| بلاگز | اگلا بلاگ >>

اٹھارہ فروری کو ہوا کیا تھا؟

اصناف: ,

عنبر خیری | 2008-06-09 ،16:33

blo_umber_polling_150.jpgپیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اٹھارہ فروری کے عام انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو ملک چلانے کا مینڈیٹ دیا تھا اور محترمہ بینظیر بھٹو کی پالسیوں اور نظریے کی حمایت کی تھی۔ تاہم اب ان انتخابات کو بائکاٹ کرنے والے کچھ 'رہنماؤں' نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اٹھارہ فروری کو تو لوگوں نے دراصل اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ وہ صدر مشرف کو صدارت سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔

تو اٹھارہ فروری کو ہوا کیا تھا؟ کیا عوام نے اپنے نمائندوں کو ووٹ دیا تھا یا انتخابات کو ریفرنڈم سمجھ کر صرف ایک مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا تھا؟

انتخابات سے یہ واضح ہوا تھا کہ لوگ عوامی سیاستدانوں کو سرکاری پروپاگینڈا کے باوجود رد نہیں کرنا چاہتے اور عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو بدنام کرنے کی جنرل مشرف کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی قاف لیگ جیسے گروہ پر ترجیح دیتے ہیں۔

لیکن کیا عمران خان کی یہ بات صحیح ہے کہ اٹھارہ فروری کو عوام نے صدر مشرف کو نکالنے کا فیصلہ سنایا تھا؟ کیا آپ صرف یہ سوچ کر ووٹ ڈالنے گئے تھے کہ یہ میرا مشرف مخالف ووٹ ہے۔

عمران خان ایک سیاسی جماعت چلا رہے ہیں لیکن ان کی زیادہ تر حرکتوں اور بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پاکستان کے نظام اور سیاسی حقائق سے بہت زیادہ واقفیت نہیں ہے۔

وہ سیاستدان ہیں اور انہیں ایک منتخب سیاسی حکومت کے خلاف کام کرنے والوں کے ساتھ نہیں ملنا چاہیے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو سوچ لینا چاہیے کے ان کی حرکتوں سے پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل وابسطہ ہے۔


ججوں کی بحالی کا مسئلہ دیکھ لیں۔ ججوں کو بحال کرنا بہت ضروری ہے لیکن یہ تو دیکھیے کہ وکلاء تحریک کو کس قسم کے گروہ ہائجیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب ججوں کی بحالی پر جنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ جیسے سابق فوجی بیانات دینا شروع ہو گئے ہیں۔

یہ افراد ماضی میں (خدا نخواستہ) جمہوریت پسند یا جمہوریت دوست کے طور پر نہیں جانے جاتے تھے۔ بلکہ یہ اور ان کے سابق فوجیوں کی تنظیم کے بیشتر افراد جمہوری حکومت اور جنرل اسلم بیگ کے فوج کے سربراہی کے زمانے میں ہی فوج کے ادارے آئی ایس آئی نے منتخب حکومت کو ختم کرنے کے غرض سے ووٹ آف نو کانفیڈنس کرانے کےلیے اراکین اسمبلی ک اس 'غدار' حرکت کے لیے کروڑوں روپے کی رقم خرچ کی گئی۔

تو اگر اس طرح کے لوگ کسی معاملے پر با آوازِ بلند بولنا شروع کر دیں تو ان کے مقاصد(اور ان کی ساکھ) کے بارے میں ہمیں کچھ غور تو کرنا چاہیے۔

ادھر جماعت اسلامی ایک دم سے آزاد عدلیہ کی حامی بن گئی ہے اور وہ بھی اس تحریک کو اپنائے ہوئے ہے۔ اور عمران خان جیسے لوگ جماعت کی ہاں میں ہاں ملاتے جا رہے ہیں اور اپنے مبینہ اصولوں پر بات کرتے جا رہے ہیں۔ نہ عمران خان اسمبلی میں ہیں، نہ جماعت اسلامی اور نہ ہی متنازع سابق فوجی جرنل۔

ہمیں ان کی باتیں ضرور سننی چاہئیں لیکن تھوڑا سوچ سمجھ کر۔

ہمیں منتخب افراد کے حوالے کچھ فیصلے کرنے ہونگے۔ ججوں کے معاملے میں عوام کو اپنی رائے کا اظہار کرتے رہنا ہوگا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر جمہوری قوتوں کو وکلا تحریک استعمال کرنے کا موقع دیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:10 2008-06-10 ,Zaheer Chughtai :

