رمضان کی وہ شام
وہ شام کچھ عجیب ہوتی تھی۔ سورج غروب ہونے کو ہوتا، پرندے ہمارے باغیچے میں درختوں پر اپنی مختلف آوازوں میں اندھیرا ہونے کا اعلان کرتے، ہم سب جمع ہو کر اماں کا انتظار کرتے کہ وہ کب صحن میں دری بچھائے، چائے بھر کر سماوار لائے اور گیس چولہے پر گھی میں تلی روٹیاں گرم کرنا شروع کر دے۔
ان دنوں ہم گھی میں تلی ہوئی روٹیاں خوب کھایا کرتے تھے اور کوئی موٹا نہیں ہوتا۔
دری کیا بچھتی کہ ہم سب سماوار کے قریب بیٹھنے میں دھکم پیل کرتے۔ مسجدوں سے 'افطار افطار' کی آوازیں آتے ہی ہم سب کھجور کی پلیٹ پر دھاوا بولتے۔ بابا افطار سے پہلےدعا پڑھتے اور ہم سب بابا کی جانب ٹکٹکی لگائے دعا ختم ہونے کا بےصبری سے انتظار کرتے۔
بابا کی بھوک کھجور یا چائے سے نہیں مٹتی، بلکہ ہمیں اماں کے پہلو میں دیکھ کر مسکراتے اور فوراً اماں کو حکم دیتے کہ بچوں کو شدید بھوک لگی ہوگی، روزے داروں کو کھلاؤ پلاؤ ثواب حاصل کر لے بی بی۔ اماں جواباً مسکراتی اور ان کے دونوں ہاتھ مشین کی طرح چلنے لگتے۔ کسی کے ہاتھ میں چائے تھما دیتی، کسی کو روٹی، کسی کو کھجور، اور کسی کو پانی۔
اماں بھی روزہ رکھتی تھی مگر اسکو کوئی نہیں کھلاتا تھا اور نہ وہ کسی سے اپنے لیے کھانے کا تقاضا کرتی تھی۔
افطار کی وہ بھینی بھینی خوشبو یاد کر کے دل مچل اٹھتا ہے۔ ویسا منظر، ویسے پرندے، ویسی اذان اور 'افطار افطار' کا اعلان۔ رمضان کا مہینہ آج بھی ہے لیکن وہ اماں نہیں جو روٹیاں سینک سینک کر ہماری بھوک مٹا دیتی تھی اور ابا بھی اب اس طرح مسکراتے نہیں۔ وہ شام بھی ویسی نہیں جو کچھ عجیب ہوتی تھی۔ انتظار کی ایسی تڑپ بھی نہیں۔
کاش کوئی ویسی ایک شام پھر لوٹا دے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بہت خوبصورت نقشہ کھينچا ہے۔ ميرا بچپن ياد دلا ديا۔
ننعيمہ جی اب برددس سدھار گئی ورنہ ہمارے ہاں پاکستان ميں تو اب بھی تقريباً ايسے ہي سحروافطار ہوتے ہيں۔
آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ہمارے ہاں افتار مختلف ہوتا ہے مگر بنیادی احساس اور اقدار بالکل یہی تھے۔ بہت شکریہ۔۔۔
آپ کا دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جو اس نعمت سے محروم ہو۔۔۔
نعيمہ جی بہت شاندار الفاظ ميں بچپن کا نقشہ کھینچا ہے ليکن افسوس اب يہ روايات ہمارے ہاں شہروں ميں تو کجا ديہاتوں ميں بھی معدوم ہو گئی ہيں۔
اللہ ميری اماں کو ايسی ہی تندرستی، صحت اور حوصلہ، لمبی عمر کے ساتھ دے آمين