'آؤ زرداری بنیں'
کل مجھے کیلیفورنیا سے میری ایک پاکستانی سکالر دوست بتا رہی تھیں کہ پاکستان سے انہیں ان کے دوست فون کر رہے ہیں کہ آج کل وہاں بڑی بڑی نوکریاں اور عہدے بٹ رہے ہیں، وہ بھی وطن واپس آجائیں اور کوئی بڑا عہدہ لے لیں۔
انہوں نے بتایا کہ پھر ان کے دوستوں نے ان سے مذاق میں کہا 'آپ پاکستان کی صدر کا عہدہ بھی حاصل کر سکتی ہیں!' تو اس پر میری دوست نے اپنے دوستوں سے کہا 'پاکستان میں صدر کا عہدہ کوئی بڑی نوکری نہیں، اگر کچھ بننا ہی ہے تو پھر زرداری کیوں نہ بنیں؟'
سچل سرمست نے کہا تھا:
'او ہی کم کریجے جہیں وچ اللہ آپ بنجيے'۔
واقعی پاکستان میں آج کل زرداری بننے سے زیادہ منافع بخش اور مشکل ترین کام کون سا ہے!
بےشک ملک کا بھلا زرداری بن کر سوچنے میں ہے۔ کسی نے کہا 'کیا یہ کم ہے کہ وہ اب اچھے کپڑوں، اچھی کاروں، پولو اور گھوڑوں کی بجائے آئینی پیکیج اور مفاہمت کے فلسفے پر بات کرتے ہیں؟' ورنہ ایک ایسا شخص جو کہتے ہیں بینظیر بھٹو سے شادی کے بعد مرتضیٰ بھٹو سے اپنی پہلی ملاقات پر ان سے کھانے کی میز پر 'اِنوسٹمنٹ' پر بات کر رہا تھا۔
میں نے کہا پاکستان اپنی تاریخ کے کتنے خوش قسمت موڑ سے گزر رہا ہے جہاں زرداری اور مشرف جیسے دو اعلی دماغ آپس میں ملے ہیں۔ 'میٹنگ آف دی مائنڈس'۔ خوامخواہ کسی دل جلے نے کہا 'زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔'
بھولے بادشاہو! زرداری کی سیاست پر کیا خود زرداری پر پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت ہے!
وہ دن دور نہیں جب حوادث کے ضربخانے میں تشکیل دئیے اس تاریکیوں اور روشنیوں کے شہزادے کی تصویر پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر ہوگي۔
پاکستان میں وہ جو ایک بڑا آئينہ تھا وہ ستائيس دسمبر کی شام ٹوٹ چکا ہے، اب اس کے ٹکڑوں میں خود کو جو دیکھو گے تو اپنے آپ کو زرداری نظر آؤ گے۔ اس سے پہلے آؤ کہ ہم سب زرداری بنیں۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب زرداری کی سياست کو سمجھنے کے ليے پی ايچ ڈی ہی کافی نہیں۔ يہ سياست جانے تو خود زرداری يا جانے اللہ۔ آپ کيا سمجھتے ہیں کہ زرداری بننے کے ليے صرف برطانيہ ميں رہنا لازمی ہے؟ جی نہیں بلکہ آپ کو پاکستان میں چوہوں سے بھرے ہوئے جيل میں بھی چند سال جھيلنے پڑيں گے، تب آئےگا مزہ زرداری بننے کا!
محترم حسن صاحب! آداب، تحرير خُوب ہے! اس پر اتنا ہی کہوں گا کہ:
’فرشتوں سے بہتر ہے، اِنسان ہونا
مگر اِس میں پڑتی ہے محنت زيادہ!‘
يا پھر يہ کہ :
’آئينے کے سو ٹُکڑے، ہم نے کر کے ديکھے ہیں
ايک میں بھی تنہا تھے، سو میں بھی اکيلے ہیں !‘
(دُوسرا شعر بالخصُوص زرداری صاحب کے لیے ہے۔)
خير انديش
کوئی بنے يہ نہ بنے مجھے تو بننا ہی نہیں ہے زرداری! ماشاءاللہ سے اچھی شکل و صورت دی ہے اللہ نے، اس پر بھی بچے قريب نہیں آتے، زرداری بن جاؤ تو رونا شروع کر ديں گے ديکھ کر ہی!
