| بلاگز | اگلا بلاگ >>

ہم جو سننا چاہتے ہیں

اصناف:

عارف شمیم | 2008-11-19 ،16:15

یہ کیوں ہے کہ ہم وہ نہیں سننا، سمجھنا یا دیکھنا چاہتے جو ہو رہا ہے بلکہ جو نہیں ہو رہا اس کی خواہش ہے۔ یا یوں کہیئے کہ ہم کیوں سچ سننے یا دیکھنے سے گریزاں ہیں۔

osama_dress203.jpg


کئی لوگوں سے بات کرتے ہوئے اکثر احساس ہوتا ہے کہ شاید کہیں کوئی سڑک غلط موڑ لے چکی ہے۔ کہیں کچھ کھو گیا ہے اور مسافر کو اس کا احساس نہیں اور اس کا اسے صرف اس وقت پتا چلے گا جب وہ گھر پہنچے گا، لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

اکثر لوگ جو باتیں سننا چاہتے ہیں وہ تقریباً کچھ اس طرح ہیں۔

'اسامہ بن لادن امریکہ کا ایجنٹ ہے اور وہ امریکہ میں ہی چھپا ہوا ہے۔ یا پھر اسامہ بن لادن سرے سے ہے ہی نہیں، یہ سب دنیا میں اتھل پتھل امریکیوں نے مسلمانوں کو کمزور اور تباہ کرنے کے لیے کی ہے۔'

'ٹریڈ ٹاورز کے ساتھ جہاز ٹکرائے ہیں نہیں تھے۔ وہ دیکھیئے جہاز مڑ رہے ہیں۔ اتنی دیر اڑتے جہاز بھلا کسی کو کیو نظر نہیں آئے۔'

'کاش مسلمان اکٹھے ہو جائیں اور متحد ہو کر 'دشمنوں' کا مقابلہ کریں۔'

'اوباما کو جتانا ایک سازش ہے اور جلد ہی اس کے اثرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔'

'اوباما مسلمانوں کے ہمدرد ہیں اور ان کے لیے بہت کچھ کریں گے۔'

'طالبان کبھی کسی بے قصور کو نہیں مارتے اور ان کے ہاتھ آنے والے ہمیشہ غلط ہی ہوتے ہیں۔'

'میریئٹ ہوٹل پر سرے سے حملہ ہوا ہی نہیں۔ اتنا بڑا ٹرک اس جگہ پر آ کیسے گیا اور مشیرِ داخلہ نے ٹرک کے دھماکے کی ویڈیو کیسے حاصل کی جبکہ ہوٹل ہی جل گیا تھا۔'

'بلوچستان میں لڑکیوں کو زندہ نہیں درگور کیا۔ جب انہیں زمین میں دفنایا تو ان کی سانسیں رک چکی تھیں۔' وغیرہ وغیرہ۔

لوگ کہتے ہیں مگر ایسے کبھی ہوتا تو نہیں۔۔۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 18:08 2008-11-19 ,فدافدا :

    بس سمجھيۓگا کہ پاکستان ابھی معرض وجود ميں آيا ہے نہيں تو ٹوٹےگا کيونکر؟ سب لکھت پڑھت کی الٹی پٹی ماس ميڈيا نے قوم کو پڑھائی ہے اور اب وہی اسکا ہم خرما ہم ثواب لوٹ رہے ہيں۔ آپکی بات درست کہ قوم کو ہاتھی کے کان ميں سلا ديا گيا جب جاگے گی تو قيامت گزر چکی ہوگی۔

  • 2. 18:25 2008-11-19 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم عارف شميم صاحب ،
    اندھے دن کو گونگی رات سے کيا نسبت ہے
    گھائل چاند کی گہنائی کرنوں کاسايہ
    اس دھرتی کو کيوں بھاتا ہے
    سورج کی سرشارشعاعيں
    اس دھرتی کو کيوں ڈستی ہيں
    ہر کل کيوں اس آج کے پيکر ميں ڈھلتا ہے
    اور انسان کو آج اور کل سے کيا ملتا ہے
    کيوں ہم فانی اور امر ہيں
    پل لمحے دن سال اور صدياں
    يہ سب باتيں بہکی سی ہيں
    ليکن اپنی زيست کا حاصل اور حقيقت صرف يہی ہيں۔۔۔۔

    خير انديش
    سيد رضا

  • 3. 20:05 2008-11-19 ,نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان :

