| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ایسے بھی تو ہو سکتا ہے

وسعت اللہ خان | 2007-04-19 ،11:59

اسلام آباد میں ان دنوں بمبے ڈریمز نامی میوزیکل پرفارمنس دکھائی جا رہی ہے۔ مجھے لندن میں تو اسے دیکھنے کا موقع نہیں ملا اس لئے کل ارمان پورا کیا۔ اے آر رحمان کے بہت سے گانوں پر لڑکے لڑکیوں کی کوریوگرافی اور بیچ بیچ میں اسکرپٹڈ مکالمے۔
blo_swiss_journlist203.gif

پرفارمنس کے بعد جب آرٹسٹوں کا تعارف کروایا گیا تو بیک سٹیج سے حجاب میں ملبوس تین لڑکیاں بھی سامنے آئیں۔ انکا تعارف پرفارمنس کے پروڈیوسر نے یوں کرایا کہ یہ وہ بچیاں ہیں جنہوں نے اس سٹیج کی سیٹ ڈیزائینگ اور مینجمنٹ کی ہے۔۔۔ آپ دیکھ لیں کہ ان کے ہاتھ میں ڈنڈے نہیں ہیں۔ یہ اقرا یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں اور زندگی میں وہ تمام کامیابیاں حاصل کرنا چاہتی ہیں جو سب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

میں تب سے سوچ رھا ہوں کہ میرے دفتر کے نچلے فلور پر قائم بینک میں کام کرنے والی ایک باحجاب خاتون، تہران کی سڑک پر ڈرائیو کرنے والی سر سے سکارف باندھی لڑکی، ایک پاکستانی چینل پر سپریم کورٹ کے باہر موجود ہجوم کی کمنٹری اور سٹوڈیو میں مہمانوں سے دبنگ سوالات کرتی ہوئی سر تا پا خود کو ڈھاپنی ہوئی میزبان، سعودی ٹیلی ویژن پر عبا یا پہن کر خبریں پڑھنے والی نیوز کاسٹر اور جامعہ حفصہ کی ڈنڈہ بردار سیاہ پوش بچیوں میں اتنی ذہنی تفریق کس نے پیدا کی۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:00 2007-04-19 ,حسن :

    جناب آپ کيوں دال روٹی بند کروانا چاہتے ہيں۔ آپ چاہتے ہيں ان بیبيوں کو شعور آئے اور اس طرح کے نام نہاد مدرسے بند ہو جائیں۔

  • 2. 14:52 2007-04-19 ,عشت رمزی :

    دين ملا فی سبيل اللہ فساد

  • 3. 14:59 2007-04-19 ,ظہير چغتائی :

    وسعت صاحب آپ کے بلاگ بہت اچھے ہوتے ہيں ليکن جس طرح آپ کا ہر تبصرہ تازہ ہوتا ہے کيا ہی اچھا ہو کہ آپ اپنی کو ئی تازہ تصوير بھی ساتھ لگا ديں

  • 4. 15:13 2007-04-19 ,shahidaakram :

