خون کے پیاسے بیانات
لندن میں تہلکا میڈیا گروپ نے پاک بھارت تعلقات کے مستقبل پر ایک بہت دلچسپ کانفرنس منعقد کی۔
دوسرے روز ابتدائی تقریر عمران خان نے کی۔ میں عمران خان کی بہت پرانی 'فین' ہوں لیکن ان کی کچھ باتوں سے میں چونک گئی۔ لال مسجد آپریشن کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مشرف کو صدام حسین جیسی موت مرنی چاہیے۔ پھر انہوں نے کہا کہ مشرف کو لٹکا دینا چاہیے۔
میں ان کی یہ باتیں سن کر چونک گئی۔ میرا خیال ہے کہ ایک سیاستدان کو ایسے پُرتشدد بیانات نہیں دینے چاہئیں اور یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دار حرکت ہے۔ میں نے عمران خان سے یہ کہا تو انہوں نے غصے سے کہا کہ میں صحیح بات کہہ رہا ہوں اور میں تو یہی کہوں گا۔
لیکن کیا سیاستدانوں کو تشدد کی زبان بولنی چاہیے؟ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صرف الفاظ ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ انتہائی ہیں کیونکہ ان سے لوگوں کا ایک ذہن بنتا ہے۔ وہ خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں، وہ تشدد پر اتر آتے ہیں، ان میں عدم برداشت بڑھتا ہے اور وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا جائز سمجھنے لگتے ہیں۔
عمران خان قانون کی بالادستی کی باتیں کرتے ہیں اور ساتھ لوگوں کو کسی کو پھانسی پر چڑھانے کے لیے لوگوں کو اکساتے ہیں۔ کیا یہ ذمہ دار سیاست ہے؟
لوگوں کے پُتلے جلانا، ان کی تصاویر پر بندوق سے فائر کرنا۔۔۔۔ ان سب سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اس سے صرف ہم میں یہ احساس بڑھتا ہے کہ جو چیز آپ کو پسند نہیں ہے اسے آپ تشدد سے ختم کر دیں تو جائز ہے۔
کیا سیساتدانوں کو اس قسم کے بیانات دینے چاہئیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
آپ عمران خان کی ’فين‘ ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی سياسی حِس بھي عمران کي طرح ناپختہ ہے۔ آپ کے بلاگ سے يہي نتيجہ اخذ ہوتا ہے کہ ملک کي واحد بڑي سياسي اور نظرياتي پارٹي پاکستان پيپلز پارٹي کے شريک چئيرمين ’ہِز ايکسيلينسي‘ جناب آصف علي زرداري صاحب ہي کا آپ کو ’فين‘ بننا چاہیے۔ کيونکہ يہي وہ واحد شخصيت ہيں جنکے بيانات ہميشہ ٹھنڈے دل و دماغ سے جاري ہوتے ہيں اور سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہيں۔ ہاں صرف پنجاب تک محدود ن ليگ، زرداري صاحب کے ساتھ نيک نيتي سے تعاون نہيں کر رہي اور پس پردہ، دانستہ يا نادانستہ ملک کے حالات ڈانواں ڈول کر رہی ہے اور ايسا کر کے عوام کو اپنے بيک وقت آمريت وملائيت کی پيدائش ہونے کا ثبوت فراہم کر رہی ہے۔ ان کے بيانات بھی ديکھ لیں آپکو زہر میں گھلے ہوئے ملیں گے۔۔۔