    محترم عارف شميم صاحب، آداب!
    ميں کيسے مان لوں اسامہ بن لادن بحثيت امريکہ دشمن ’دہشتگرد‘ ہے کہ يہ اپنی تصوير سے ہی بذاتِ خود دہشتگردی کا ستايا ہوا دکھائی ديتا ہے، يہ کيسے ممکن ہے کہ آٹھ سال کي جنگ کے باوجود دنيا کی سپر پاور طاقت سے ايک اسامہ کا ابھی تک کھوج نہيں لگايا جاسکا حالانکہ يہی سپر پاور چاند اور مريخ کا کھوج لگا چکی ہے؟ کسطرح کہا جاسکتا ہے کہ اوبامہ مسلمانوں سے ہمدردی کريں گے کہ انکی تاريخ ميں مکہ پر ’حملہ‘ جيسے بيانات ابھی کل کی بات ہيں اور اگر وہ مسلمانوں سے ہمدردی کريں گے تو امريکہ کا دنيا پر حکومت کرنے کے ’نيو ورلڈ آرڈر‘ يا ’گلوبلائزيشن‘ کا خواب کسطرح پورا ہوگا؟ حاصل بحث يہ ہے کہ چونکہ ہر انسان ايک دوسرے سے پيدائش سے ہی ايک منفرد فطرت رکھتا ہے، ہر انسان کا ذاتي ماحول واردگرد، اسکی ثقافت، مذہب، تعليم، پسند ناپسند، تربيت، کمپني، سياسی ومعاشی نظريات، سوچنے، غوروفکر کرنے اور غوطے لگانے کا انداز وطريقہ کار دوسرے انسانوں سے مختلف نوعيت کا ہوتا ہے لہذا انکے ليۓ باہم ايک نقطہ پر متفق ہونا ممکن نہيں۔ کسی ايک نقطہ پر متفق ہونے کيلیے ہميں ’عقليت پسندي‘ کو قبول کرنا ہوگا اور بذريعہ دلائل ہر ايک کو اپنے خيال کو ثابت کرنا ہوگا حتی کہ کسی کے پاس دلائل ختم ہوجائيں گے۔
    ’سب کمالات ہيں تخيل کے
    ورنہ کچھ بھي نہيں حقيقت ميں‘

    خير انديش،
    نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان

  • 4. 21:17 2008-11-19 ,Zaheer Chughtai :

    چليں آپ ہی بتا ديں کہ بھلا زمين و آسمان ميں کہيں نظر نہ آنے والی القاعدہ اور اس کا ليڈر امريکہ جيسی سپر پاور کے ليے کس طرح خطرہ ہو گئے؟ ساتھ ہی يہ بھی بتا ديں کہ وسيع پيمانے پر تباہی پھيلانے والے ہتھياروں کا کيا ہوا؟ وہ ملے؟ وہی جنہيں تباہ کرنے کے ليے عراق پر حملہ کيا گيا تھا۔انتہا پسندی بری بات ليکن جھوٹ بول کر، دنيا کو گمراہ کر کے دوسرے ملکوں کی اينٹ سے اينٹ بجا دينا بھی تو اچھی بات نہيں۔

    نيک محمد تو امريکہ کو نظر آ جاتا ہے، دوسرے کئی غير اہم غير ملکی دہشتگرد بھی امريکہ کو نظر آ جاتے اور منٹوں ميں رزق خاک بھی ہو جاتے ہيں ليکن نہيں سراغ ملتا تو اسامہ بن لادن اور بيت اللہ محسود جيسے لوگوں کا، جن کا سراغ لگانا ان کي اہميت اور ان کے متعلق دستياب وافر معلومات کے پيش نظر نسبتا آسان ہونا چاہيے تھا۔ چليں اگلے بلاگ ميں اس منطق کی تو وضاحت کيجيے گا کہ جتنا بڑا اور اہم ٹارگٹ ہے، اتنا ہی وہ امريکہ سے اوجھل کيوں ہے۔ اور طالبان پر الزامات لگانا تو آسان ہے، شايد وہی کرتے بھی ہوں گے۔ ليکن يہ کيا کم نصيبی ہے کہ کسی ايک بھی کيس کا فيصلہ کسی عدالت سے نہيں ہوا۔ آخر کوئی تو پکڑا گيا ہو گا۔ کچھ تو معلومات ہوں گي۔ آخر وہ عام کيوں نہيں کی جاتيں؟ تاکہ ہميں بھی سمجھ آئے کہ انتہا پسندی کی بيخ کنی ہونی ہی چاہيے ليکن کسی اصول کے تحت نہ کہ امريکہ کے احکامات پر۔ مجھے تو کوئی گريٹ گيم معلوم ہوتی ہے جس کا ايک کھلاڑی تو امريکہ ہے اور باقيوں کا وقت ہی کچھ بتائے گا۔ فی الحال اسامہ سے ہی کام چلا ليتے ہيں۔