    وُسعت بھائی، اس بلاگ کے لیے آپ نے جس موضُوع کا انتخاب کيا ہے وہ کوئی اتنا عجيب نہيں ہے بات صرف عادت يا فطرت کی ہے۔ جب کوئی بات فطرت ميں شامل ہو تو مُشکل نہيں ہوتی بالکُل ايسے ہی جيسے حجاب کسی بھی طور ہمارے روزمرّہ کاموں ميں مُخل نہيں ہوتا۔ ہم لوگوں کو بچپن سے نکلنے کے بعد ہی دوپٹے کا عادی کيا جاتا ہے اور بچپن سے پہلے ہی ہماری چھوٹی بچياں گُڑيوں سے کھیلتی اور دوپٹوں کو کھيل کھيل ميں اوڑھتی ہيں اور سيانے پن کی عُمر تک خود ہی عادت ہو جاتی ہے بالکُل اُسی طرح جيسے يورپی مُلکوں کی چھوٹی بچياں بہت آرام سے سوئمنگ کاسٹيوم پہن ليتی ہيں اور نارمل بھی محسُوس کرتی ہيں يعنی بات صرف ماحول اور معاشرے کے فرق کی ہے۔ جو جہاں ہے اُس کو وہی ٹھيک لگتا ہے۔ رہی بات اِقراء يونيورسٹی اور جامعہ حفصہ کی طالبات کے درميان کی تفريق کی تو اُس کی ايک بڑی وجہ طبقوں کا فرق ہے۔ کبھی آپ نے غور کيا کہ کسی وڈيرے يا بڑے آدمی يا وزير کبير کی بچی يا بچہ کسی مدرسے کے تعليم يافتہ تھے بلکہ اُن کے بچے تو مُلک ميں بھی تعليم حاصل نہيں کرتے۔ ہمارے وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو ان مدرسوں ميں بھيجتے ہيں۔ اس کی مثال اُس دن کا گھيراؤ اور مجبُور ماں باپ کا يہ کہنا تھا کہ ہماری بچياں بھيجدو ليکن بچيوں کو اُن کے حوالے نہيں کيا گيا۔ وہ بچياں جس عُمر ميں ہيں، کچے ذہنوں ميں جو بھی ڈالا جاۓ گا وہی سچ لگے گا۔ آگے بڑھنے اور کُچھ کر گُزرنے کا شوق تو ہر ايک کو ہوتا ہے۔ ان حالات کا ذمّے دار ہمارا اپنا سسٹم ہے ورنہ با پردہ ہو کر بھی سب شعبہ ہائے زندگی ميں ترقی کی جا سکتی ہے۔ ايک بات کہ بلاگ ميں تبصرے اپ ڈيٹ کيوں نہيں ہو رہے کوئی خاص وجہ ہے کيا؟


    (قارئین سے درخواست ہے کہ ازراہِ کرم اپنے تبصرے مختصر رکھیں، بلاگ کے اس صفحے میں کچھ تیکنیکی مسائل ایسے ہیں لمبے طویل تبصروں کے ازحود حذف ہوجانے کا احتمال ہوتا ہے۔)

  • 5. 15:26 2007-04-19 ,اے رضا :

    وسعت اللہ صاحب، يہاں معطل چيف جسٹس، وکيلوں کے احتجاج، لال مسجد اور جامعہ حفصہ جيسے موضوعات پر صفحوں کے صفحے سياہ ہو گۓ ہيں اور آج روزنامہ جنگ ميں حامد مير رقم طراز ہيں کہ يہ سب مشرف صاحب پر بينظير صاحبہ سے معاملہ طے کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے حربے ہيں جو معاملہ طے ہوتے ہی خود بخود ماند پڑ جائيں گے۔ حامد مير ايک باخبر صحافي ہونے کے دعوٰي دار ہيں۔ سوچتا ہوں اگر يہ سچ نکل آيا تو اتنے دنوں سے ہم يہاں کيا کرتے چلے آ رہے ہيں؟

  • 6. 17:18 2007-04-19 ,Dr Alfred Charles :

    جناب وسعت صاحب! آپکی حقائق پر مبنی منظر کشی اور اختام ميں بھی حقيقت پر مبنی سوال نے يقينا سب کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرديا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ يہ سوال بھی کہ فی الوقت ابھی تک ان طالبات کے والدين کا موقف سامنے نہيں آيا کہ انکے اسطرح ڈنڈا برادر فورس ميں تبديل کرنے والےان سے کس نوعيت کا کام ليتے ہيں؟والدين کی کيا توقعات تھيں کہ انکی بچياں عالمہ بنکر ملک و قوم کی موثر انداز ميں خدمت کريں مگر يہاں تو معاملہ الٹا ہوگياـميرے خيال ميں جن لڑکيوں کا آپ نے تذکرہ کيا ہے وہ دوسروں کے لئے عملی نمونہ ہيں اور نقاب و حجاب کسی کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے

  • 7. 13:05 2007-04-24 ,Victor Bhana :

    آداب عرض! جناب ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ جو لباس چاہے وہ پہنے۔ .لباس کا تعلق البتہ انسان کے باطن نہيں بلکہ معاشرے سے ہے۔ اس لباس پر اگر زيادہ زور ديا جائے تو ڈر ہے کہ کوئی مولوی ناراض نہ ہوجائے۔
    شکريہ

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