    آپ کی يہ بات صحيح ہے کہ ہميں منتخب نمائندوں کے حوالے کچھ فيصلے کرنے چاہيں۔ ہم نے تو سارے فيصلوں کا اختيار ہی ان منتخب نمائندوں کے حوالے کيا ہے ليکن جيسے نمک کی کان جانے والے بھی نمک ہی بن جاتا ہے، اس ليے يہ منتخب نمائندے بھی بامشرف ہو چکے ہيں اور کوئي کام نہ کرنے پر طرح طرح کی فضول تاويليں ہی گھڑتے رہتے ہيں۔ اب مشرف کون سے منتخب ہيں، جو اتنی سوچ بچار ہو رہی ہے۔ مشرف نے تو خود ايک ٹی وی انٹرويو ميں کہا تھا کہ منتخب تو ہو گئے ہيں ليکن اعتماد کا ووٹ نئی اسمبلی سے ليں گے۔ اسی طرح ان فضول بہانوں کی بھی کوئی ٹھوس بنياد نہيں کہ ججوں کے مسئلے سے زيادہ اہم روزی روٹی کا مسئلہ ہے، لہذا احتجاج نہ کيا جائے۔ تو کيا يہ نمائندے روزی روٹی کا مسئلہ حل کر رہے ہيں۔ بالکل نہيں، بس دونوں کام نہ کرنے کے بہانے بناتے ہيں۔ بھائی معيشت کا مسئلہ ٹھيک کرنا ہے تو کرو، روکا کس نے ہے۔ اور جنرل حميد گل اور اسلم بيگ پر تنقيد اس ليے واجب ہے کہ انہوں نے خفيہ طور پر کچھ اقدامات کيے تھے تو ان سب کا احتساب ہونا چاہيے اور ابتدا مشرف سے ہونی چاہيے۔

  • 2. 12:46 2008-06-10 ,نجيب الرحمان سائکو :

    آداب! بمطابق خاکسار، اٹھارہ فروری کو نہ ملک کي آج تک سب سے بڑی سياسی اور واحد نظرياتی پارٹی پاکستان پيپلزپارٹي جيتي اور نہ سرمايہ داروں کے ٹولوں پر مشتمل اور بيک وقت آمريت وملائيت کي پيداوار ن ليگ جيتي بلکہ اس دن طالبانائزيشن، ملائيت، شدت پسندي، دہشتگردي، اور اسٹيبليشمنٹ کی جہاں شکست ہوئی تھی وہيں پر عوام نے جو مينڈيٹ اپنی پارٹيوں کو ديا اس سے صدرپاکستان جناب محترم پرويزمشرف صاحب پر پاکستانی تاريخ کا مضبوط ترين اعتماد کا اظہار کيا گيا ہے- کيونکہ صدرصاحب کی پاليسيوں کی وجہ سے ہی ملک کو ديمک کی طرح کھانے والے 'شتونگڑوں' کو شکست ہوئی تھی اور يہی بات صدرمشرف کا ٹارگٹ تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھٹو کے بعد صدر مشرف ہی پاکستان کے صحيح معنوں ميں خيرخواہ ہيں، سبحان اللہ- رہی بات معطل عدليہ کی تو پاکستانی تاريخ ميں ان کے کرتوت اس قدر کالے ہيں کہ ميرا بس چلتا تو ميں تين نومبر کا اقدام نو مارچ کو ہی کرديتا کيونکہ 'فرسٹ امپريشن از دي لاسٹ امپريشن'- يہ تو صدر صاحب کی دريا دلی ہي تھی جو کالے کوٹ کو تين نومبر تک برداشت کرتے رہے بالکل جيسے لال مسجد اپريشن سے قبل صر صاحب نے دہشتگردوں کو ھتيار ڈالنے کے ليۓ ان گنت مواقع ديۓ تھے-

  • 3. 15:08 2008-06-10 ,sana khan :

    آپ نے ساری سياسی جماعتوں اور بندوں کی بات کی ليکن ايم کيو ايم کو بھول گئ اچھا ہی کيا ويسے صرف عمران خان ہی کيوں غير جمہوری حرکتيں کرتے نظر آرہے ہيں اگر يہ نئ حکومت منتخب ہونے سے پہلے کی اپنی باتوں پر عمل کرليتی تو يہ وکلاء تحريک شروع ہی نہ ہوتا اب جسے بھی مقبول ہونا ہے وہ حکومت کے خلاف اور وکلاء کا ہمدرد بن کر ٹی وی چينلز پر اپنے خيالات کا اظہار کر رہا ہوتا ہے ہم عوام کوئ دودھ پيتے بچے نہيں بلکہ بچے تو زيادہ ہوشيار ہوتے ہيں عدليہ آزاد ہو بس

