سولی پر لٹکتے رہیں گے
اپریل دو ہزار تین میں عراق کے معزول صدر صدام حسین کے مجسمے کے گلے میں رسی ڈال کر اسے زمین پر گرایا گیا تھا اور جوتیاں ماری گئیں تھیں۔ اس منظر کو پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں نے ٹی وی اور ویب سائٹس پر دیکھا تھا۔ اکتیس دسمبر کو عراق میں ذرا ’ترقی‘ ہوئی اور زندہ صدام حسین کے گلے میں مجسمے کے گلے پر ڈالی گئی رسی سے بھی ذرا موٹی رسی باندھی گئی اور انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا ۔ یہ منظر بھی دنیا بھر کے لوگوں نے اپنی ٹی وی اور کمپیوٹر سکرینوں پر دیکھا۔
بس فرق صرف اتنا تھا کہ یہ پتہ نہیں چلا کہ لاش کہ ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ کیا اسے بھی۔۔۔
پھر اس بات پر بحث چل نکلی کہ صدام کو پھانسی دینے کا عمل ویڈیو پر ریکارڈ کرنا چاہیئے تھا کہ نہیں، کیا ان کی پھانسی کی ویڈیو فلم میڈیا کو ریلیز کرنا ’ایتھیکل‘ یا اخلاقی طور پر جائز تھا یا کیا ان کو عید پر پھانسی دینے کا فیصلہ درست تھا وغیرہ وغیرہ۔
ایک بندے کی زندگی گئی، لوگوں کی عید خراب ہوئی، صدام کو جلد بازی میں سولی پر چڑھانے سے ان کے ہاتھوں ظلم سہنے والے سینکڑوں لوگوں کو انصاف نہیں ملا اور عراق میں بڑھتے ہوئے تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ تو پھر آخر حاصل کیا ہوا۔
حاصل تھا رحیم یار خان کے ایک نو سالہ بچے کا ٹی وی پر صدام کی پھانسی کو دیکھنا اور پھر بہن بھائیوں کے ساتھ پھانسی کے کھیل میں اپنی جان گنوانا۔ معلوم نہیں کہ اس کے ماں باپ صدام کو بد دعائیں دے رہے ہوں گے یا پھانسی پر لٹکانے والوں کو۔
میں بدقسمتی سے صدام کی پھانسی والے دن ڈیوٹی ایڈیٹر تھا اور ان صحافیوں میں شامل تھا جنہوں نے صدام کو لٹکاتے ہوئے میڈیا پر دکھانے کا فیصلہ کیا۔ گو کہ یہ مشکل فیصلہ تھا لیکن اس پیشے میں آپ کو کئی فیصلے فوراً کرنا ہوتے ہیں اور ان میں سے کئی بہت مشکل ہوتے ہیں۔ میں نے بھی کیے، سو مجھے بھی سزا ملی۔ عام آدمی یہ نہیں جان سکتا کہ ان صحافیوں کا کیا حال ہوتا ہے جو قتل وغارت رپورٹ کرتے ہیں یا انہیں اخبار، ٹی وی یا آن لائن پر نشر کرتے ہیں۔ ایک زندہ شخص کو پھانسی پر لٹکانے کے لیے جاتے ہوئے دیکھنا اور پھر اس کو لٹکاتے ہوئے دیکھانے کے عمل کو تصویروں اور ویڈیو میں نشر کرنا ایک تکلیف دہ عمل تھا۔ اور یہ سارا دن چلتا رہا۔ طبیعت اتنی بوجھل تھی کہ ڈیوٹی ختم ہوتے ہی بھاگنے کی کی۔ عموماً دفتر سے نکلتے نکلتے ایک آدھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ بس اس دن نہیں رکا اور بھاگ گیا۔