میں آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ عمران خان جو کہہ رہے تھے وہ صرف اسی صورت میں صحیح ہوتا اگر یہ فیصلہ عدالت کرتی۔ سیاست دانوں کو زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔
بار ديگر خان صاحب کا ذکر آيا ہے تو عرض کروں کون ہے جو ان کا فين نہ ہوگا۔ دو بار ملاقات کا موقعہ ملا جب وہ کرکٹ کپتان ہوا کرتے تھے اور کيا جاذب نظر شخصيت کے مالک تھے۔ غصہ تب بھی بہت تھا ليکن کھلتا نہ تھا کيونکہ کارکردگی نماياں رہتي تھی۔ الميہ يہ ہے کہ سياست ميں وہ يہ کاميابی دوہرا نہ سکے۔ ان کا خلوص شک و شبے سے بالاتر ہے۔ فقط طريق کار توجہ طلب ہے۔ خدا کرے وہ اس کا کچھ کر سکيں اور ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کچھ کرتے بھي نظر آئیں۔ پھر يہ غصہ اتنا برا نہیں لگے۔
عنبر جی
السلامُ عليکُم
کيوں تپی بيٹھی ہيں اتنی کيا پہلی دفعہ سُنی ہے ايسی زبان يہ تو ہمارے ليڈروں کی من پسند زبان ہے ہاں عمران خان پڑھا لکھا بندہ ہے تو عجيب لگی يہ بات ليکن کيا کريں کہ ہمارے ہاں شايد اب يہی بات اِن جا رہی ہے وصی ظفر صاحب کی حسين گُفتگُو بُھول گئيں آپ اور دُور کيوں جاتی ہيں خُود مُشرف صاحب کی اتنی عجيب و غريب باتيں جو پکی بات ہے اُنہيں زيب نہيں ديتيں ليکن وہ کرتے ہيں مثال کے طور پر
اُن کو پتہ نہيں نہيں چلے گا کہ گولی کدھر سے آئ
عورتوں کے مُتعلق فضُول ترين بات بھی کوئ بہت پُرانی بات نہيں ہے ليکن ان سب باتوں کے ياد دلانے سے ميں کسی بھی ليڈر کے لۓ ايسی زُبان بولنے کے لۓ حق بجانب نہيں قرار دے رہی جو غلط ہے وُہ سب کے لۓ غلط ہے ليکن کيا کريں کہ شايد ہمارے عوام کے پاس بھی تو اور کوئ چارہ نہيں سواۓ پُتلے جلانے يا پوسٹرز پر گولياں چلانے کے اور کُچھ کر بھی تو نہيں سکتے ايسے ميں دل ٹھنڈا کرنے کی کاروائياں ہيں يہ بس جلتی پر تيل ہيں يہ بيانات جن کی تصحيح يا تربيّت ہونی چاہيئے ليکن پھر بات وہيں آجاتی ہے کہ يہ سب کرے گا کون؟ہميں خُود ہی کرنا ہوگا کوئ اور تو کرنے سے رہا پھر شُرُوع کہاں سے ہو کيا اُوپر سے يا سيڑھياں يہاں بھی نيچے سے شُرُوع ہوتی ہيں۔
عمران خان کی ميں بھی فين ہوں ليکن پرانی نہيں ، واقعی عمران خان کو ايسی باتيں نہيں کرنی چاہيۓ ليکن تھی بھی تو کانفرنس تہلکہ والوں کی تو آپ لوگوں کوتو ذہنی طور پر تيار رہنا تھا پھر اور ايسے بيانات تو خود سياسی لوگوں نے موگيمبو، گبرسنگھ اور شاکال سے سيکھے ہوتے ہيں فلميں ديکھ کر خير خواہش تو معصومانا تھی ليکن طريقہ ظالمانہ عمران خان کا سائکو صاحب آپکا خود کو سائکو کہنا اپنے آپ ميں مثال ہے خود کو پہچاننے کی
