چُوری یا خون دینے والے مجنوں!
کہتے ہیں لیلا کے چُوری کھانے والے مجنوں اور طرح کے اور خون دینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں۔ لیکن کل میں نے کیا دیکھا کہ لیلا کے چُوری کھانے والے مجنوں بھی اس کے نام پر خون دے رہے تھے۔ کون لیلا کییسے مجنوں؟
یہ پاکستان کی ایک عجیب و غریب لیلا تھی۔ لیلائے وطن، لیلا مرگئی اور پاکستان جیسا جنگل اداس اور لیلا کے چُوری کھانے والے مجنوں خوش ہیں۔۔۔
بالکل اس مصرع کے پلٹ ہوا 'مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے'
پاکستان جیسے جنگل کی لیلا بینظیر بھٹو تھی جس کے کروڑ ہا مرد ہوں کہ زن مجنوں تھے۔ ان پی پی پی کارکنوں اور کارکن نما لیڈروں یا اپنے سروں کے چراغ جلانے والے جیالوں کی بات نہیں۔ میں چُوری کھانے والے مجنوؤں اور لیلاؤں کی بات کر رہا ہوں۔
بینظیر بھٹو کی سالگرہ والے دن ملک اور ملک سے باہر پی پی پی والوں نے اپنی مقتول لیڈر کو لہو کا خراج پیش کرنے کے لیے بلڈ بنک قائم کر کے خون کے عطیات دئیے۔ میں نے کل میڈیا میں دیکھا کہ آصف علی زرداری (جو کہ خود سب سے بڑے عہدے یا کرسی کا نام ہے)، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر اطلاعات شیری رحمان اور سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا بھی خون کے عطیات دے رہے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں 'چُوری کھانے والے مجنوں اور طرح کے، اور خون دینے والے مجنوں اور طرح کے ہوتے ہیں' والی کہاوت یاد آگئی۔
نہ جانے مجھے یہ کیوں لگا کہ بی بی کے خون سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے یہ مرد و خواتین خون کے عطیات بھی ویسے پوز بنا کر دے رہے تھے جیسے مارے مجبوری سرکاری شخصیات پودہ لگانے یا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے پوز بناتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
ان سب کو بھی لالو پرساد اور عمر عبد اللہ کی طرح فلموں ميں کام کرنے بھيج دينا چاہيے۔۔۔
حسن مُجتبيٰ آپ کے بلاگ اتنے زوردار ہو گئے ہیں کہ اگر آپ پاکستان میں ہوتے تو يقينی اس وقت غائب ہو گئے ہوتے۔ ليکن آج کے بلاگ میں جو آپ نے کہا وہ نہ جانے کيُوں کہیں اندر موجُود تھا۔ آپ نے کہہ ڈالا کہ عام عوام کی عقيدت اور خواص کی ترجيحات ہميشہ مُختلف رہی ہیں اور يہی بات سالگرہ والے دن خواص کے ہر ہر پہلُو سے ظاہر ہُوئی۔ کيمرہ کانشس شايد يہ لوگ کُچھ زيادہ ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں پوز بنانا چاہیں يا نہ چاہیں پوز خُود ہی بن جاتا ہے يا اُنہیں پوز کرنے کے لیے زيادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔ تو اب چُوری چاہے مجبُوری ميں کھائی جائے يا خُوشی سے، ہوتی تو چُوری ہی ہے۔ يہ الگ بات ہے کہ کسی کو مجنُون کر ديتی ہے اور کسی کو ديوانہ (ياد رہے عربی ميں مجنُون پاگل کو کہتے ہيں) اور مجنُوں اور مجنُوں ايک ہی بات ہے۔۔۔ ہے ناں حسن بھائی
خير انديش
شاہدہ اکرم
’رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہُو کيا ہے!‘