لیکن صدام کی پھانسی دکھانے کی سزا اور اس سے جڑا ہوا کرب پھر بھی ختم نہیں ہوا۔ گھر جا کر بچے نے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا کہ ’اس شخص کو کیوں لٹکایا گیا، ایکسیکیوشن کا مطلب کیا ہے، اس کو لٹکانے والے لوگ ’بیڈی‘ تھے کہ وہ خود برا تھا۔ وہ ہر سوال کا جواب جاننا چاہتا تھا اور میرے پاس کسی بھی سوال کا جواب نہیں تھا۔ بس اسے اتنا کہہ سکا کہ انٹرنیٹ بند کر دو۔
میرا نیا سال کچھ اسے طرح سے چڑھا اور اب لگتا ہے کہ پورا سال یا ساری عمر اس کی پاداش میں لٹکنا پڑے گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
فتح مکہ کو بچپن سے نصابی کتب ميں پڑھا کہ حضرت محمد نے ابو سفيان کو معاف کرديا۔ بڑے فخر سے سارے مسلمان اس کا ذکر کرتے ہيں۔ ميں آخری وقت تک کسی ايسے ہی طرز عمل کی اميد کر رہا تھا۔ ليکن آج مجھے احساس ہوا کہ يہ سب چيزيں صرف رٹا مارنے کی خاطر ہيں۔ لوگ عيد کے دن پھانسی اور اس کو دکھانے پہ معترض ہيں جبکہ مجھے اس پھانسی پہ ہی اعتراض ہے۔ طعنے مارنے والے نے تو سفاکی کی انتہا کردی۔ ليکن وہ تھوڑا غلط بولا۔ جو عراق کے حالات ہيں اس کو يوں کہنا چاہيے تھا ’رو من جہنم‘ (جہنم سے جاؤ)۔ اس سب کا ذمہ دار بش ہے، رحيم يار خاں کے بچے کا بھي۔
شميم بھائی پہلے دن دل بہت بوجھل تھا۔ ٹھيک نو بجے ميرے ايک دوست نے مجھے ميسيج کيا تھا کہ امريکہ نے آخر کار مسلمانوں کو عيد کا تحفہ دے ہی ديا۔ وہ بھی بڑا دکھی تھا اور دوسرے دن جب ہم عيد گاہ گئے تھے تو خطيب صاحب پھوٹ کر رو رہے تھے۔ سب غمگين تھے سب کو لگ رہا تھا کہ يہ بہت برا ہوا۔ ليکن اس کے پيچھے کی سازش کو کوئی بھی سمجھ نہيں پايا۔ وہ منظر تو جگر پاش تھا جب موبائل سے شوٹ کی گئی تصوير ميں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے ايک انسان کے پيروں تلے سے اچانک زمين کھينچ لی جاتی ہے۔ ميرا دل دھڑکنے لگا تھا، ہاتھ کانپنے لگے تھے، نہ جانے مجھے کيا ہوگيا تھا۔ اس کے باوجود ميں نےايک گھنٹے کاخصوصی پروگرام پروڈيوس کيا تھا۔ سنيچر کو ويکلی آف ہونے کے باوجود مجھے دفتر آنا پڑا تھا۔ مگر اپنے آپ کو سنبھالنا شفٹ نکالنے سے کہيں زيادہ مشکل ہوتا ہے يہ ميں نے پہلی بار جانا ہے۔ يقينا يہ بات عبرت انگیز ہے، سنگين ہے اور قابل مذمت بھی۔ کيا اکيسويں صدی کا انسان معراج کو پہنچ گيا ہے يا پستی کی اتھاہ گہرايوں ميں گرتا جارہا ہے يہ ايک بہت بڑا سوال ہے۔ سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
شميم بھائي!