عنبر جی اسلام عليکم۔ کيا آپکو معلوم نہيں کہ عقل کی بات کرنا يہاں پہ منع ہےـ اگر آپ پيپلژ پارٹی پر بلخصوص زرداری پر تنقيد کريں گی تو آپکو يہاں بيٹھے بيٹھے عقلمندی اور محبت وطن کے سرٹيفيکيٹ مليں گے ورنہ بيجا تنقيد اور ملک دشمنی کے سرٹيفيکيٹ بھی بيٹھے بيٹھے ہی ديکھنے کو مليں گےـ
صحبت انسان پر بہت اثر کرتی ھے اور آج کل عمران کا اٹھنا بيٹھنا مشہور زمانہ تھنڈر اسکواڈ کی بانی جماعت کے ساتھ ھے اسلۓ ايسے بيانات دے رھے ھيں
جب اس ملک کے نام نہاد حکمراں اپنی عوام کو يہ بوليں کہ ”ہم تميہں وہاں سے ماريں گے کہ تمہيں خبر نہيں ہو گی ” تو پھر آپ نے اپنے بلاگ پر تبصرہ کيوں نہيں لکھا ـ ايک ظالم کے پھانسی کی فکر ہے پر ہر ڈکلٹيٹر کے دور ميں مرتے سياستدان اور عوام کی نہيں اور عمران خان نے بھی اک عوامی حصے کی ذبان ذد آم کی ہےـ
فرق صرف اتنا ھے کہ عمران جيسے لوگ سچی بات ژبان پر لے اتے ھيں مگر باقی ليڑران تو بغل ميں چھری اور منہ پہ رام رام-ان کے تو کاموں سے کافی لوگ روذانہ مرتے اور متاثر ھوتے ھيں
انگريزی ميں ايک ضرب المثل ہے کہ اگر کسی کی جائيداد تباہ ہوجاۓ تو اسکا کوئی نقصان نہيں ہوتا، اگر صحت جاتی رہے تو نقصان قابلِ برداشت ہوتا ہے، ليکن اگر وہ کردار کھو بيٹھے تو وہ مکمل طور پر تباہ ہوجاتا ہے- سياستدان ہو يا عام شخص، ہرانسان اپنی عادات سے پہچانا جاتا ہے- يقينی بات ہے کہ اگر اسکی عادات پاکيزہ اور اخلاق اچھا ہے تو لوگ اسکی قدر کريں گے اگر برا ہے تو لوگ اس سے نفرت کريں گے- عمران خان کو سياسی بندہ کہنا ايسے ہی ہے جيسے کوئی پتھر کے بُت سے آنسو ديکھنے کی خواہش رکھتا ہو- ميدانِ سياست ايک ايسا حساس ترين ميدان ہے جس ميں معمولي سي لغزش، چھوٹا سا غلط بيان بھی پارٹی و شخصيت کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے، اسکی ايک مثال تو آمرِزمانہ ضياءالحق کے لاۓ گۓ نوازشريف کا 'مشرف نواز معاہدہ' تھا جس سے ثابت ہوا کہ انہيں ملک وعوام سے زيادہ اپني جان ومال زيادہ عزيز ہيں، دوسري مثال نواز صاحب کا ہي وہ جذباتي اور غلط فيصلہ تھا جسکي رو سے وہ 'اين آر او' کي سيڑھي پر چڑھ کرغلط موقعہ پر اور غلط وقت پر اسلام آباد اترے تھے جہاں پر انہيں اپنے استقبال ميں سينکڑوں لوگوں کي بجاۓ سينکڑوں طوطے بولتے ہوۓ ملے تھے- سياسی آئين ميں جذبات نام کي کوئي چيز نہيں ہوتي اور صرف تحمل مزاجي، ميٹھي زبان والفاظ وبيانات، دورانديشي، محبت بھائی چارہ غيرہ جيسی انسان دوست خصوصيات ہی موجود ہوتی ہيں- عمران ميں تو ان خصوصيات کو چراغ لے کر بھی ڈھونڈا جاۓ تو نہيں مليں گي، ہاں جذباتيت انکے ہاں ايک اندھا شخص بھی ديکھ سکتا ہے- خاکسار کے مطابق عمران کے ہاتھوں پر طاہرالقادري کي طرح سياسی لکير کا وجود ہی نہيں ہے، لہذ خاکسار کا انہيں مشورہ ہے کہ سياست سے ريٹائرمنٹ لے ليں اور يہی انکے ليۓ بہتر ہوگا، اگر فی الحال ان کا ايسا کرنے کا موڈ نہيں ہے تو کوئي بھي بيان دينے سے قبل کم ازکم اتنا ضرور ياد رکھا کريں بقول شاعر:
'گرمي سہي مزاج ميں ليکن نہ اس قدر
کي جس سے بات اس نے شکايت ضرور کي'
ليکن عمران خان تو صرف اس طرح کی بيانات ہی ديتے ہيں، ان کے بارے ميں کيا خيال ہے آپ کا جو واقعی ميں سيدے سبھاؤ سياسی اختلاف پر گولياں اتار دينا اپنا پيدائشی حق سمجھتے ہيں۔ ويسے ان کے بارے ميں کچھ نہ ہی کہنا اچھی بات ہے کہ جان سب کو پياری ہوتی ہے۔ اگلا بلاگ بھی کسی ايسی ہی بے ضرر شخصيت پر لکھ کر اپنا شوق پورا کريں اور خبردار غلطی سے بھی اصلی گاڈ فادرز کا نام منہ پر نہ آنے پائے۔ ايسے لوگ بہت حساس ہوتے ہيں، کيا معلوم کب کوئی بات بری لگ جائے اور پھر ہم اپنے محبوب بلاگرز سے محروم نہيں ہونا چاہتے۔
عمران خان بھی ایک اور قاتل ہے نوجوانوں کی امنگوں کا۔ اس بھٹکی ہوئ قوم کو ایک مسیحا چاہیے-
پر تشدد تبصرے پر معزرت
عمران خان اپنے کرکٹ کے دور میں جو عیاشی کرتے رہے ہیں۔ان کو یہ باتیں زیب نیں دیتی محاورہ کہ بلی سو چوہے کھا کے حج کو چلی۔وہسے ہہ عمران کی زاتی زندگی ہے مگر جناب آپ امرہکہ کی بات کرتے ہو آپ سے اہک عیسائی لٹرکی تو قابو کی نیں گی ۔ایک اچھے لیڈرکو یہ زبان زہب نیں دیتی۔
عنبر بي بی چور کی سزا ہاتہ کاٹنا ہے- اب اس بات کو جس بہی ڈہھنگ سے جو بھی کہ دے جہاں بھی کہ دے کوئ فرق نہی پڑتا- رہی عمران خان کی بات تو شکر ہے ہمارے سياستدانوں ميں کوئ تو ہے جو صاف اور کھری بات جھجکے بغير کرتا ہے- آپ کو برا اس ليے لگا کے آپ اس طرز سياست کی عادی نہيں-
سچ بات تو يہ ہے کہ تعليم بھی انساني جبلت نہيں تبديل کر پاتی - عمران خان کا آکسفورڈ سے تعليم يافتہ ہونے کے باوجود ايسی زبان استعمال کرنا اس بات کا واضع ثبوت ہے - تعليم يافتہ ہونے کے بعد بھی عمران خان ايک سرتاپا اجڈ قبايئلی ہے جس کا جديد تعليم بھی کچھ نہ ُ بگا ڑ ُ پايئ -
عمران خان کے خون کے پياسے بيانات سے مجھے تو ايسا محسوس ہونے لگا ہے جيسے انکے گھر پر بھی اس کا اثر پڑا ہوگا۔ خدا کا شکر ہے ميرے خاوند تو بڑے نرم دل ہیں، اسی ليے الحمداللہ ميرا گھربار جنت کا درجہ رکھتا ہے۔ جديد دنيا ميں بھی تو يہ مشہور ہے ’ميٹھے بول ميں جادو ہے‘۔ تو پھر عمران خان آپ خود کو بدلیں نہیں تو گھر کی طرح سياست بھی ہاتھوں سے نکل جانی ہے۔ سائکو صاحب کا ريٹائرمنٹ لينے کے مشورہ پر ضرور ہمدردانہ غور فرمائیے گا۔
