دو باپ، دو کہانیاں
دہشت گردی کے بھی کئی روپ ہیں۔ جس دن سے میں نے جنوبی یارکشائر، ڈونکاسٹر کے رہائشی جیمز ہاؤسن اور اس کی سولہ ماہ کی بیٹی ایمی کی کہانی پڑھی ہے میں بری طرح خوفزدہ ہوں۔
جیمز ہاؤسن نے اپنی بیٹی ایمی کو قتل کر دیا تھا اور اسے اس گھناؤنے جرم پر عمر قید کی سزا ہوئی ہے اور وہ کم از کم جیل میں بائیس سال گزارے گا۔
یہ معلوم نہیں کہ اس وقت جیمز کے دماغ میں کیا تھا لیکن اس نے بس اتنا کیا کہ اپنی سولہ ماہ کی معصوم بچی کو اپنے گھٹنے پر زور سے مارا اور اس کی ریڑھ کی ہڈی توڑ ڈالی۔ وہ بیچاری اپنے باپ سے کوئی گلہ کیے بغیر دم توڑ گئی۔
جب سے یہ خبر پڑھی ہے دل و دماغ پر ایک دہشت سی طاری ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ریڑھ کی ہڈی بجلی سی چمک رہی ہو۔ کیا کوئی باپ ایسا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دماغ میں برطانیہ سے ہزاروں میل دور فلسطین کے اس باپ کا بھی خیال آ رہا ہے جس نے اپنے بارہ سالہ بیٹے کو اسرائیلی گولیوں سے بچاتے بچاتے سینے پر گولیاں کھائیں لیکن بدقسمتی سے اپنے لختِ جگر کو بچانے میں کامیاب نہ سکا۔
بارہ سالہ محمد کا باپ جمال الدرہ پینتالیس منٹ تک اپنے بچے کو اپنی کمر کے پیچھے چھپائے اسرائیلی فوجیوں سے التجا کرتا رہا کہ وہ فائرنگ بند کر دیں۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ محمد توچار گولیاں کھا کے اس دنیا سے چلا گیا لیکن اس کے باپ کی اپنے بیٹے کو بچانے کی کوششیں ان سب لوگوں کے ذہنوں میں تمام عمر رہیں گی جنہوں نے اس کربناک منظر کو ٹی وی پر دیکھا یا اخباروں میں پڑھا۔
ڈونکاسٹر اور غزہ کے باپ میں کتنا فرق ہے!
تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو
ان کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے
تبصرےتبصرہ کریں
صديوں بعد غزا کا باپ بھی لندن، امريکی باپ کی طرح بن جائيگا۔
جمال الدرہ باپ تھا۔ جیمز ہاؤسن باپ نہيں تھا۔
دو باپ، دو کہانیاں۔۔۔ ديکھا جائے دونوں واقعات کے پچھے ايک مہذب قوم نظر آۓ گی۔
آپکے اس بلاگ نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ ميں نے بھی اپنے بيٹوں کی زندگی بچانے کی کوشش کی مگر اس کوشش ميں مجھ سے انکا معاشی قتل ہوگيا۔
ويسے تو پاکستان ميں تعليمی اداروں ميں غنڈہ گردی کی کہانياں تو بہت پرانی ہيں اور ہمارے زمانے ميں بھی کچہ ’جيدار‘ طلباء اس جرم کے مرتکب ہو جاتے تھے ليکن معاملات اور حالات ناقابل برداشت نہيں تھے۔
پھر بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے معيار نے ترقی کی اور چاقو چھريوں اور خنجروں کی جگہ پستول نے لے لي۔ 1986 کے بعد کراچی کے حالات نے مجھے اتنا خوفزدہ کرديا کہ ميں اپنے بچوں کو گھر سے باہر چند لمحوں کے لیے بھی نہيں چھوڑتا تھا۔ يہانتک کہ مجھے ميرا ماضي يہ کہہ کر ياد دلايا جاتا تھا کہ کراچی کا وہ کونسا ميدان ہے جہاں ميں نے کرکٹ نہيں کھيلی ہے اور کراچی کی تاريخ کا وہ کونسا ٹيست ميچ ہے جو ميں نے نيشنل اسٹيڈيم ميں جا کر پانچوں دن نہ ديکھا ہو اور روکنا تو درکنار ميرے والد تو ميری ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
سکول ميں مجھے دوسری پوزيشن حاصل کرنے کے باوجود بہترين طالب علم کا انعام اس ليے ديا گيا کہ ميں تعليم کے ساتھ ساتھ کھيلوں ميں بھی بھر پور حصہ ليتا تھا مگر میں اپنے بچوں کو گھر سے باہر کھيلنے کی اجازت نہيں ديتا۔
پھر نوے کی دھائی آگئی اور ميرے بچوں کی عمر کالج جانے کی ہوگئی مگر اس ڈر سے کے کہيں يہ بچے تنظيم ميں شامل ہونے کي کوشش ميں ہتھيار ہاتھ ميں نہ لے ليں اور ميں اپنے بچوں سے ہی ہاتھ نہ دھو بيٹھوں، ميں نے اپنی نرينہ اولاد کو اعلی تعليم نہيں دلوائي اور انہيں کالج ہی نہيں جانے ديا۔
جب انہوں نے عملي زندگي ميں قدم رکھا تو ميرا کاروبار زوال پزير ہو گيا۔ مجبوراً بيٹوں کو نوکريوں کی تلاش ميں نکلنا پڑا اور اچھی نوکری کا حصول ان کے لیے مشکل ہوگيا۔
ميرے اس جرم پر مجھے کسی عدالت سے سزا تو نہيں ہوسکتی مگر ميرے اپنے جب مجھے اس فعل پر جب برا کہتے ہيں تو ميرے دل پر ايسے خنجر چلتے ہيں کہ اسکا اثر انتہائی گہرائی کے ساتھ ميں خود تو محسوس کرتا ہوں ليکن نہ تو اس زخم پر مرہم رکھا جاسکتا ہوں اور نہ ہی اسکا کرب کوئی اور محسوس کر سکتا ہے۔
عارف شميم صاحب، خدا رحم کرے ، يہ تو وہ ہے جو ہم جان سکيں ہيں۔ خدا جانےکيا کچھ پس پردہ ہي رہ جاتا ہے۔ کراچی سے ’ايک باپ‘ کا خوف قابل فہم ہے۔ ليکن کالج نہ سہي بچوں کو گھر پر ہي پڑھا ديا ہوتا۔ خدا ان کےحالات سازگار کرے اور بچوں کو عزم و ہمت عطا فرمائے۔ حصول علم کے لیے عمر کی قيد نہيں۔ پرائيويٹ امتحان دے سکتے ہيں۔ ہمت کريں تو خدا مدد کرے گا۔ انشااللہ!