يہ جذبات صرف آپکے نہيں بلکہ مذکورہ پھانسی کی تصاوير اور ويڈيو ديکھنے والے لوگوں کی بڑی اکثريت کے جذبات بھی آپکی طرح ہيں اور يقين مانيں اس ميں مسلم اور غير مسلم ، يورپين اور غير يورپين سبھی لوگ شامل ہيں۔ ميرے ايک ہمسائے گاڑيوں کے ايک مشہور برانڈ کی فيکٹری ميں ڈيزائن انجنئير ہيں۔ اکتيس دسمبر کي صبح جب صدام حسين کو پھانسي پہ لٹکائے چوبيس سے زائدگھنٹے گزر چکے تھے ، اچانک ملاقات پہ انہوں نے مجھ سے انتہائی افسوسناک لہجے ميں سوال کيا ُ جاويد يہ سب (صدام حسين کو پھانسی وغيرہ) کيوں ہوا؟، اور پھر ميرے جواب کا انتظار کيے بغير انہوں نے مسلمان اور عرب حکمرانوں کی شان ميں انتہائی نا مناسب الفاظ کہے۔ اس سے پہلے کہ ميں حيرت کا اظہار کرتا انہوں نے خود ہی اپنے الفاظ پہ معذرت کر ڈالی اور گويا ہوئے کہ ُمعاف کرنا کل صدام حسين کی پھانسی کی مووی ديکھنے سے ميرے جذبات بھڑکے ہوئے ہيں۔ شميم بھائی اسکے علاوہ بھي جتنے شناسا لوگ ملے سب نے افسوس اور کسی حد تک اپني بے بسی کا اظہار کيا ہے اور ميڈيا سے بھی يہی پتہ چلتا ہے اور ميری رائے ميں اگر مسلمانوں بلکہ غير مسلموں کي ہمدردياں بھي مرحوم صدام کيساتھ ہيں تو محض انصاف کے تقاضوں کے بر عکس صدام حسين کےسياسی قتل اور صدام کي تمام تر بُردباري کے باوجود پھانسی کی تختے پہ جب صدام حسين کا آخری وقت تھا اُس وقت بھی دنيا بھر کے تمام قوانين کے برعکس صدام پہ لعنت ملامت کر کے موت کے قيدی کو ذہنی اذيت دينے کی بھونڈی کوششوں کی وجہ سے ايک عالم کی ہمدردياں صدام حسين کے ساتھ ہوئی ہيں۔ اور ايک اور نکتہ بھی واضح ہو صدام حسين پہ کُردوں کے قتلِ عام کا مقدمہ چلانے کی بجائےايک سواڑتاليس افراد کی سزائے موت جن پہ قتل کی سازش کا اُس وقت کے رائج قوانين کے تحت تب باقاعدہ مقدمہ چلا کر سزائے موت دی گئي تھی جس وجہ سے اُس دور کے چيف جسٹس کو بھی صدام حسين کے ساتھ سزائے موت سنائی گئی اور نسبتا اس غير معرُوف مقدمے کے نتيجے ميں سزائے موت پانے والے افراد کے نتيجے ميں صدام حسين سےمحض اس لئيے گلو خلاصی حاصل کر لی گئی کہ دوسری صورت ميں کردوں کے قتل ِ عام کے مقدمے کی صورت ميں صدام حسين کے ساتھ ساتھ امريکہ کو بھی قصوروار ٹھہرايا جاتا کہ اس دور ميں صدام حسين کا سب سے بڑا حليف امريکہ تھا اور مذکورہ گيس اور ہتھيار جن سے کردوں کا قتلِ عام کيا گيا وہ امريکہ نے بااہتمام عراق کو بجھوائے تھے۔
شميم بھائی واقعی پتہ نہيں کہ صدام اچھا تھا يا بُرا تھا۔ 148انسانوں کے قتل کی سزا پانے کا مُجرم پھانسی کا مُستحق تھا يا نہيں ميں نہيں جانتی ليکن پھر بھی دل مُضطرب ہے ناخوش ہے۔ 29 دسمبر کی سرد رات عيد کی تياريوں کے ساتھ بريکنگ نيوز ديکھتے کُچھ اس طرح گُزاری کہ معمول سے ہٹ کر اگلے دن کے جو کام ايک گھريلو خاتون خانہ کو عيد سے پہلے کرنے ہوتے ہيں وہ بريکنگ نيوز کی تلخی ميں ڈر کر چُھپ گۓ اور بس تھوڑا بہت کام کرکے خبريں ديکھتی رہی جيسے شايد ميں يہ پھانسی کاعمل ٹی وی ديکھنے سے روک ہی تو پاؤں گی۔ بالکل اُسی طرح جيسے عراق پر مُمکنہ حملے کی رات پوری رات ٹی وی ديکھتی رہی تھی کہ شايد ميرے ٹی وی ديکھنے سے يہ عمل رُک پائے گا حالانکہ نا جب عراق پر حملہ رُک پايا تھا اور نا ہی اب يہ پھانسی۔ بہر حال رات کے دو بجے يہ سوچ کر ٹی وی آف کر ديا کہ صبح بہت کام ہيں اللہ بہتر کرے گا شايد کل پھانسی نا دی جائے۔ انسانيّت اور انسانی حقوق کی بہت زيادہ پاسداری کرنے والوں يا دعوے کرنے والوں کو شايد اس دن کی اہميّت کا احساس ہو اور اسی زُعم ميں يا شايد بُری خبر سے بچنے کی خاطر رات گۓ تک ٹی وی ديکھنے والی نے ٹی وی آن ہی نہيں کيا۔ صاحب عيد کی نماز پڑھ کر آئے تو کہنے لگے کمال ہے تم نے ٹی وی ہی نہيں لگايا اور جو خبر اندر کہيں بُکل مار کر بيٹھی تھی چھلانگ لگا کر باہر آگئ اور ميں حيرانگی سے صاحب کا مُنہ ديکھنے لگی بے اختيار ی کے آنسوؤں پر اختيار نا رہا کہ موت تو بڑی ظالم حقيقت ہے اور دُشمن کی بھی برداشت نہيں ہوتی کم از کم ميں تو کسی جانور کا دُکھ بھی نہيں ديکھ سکتي کہ
دُشمن مرے تے خوشی نا کريۓ
سجناں وی مرجانا
يہی سوچ ہے اپنی تو، ليکن انسان اور انسانيّت کا تقاضہ کيا کہتا ہے ؟جانور کی تکليف بھی تکليف ہی ہوتی ہے يہ بات تو گورے لوگ ہم سے زيادہ بہتر جانتے ہيں۔ ابھی کل کی بات ہے جب صدام حُسين کے مُجسمے کو گليوں ميں گھسيٹا جا رہا تھا اورآج ايک اُنہتر سالہ انسان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکتا ديکھنا ہڈيوں ميں خون جما دينے والا عمل ہے ، اور کتنی عجيب بات ہے کہ يہ سب اُنہی کے ہاتھوں ہُوا جنہوں نے کل تخت پر بٹھايا تھا يعنی کبھی تخت اور کبھی تختہ ، بقول نقاش کاظمی
ميرے ہاتھوں کے تراشے ہُوئے پتھر کے صنم
آج بُت خانے ميں بھگوان بنے بيٹھے ہيں
جب دل چاہا آسمان کی بُلنديوں پر پہنچا ديا جب دل چاہا زمين ميں گاڑ ديا يا يوں کہنا بہتر ہوگا پاؤں تلے سے زمين کھينچ لي، جب تک ضرورت تھی استعمال کيا جب ضرورت نا رہی بوڑھے اور ناکارہ گھوڑے کی طرح گولی مار دی کيا يہی دستور زمانہ ہے۔ آپ بھی شميم بھائی بيٹے کو ابھی سے سمجھا ديں کہ بيٹا يہی زندگی ہے اور يہاں بُرے اور بھلے لوگوں کے معيار کا تعيّن کرنے والي ذات اُوپر بيٹھی سرکاريں کيا کرتی ہيں جو جب تک کار آمد ہے جب تک زندہ ہے اور جس دن ناکارہ ہُوا ختم ، يعنی جب جب جس جس کے ساتھ وفادارياں رہيں آپ رہے۔ يس مين بنے رہو گے توزندہ رہو گے ،بُرے بھلے کی کوئی تخصيص نہيں۔ شميم بھائی آپ کو اپنی صحافتی زندگی کے تلخ دنوں کا تجربہ ہُوا کہ ميڈيا کی طاقت کتنی عجيب ہے جس بات کو جس خبر کو لکھ کر دکھا کر بچے کے سامنے بيان کرتے ہُوئے آپ اتنے ٹوٹ رہے ہيں ايک نو سالہ بچے نے اُس کو کيسے ايک کھيل کی طرح ليا اور جان پر کھيل گيا۔ سو ميرے خيال ميں آپ خود سوچيں کہ جو کُچھ ميڈيا ميں دکھايا گيا وہ غلط تھا يا نہيں کہ ہم صرف سستی شہرت يا اپنی پيسے کمانے کی دُکان چمکانے کے لیے بعض اوقات کتنا کُچھ غلط کر جاتے ہيں۔ خبروں ميں اِن رہنے کے لیے کئی دفعہ بعض معصوم جانيں داؤ پر لگ جاتی ہيں۔ وہ معصوم بچہ جو کہيں سے بھی موت کی آغوش ميں سويا ہُوا نہيں لگ رہا، معصوم سی نيند ليتا ہُوا دکھائی دے رہا ہے، کس کا قصور ہے، کون قصور وار ہے، ميڈيا، آپ، يا بچوں کی انسپائريشن، يا وہ جو اس سب کو کھيل سمجھتے ہيں۔ جنہوں نے انسانی زندگيوں کو کھيل بنا ديا آج بھی 56 زندہ انسان لاشيں بنا دۓ گۓ ، کون قصور وار، کس کو ان سب مقتولين کے قتل کے جُرم ميں پھانسی دی جائے، کس کے پاؤں کے نيچے سے تختہ گھسيٹا جائے، مرنے والے خواہ عراقی ہُوۓ، خواہ امريکی ، خواہ وہ نوسالہ بچہ ، موت تو موت ہے، جو ظالم بھي ہےاور تکليف دہ بھی ہے ، خون تو خون ہے جو بہتا ہے تو آنکھيں رکھنے والوں کو تکليف ہوتی ہے شرط آنکھيں رکھنے کی ہے۔ اے کاش کہ آنکھوں والے ان کو کُھلا بھی رکھيں اور دُنيا کی تکليفوں کو کم کرنے کی کوشش بھي کريں۔ کاش
دعاگو
شاہدہ اکرم
اسلام وعليکم! نہايت اداسی سے ميري طرف سے آپکو، آپکی فيملی، گھر اور بی بی سی ٹيم کو نئے سال کی مارکباد۔
دل بہت دکھی ہے يہ واقعہ تمام انسانيت کے واسطے باعث شرم ہے۔ ميں نے انساں کو کيا قتل خدا کی خاطر
يہ عمل لے کے چلا روز ِ جزا کی خاطر
قاتل کو دوسرے قاتل نے قتل کيا يا معصوم کو يہ بحث تو تاريخ ميں چلتی رہے گی۔ موت کا فرشتہ تو کيمرے کی آنکھ بھی نہ ديکھ سکی۔ لہذا يہ سلسلہ جانےکب رکے۔ آپکا مخلص و عا گو
مياں آصف محمود،
اٹلانٹا، امريکہ
عارف شمیم بھائی آپکا بلاگ پڑھا میرے بھی صدام حسین شہید کی پھانسی کے وقت وہی جذبات تھے جو ایک انسان کے ہونے چاہیں۔ یقین مانیئے اتنا جذباتی تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ایک ایسی قوم جس کی تربیت ہی انسانیت کی خدمت کرنا ہے ایسے اچھوتے کام کر رہی ہے کہ انسان تو کیا جانوروں کو بھی شرم آتی ہو گی۔ اتفاق سے آج میں نے اپنے نوکیا 6600 میں اوپرا براوزرانسٹال کیا تھا اور اس میں گارڈین اخبار کا لنک دیا گیا تھا اس اخبار مين لکھنے والے نے صدام حسین کی شہادت پر اس طرح روشنی ڈالی کہ ایک تو میں اس صحافی کو داد تحریر دیتا ہوں اور دوسرا مجھے اس رپورٹ کو پڑھ کر اس طرح محسوس ہوا کہ یہ سارا بھیانک عمل میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ یقین مانیئے ایک ایک نکتہ پر اس طرح لکھا گیا تھا کہ پڑھ کر ہی اندازا لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ حافظ
اس طرح عيد الاضحيٰ اور حج کے دن پھا نسی کے اصل مقاصد کيا ہيں؟ ميرے خيال ميں نہ تو ابا جان يعنی بڑے بش صاحب کے مفروضہ اقدا م قتل کا بدلہ تھا نہ امريکہ کے خلاف صدام کی دشمنی کيونکہ وہ ظا لم تو انہی کا پروردہ تھا۔ دراصل عراق پر چڑھائی تو ايران کو تباہ کر کے سارے خطہ عرب ميں تيل پر قبضہ اور سيہونی رياست کی حفا ظت کی گار نٹی تھی۔ اب عراق کو جب گرا ليا تو دلی اور عتقادی طور پر ايران نوازوں کا آبادی کے تنا سب سے پلہ بھاری ہو تا نظر آيا تو سنی شيعہ تفرقہ کو ہوا دينے کا حر بہ اس سے اچھا اور کوئی نہ تھا۔ کيا کہتے ہيں جناب آپ؟