  • 4. 15:13 2008-06-10 ,نثار احمد جاوبد :

    ووٹ تو واقعی مشرف مخالف تھا بی بی جی آپ يہ کيوں بہيں سوچتيں کہ اب ہم اس پيپلز پارٹی کی حماعت کريں جو خود بی بی مرحومہ کے قول کی حماعت نہيں کرتی ہر طرف سے اين آر او نے انہيں جکڑ رکھا ہے يا نواز شريف جو آج تک يہ نہ بتا سکے کہ ڈيوٹيشن کے بعد وہ کيسے چپکے سے تشريف لے آئے اور عمران خان ايک سچا اور زبان کا پکا آدمی ہے جو جھکتا نہيں اور جتنا علم اس کے پاس ہے اتنا کسی سياسی شحصيت کے پاس نہيں

  • 5. 17:00 2008-06-10 ,اے رضا :

    قطعي غيرسنجيدہ کردار کي حامل جماعت اسلاني اور يہ چلے ہوۓ کارتوس ہمارے سابق جرنيل تو لائق تبصرہ ہي نہيں ليکن عمران پر بے حد افسوس ہوتا ہے - شوکت خانم اسپتال جيسے ناممکن کو ممکن بنا دينا صرف انہي کا کام تھا - انہي فلاحي کاموں ميں مصروف رہتےتو ا س سے بڑي خدمت کيا ہوسکتي تھي ليکن برا ہو ليلاۓ سياست کا جس نے کہيں کا نہ رکھا - سياست کرنا ہي تھي تو پارٹی کا بنيادی ڈھانچہ کھڑا کرکے ووٹ بينک کا تعين اور پھر اس کے حصول کی حکمت عملی بنائي جاتي جو آج تک نہ ہوا - اس پر طرہ يہ کہ مداحوں کے اصرار کے باوجود انتخابات کا بائکاٹ کر ديا ورنہ کم از کم آج پاريمان کے فلور سے تو بات کر رہے ہوتے جو صحيح طريقہ تھا - سچ تو يہ ہے يہاں کوئي ايک شخص بھي مطلوبہ قيادت فراہم کرتا نظر نہيں آتا - نظام چلنے ديا گيا تو ايک دو نسلوں ميں شائد بہتر چہرے نظر آنے لگيں - ورنہ خدا ہي حافظ ہے ہم سب کا -

  • 6. 17:14 2008-06-10 ,ابپ :

    بہت اچھے!

  • 7. 17:29 2008-06-10 ,abdullah :

    آسان جواب - 18 فروری کو پاکستانی عوام نے ان پارٹيوں (عمران خان اور جماعت اسلامي) کو مسترد کرديا جنہيں آج عدليہ کے مروڑ اٹھ رہے ہيں - سيدھی بات ہے امريکہ مشرف کو فارغ کر کے نۓملا زم لانا چاہتا ہے- اسکے ليے جمہوری حکومت کو گرانے کا کام ايک بار پھر قاضی صاحب کو سونپا گيا ہے - نيا جال لاۓپرانےشکاری

  • 8. 19:37 2008-06-10 ,ارباب علی طوری :

    کيا يہ کوئ بتا سکتا ہے کہ پی پي پی نے کہا ہوکہ ہم کو ؤوٹ دو ہم ججز کو بحال کريں گے ججز کے نام پر ؤوٹ تو ان لوگوں نے ليا جو آج وکلاء تخريک ميں اہم کردار ہيں آگر يہ نہيں کرينگے تو ان کو کيا جواب دينگے جن لوگوں نے ججز بحالی پر ان کو ؤوٹ ديا جب وزارتيں اتنی پياری ہوں تو کاندھوں پر سياہ پٹياں کيوں

  • 9. 19:44 2008-06-10 , بلخ مھر :ناروی :

    سندھي مين کھاوت ہے کہ بارات پراۓ احمق ناچی
    عمران اور قاضی بھی اس طرح ہے ھی

  • 10. 20:45 2008-06-10 ,اسماء پيرس فرانس :

    ان سارے ججز جرنيلوں وکيلوں سياستدانوں کو بذريعہ ہيلی کاپٹر برازيل کے جنگلات ميں پھينک دينا چاہيے کيونکہ ادھر والوں نے بڑا عرصہ سکون کی زندگی گزار لی اب ہميں تھوڑے سکون کی ضرورت ہے پر وہ بيچارے جو زکام نہيں برداشت کر پائے ان کو کيسے برداشت کريں گے

