| بلاگز | اگلا بلاگ >>

! ریگان، کلیٹن اور نکسان

اصناف:

وسعت اللہ خان | 2008-10-30 ،11:38

کہتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔ لیکن فی زمانہ یہ بات آنکھ بند کرکے کہی جاسکتی ہے کہ مقابلہ بری بلا ہے۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ گدشتہ ہفتے سے پاکستان کے ٹی وی چینلز پر یہ مقابلہ شروع ہوگیا ہے کہ امریکی انتخابات کی کونسا چینل کتنی کوریج کرسکتا ہے۔

یہاں تک تو بات ٹھیک تھی ۔دو چینلز نے اپنے نمائندے امریکہ کی کچھ اہم ریاستوں میں روانہ کردئیے۔ یہاں تک بھی بات ٹھیک تھی۔ لیکن امریکی انتخابات کے انداز و روایات سے واقفیت کا یہ عالم ہے کہ سٹوڈیو میں بیٹھا اینکر پرسن ریاست ورجینیا میں کسی جگہ کھڑے رپورٹر سے پوچھ رہا ہے کہ یہاں اوبامہ کے کتنے پوسٹر لگے ہوئے ہیں۔ اور جان مکین نے کتنے جلسے کئے ہیں؟ مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں کھڑے رپورٹر سے پوچھا جارھا ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے بارے میں مقامی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اسکی تفصیل کیا ہے؟ اور کیا کہیں کارکنان میں کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی؟ اس نوعیت کے سوالات اس پاکستانی ناظر کے لئے کئے جا رہے ہیں جو جڑانوالہ میں بیٹھا یہ کوریج دیکھ رھا ہے۔

بجائے اسکے کہ امریکی پالیسی سازوں، ارکانِ کانگریس، پارٹی عہدیداروں یا دانشوروں سے کوئی بات کی جائے۔ دو مقامی پاکستانی کونسلرز یا کسی کارنر شاپ کے مالک کو پکڑ کر یہ مباحثہ ہورھا ہے کہ اوبامہ جیت گیا تو عراق سے فوجیں نکالےگا نہیں؟

جبکہ اینکر پرسنز نے اپنے کراچی، لاہور یا اسلام آباد کے سٹوڈیوز میں امریکی سیاست کے جن دیسی ماہرین کو بٹھایا ہوا ہے ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو کسی دن ماہرینِ اقتصادیات کے طور پر متعارف کروا دئیے جاتے ہیں۔ کبھی انہیں قبائیلی علاقوں کے ماہر کا ہیٹ پہنا دیا جاتا ہے اور کبھی جنوبی ایشیا کے امور کے ایکسپرٹ کا کردار ادا کروا دیا جاتا ہے۔

جو چینل اپنے رپورٹر امریکہ بھیجنا افورڈ نہیں کرسکتے وہ سٹوڈیو میں ہی سلائیڈز کی مدد سے امریکہ امریکہ کھیل رہے ہیں۔ ایک چینل پر حضوصی الیکشن ٹرانسمیشن وہ صاحب کر رہے ہیں جو اب تک سپورٹس پروگرام کے سبب مشہور تھے۔

میں زاتی طور پر انہی صاحب کی ٹرانسمیشن دیکھتا ہوں۔ کیونکہ انہی کی زبانی مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ریگان کی اقتصادی پالیسی کیا تھی۔ کلیٹن کا مواخذہ اس لئے ہوا تھا کہ انکے مونیکا سے جنسی تعلقات تھے۔ اور جان کیناڈی اس لیے قتل ہوئے تھے کیونکہ وہ یہودیوں سے امریکی معیشت آزاد کرانا چاہتے تھے۔ اور نکسان کا بھی یہی قصور تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

کچھ چینلز پر اس قدر جوش و خروش سے امریکی انتخابات کور کیے جارہے ہیں کہ بلوچستان کے دو سو سے زائد زلزلہ ہلاک شدگان اور ہزاروں بے گھروں کی خبریں محض چینل پٹی یا بیپر پر گذارہ کررہی ہیں۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 12:44 2008-10-30 ,Zaheer Chughtai :

    وسعت اللہ صاحب آپ ابھی تک پاکستانی چينلز ديکھ رہے ہيں۔ يہ باتيں تو مجھے ايک سال پہلے ہی سمجھ آ گئيں تھيں اور بار بار سب چينلز پر ايک جيسی شکليں ديکھ کر اور عجيب و غريب تبصرے سن سن کر ايسا جی اکتايا کہ ٹی وی سے ہی نفرت ہو گئی اور آج کل پرانی انگريزی فلميں ڈاون لوڈ کرکے ديکھتا ہوں۔ ميرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ بھی يہ چينلز چھوڑ کر يہی مشغلہ اختيار کر ليں۔ يکسانيت سے تنگ آ گئے تو انڈين يا پشتو فلميں ديکھ ليجيے گا۔ آزمائش شرط ہے۔

