد نقصان کے ڈر سے پوليس ميں رپورٹ درج نہيں کرا سکتا- کيا يو-کے ميں بچہ پوليس کو اپنے والدين سے زيادہ محفوظ نہيں سمجھتا؟
    پوليس ميں اچھے لوگ ہيں مگر بہت کم اور وہ وہ ہيں جن کو نوکری چھوڑنی پڑتی ہے يا پھر دنيا-

  • 12. 21:18 2006-12-21 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ ، تسليمات
    بلاگ پڑھ يہ شعر ياد آگيا کہ ۔۔ ’گل پھينکے ہيں اوروں کی طرف اور ثمر بھی
    اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ‘ تو ادھر بھی
    پوليس والے بھی اسی معاشرے کا ايک حصہ ہيں جہاں اچھے بھی ہيں اور برے بھی ہيں ۔ مگر چونکہ پوليس والوں کی مجموعي کارکردگی کچھ ايسی ہے کہ پورا محکمہ بدنام ہے ۔ پوليس والوں کی زندگی يقيناً پرخطر ہوتی ہے وہ بھی انتہائی کم معاوضے پر ۔۔ اور اسی بناء پر وہ قانون کے رکھوالے ہو کر بھی غير قانونی کام کرنے لگتے ہيں ۔ ہوسکتا ہے کہ اگر تنخواہوں ميں اضافہ کيا جاۓ اور دوسری مناسب مراعات دی جائيں تو وہ ايسا نہ کريں جس کے سبب وہ بدنام ہيں ، محض پوليس مقابلے ميں زخمی ہونے والوں کو پچاس ہزار اور مرنے والوں کو ايک لاکھ روپے کے اعلان سے اصلاح ممکن نہيں ۔ مجھے نہيں معلوم کہ لواحقين کو کچھ ملتا بھی ہے يا صرف اعلان ہی سے کام چلايا جاتا ہے۔ بيچارے پوليس والے حکمرانوں کي حفاظت ہي پر لگے رہتے ہيں اور ان کے حکم پر عوام پر آنسوگيس اور لاٹھي چارج اور کبھي امن و امان برقرار رکھنے کے لۓ گولي بھي چلاتے ہيں انہيں وجوہات کي وجہ سے پوليس اور عوام ميں ايک خليج پائ جاتی ہے ، لوگ پوليس سے خوفزدہ ہوتے ہيں کيونکہ دونوں کے درميان فاصلے ہيں ، خلا ہے اسے پر کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ انہيں اپنا محافظ سمجھيں نہ کہ اپنا دشمن ۔
    ميں سمجھتا ہوں کہ عوام اور پوليس کے بيچ مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ پوليس ايک بہتر اميج کے ساتھ سامنے آۓ ۔اور ٰ’پوليس کا ہے فرض مدد آپ کی‘ٰ والی بات صرف ايک نعرہ نہيں بلکہ اس سے ذرا آگے نظر آۓ ۔
    اپنا خيال رکھيۓ گا ۔
    دعاگو
    سيد رضا

  • 13. 2:07 2006-12-22 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ اسلام وعليکم
    ايسے ايماندار اور فرض سناش پوليس والوں کی وجہ سے معاشرے ميں قانون کا تھوڑا بہت ڈر ہے- ورنہ جتنی بڑی وردی اتبی ہی خلاف ورزی -
    ميں سمجھتا ہوں حکمرانوں نے پوليس کو اپنے سياسی مفادات کی خاطر اصل کام کرنے سے نہ صرف روکا بالکہ عوام دشمن پاليسيوں پر عمل کرانے ميں اسعمال کيا۔
    آپ کو ايماندار پوليس آفيسر کا ساتھی ہونے پر بجا فخر ہے اور مجھے آپکا سامع اور پڑھنے والا ہونے پر فخر ہے-
    خدا آپکو خوش و خرم رکھے

  • 14. 2:20 2006-12-22 ,Naveed :

    کيا يہ ذمہ داری ذرائع ابلاع کی نہين ہے کہ وہ عوام کو مطلع رکھين

  • 15. 3:16 2006-12-22 ,رحمان لندن :

    محترمہ عنبر خيری صاحبہ!
    وطن عزيز کی بد قسمتی يہی ہے کہ عابدعلی جيسے ايماندار، دلير اور فرض شناس افسروں کا کوئی پرسان نہيں يہ انکوايری بہی دب جائيگي گمان کيا جا رہا ہے کہ اس ميں خفيہ ہا تہ کار فرما ھيں رہی بات کرپشن کی تو پا کستان ميں کرپشن اوپر سے اتی ہے سياستدان،جرنيل،عدليہ،سب اس بہتی گنگا ميں اب صرف ہا تہ نہيں دوھتے بلکہ سرعام نہاتے بہی ھيں
    آج پا کستان کا ہر ميجر کروڑوں ميں کھيل رہا ہے جبکہ اس سے اوپر ارمی افسران کے اثاثے تو اربوں تک پہنچ چکے ہيں جب محا فظ ڈ اکو بنے تو پوليس بیچا را اگر چو ری چپکے رشوت لے تو کوئی با ت نہيں