  • 11. 21:09 2008-06-10 ,ڈاکٹر الطاف الحسن :

    افسوسناک بات يہی ہے کہ وکلاء تحريک اب ان تانگہ پارٹيوں نے ہائجيک کرلی ہے جنہوں نے نہ صرف اليکشن کا بائکاٹ کيا بلکہ عوام کو بھی بائکاٹ کی کال دي- عوام نے اس کال کو سراسر مسترد کرديا- اب ان تمام تانگہ پارٹيوں نے وکلاء تحريک کو پی پی پی مخالف تحريک کا مرکز بنا ليا ہے- ان کے ساتھ سا تھ ان تمام ريٹائرڈ جينرلز کے پيٹ ميں بھی جمہوريت کا مروڑ اٹھ رہا ہے جن کے ہاتھ جمہوری حکومتوں کے خون سے رنگے ہوۓ ہيں - وکلاء تحريک شروع دن سے کوئی ايسی حکمت عملی نہ مرتب کرسکی جو عوام کی مناسب فکری رہنمائی کرسکتي- اسی لۓ عوام نے تانگہ پارٹيوں کی کال کو مسترد کيا- موجودہ صورتحال برقرار رہی تو وکلاء تحريک اپنے مقاصد کے حصول ميں بھی ناکام نہ صرف ناکام رہے گی بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ جنرل پرويز مشرف کے لۓ مزيد تقويت کا باعث بھی بن سکتی ہے-

  • 12. 22:00 2008-06-10 ,shahidaakram :

    عنبر جی آپ نے اور ہم نے ناجانے ايسے کتنے اليکشن ديکھے ہوں گے اور آخرکار وُہی بات کہ اُونٹ رے اُونٹ تيری کون سی کل سيدھی کے مصداق ہر بار چاہے ووٹ آف کنفيڈ ينس لے ليا گيا يا نہيں ليا گيا ايمانداری سے بتائيں ہم کس کس بات کے لۓ کس کس کو جواب دہ ہيں کاش کہ ہم کبھی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچيں کيا مسئلہ صرف وُکلاء تحريک ہے وُہ بات اس وقت صرف اس لۓ کُھل کر ہر طرف چھاگئ ہے کہ جب اور جس مُلک ميں انصاف کی فراہمی ہی نا ہو جو ہر بات کی رُوح ہے تو خالی جسم کيا کر پاۓ گا وُہ تو سڑ جاۓ گا ليکن ميں آپ کی اس بات سے سو فيصد اتفاق کرُوں گی کہ
    „غير جمہُوری قُوتوں کو وُکلاء تحريک کو استعمال نہ کرنے ديں„
    ليکن ہوتا ہميشہ يہی ہے کہ کبھی بھی کوئ تحريک جب شُرُوع ہوتی ہے تو اُس ميں بڑا دم خم ہوتا ہے ليکن کُچھ وقت کے بعد تحريک وہيں کی وہی ہوتی ہے اور بات کہيں کی کہيں جا پہنچتی ہے سوکوشش اس امر کی ہونی چاہيۓے کہ فيصلوں کے لۓ مُنتخب افراد اہنا رول کب اور کيسے ادا کرنا شُرُوع کريں گے ہم مُنتظر ہيں باقی سب کی طرح يعنی
    wait and see
    مع السلام
    شاہدہ اکرم

  • 13. 22:24 2008-06-10 ,وجاہت صديقی :

    عنبر خيری آپ کا کالم پڑھ کر آپ کی عقل پر ماتم کرنے کا جی چاھا، آپ جو اوٹ پٹانگ لکھتی رھيتی ھين پليز انھين پر لکھتی رھيے ان موضوعات کو رھينے ھی ديجيے کے يے آپ کے بس کی بات نھين ھے

  • 14. 1:21 2008-06-11 ,Ashfaque Nizamani :

    صحیح کہا۔

  • 15. 5:06 2008-06-11 ,آصف خان :

    سبحان اللّٰہ ، کس انداز سے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی دشمنی کا حق ادا کیا۔ کہیں ایم کیو ایم سے سے دوستی تو نہیں۔ بہت خوب

  • 16. 12:25 2008-06-11 ,سکندر :

    آپ نے صرف تھوڑا سوچنے کا مشورہ ہی ديا اور زيادہ سمجھدار لوگ غصہ کر رہے ہيں- کيا آپ نہين جانتيں کہ يہاں عفل کی بات کرنا يا مشورہ دينا بھی ايک گناہ ہے؟

