میں منجی کتھے ڈاہواں
جہادی سمجھتے ہیں کہ یہ عدالتیں، یہ انگریزی قوانین، یہ امریکہ نواز استبدادی فوجی و سرکاری ڈھانچہ اور لبرل ازم کے نام پر فحاشی و عریانی کا فروغ اور شہری طبقے کی مغرب زدگی اور مذہب سے بیگانگی۔ ان سب برائیوں کے خاتمے کے لئے سرکاری املاک اور بے راہرو مجمع کو بمبار پھاڑے بغیر کام سیدھا نہیں ہوگا۔
حکومت سمجھتی ہے کہ یہ مذہبی دھشت گرد، یہ عدالتیں اور انکے نافرمان جج ، لبرل ازم کی آڑ میں شور مچانے والے وکلا اور سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتیں۔ یہ سب کے سب وفاق دشمن لوگ ہیں اور صرف سختی کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔
طالبان مجھے اور حکومت کو ایمان کی کمزوری کا الزام دے کر ماررہے ہیں اور حکومت مجھے اور طالبان کو ایک ہی طرح کا دشمن فرض کرکے ایک ہی کمبل میں لپیٹ کر پیٹ رہی ہے۔
مورل آف دی سٹوری:
میں کیہڑے پاسے جاواں
میں منجی کتھے ڈاہواں
زخم زخم پاکستان
انکاری جج، سہمے سیاستدان
جنرل جمہوریت یا آپ کا فیصلہ
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت صاحب آپکی يہ تحرير ھمارے معاشرے کی صحيح عکاس ہے۔ موجودہ حالات کو ديکھ کر لگتا ہے کہ ھر ايک اپنا الو سيدھا کرنے کے ليے يا تو مذھب کا استعمال کرتاہے يا پھر روشن خيالی کا۔ درحقيقت ان ميں سے ايک بھی نہيں چاھتا کہ ملک ترقی کرے اور ہر ايک کو انصاف اور يکساں مواقع مليں۔ ’ہر شاخ پہ الو بيٹھا ھے، انجام گلستان کيا ھو گا‘۔
آداب عرض! آپ نے بات تو بالکل ٹھيک کہی کہ عام آدمی بيچارہ پس رہا اور اپنے مستقبل کے بارے ميں نہايت نااميد ساہے۔ بات يہ بھی قابل غور ہے کہ اگر خود کش حملوں کو پاکستان ميں رواج بن لينے ديا جائے تو غريب کا حال کيا ہو گا؟ دوسری بات يہ بھی کہ کيا خود کش حملے عوام کے تعاون سے نہيں ہوتے؟گويا عوام دو حصوں ميں بٹے ہيں، ايک وہ جو حملے کرواتے دوسرے وہ جن پر ہوتے ہيں۔ جو حملے کروانے ميں خوش ہيں انھيں مہربانی کر کے يہ سوچنا چاہئے کی آخر غريب ہی کيوں مارا جاتا ہے اور يہ کہ رواج بننے کي صورت ميں ايک دن ان کے اپنوں کی باری بھی آ سکتی ہے۔ کاش کہ يہ لوگ سمجھيں اور امن قائم ہونے ديں۔۔۔شکريہ