حسن صاحب! آداب، آپ نے آخر میں بالکل درست تجزيہ فرمايا ہے، يہ سب اکابرين کا ’فوٹو سيشن‘ ہی دکھائی ديتا ہے۔ اب بات چونکہ خُون دينے کی ہو رہی ہے تو آپ يقينی طور پر واقف ہوں گے کہ وطنِ عزيز میں لاتعداد غُرباء، غُربت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنا خُون تک بيچنے پر مجبُور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح، آپ نے يہ بھی سُنا ہو گا کہ نشہ پُورا کرنے کے لیے اپنا خُون بيچنے والے ہِيروئن کے عادی لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ يقين مانیے، يہ بالکل حقيقت ہے! جہاں تک پاکستان (اور ہم سب) کی محبُوب ’لیلا‘ کا تعلق ہے، اُس کی ياد میں عطيہ کی شکل میں خُون کے دريا بہا دينے والوں کا جذبہ کِتنا ہی قابلِ قدر کيوں نہ ہو، يہ بات بھی البتہ ذہن نشين رہے کہ جس حساب سے غير رپورٹ شُدہ بيمارياں ( بالخصوص ہيپا ٹائٹس) مُلک بھر میں عام ہیں، اس تناظر میں اس خُون کا استعمال اس کی مکمل طِبی چھان پھٹک کے بعد ہی کيا جانا چاہیے۔ کہیں ايسا نہ ہو کہ نيک کام اُلٹا پڑ جائے۔ يہ فقط ميرا ايک مُخلصانہ مشورہ ہے۔
خير انديش، نديم اصغر
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔۔۔
اسی کو تو سستی شہرت حاصل کرنا کہتے ہیں۔
دوسروں کے کيے کام اپنے نام لگا لینا۔۔۔
بجائے اس کے کہ ان ليڈران کے اس اقدام کو سراہا جاتا آپ کی يہ تنقيد بغض اور تعصب ظاہر کرتی ہے۔۔۔
يہ ہي تو سياست کے رنگ ہيں؟ ہنستے مسکراتے چہرے دراصل کتنے بدصورت ہوتے ہیں اسکا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ مجھے تو آج اس بدقسمت جج کي داستان پڑھ کر رونا آ رہا ہے جو بيچارہ ایک مرد مومن کی بیگم کو عدالت میں طلب کرنے کی غلطی کر بیٹھا اور بائیس سال جیل میں گزار دئیے۔ اسے تو کوئی انصاف نہ دے سکا۔ بینظیر، نواز شریف، مشرف۔ حتی کہ افتخار صاحب انصاف بھی نہیں۔ مزید رونا اس بات پر کہ شدت پسندوں نے امن جرگہ کے اٹھائیس ارکان کے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ کیسا انصاف ہے، کیسی حکومت اور کیسا اسلام؟ پروردگار یہ ملک کیسے قائم ہے اور اگر ہے تو پھر یقیناً تو ظالم کی رسی دراز کر رہا ہے۔ رب کریم ہم پر اپنا رحم فرما۔ آمین
اسے کہتے ہیں میں نہ مانوں! ايک مثبت کام میں بھی منفی پہلو ڈھونڈ ليا آپ نے۔ میں تو يہی کہوں گا ’اسٹیبلشمنٹ اِن ايکشن‘!
يہ ہم سب کو کيا بيماری لگ گئی ہے کہ کوئی اچھا کام بھي کرتا ہے تو اس میں ہم برائی کو ڈھونڈ نکال ليتے ہیں؟ میں يہ نہیں کہتا کہ جنہوں نے اس دن خون ديا ان سب کی نيت صاف تھی مگر اتنا تو ہوا کہ کسی کا تو بھلا ہوگا؟ تو روشن پہلو کو بھی ديکھنا چاہيے نہ کہ صرف تاريک پہلو ہی ديکھنا چاہیے۔۔۔
ہمارے پیارے پاکستان میں صرف دکھاوے کی سیاست کی جاتی ہے۔ عوام کو پیپلز پارٹی کے بدعنوان سیاستدانوں کے خون کی نہیں بلکہ آٹا، گھی، چینی کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی یہ خون عوام کا ہی ہے۔ جو یہ عوام کو لوٹ کر بناتے ہیں۔
صرف تنقيد برائے تنقيد آپ کا کام ہے۔ کچھ تو تعميری بنیں۔۔۔
حسن ميرے بھائی اتنا سچ پڑھنے سے حاضما خراب ہو سکتا ہے!
محترم حسن بھائی، اسلام وعليکم، جناب جناب پاکستانی عوام تو يہ نوٹنکی گزشتہ ساٹھ سال سے ديکھ رہے ہیں، جس کے موجودہ ہيرو نواز، زرداری اور ولن مشرف ہیں۔۔۔