  • 16. 3:50 2006-12-22 ,Shahinshah :

    ميں اس بلاگ سے 100% اتفاق کرتا ہوں۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہيں مگر پوليس کے اہم رول اور ان کے راستے ميں حائل مشکلات سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔ّ

  • 17. 9:13 2006-12-22 ,abdur rauf :

    راقم نے جو تحریریس لکھی ہیں وہ حقیت پسندی پر مبنی ہیں۔ یہ محسوسات ایک اے ایس پی کی بیوی کے ہیں جو کہ بہت طاقتور اور با عزت افسر سمجھے جاتے ہیں۔ پولیس میں جو نیچے درجے کے اہلکار ہوتے ہیں ان کے کیا احساسات ہونگے؟ تین سے چار ہزار کی تنخواہ اور اتنی سخت ڈیوٹی۔ عوام کی اور افسروں دونوں کی گالیاں سنتے ہیں۔ ان کی نوکری کا ماحول ان کو درندہ صفت بنا دیتا ہے لیکن یہ ماحوء کون بناتا ہے؟ سیاستدان؟ اسلی افسر؟ یا ہم لوگ؟

  • 18. 9:42 2006-12-22 ,Muhammad Ali :

    اچھے اور برے انسان ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے پولیس والوں کی تنخواہیں مناسب ہوں اور سفارشی کلچر کو اوپر سے ختم کیا جائے۔ آپ نے درست کہا ہے اور بلاگ پڑھ کر ان کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے

  • 19. 12:01 2006-12-22 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    محترمہ بہن عنبر خيري صاحبہ
    پوليس آفيسر کي گھر والي ہوں اور لہجہ انتا شيريں واہ کمال ہے۔ ايسے ہي لوگوں کے بارے ميں سمجھتا ہوں سچ ہے کہ
    چمن کو جب بھی لہو کی ضرورت پڑی
    سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی۔
    ديکھ لو آج کہتے ہيں اہل ہوس۔ يہ ہمارا وطن ہے تمہارا نہيں-
    شہيد کی جو موت ہے وہ قوم کی حيات ہے-
    آپ لکھتی رہيں کہ
    ہم پرورش لوح قلم کرتے رہيں گے۔ اللہ آپ کے تمام دوستوں عزيزوں کو حفاظت ميں رکھے خوش رکھے آمين
    مياں آصف محمود
    ميری لينڈ
    امريکہ

  • 20. 13:08 2006-12-22 ,محمد سلیمان خالد :

    میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ پولیس والے بھی انسان ہوتے ہیں۔ ہر جگہ اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔

    میرے خیال میں لوگوں کی اچھایاں بیان کرنی چاہئیں۔ کسی کی برائی کرنے سے برائی بڑھتی ہے۔ ہمیں پولیس والوں کی برائی کی بجائےاُن کی اچھایاں بیان کرنا چاہئیں۔

  • 21. 15:58 2006-12-22 ,shahidaakram :