  • 5. 23:16 2008-11-19 ,عباس خان :

    کاش مسلمان کچھ بھی کريں، دنيا ميں خود کو نالائق اور بے وقوف تو مشہور نہ کريں۔ ان پڑھوں کو تو چھوڑيں، اچھے خاصے پڑھے لکھوں کی مت ماری گئی ہے، ايسی ايسی چھوڑيں گے کہ حيرت ہوتی ہے۔

  • 6. 23:46 2008-11-19 ,آزاد :

    يہ جو سولہ کروڑ ہيں
    جہل کا نچوڑ ہيں

  • 7. 23:59 2008-11-19 ,وقار :

    دل کے خوش رکھنے کو غالب يہ خيال اچھا ہے۔

  • 8. 2:28 2008-11-20 ,حلیمہ یار خان :

    اور یہ کہ بی بی سی برطانوی حکومت کےلیے کام کرتی ہے، امریکہ برطانیہ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ پاکستان خفیہ ادارے طالبان کی درپردہ حمایت کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ عارف صاحب میرے خیال میں ان کچھ چیزوں میں واقعی حقیقت ہوتی ہے لیکن چند چیزیں شاید بکواس بھی۔

  • 9. 4:27 2008-11-20 ,يوسف :

    اور نہيں تو کيا بينظير بھی اپنوں کے ہاتھوں۔۔۔ يہ قوم ہر واقعے ميں سازش تلاش کرتی ہے۔

  • 10. 4:34 2008-11-20 ,ملک کاشف لندن :

    سچی بات تو يہ ھے کہ ھم لوگ مسلمان ھيں مگر ھمارے دل اب سچی بات کی پيروی نہيں کر سکتے۔ ھمارے دل بند ھو چکے ھيں۔ ھمارا يقين اور ايمان کمزور ھوتا جا رھا ھے اور اس ميں کسی اور کا نہيں ھمارا اپنا قصور ھے۔ کيونکہ ھم مسلمانوں ميں خوداری اور ايمانداری کافقدان ھے۔ ھم ہر سنی سنائی باتوں پر يقين کر ليتے ھيں بغير تصديق کئے۔ ھم سچی بات اس لیے نہيں سن سکتے کيونکہ ھم سچا ئی سننے سے اور سچائی کی پيروی کرنے سے ڈرتے ھيں۔ جھوٹ کا سہارا لے کر بچ نکلنے کی کوشش کرتے ھيں۔

  • 11. 4:51 2008-11-20 ,رضوان :

    جو سچ ہے ہم وہی سننا چاھتے ہيں اور سچ آپ نے خود ہی بيان کر ديا۔

  • 12. 5:29 2008-11-20 ,سيد فرحت علی :

    جب تک ہم مولويوں اور ڈاکو نما سياست دانوں کے چنگل سے نہيں نکلتے، اپنے آپ کو بحيثيت پاکستانی تسليم نہيں کرتے ہم مسائل سے دوچار رہيں گے۔ کيونکہ ملاٌ اور يہ سياست دان نما ڈاکو ايک دوسرے کی بيساکھياں ہيں
    اميروں کی حمايت ميں ديا تم نے سدا فتويٰ
    نہيں اے ديں فروشو! ہم پہ يہ کوئی نيا فتويٰ
    رضاۓ ايزدی تم نے کہا دين الہٰی کو
    نہيں مٹنے ديا تم نے نظام کجکلاہی کو
    ديا تم نے سہارہ ہر قدم پر زار شاہی کو
    کہا تم نے کہ جائز ہے فرنگی کی وفاداری
    بنايا تم نے ہر اک عہد ميں مذہب کو سرکاری
    لیے پرمٹ دیے فتوے، رکھی ايوب سے ياری
    دکاں کھولو نئی جاؤ پرانا ہو چکا فتويٰ
    اميروں کی حمايت ميں ديا تم نے سدا فتويٰ

    اسلام ہمارا مذہب ہے ليکن ہم کو پاکستانی قوم ہونے پر فخر ہونا چاہۓ ۔ عجيب مذاق ہے کہ عرب اپنی عرب قوميت پر فخر کرتا ہے ہم کو مسکين کہتا ہے اور ہم اس کو اپنا بھائی سمجھتے اور کہتے ہيں۔ رہا سوال اسامہ اور اس کے حمايتيوں کا يہ لوگ نہ صرف دشمنان اسلام بلکہ دشمن پاکستان بھی ہيں۔
    خطرہ ہے زرداروں کو
    خطرے ميں اسلام نہيں