  • 17. 13:04 2008-06-11 ,صہیب اکرام :

    عمران خان اور جماعت اسلامی تو اول روز سے وکلا تحریک کے ساتھ ہیں۔ آپ نے پوچھنا ہے تو پی پی پی اور زرداری صاحب سے پوچھیں کہ وہ کیوں اپنا موقف روزانہ کی بنیاد پر تبدیل کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ انتخابات مشرف پر عوام کے اعتماد کا اظہار ہیں ان سے درخواست ہے کہ حقائق کی دنیا میں واپس آجائیں اورکم سے کم آج ملتان سے شروع ہونے والے لانگ مارچ میں ہی عوام کی شرکت اور جوش وخروش دیکھ لیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کے پروگرام سے زیادہ ہے۔ اور ایسے حالات میں جب سیاسی جماعتیں بہت طویل عرصے سے عوام کو کسی بھی ایشو پر سڑکوں پر لانے میں ناکام رہی ہیں۔ پھر کیا فرمائیں گے علمائے دین بیچ اس مسئلے کے ۔۔۔ یہ صرف عمران خان اور جماعت اسلامی کی وجہ سے تو نہیں ہے۔ اگر قانون کی بالا دستی کے لیے عوام نے باشعور ہونے کا ثبوت دے کر اس تحریک میں اپنا حصہ ڈال ہی دیا ہے تو عمران خان اور جماعت اسلامی والوں کو آپ کم سے کم پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ہی رعایتی نمبر دے کر پاس کر دیں۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں۔ جب جرنل کچھ بولتے نہیں تھے تب بھی وہ نشانہء تنقید تھے، اورا اب اگر ریٹائرڈ جرنیلوں نے ہی کچھ سچ بولنا اور عوامی امنگوں کے مطابق بات کرنا شروع کر ہی دیا ہے تو اب بھی وہ گردن زدنی ہیں۔ رہی بات ایم کیو ایم کی تو آپ اس سے تو صاف پہلو بچا گئی ہیں۔ کراچی میں 12 مئی کو جو کچھ ہوا اور جس کے براہ راست مناظر تک گرفت میں لائے گئے۔ وہاں آپ 42 جانوں کا خون پینے والے آشوب سے صاف کنارہ کر گئیں۔۔ اس کا ذکر تک گوارا نہیں کیا۔
    جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی
    اے اہل مصر، وضع تکلف تو دیکھیے

    ویسے آپ کا کالم کسی ایشو سے زیادہ ان دو پارٹیوں کے خلاف لکھا گیا لگتا ہے۔ ۔۔

  • 18. 20:55 2008-06-11 ,ڈاکٹر بی اے رانا :

    ہمارے چند ليڈران نہ صرف ظالم اور بيوقوف ہيں بلکہ وہ انتہائ حساس معاملات ميں غير سنجيدہ رويوں کے بھی حامل ہيں - ہماری ساری تاريخ اس بات کی گواہ ہے - 1960 ء کی دہائ کے بعد تقريباُ ہر اليکشن پيپلز پارٹی نے جيتا ہے اور يہ بھی عجيب اتفاق ہے کہ ہر اليکشن سے نہ صرف پہلے تمام استحصالی قوتيں يکجا ہو جاتی ہيں بلکہ پی پی پی کے اليکشن جيتنے کے بعد اس کے خلاف سازشيں عروج پر پہنچ جاتی ہيں - يہی تاريخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے - کبھی مذہب کے نام پر ، کبھی حب الوطنی کے نام پر ، کبھی غريب ان پڑھ جاہل عوام کا طعنہ دے کر - سب سے حيرت ناک امريہ ہے کہ عوام اور پی پی پی کا رومانس اب تک قائم ہے - اس کو ختم کرنا حميد گل قماش کے جرنيلوں ، قاضی حسين احمد جيسے مولويوں ، عمران خان جيسے کھلنڈرے سياستدانوں اور اس قبيل کے دوسرے مکروہ چہروں کے بس کی بات نہيں - جب کبھی بھی جنرل اليکشن ہونگے ، جب کبھی بھی عوام سے آزادانہ راۓ مانگی جاۓگی عوام پی پی پی کے حق ميں نکلے گی اور جوق در جوق نکلے گی اور يہ عوام کو بيوقوف بنانيوالے،مذہب کے نام پر استحصال کرنے والے،پنجاب کے نام پر لوٹنے والے منہ ديکھتے رہ جايئں گے - تاريخ کا سبق يہی ہے اگر يہ لوگ اس سے کوئ نتيجہ اخذ کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں-

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