اگرجرنلسٹوں کے ہاں درست سوالات اٹھيں گے اور وہ ان کے درست جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو نہ افغانستان بنیں گے نہ عراق۔ ہاں جگہ جگہ واٹر گيٹ بنيں گے۔مگر ہم نے تو اقوامِ متحدہ کی تحويل سے نکال کر صدر نجيب کو مارنے اور تين روز تک درخت سے لٹکانے کا منظر فتح مکہ کے حوالے سے ديکھا تو حق بحقدار رسيدلکھا۔ جديد عہد لوممبا سے بھٹو تک کی کہاني ہے جو بے تحاشہ خود کو دہرا رہی ہے۔
ميرے احساسات بھی کچھ آپ جيسے ہی ہيں شميم بھيا۔ کاش کوئی طاقت ان ظالموں کو سمجھائے کہ کیا ظلم کمايا ان ظالموں نے۔
عارف مياں آپ ہی نہيں ساری مسلم امہ پھانسی پر لٹکی ہوئی ہے۔
محترمی ومکرمی عارف شميم صاحب اسلام عليکم ! آپ کا بہت ہی خوبصورت بلاگ پڑھا دل کو اچھا لگا ، مگر ميں سوچتا ہوں کہ حقوق انسانی کيلئے کام کرنے والی تمام اين جی اوز بھی ايک سابق صدر کو نہ بچا سکيں۔ يہ اقوام متحدہ کيلئے بھی لمحہ فکريہ ہے۔ اور پھر اب ايک اور نئی بحث کا آغاز کر ديا گيا ہے۔ جب ايک شخص ہی دنيا ميں نہيں رہا تو پھر اسکی ويڈيو بنی يا نہيں بنی اسکا کيا فائدہ ؟ جو لوگ ويڈيو بنانے والے تھے وہ بھی تو اس سارے عمل کا حصہ تھے۔ انہوں نے بھی تو کچھ حاصل کرنا تھا۔ افسوس ناک پہلو تو يہ ہے کہ لوگوں ميں اب وہ بات باقی نہيں رہی لوگوں کے جذبات بھی مر چکے ہيں۔ يہ سب وقت کا ہير پھير ہے۔ کبھی ايک شخص جس کا طوطی بولتا تھا، جس کے نام پر ريکارڈ نام رکھے گئے تھے مگر آج وہ اس انداز سے دنيا سے چلا گیا۔ اللہ اسکی مغفرت کرے اور دنيا ميں امن و امان قائم ہو۔
جاويد اقبال ملک
خس کم جہان پاک۔ صدام اس سے بھی بد تر سزا کا مستحق تھا۔ جو مشکل مرحلے پر اپنے آپ کو امام علی کی اولاد کہے اور جب مشکل ٹل جائے تو کر بلا تک پہ بمباری سے دريغ نہ کرے تو ايسے بد بخت شخص کا انجام تو اس سے بھی درد ناک ہونا چاہيے تھا۔
سلام شميم صاحب !
آپ کا بلاگ حسب دستور بہت اچھا تھا سمجھ ميں نہیں آتا کيا ہو رہا ہے۔ دنيا سے انسانيت اور انسانيت نام کی چيز ناپيد ہوتی جارہی ہے خود غرضی اور مطلب پرستی نے ہم سے سب کچھ چھين لیا ہے۔ صدام بھی انہی مطلب پرستی اور خود غرضی کے ہا تھوں موت کے منہ ميں چلا گيا۔ جب مطلب نکل گيا تو ٹشو پيپر کی طرح اُٹھا کے پھينک دیا۔ آخر کب تک انسانيت کےخلاف يہ ظلم جاري رہے گا۔ دعاگو
محمد علی
مجھے تو عراقی تشدد پسند اور سفاک لگتے ہيں۔ ميں نے انکی اور بھی انٹريٹ ویڈيو ديکھی ہيں اور وہ قصائی سے بھی بدترفعل تھا۔ مقصد چاہے کچھ بھی ہو مگر بشمول صدام کی پھانسی کہ اسے کلمہ تک نہ مکمل کرنے دينا اور آوازيں کسنا، سب اسلام کی تعليم ہےکيا؟