جاہل آن لائن
ایم کیو ایم کے سیاسی سٹائل کے بارے میں کرنے کو بیسیوں باتیں ہیں لیکن اس بات کا کریڈٹ سراسر ایم کیو ایم کو جاتا ہے کہ گزشتہ بیس برس میں کراچی میں مذہبی منافرت کی بنیاد پر کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا اور پارٹی پلیٹ فارم کو کبھی مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔
اس کا تازہ ثبوت سابق وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور اور جیو ٹی وی چینل کے مذہبی پروگرام 'عالم آن لائن' کے اینکر پرسن عامر لیاقت حسین کا ایم کیو ایم سے اخراج ہے۔
عامر لیاقت حسین پاکستان کے پہلے ٹی وی اینکر ہے جنہوں نے ایک ہفتے قبل اپنے پروگرام میں ایک اقلیتی فرقے کے ماننے والوں کو واجب القتل قرار دیا۔ جس کے بعد اندرونِ سندھ میں احمدی فرقے کے دو پیرو کاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
ایشین کمیشن آف ہیومین رائٹس اور پاکستان کا انسانی حقوق کمیشن اپنا مذمتی ردِ عمل ظاہر کر چکا ہے۔ تاہم کسی صحافتی تنظیم اور خود جیو ٹی وی چینل نے تاحال یہ وضاحت نہیں کی کہ اس طرح کی مذہبی منافرت پھیلانا آزادیِ صحافت کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں۔ عامر لیاقت حسین جو اس سے قبل خودکش حملوں کو بھی شرعاً جائز قرار دے چکے ہیں، ان کا پروگرام اب بھی جاری و ساری ہے۔
میرے ایک دل جلے دوست کا کہنا ہے کہ اگر 'عالم آن لائن' کے نام سے کسی پروگرام کو مذہبی منافرت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو پھر اس کا نام 'جاہل آن لائن' رکھنے میں کیا رکاوٹ ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جی وسعت صاحب بجا فرمايا۔ اس کو ’جاہل آن لائن‘ کہنا کہيں زيادہ مفيد ہوگا۔
محترم وسعت صاحب لگتا تو يہی ہے کہ آپ ڈاکٹر عامر لياقت سے خالي کروائي گئی کرسي پر براجمان ہونا چاہتے ہيں، جو آج ايم کيو ايم کے قصيدے خارج ہو رہے ہيں! ڈاکٹر عامر کی تو بات کرنے کی ضرورت ہی نہيں ہے کہ وہ تو صرف ايک بڑے ايکٹر ہیں اور اپنے ’پوز‘، ’چہرہ کے تاثرات‘، اور ’اوور ايکٹنگ‘ کے ذريعہ معصوم لوگوں کی معصوميت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ جہاں تک ايم کيو ايم کی مذہبی منافرت کے خلاف وافر پيمانے پر ’مہم‘ اور کراچی ميں ’طالبانائزيشن‘ کا متواتر ڈھنڈورا پيٹنے کا تعلق ہے تو جناب عالی يہ ايم کيو ايم کی اپني دہشت پسندانہ سياست کو چُھپانے کی ايک پاليسی و چال ہے اور ساتھ ہی عين ممکن ہے کہ ايم کيو ايم ’طالبانائزيشن‘ کے نعرہ پر اپنی ’فطرت‘ کی پياس بجھانا چاہتی ہو کہ ’بارہ مئي‘ کو بہت عرصہ گزر چکا ہے۔ کيا خيال ہے!
پڑھے لکھے جاہلوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسا عالم خود فساد کی جڑ ہوتا ہے۔
اگر ايک فرقہ يا ايک اقليت کو قتل کرنا جائز ہے تو پھر ہندؤں کا اور عسيائيوں کا مسلمانوں کو قتل کرنا جائز ہوا؟ پھر ہر شخص مذہب کا نام ليکر کسی دوسرے مذہب يا فرقے والے کو قتل کر سکتا ہے۔۔۔ پھر ہندوستان، اسرائيل اور امريکہ پہ مسلمانوں کا قتل اور استحصال کا الزام اور ماتم کيسا؟ جاہليت کی انتہا ہے کہ اس اسلام کے جس نے جنگ کے دوران بھی فصلوں اور جانوروں تک کو بھی نقصان پہچانے سے منع فرمايا ہے، اس کے ساتھ انسانوں کا قتل اور خودکش حملوں کو شرعاً جائز قرار دينا شرمناک اور پرلے درجے کی جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ ’جاہل آن لائن‘ ہی ايسے پروگرام کا نام ہو سکتا ہے۔۔۔
عامر لياقت حسين کا فعل قابلِ مذمت ہے۔ جہاں تک ايم کيو ايم اور مذہبی منافرت کا تعلق ہے، تو جناب، مذکورہ جماعت اور اس کے لِيڈڈران و کارکنان کو لسانی منافرت و ديگر خرافات سے فُرصت ہی کہاں تھی کہ وہ مذہبی منافرت کا ڈھول بھی گلے ميں لٹکا ليتے! جُملہ حقائق تو آپ خود بھی بخوبی جانتے ہی ہوں گے۔
وُسعت بھائی آپ کا کيا خيال ہے ہم بہت پڑھے لِکّھے ہيں؟ ہم لوگ ايسے ايسے کام کر جاتے ہيں کہ خُود علم نہيں ہوتا کيا کہہ رہے ہيں، کيا کر رہے ہيں۔ اسلام کی تعليمات کی بات تو کرتے ہيں ليکن اُن پر عمل نہيں کرتے۔ جن ميں سرِ فہرِست کسی کی بھی دِلآزاری ہے، ليکن جب انسان خُود کو عقلِ کُل سمجھنے لگے تو ايسے ہی واقعات ظہُور پزير ہُوا کرتے ہيں جيسا کہ آپ نے ذکر کيا۔ اللہ تعاليٰ ہميں راہِ ہِدايت دِکھائے، آمين۔
دعاگو
شاہدہ اکرم
’فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کيا زمانے میں پنپنے کی يہی باتیں ہیں‘
عامر لياقت صاحب اس طرح کے بيانات دے کر لوگ سياسی و مذہبی تنظيموں کی بنياد رکھتے ہیں، لگتا ہے آپ کو بھی پچيس تيس سرفروشوں کی سپورٹ حاصل ہو گئی ہے۔ اسی ليے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گيا۔۔۔
کبھی اس اقليتی فرقے کے لوگو سے بھی پوچھ لیں دل پر کيا گزرتی ہے ايسی بات سن کر۔۔۔
جيو ٹی وی آزادي صحافت پر نہ صرف مکمل يقين رکھتا ہے بلکہ اس پر عمل پيرا بھی ہے۔ اب ہم آزادی صحافت ميں يورپ کے ہم پلہ ہیں۔ ايک وضاحت بھی ميں يہاں کرنا چاہوں گا کہ احمدی فرقہ نہیں، مذہبی اقليت ہیں اور انہیں بھی اقليتوں کو تحفظ حاصل ہونا چاہيے۔
میرا صرف اتنا سوال ہے کہ کیا میڈیا صرف اسلام کے خلاف ہی بات کرتا رہے گا؟
بدقسمتی سے یہ لوگ موقع پرست ہیں۔۔۔