ميں آپ سے صرف دو سوال کروں گا، کيا مشرف سياست دان ہیں؟ کيا مشرف ووٹ کے ذريعے اقتدار میں آئے ہیں؟
آپ سب کی گفتگو سے چند ماہ قبل غيرجمہوری صدر کا دورہِ برطانيہ کی ياد تازہ ہو گئ- جب غيرجمہوری صدر نے کسی صحافی کو دو چار ٹکانے کی بات کی تھی - شايد ہمارے سياست دان اس بات سےبخوبی واقف ہيں کہ عوام صرف ان کے الفاظ متاثر ہو کر اپنی توجہ اصل نقطہ سے ہٹا ليتی ہے - کيا صدر نہيں جانتے کہ وہ غيرجمہوری و غير آئينی صدر ہيں- کيا پارليمنٹ ايک بے اختيار ادارہ ہے؟ کيا وجہ ہے کہ ہم سب نا چاہتے ہوئے بھی صدر کی ہاں ميں ہاں ملا رہے ہيں (ہم سب سے مراد عوام ہے) اصل حقيقت يہ ہے کہ ہم سب تشدد اور ظلم کرنے يا سہنے کے عادی ہو چکے ہيں کہ ظلم کرتے يا سہتے ہوئے بھی آواز بلند کرنے سے قاصر ہيں يا کوئی متاوہ کرے والا نہيں ہے يا پھر وہ متاوہ کرنے والا خود کسی ظلم کا شکار ہے -يہ سب جو کچھ ہو رہا ہے کسی بڑے طوفان کا پيش خيمہ ہے جو کہ ترقی يافتہ ممالک کی تاريخ ميں 200 سال پہلے آ چکا ہے
سچی بات ہمیشہ ہی کڑوی لگتی ہے۔ برداشت پیدا کریں۔۔۔
محترم طارق جوئيہ صاحب آپ آم کھانے سے زيادہ پيڑ گننے میں کيوں دلچسپی رکھتے ہیں؟ قوم کو عمران کی ذاتی زندگی سے کيا غرض؟ قوم تو اس کے معاشرتی کردار کو پسند کرتی ہے۔ قوم عمران کو ايک نڈر، بےباک اور بےغرض ليڈر کے طور پر جانتی ہے۔ اگر قوم نے عمران کو عزت اور احترام ديا ہے تو اس نے بھی شوکت خانم اور نمل کالج جواب ميں دے کر اپنا نام سر گنگا رام، گلاب ديوی، کنگ ايڈورڈ اور کوين ميری کی فہرست ميں لکھوا ليا ہے۔ جوئيہ صاحب جس کے نصيب ميں رب کاينات عزت لکھ دے اس کو آپ کی اور ميری بلاگ کچھ نہیں کہہ سکتی۔ رہی عمران کی سابق اہليہ کی بات تو کيا آپ کل کلاں بابائے قوم کو بھی طعنہ دو گے کہ ان سے اپنی صاحبزادی قابو نہیں ہوئی؟
ميری نظر ميں يہ بات سياسی تشدد کی نہيں بلکہ انصاف کی ہے۔ دنيا کے اکثر انقلابات يا سياسی جدوجہد ميں تشدد موجود رہا ہے۔ اگر ايک غاصب کو سخت ترين سزا نہيں دی جاتی تو يہ اگلے غاصب کے ليے گويا گرين سگنل ہو گا۔ يہ مطالبہ صرف عمران خان کا ہی نہيں بلکہ مقبول ترين عوامی رہنما نواز شريف کا بھی ہے جسے کروڑوں پاکستانيوں کی حمايت حاصل ہے۔ عمران خان لوگوں کو ’جلاؤ گھیراؤ‘، توڑ پھوڑ يا لوٹ مار کی تلقين نہیں کر رہے، بلکہ ايک ايسے شخص کی سزا کی بات کر رہے ہیں جو اکثريت کے خيال ميں ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والی شخصيت ہے۔ سياستدانوں کو تشدد کا نہیں بلکہ ٹرائل کا مطالبہ کرنا چاہيے جو محترم نواز شريف، عمرآن خان، قاضی حسين احمد اور تمام بلوچ قوم پرست رہنما پہلے سے ہی کر رہے ہیں۔