  • 13. 6:25 2008-11-20 ,طارق آياز :

    سب کچھ سمجھ اور ديکھ رہے ہيں۔ بس کچھ کرنے سے قاصر ہيں۔جسکی وجہ ہماری حکومت کی پاليسی ہے جسکی خود حکومت کو بھی سمجھ نہيں۔ اگر ہم کچھ بات بھی کريں تو دہشتگرد کہلايں گے اور چپ رہنے پر کسی گولے کا اپنے خاندان کے ساتھ انتظار کر رہے ہيں جس پر مہر لگا ہوگا کہ دھشتگرد + غير ملکی مارے گۓ۔

    ہم اس سے انکار کبھی نہيں کرينگے يہاں ايک مسلہٌ ضرور ہے۔ جوکہ افغان جنگ سے شروع ہوا اور پاکستانی عوام کی بے حسی تک آپہنچا۔ اور انجام کچھ عرصے بعد ہميں نظر آئيگا۔کاش ہم اب بھی سمجھ جائيں۔ کہ کون کہاں غلطی کر رہا ہے۔

  • 14. 8:44 2008-11-20 ,نديم اصغر :

    محترم عارف شميم صاحب! سلام مسنون ـ
    آپ نے جِس پہلُو کی طرف اشارہ فرمايا ہے اسے اپنی اپنی wishful thinking کہہ ليں، خام خيالی يا پھر اپنی بے بسی اور محرُوميوں کا ماتم!
    خير، چھوڑئيے! مرزا اسداللہ خان غالب کے چند اشعار ملاحظہ کيجئيے :
    ’ہزاروں خواہشيں ايسي، کہ ہر خواہش پہ دم نِکلے
    بہت نِکلے مرے ارمان، ليکن پھر بھی کم نِکلے!
    يا پھر يہ کہ:
    نہ تھا کُچھ تو خُدا تھا، کُچھ نہ ہوتا تو خُدا ہوتا
    ڈبويا مُجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا ميں تو کيا ہوتا
    ہُوئی مُدت کہ غالب مر گيا، پر ياد آتا ہے
    وہ ہر اِک بات پر کہنا کہ يُوں ہوتا تو کيا ہوتا؟`
    خير انديش ۔ نديم اصغر

  • 15. 8:59 2008-11-20 ,sana :

    لوگوں نے جو بھی کہا ہے وہی ميرا بھی خيال ہے۔ ہم مسلمان تو فرقہ بنديوں ميں جکڑے ہوئے ہيں اور اتفاق نام کی کوئی چيز ہمارے پاس نہيں۔ يہ متحد ہوں گے تب ہی اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ عارف صاحب آپ کو لوگوں کی رائے تو دو نمبر نظر آتی ہے ليکن آپ نے اپنی رائے کا ذکر ہی نہيں کيا۔ ہے ناں يہ بات لمحہ فکريہ؟

  • 16. 11:50 2008-11-20 ,انجان :

    متحدہ قومی مومنٹ سب کا حل ہے

  • 17. 20:22 2008-11-20 ,shahidaakram :

    عارِف شميم بھائی آپ کو پتہ ہے نا ہيرو کبھی مرا نہيں کرتے سو اُسامہ کو بھی ايسے ہی زِندہ رکّھا جاۓ گا جب جب ضرُورت ہوگی اِستِعمال کر ليا جاۓ گا۔ حالانکہ ميرا بھی يہی خيال ہے کہ اُسامہ کا اب کوئی وجُود ہی نہيں ہے ليکِن اِس سے فرق بھی کيا پڑنے والا ہے۔ اصل بات تو يہ ہے کہ ہر کوئی ويسا ہی سچ سُننا چاہتا ہے جو دِل کو اچھا لگے۔ ليکِن اندر کہيں حقيقت کا عِلم تو ہوتا ہی ہے کہ زِندہ دفن کی گئی تھيں خواتين کيا ہم آنکھيں نہيں رکھتے، ميريئٹ حملے اور باقی سب حملے حقيقت تھے ليکِن پھر بھی اگر ہم اپني مسکين سی انا کو ٹُھڈے شُڈے مار کر اور يہ سوچ کر جيتے ہيں کہ جو ہم چاہتے ہيں زِندگی ہميں ويسی ہی رنگين عينک مُہيّا کر دے گی تو يہ ہمارا قصُور ہے کہ
    لوگ کہتے ہيں مگر ايسے کبھی ہوتا تو نہيں

ý iD

ý navigation

ý © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