  • 2. 12:58 2008-10-30 ,اسماء پيرس فرانس :

    ہاں ہاں ہر کسی کو اپنا ہی خبريں پيش کرنے کا انداز پرفيکٹ لگتا ہے کبھی اپنے بی بی سی پر بھی ايک عدد تنقيدی نظر ڈاليں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا زلزلے سے تو جو دو ڈھائی سو مرے سو مرے امريکی صدر سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں کی تعداد ميں ہوتی ہے اسليے عددی برتری کی بنياد پر چينل والے زلزلہ ذدگان کو چھوڑ کر امريکی اليکشن کو اہميت دے رہے ہيں

  • 3. 17:22 2008-10-30 ,محمد سرفراز پيرس :

    وسعت اللہ صاحب، ہمارے چينلز ہم جيسے ہی ہونگے نا ہم بھينس اور وہ بين بجانے والے ان چينلز نے تو عوام کو ہسٹريائی بنا ديا ہے۔

  • 4. 12:31 2008-10-31 ,عمران ملک :

    يہ چينلز ہمين ذہنی مريض بنا کر ہی چھوڑيں گے

  • 5. 13:05 2008-10-31 ,فيضان توصيف صديقی :

    ہمارے چينلز کی خبروں کا معيار آپ کے تبصرے سے لگايا جاسکتا ہے۔ جب سے يہ پچاس چينل کھلے ہيں پاکستان کا بيڑا غرق ہوگيا ہے۔ يہاں چينل پر پٹی چلی اور پورے ملک کی سڑکيں سنسان۔ بکرے کو ہاتھی بنا کر پيش کرتے ہيں۔ اندوہناک سانحے کے بعد بھی فخر سے کہتے ہيں کہ سب سے پہلے خبر ہم نے سنائی۔ امريکہ کے انتخابات پر ہمارے ٹي وی اينکر مرغے لڑا رہے ہيں اور ہمارے لوگ کرکٹ اور ڈرامے چھوڑ کر بڑے مزے سے کہہ رہے ہوتے ہيں کہ حامد مير کا پروگرام ديکھا، بارک اوبامہ پر، کيا منہ ماری ہوئی۔۔۔!

  • 6. 15:13 2008-10-31 ,شمائلہ احتشام :

    وسعت اللہ خان صاحب، پاکستانی ٹی وی چينلز کی جو حقيقی تصوير آپ نے پيش کی ہے اس ميں اگر ڈرامہ اور مزاح کے پروگرامز کو بھی شامل کر ليں تو ان چينلز کی پيشہ ورانہ مہارت کا پول کھل جائے گا۔ اپنا عليحدہ معيار قائم کرنے کي بجائے پاکستان مارکہ ہندوستانی ڈراموں نے پاکستانی ڈرامہ آرٹ کا حليہ بگاڑ ديا ہے۔ بات بات پر پس منظر ميں جاري ہولناک آوازوں کے ساتھ کردار کی ’تھری ڈی‘ عکاسي، نيلے پيلے رنگوں سے مزين در و ديوار، بل گيٹس کو چکرا دينے والے اميروں کے کاروباری سودے، پاکستانی نہيں بلکہ مريخ کے کسی معاشرے کی ہی عکاسی کر سکتے ہيں۔ مزاح کے نام پر شخصيات کی توہين اور اسلام کے نام پر مذہبی ماڈل بوائے کی جلوہ افروزياں، سياسی و سماجي ماہرين کے غير مدلل تبصرے اور سب سے بڑھ کر لائيو کوريج کے نام پر خونی مناظر۔۔۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ايک بھی چينل پر تحقيقی يا تعليمی پروگرام نہيں ملے گا۔ زی يا سٹار کی بجائے اگر بی بی سی ورلڈ، اينيمل پلانٹ، ڈسکوری يا نيشنل جغرافِک کے کسی ايک پروگرام کا فارميٹ کاپی کر ليتے تو بات بن سکتی تھی۔۔۔

  • 7. 16:07 2008-10-31 ,Dr Alfred Charles :

    وسعت بھائي! ہم اس اليکشن سے کيسے لاتعلق رہ سکتے ہيں؟ آخر ہم يو ايس اے کی ترپنويں رياست ميں ايويں ہی تو نہيں شمار ہوتے ناں!!

  • 8. 18:38 2008-10-31 ,sana :

    ہر خبر پر نظر رکھنے والے وسعت انکل ذرا اپنے بی بی سی اردو پر بھی اپنی چاروں نظريں دوڑائيں اينڈ انڈرسٹينڈ دا ڈفرنس

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