بہت اچھے صاحب!دیکھگ جائے تو بےنظیر کو موت سے زرداری کو بہت فائدہ پہنچا۔۔۔
فضول ترين بلاگ ہے۔۔۔
منافع بخش ہو نہ ہو مشکل ترين ضرور ہے زرداری کا کام۔ ياد رکھيے کہ پی پی پی نے قوم کو کاغذی شير نہیں جان دینے والے دئيے ہیں۔ زرداری نہايت ذمہ داری سے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔
سلام۔ زرداری تو ہم سب عملاً بنے ہوئے ہیں۔ تب ہی تو ملک کا يہ حال ہے۔ ہر کوئی خود کو عقل کل سمجھتا ہے چاہے وہ سياسی لٹيرہ ہو يا مذہبی ہٹ دھرم، وکيل، جج ہوں يا پوليس، آرمی ہو تاجر، دکاندار يا گاہک سب کے سب زرداری ہیں۔ لے دے کے بچے غريب عوام تو وہ کيوں پيچھے رہیں؟ آخر دوغلے ليڈروں کے کہنے پر جلاؤ گھيراؤ، ہڑ تالیں، فضول وقتي، لانگ مارچ، مذہبی سياسی دھرنے، فساد، کے لیے بھی تو کوئی ہو جو سچا پاکستانی ہونے کا دنيا کو ثبوت دے سکے۔ اب رہ گئے پاکستان کا سوچنے والے تو وہ تو ہیں ہی پاگل جو بغير تنخواہ کے کشمير میں پاکستان کی جنگ لڑتے ہیں۔ انہیں کيا ملا؟ قيد، موت بدنامي، پابندي اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کيا ملا؟ آگے بھی کچھ نہیں ملے گا کيونکہ جس کے نام پر پاکستان حاصل کيا تھا اس کا کہنا ہے اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک تبديل نہیں کرتا جب تک وہ خود کو تبديل نہ (ارادہ) نہ کر لے۔ تبديلی والا کام تو ہم سے ہوتا نہیں اس لیے زرداری ايک نہیں ہم سب ہی زرداری ہیں۔ پاکستان کی فکر کے لیے اللہ کافی ہے۔ اسی کے نام پہ حاصل جو کيا تھا۔ ہمارے ديگر کام بھی تو اللہ کر رہا ہے۔ ہمیں فرصت کہاں؟ زندہ باد پاکستانی مردہ دل ہم جيسے۔۔۔ وسلام ۔
حسن ذرا دھیان میں آؤ۔ ہر چیز آپ کی مرضی سے نہ ہوگی۔ مجھے تو زرداری زندہ باد لگتا ہے۔
محترم حسن مجتبي صاحب آپ تو ايسے کہہ رہے ہيں جيسے زرداری بننا بہت ہی آسان ہے۔ يہ بچوں کا کھيل ہے؟ جناب عالی زرداری بننے کے لیے اولين شرط تو اپنے جذبات، خواہشات، ذاتی عزائم، حرص ولالچ، نفرت، انتقامی جذبہ، اور منافع جيسی منفی خصوصيات جو کہ سرمايہ داری کی دين ہيں، کو پيچھے دھکيلنا ہوگا، اپنے نفس سے ’يُدھ‘ کرنا ہوگا، جذباتيت کو لگام ديني ہوگي اور صرف ’سب سے پہلے پاکستان‘ فلسفہ کو پکڑنا ہوگا۔ ايويں ہی ہر کوئی زرداری نہیں بن سکتا، اس کے ليے ملک وعوام کی خاطر اپنی انا کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ ضيائی آمريت کے زير سايہ پيدا، پلنے اور بڑھنے والی ن ليگ کی طرح بات نہیں بنے گی کہ جس طرف کو ہوا چلي ادھر کو ہي ’رُخ مہتاب‘ پھير ليا:
’اس کو ساتھ چلنے پر اب کريں گے آمادہ
يا جدھر وہ جائے گا، اس کے ساتھ ہولیں گے‘
واقعی ستائیس دسمبر کو آئینہ ٹوٹ چکا ہے یا شاید سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ کچھ ہی ماہ میں سب کچھ بھلایا جا چکا ہے۔ یہ تو لمحہ فکریہ ہے۔ جب پاکستانی نوٹوں پر کراچی کے شہزادے کی تصویر چھپے گی، بس زرداری کو اللہ تعالیٰ سمجھ دے۔۔۔ اب تو کوئی بات سمجھ نہیں آرہی ہے۔۔۔ نوابشاہ کا شہزادہ کیا کرنا چاہتا ہے؟
حسن صاحب بہت عُمدہ بلاگ لکھا ہے آپ نے ہميشہ کی طرح کہ بےاختيار دل سے واہ نکلی ہے! کتنا درُست تجزيہ ہے ناں آپ کی دوست کا کہ اب ہمارے مُلک ميں بادشاہتوں کے بٹنے کا وقت ہے۔ جو جتنا جس کے قريب ہوگا اُتنا ہی نوازا جائے گا۔ آں ہاں نوازا سے مُراد نواز شريف بھی ہو سکتا ہے ليکن واقعی بظاہر گريجُويٹ نہ ہونے والوں کی سياستی پی ايچ ڈی سے تو انکار مُمکن ہی نہیں ہو سکتا کہ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی گٹھ جوڑ کرنے کے علاوہ اور کُچھ ہے ہی نہیں۔ بے شک آئينہ ٹُوٹ چُکا ہے ليکن آئينہ خانوں ميں رہنے والوں کو اس سے کيا غرض کہ ان ٹُوٹے ٹُکڑوں کی ہر کرچی میں کون دِکھتا ہے کيُونکہ يہاں تو زمانے کے دستُور کے مُطابق جو دِکھتا ہے وُہی بِکتا ہے۔ اب کوئی اسے کُچھ بھی کہہ لے ہم تو يہی کہیں گے کہ، ’بِلّی کے بھاگوں چھينکا ٹُوٹا‘ تو فائدہ تو ہو ہی گيا ناں۔ جبھی تو چہرہ ايسے چمک رہا ہے کہ لگتا ہے نواں نکور ہو گيا ہے، آخر کيُوں نہ ہو کُرسی کا نشہ ہوتا ہی ايسا ہے۔۔۔
خير انديش
شاہدہ اکرم
حسن صاحب آپ کا بلاگ پہت پسند آيا۔ میں زرداری بننا چاہتا ہوں مگر بينظير کہاں سے لاؤں؟
حسن صاحب، آپ نے زرداري پر تو تنقيد کا نشتر چلا ديا بلکہ سارا ترکش ہی خالی کر ديا ليکن اگر آپ تعصب کی عينک اتار کر، منطقي، حقيقت پسند اور انصاف کی نگاہ سے اس شيشے میں سے ديکھیں تو آپ کو ہر ٹکڑے میں مفاد، انا اور انتقام پرستوں کے چہرے دکھائی ديں گے۔ ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کی عملاً کوشش کرنا بھی تو زرداری ہی کا کام ہے، اور اگر آج زرداری نواز شريف والی سوچ پر آجائیں تو باقی ميڈيا کی طرح آپ بھی اگلا بلاگ زرداری کی شان میں لکھیں گے اور زرداری صاحب پھر سے ’مہان‘ لکھے جائیں گے۔ اس انتشار اور ’سکينڈلز‘ بھری سياست کے علمبرداروں کے مقابلے میں زرداری کا سياسی قد کہیں اونچا ہے۔ آپ کی اطلاع کے ليے ايک ضروری وضاحت کہ ميرا کسی سياسی پارٹی سے کبھی تعلق نہیں رہا اور میں ايک آزاد رائے رکھتا ہوں۔