ايمی کے قاتل کو تو سزا مل گئی مگر محمد کے قاتل کو کب سزا ملے گی۔
ڈیئر ریڈرز: میری نئی نئی شادی ہوئی ہے اور میں سات ماہ میں باپ بننے والا ہوں۔ میں اس طرح کی کہانیاں پڑھ کر بہت پریشان ہو جاتا ہوں۔ خدا کے لیے ایسا نہ کیا کریں۔
کیا کہا جائے پہلے اتنا ڈپریشن ہے اور اوپر سے ایسے واقعات پاگل کر دینے کو کافی ہیں۔
ہے جرم صعيفی کی سزا مرگ مفاجات۔
اُف عارف صاحب بہت عرصے بعد محمد اور اسکے باپ کی تصويريں ذہن سے محو ہوئی تھی کہ آپ نے پھر ميرے زخم تازہ کر دئيے۔ اولاد والے ہی سمجھ سکتے ہيں کہ اپنی اولاد کو بچانے کے ليے اپنی جان پيش کرتے ہوئے بھی کوئی خوف نہيں آتا۔ ’ايک باپ‘ نے جو کچھ کيا چاہے وہ معاشرتی لحاظ سے ان کے بچوں کے مستقبل کے ليے ٹھيک نہيں تھا مگر بچوں کو اپنے باپ کی شديد محبت تب سمجھ ميں آئے گی جب وہ خود باپ بن جائيں گے۔
ميرے خيال ميں جمال الدرہ اور جیمز ہاؤسن دونوں ہي باپ ہيں ليکن باپ ہونے کا انداز مختلف ہے جمال الدرہ کاانداز ايک رحم دل ومحبت بھرے باپ جيسا ہے اور جیمزہاؤسن کا اندازايک بے رحم اور مجرم باپ جيسا ہے۔
کيونکہ جمال الدرہ اپنے بچے کو مجرم سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے اورجیمز ہاؤسن خود جرم کر کے مجرم بن جاتا ہے۔
دوسرافرق يہ ہے کہ جیمزہاؤسن کو اس کے جرم کی سزا اسلیے مل چکی ہے کہ ان کے پوچھنے والے تھے اور جمال الدرہ کے بچے کے مجرم کو نہ سزاہوئی ہے اور نہ ہوگی وہ اسلئے کہ اس کا کوئی پوچھنے والا ہے ہی نہيں۔
رحم دل اور مہذب کونسا معاشرہ؟
’انسان اپنے آپ ميں مجبور ہے بہت
کوئي نہيں ہے بے وفا، افسوس مت کرو
يہ ديکھو پھر سے آگئيں پھولوں پہ تتلياں
اک روز وہ بھي آۓ گا، افسوس مت کرو‘
باپ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اور جن کے پاس باپ نہيں ہوتے ان کے لاتعداد باپ پيدا ہوجاتے ہيں۔ ميرے ابا تو صرف بتيس سال کی ہی عمر ميں چلتے پھرتے ہي اللہ کو پيارے ہوگۓتھے جب ميں پانچ سال کی اور سب سے چھوٹی بہن چھ ماہ کی تھی ليکن بيس سال بعد بھی ابا کی طلب ميں اضافہ ہی رہا ہے۔ برطانيہ ميں تو باپ نے جيسے ڈپريشن کا علاج اپنی ہی اولاد کے قتل ميں ڈھونڈ ليا ہے۔ جمال الدرہ تھا باپ اصل ميں اور ايک باپ آپ نے تو لڑکيوں سے بھی زيادہ پابندی اپنے بيٹوں پر لگا دی۔ پڑھائی پر بھی حيرت ہے ظلم کيا ہے آپ نے اپنی فرمانبردار اولاد پر۔
ايک تو بلاگ اور پھر ايک باپ کا تبصرہ پڑھ کر پہلے ہی پريشان ہو گئی تھی اوپر سے ثناء کے تبصرے نے پريشان تو کيا مگر پھر يہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ باپ سے محرومی کے باوجود ثناء ماشاءاللہ ٹيلينٹڈ اور بولڈ دکھائی ديتی ہے۔
ہم تو سمجھتے تھے صرف ہمارے ہاں درندگی پائی جاتی ہے مگر وہاں بھی وہ ہی مسئلہ۔ میرے خیال سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہمیں روحانیت کی طرف واپس آنا چاہیئے۔ مگر کیا کیا جائے مذہب کے نام پر انسانیت شرما رہی ہے۔
محترمہ اسماء صاحبہ کے تبصرے سے متاثر ہو کر ايک بہن کو خراج عقيدت ...
ثناء باجی شير ہے
باقی ہير پھير ہے