    عنبرجی آپ نے بالکل صحيح نشان دہی کی کہ جس پر بيتے وہی زيادہ اچھے طريقے سے خود پر بيتی بتا سکتا ہے۔ جيسا کہ آپ نے کہا کہ آپ نے ايک پوليس والے سے شادی کی بالکل اُسی طرح ميں نے ايک فوجی سے شادی کی۔ اُس وقت تو عقل جتنی عُمر تھی اُسی حساب سے تھی ليکن کسی چيز کی کمی بيشی کا کوئی خاص احساس نہيں تھا کہ تربيّت ہی کُچھ ايسی تھی کہ بندہ شريف انسان ہے زندگی کا ساتھی تو کوئی مسئلہ نہيں۔ پھر بھی زندگی کی مُشکلات کا ساتھ تھا اور وہی بات کہ ديکھنے والے يہ ديکھتے تھے کہ بڑے مزے کی زندگی ہے ليکن اندر کا حال تو ہم ہی جانتے تھے۔ بالکل اُسی طرح جيسے پوليس والے کے ساتھ زندگی کرنا ايک ہُنر ٹھہرا گو صرف پيسے کی کمی ہی اصل بات نہيں اصل بات جان کا ہر لمحہ کا خوف اور کہ واسطہ نا صرف يہ کہ جرائم پيشہ افراد سے ہر دم رہتا ہے بلکہ جو عزّت ہر شعبے کے لیے تقاضا ہوا کرتی ہے وہ بھی نہيں ملتی۔ گو واقعتاً پوليس اور وہ بھی ہمارے مُلک کی کُچھ زيادہ ہی بدنام ہے حالانکہ دُنيا کے کسی بھی کونے ميں چلے جائيں پوليس والوں کی شہرت ايک جيسی ہی ہوا کرتی ہے پھر بھی اچھے بُرے لوگوں کا تناسب زندگی کے ہر شعبے ميں ايک سا ہی ہوتا ہے ہر کوئی دودھ کا دُھلا نہيں ہوت۔ا بالکل ايسے ہی جيسے پانچوں اُنگلياں ايک جيسی نہيں ہوتيں ايک گھر کے ايک ماں باپ کے پانچ بچے ايک جيسی خصوصيات کے حامل نہيں ہوتے۔ تو ہم سب کو ايک ہی لاٹھی سے کيسے ہانک سکتے ہيں حقيقت يہی ہے جوآپ نے بيان کی کہ ہميں دوسرے کی مُشکلات کو ضرور نظر ميں رکھنا چاہيۓ جو ہم اکثر اوقات اپنی تنگ نظری کی وجہ سے نہيں رکھ پاتے يا ہم لوگ صرف منفی پہلو ہی ديکھنے کے عادی ہوتے ہيں ،ايک بات کہوں اصل بات يہ ہے کہ دُنيا ميں ابھی بھی اچھے لوگوں اور اچھائيوں کا تناسب کافی زيادہ ہے ليکن جس طرح سفيد کپڑے پر چھوٹا سا بھی دھبہ بے حد نُماياں محسوس ہوتا ہے حالانکہ دھبہ چھوٹا اور سفيدی زيادہ ہوتی ہے پھر بھی دکھائی دينے والی چيز وہ دھبہ ہی ہوتا ہے معاملہ شايد ايسا ہی ہے کہ ہم صرف سامنے کی چيز ہی ديکھتے ہيں دُنيا کی شايد دور کی نظر کُچھ کمزور ہوتی ہے کيا کريں کہ يہی دُنيا ہے ،دل پر نا ليں کہ فائدہ کُچھ نہيں دل پر لينے کا،خوش رہيں خوشياں بانٹيں اور ہو سکے تو مثبت سوچ کو دل ميں جگہ ديں يہ مشورہ سب کے لۓ ہے بالکل مُفت
    دعاگو
    شاہدہ اکرم

  • 22. 1:05 2006-12-23 ,جاويد گوندل :

    اس ميں کوئی شک نہيں کہ دنيا کہ ہر پيشے ميں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہيں مگر اب اس کو کيا کہا جائے کہ يہ کليہ پاکستانی پوليس فورسز پہ لاگو نہيں ہوتا کہ پاکستان ميں پوليس ميں اچھے افراد آٹے ميں نمک کے برابر ہيں جبکہ ايسے ايسے دھڑلے کے لوگ پوليس ميں پائے جاتے ہيں جو ايسے جرائم جن کی سزا اُسی پاکستان پينل کوڈ ( تعزيزاتِ پاکستان) ميں سزائے موت ہے جس کو لاگو کرنے کا يہ حلف اُٹھاتے ہيں اور باقاعدہ تنخواہ اور مراعات پاتے ہيں اور وہ ايسے جرائم کرنے سے بھی نہيں چُوکتے اور اور پوليس يہ جرائم اس دھڑلے سے کرتی ہے کہ انکا ضمير ذرہ برابر پيشمنانی محسوس نہيں کرتا- اس سے بحث نہيں کہ وہ ايسے کام کس وجہ سے کرتے ہيں بلکہ اس سے بحث ہے کہ ايک غريب قوم اپنا پيٹ کاٹ کر انہيں تنخواہ اور سہولتيں اس لئيے مہيا کرتی ہے کہ اُن کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی جائے جبکہ يہ محافظ اپنے حلف کی مٹی خراب کر کے غريب ( جو پاکستان کی اسی فيصد آبادی ہے) کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہيں کہ جسے لکھتے ہوئے قلم بھی شرما جائے- ہماری پوليس اپنی نوعيت کی شايد واحد پوليس ہے کہ جو اپنے شريف شہريوں کی عزتِ نفس کو وہ رگڑا ديتی ہے کہ شريف آدمی بھرے بازار ميں لُٹ جانا قبول کر ليتا ہے مگراپني مدد کے لئيے پوليس کے پاس جانے سے خوف کھاتا ہے - اگر کسی کو يقين نا آئے تو پاکستان کے اخبارات اور مقدمات کے دوران پاکستان کی کورٹس بالخصوص ہائي کورٹس اور سپريم کورٹ کے پوليس کے خلاف روز مرہ کے ريمارکس پڑھ لے- ہميں بھی مرحوم عابد علی کے ناحق قتل پہ رنج ہوا ہے مگر ايسے آفيسرز پاکستان کی پوليس فورسز ميں نا ہونے کے برابر ہيں

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